[RIGHT]ساتواں دن
نانگا پربت کے پاس ۔۔۔ حیرت انگیز تبدیلی ۔۔۔ پر رونق گلگت
میں صبح سویرے اٹھ کر بازار کی طرف نکل گیا۔ ابھی ساڑھے چھ ہی بجے تھے۔ آسمان پر بادل کم تھے۔ بازار میں
زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔ ہمارے ہوٹل کے قریب ہی ایک چھوٹے سے کیفے سے اٹھنے والی پراٹھوں کی خوشبو نے میرے
قدم اپنی طرف کھینچ لئے۔ گرم گرم چوکور پراٹھے توے پر تلے جا رہے تھے۔ میں نے ایک نظر پھربازار کی طرف ڈالی
ابھی دور دور تک کوئی جیپ نظر نہیں آ رہی تھی۔ واپس ہوٹل آ کر ہمسفر کو ساتھ لیا اور ہم دونوں اس چھوٹےسے
کیفے کے اندر بچھی بنچ پر جا بیٹھے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو سات بجنے والے تھے۔ ہم سفر کو تیار ہونے کا کہہ کر
میں ہوٹل کے باہر ہی کھڑا ہو کر اس شخص کا انتظار کرنے لگا جسے حسب وعدہ سات بجے کسی جیپ والے کے ہمارے
ہوٹل پہنچنا تھا۔ سات بجے اور پھر سوا سات بھی، میری نظریں مسلسل سامنے نظر آتے بازار پر جمی تھیں لیکن ابھی تک
وہاں کسی جیپ کا نام و نشان نہیں تھا۔ ترشنگ کیلئے صبح جلدی نکلنے کا پروگرام ناکام ہوتا نظر آرہا تھا۔ ہمارے ہوٹل
سے متصل ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی [نیٹکو] کا اڈہ تھا۔ اڈہ کیا تھا ، بس ایک خالی کچا پلاٹ تھا، جس کی ایک
دیوار ہر نیٹکو آفس لکھا ہوا تھا۔ بازار کی دوسری سمت سے چند مسافروں کو لئے ہوئے ایک بڑی سی جیپ اس خالی
پلاٹ میں داخل ہوئی- جیپ پر نیٹکو کے بجائے روپال اینڈ نانگا پربت سروس لکھا دیکھ کر میں چونکا۔ روپال تو ترشنگ
کے پاس ہی ہے اور یہ دونوں وادیاں نانگا پربت کے ساتھ ہی واقع ہیں۔ مسافر جیپ سے اتر کر بازار کا رخ کررہے تھے۔
میں نیٹکو اڈے کے پلاٹ میں کھڑی اس جیپ کی طرف بڑھ گیا۔ ایک مسافر سے معلوم ہوا کہ جیپ ترشنگ سے ہی
آئی ہے۔ یہ ایک بڑی مسافر جیپ تھی جس میں آٹھ دس لوگ بآسانی سفر کر سکتے تھے۔ صبح سات بجے جیپ سمیت
ہمارے ہوٹل پہنچنے کا وعدہ کرنے والے استور کے مکین کا کچھ پتہ نہ تھا، نہ ہی بازار میں دور دور تک کوئی جیپ ہی
نظر آتی تھی۔ ترشنگ سے آنے والی اس مسافر جیپ کے ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ وہ یہاں سے سہ پہر کے وقت استور
سے مسافروں کو لے کر ترشنگ کے لئے روانہ ہو گا۔ میں نے اس سے ترشنگ جانے کیلئے اس وقت کسی جیپ کے مل
سکنے کی بابت دریافت کیا لیکن اس نے اس ضمن میں لا علمی کا اظہار کیا تاہم اس کے اگلے جملے سے اس لاعلمی کی
اصل وجہ بھی آشکار ہو گئی۔
" اگر آپ میری جیپ کی بکنگ کرا لیتے ہیں تو میں اسی وقت ترشنگ چل سکتا ہوں "
" لیکن پھر تمہارے وہ مسافر جنہیں سہ پہر کو واپس جانا ہو گا ؟ "
" ان کی خیر ہے ، وہ کسی دوسری گاڑی کا بندوبست کر لیں گے۔ "
اس نے جو ریٹ مجھے بتائے وہ بھی ہمارے ہوٹل والے جیپ ڈرائیور سے خاصے کم تھے۔ میں نے استور میں مزید وقت
ضائع کیے بغیر فوری طور پر اسی مسافر جیپ سے ترشنگ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ صبح کے ساڑھے سات بج چکے تھے
جب میں اور ہم سفر اس بڑی سی جیپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ترشنگ کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ گوری کوٹ کے
قصبے تک سڑک خاصی بہتر حالت میں تھی۔ گوری کوٹ کے قصبے سے نکل کر چلم چوکی ،شیوسر اور دیوسائی جانے
کے لئے ایک سڑک سیدھی چلی جاتی ہے جبکہ ترشنگ کے لئے ہمیں دائیں طرف موجود پہاڑوں کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک
پرنانگا پربت کی طرف جانا ہوتا ہے۔ اس سڑک کی حالت زیادہ اچھی نہ تھی۔ چونکہ یہ ایک مسافر ویگن نما جیپ تھی اس
