[RIGHT]
استور سے نکلتے وقت اندازہ نہ تھا کہ صرف دس بارہ کلومیٹر کی دوری پر واقع راما میں یخ بستہ ہوائوں کا راج ہو گا۔
جوگرز ،جرابوں اور جیکٹس کے ساتھ ساتھ سردی سے بچائو کے دیگر لوازمات بھی ہم گھر سے ساتھ لے کر چلے تھے
لیکن راما کی اس قدر برفیلی وادی اور اتنی شدت کی سردی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ابھی صرف سوا
گیارہ بجے تھے اور ہم استور کی طرف واپسی کے لئے مجبور ہوتے تھے۔ جھیل تک نہ پہنچ پانے اور راما کی حسین وادی
میں اتنا مختصر وقت گزارنے کی تشنگی ساتھ لئے ہم یہاں سے روانہ ہوئے۔ راما کے آسمان پر چھائے سرمئی بادلوں کا
رنگ مزید گہرا ہوتا جاتا تھا۔ میں اس سحر انگیز وادی کو الوداع کہنے کے ساتھ ساتھ اس سے عہد و پیماں بھی کرتا تھا کہ
جسم سے سانسوں کا رشتہ برقرار رہا اور اللہ کی مرضی شامل حال رہی تو دوبارہ تمہارے پاس آئوں گا ،ہوسکا تو
ایک شب بھی تمہارے ساتھ بتائوں گا اور اس موسم میں آئوں گا جب تمہاری آغوش میں چھپی جھیل برفوں کے
حصار سے نکل کر آزاد ہوگی ، بے نقاب ہوکر اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی ہوگی۔ واپسی کا سفر بلندیوں سے نشیب کی
طرف تھا۔ پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بل کھاتی، سبزہ زاروں میں گھومتی پھرتی سڑک استور کی طرف اترتی جاتی
تھی۔ بوندا باندی کا سلسلہ بھی چلتا اور تھمتا رہا۔ استور کے مضافات تک پہنچتے پہنچتے موسم بدلتا گیا۔ بادل دوبارہ
سفید رنگت اختیار کرتے جاتے تھے اور ان کے بیچ کہیں کہیں نیلا آسمان بھی جھلکتا تھا۔ بوندا باندی تھم چکی تھی۔
راستے میں ہم اس شفاف نالے کے پاس کچھ دیر کے لئے رکے جس کے ساتھ ہی ذرا بلندی پر ایک چھوٹی سی چکی
بنی ہوئی تھی۔ کچھ لوگ اپنی گندم پسوانے کے لئے چکی کے پاس موجود تھے۔ ہم بھی جیپ سے اتر کر چکی
تک گئے۔ چکی کے عقب میں درخت کے تنوں سے بنائی گئی نالیوں کی مدد سے اس تیزی سے اترتے پانی کو چکی کی
طرف لایا گیا تھا۔ پانی کے تیز بہائو سےچکی میں نصب پتھر کے بھاری پاٹ گھومتے تھے اور گندم کے
دانوں کو آٹے میں بدلتے تھے۔ چکی کی چھوٹی سی کوٹھری میں موجود ایک خاتون گندم کی پسائی کا یہ کام انجام دے رہی
تھیں۔ جیپ ڈرائیور نے بتایا کہ گندم پسوانے والے رقم کے بجائے اپنی گندم میں سے کچھ حصہ بطورمعاوضہ
چکی مالک کوادا کرتے ہیں۔ پانی کی قدرتی توانائی سے چلتی چکی کو دیکھ کر دل بے اختیار فبای آلاء ربکما تکذبان
پکار اٹھا ۔ بے شک اللہ کی عظیم نعمتوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ اس خالق کائنات کی ہرجاندار مخلوق کے لئے
بکھرا پڑا ہے۔ ڈرائیور نے راستے میں ایک جگہ جیپ روک کر سڑک کے ساتھ پہاڑ پر اگی ہوئی ایک جڑی بوٹی توڑ کر
ہمیں دکھائی جس کی خوشبو بالکل وکس بام سے ملتی جلتی تھی اور ان علاقوں میں چھوٹے بچوں کے پیٹ
کی جملہ بیماریوں کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ ایک دو پہاڑی دروں سے گزرنے کے بعد ہمیں دور نشیب میں استور
کی آبادی سر سبز پہاڑوں کے بیچ نظر آنا شروع ہو گئی۔ ایک پہاڑی درے کے بلند موڑ پر ہم نے جیپ رکوائی، اس بلندی
سے برف پوش چوٹیوں اور سرسبز پہاڑوں کے دامن میں کم بلند پہاڑیوں پر واقع استور کی آبادی کا نظارہ بہت
دلکش تھا۔ کچھ دیر تک ان خوبصورت نظاروں کا لطف اٹھانے کے بعد ہم ان پہاڑوں کے ساتھ ساتھ گھومتی سڑک
پر نشیب میں اترتے ہوئے ساڑھے بارہ بجے کے قریب اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ کل رات کے طے شدہ پروگرام کے تحت راما
سے واپسی پر ہمیں استور چھائونی سے منی مرگ کی سیر کیلئے اجازت نامہ حاصل کر نا تھا لیکن جیپ ڈرائیور کے
مطابق اتوار کی چھٹی کی بنا پر آج اس اجازت نامے کا حصول ممکن نہ تھا۔ نہ جانے اس نے کل رات ہمیں اس بات
سے آگاہ کرنا کیوں مناسب نہ سمجھا۔ بہرحال انسان خطا کا پتلا ہے ، بھول چوک تو ہم سے ہوتی ہی رہتی ہے۔ دوپہر
کا کھانا ہم نے ہوٹل میں ہی کھایا۔
راما سے استور تک کے سفر کے دوران کی کچھ تصاویر ۔۔۔۔۔۔۔۔













[/RIGHT]