[RIGHT]
درختوں کے جھنڈ میں گھرے خواب نگر سے نکلے تو اس وسیع و عریض سرسبز میدان نے ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔
میدان میں جا بجا لگے ہوئے چیڑ کے درخت اس کی دلکشی کو مزید بڑھاتے تھے۔ ہم دبیز سبز قالین پر گھومتے
پھرتے تھے سبزہ زار کے درمیان سےبل کھاتے گزرتے نالے کے شفاف پانی میں اترتے تھے۔ نظریں تھیں کہ
چاروں طرف گھومتی تھیں جس منظر کو تکتی تھیں اس کی خوبصورتی میں جمتی اور حسن میں کھوتی تھیں۔
آسمان پر نظر ڈالتے تو روئی کے گالوں اورسفید دھند کی طرح چھائے بادل دور افق تک پھیلتے جاتے تھے۔ جس
طرح کسی صاف دن سمندر کنارے نیلگوں آسمان دور نیلے سمندرمیں گھل مل جاتا ہے اسی طرح دور افق میں
دنیا و مافیھا سے بے نیاز برف پوش پوش چوٹیاں اور یہ سفید بادل ایک دوجے میں گم ہوتے تھے۔ بادلوں کی دھند
سے نکل کر نظر برف پوش چوٹیوں پر ٹکتی تھی ،چٹانوں کی برف سے پھسلتی تو سرسبز پہاڑوں پر قطار در
قطار لگے چیڑ کے درختوں میں اٹکتی، بمشکل وہاں سے ہٹتی تو سبز میدان کے بیچ بہتے نالے کے شفاف پانی
کی جھلملاہٹ میں پھنستی ۔ آج اتوارتھا ،چھٹی کے دن کی وجہ سے استور اور اس کے مضافات کے کچھ مکین
بھی تفریح کی غرض سے یہاں آئے ہوئے تھے۔ دور میدان کے ایک سرے پر کچھ نوجوان کرکٹ کھیلنے میں
مصروف تھے۔ نظر ان پر سے گھومتی ہوئی دائیں طرف بڑھی تو ہم سے خاصے فاصلے پر واقع میدان میں بنے
اکلوتے ہوٹل کی سبز چھت اور سفید عمارت خوبصورت کھلونے کے گھرکی طرح دکھائی دی۔ بادلوں کا رنگ
رفتہ رفتہ سفید کے بجائے سرمئی ہوتا جاتا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار کبھی تیز ہوتی اور کبھی تھمتی۔ جس برفیلی وادی
میں وقت گزار کر ہم آئے تھے وہاں کی سرد ہوا کے جھونکے ہمیں تلاش کرتے اس میدان میں آ پہنچے تھے۔
جوں جوں آسمان پر چھائے بادلوں کا رنگ گہرا ہوتا تھا ،سرسبز وادی کو لپیٹ میں لیتی خنکی بھی بڑھتی تھی۔ ہم
نے اس حسین وادی میں گنگناتی خنک اور شفاف ہوا کو گہرے سانسوں کے ساتھ روح کی گہرائیوں تک اتارا
ہلکی ہلکی پھوار کے موتی جیسے قطروں کی ٹھنڈک اپنی رگ و پے میں سمیٹی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے
جیپ کی طرف بڑھ گئے۔
راما کے حسین سبزہ زار کی کچھ تصاویر ۔۔۔۔۔












[/RIGHT]