لئے زیادہ آرام دہ نہ تھی۔ گو کہ ہم فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے لیکن ٹوٹی پھوٹی سڑک پر اچھلتی جیپ کے جھٹکے کبھی
کبھی ہماری چولیں بھی ہلا ڈالتے تھے۔ ڈرائیور کا تو یہ روز کا معمول تھا سو وہ نسبتاً تیز رفتاری سے جیپ چلا رہا تھا۔
سڑک خراب تو تھی لیکن اتنی خطرناک نہ تھی کہ ہم اس کی اس تیزرفتاری کی بنا پر کسی خوف میں مبتلا ہوتے۔
بس جیپ اچھلتی کودتی تھی ، ہم جھٹکے برداشت کرتے تھے۔ راستے میں آنے والے ایک دو چھوٹے قصبوں
سے گزرتی ہوئی جیپ ترشنگ کی طرف بڑھتی رہی۔ ایک جگہ بلندی پر سڑک کا ایک موڑ مڑتے ہی سفید بادلوں میں
گھری ،دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتی نانگا پربت کی خوبصورت برفیلی چوٹیوں کا دلکش منظر ہمارے سامنے آ گیا۔
اس پہاڑی درے سے نیچے اترے تو یہ منظر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ترشنگ سے کچھ پہلے سڑک پر ہمارا سامنا
ایک بہت بڑے گلیشئر سے ہوا۔ سڑک گلیشئر تلے دبی ہوئی تھی اور ہمیں اس گلیشئر پر سے گزر کر اسے پار کرنا تھا۔
گلیشئر کی چوڑائی ایک چوتھائی کلومیٹر کے قریب تھی۔ برف کی اس اونچی نیچی رہگزر سے گزرتے ہوئے ہم جیپ کے
ساتھ ادھر ادھر ڈولتے تھے۔ ڈولنے کے ساتھ ساتھ کبھی اچھلتے اور ایک دوسرے پر لڑھکتے بھی تھے۔ اچھی بات صرف
یہ تھی کہ گلیشئر کے نشیب کی طرف کوئی گہری کھائی نہیں تھی ، اس لئے گلیشئر سے پھسل کر جیپ کے کہیں اور
بھٹک نکلنے کا ڈر نہ تھا۔ خدا خدا کرکے ہم اس گلیشئر کے شیکر سے نکل کر دوبارہ سڑک پر پہنچے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے
کرنے کے بعد جوں ہی ایک موڑ مڑے تو ہمیں سامنے ہی ترشنگ کی سرسبز کشادہ وادی نظر آنے لگی، بادلوں میں لپٹی
نانگا پربت کی برف پوش چوٹیاں بھی ہمیں دکھائی دینے لگیں۔ ترشنگ کی وادی اور اس کے سامنے سجی سنوری ان
چوٹیوں کا منظر اتنا خوبصورت تھا کہ ہم جوں جوں ترشنگ کی اس وادی کی طرف اترتے جاتے تھے، سفر کے دوران
اچھل کود کی سب کلفتوں کو فراموش کرتے جاتے تھے۔ صبح نو بجے کے بعد ہم ترشنگ کی حسین وادی میں داخل
ہو چکے تھے۔ چھوٹی سی آبادی کے درمیان سے گزرتی سڑک پر مجھے ایک دو پوٹل بھی نظر آئے۔ ڈرائیور نےاس آبادی
کے اختتام کے قریب سڑک کنارے موجود ایک چھوٹے سے درخت کے پاس بنی پارکنگ کی جگہ پر جیپ روک دی۔
جیپ سے اترے توہمارے دائیں طرف ایک سرسبز میدان تھا جس کے ارد گرد قصبے کے مکینوں کے کچے مکانوں کے
ساتھ ساتھ ان کے ہرے بھرے کھیت بھی لہلہاتے تھے۔ میدان کے دوسری جانب دور پرے نانگا پربت کی برف پوش چوٹیاں
سفید بادلوں کا نقاب اوڑھے نظر آتی تھیں۔ ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ جب وہ صبح ترشنگ سے استور کیلئے روانہ ہوا تھا تو
ان چوٹیوں پر بادل نہیں تھے۔ میں سوچتا تھا کہ ڈرائیور تو ان برف پوش چوٹیوں کے دامن میں ہی رہتا تھا سو اس سے کیا
پردہ ؟ ہم ہزاروں میل دور سے ان چوٹیوں کے عشق میں گرفتار ہو کر یہاں پہنچے تھے، شاید اسی لئے نانگا پربت کی
یہ حسین چوٹیاں ہم سے شرماتی تھیں۔ اپنا خوبصورت مکھڑا سفید بادلوں کے نقاب میں چھپاتی تھیں۔ ہماری طرف
دیکھتی ضرور تھیں لیکن نقابوں کے پردے سے چھپ چھپ کر۔ ہم بھی سچے عاشق تھے سو ان کے یہ ناز نخرے
اورادائیں بھی ہمارا دل لبھاتی تھیں۔ ہم انہیں تکتے تھے لیکن نہ انہوں نے رخ سے پردہ ہٹایا اور نہ ہم نے ان سے بے نقاب
ہونے پر اصرار کیا۔
ترشنگ تک کے سفر کے دوران کی کچھ تصاویر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ترشنگ تک کے سفر میں نانگا پربت پر ہماری پہلی نظر
یہاں نانگا پربت کا برف پوش مکھڑا ہمیں نظر آیا لیکن ہمارے ترشنگ پہنچنے پر اس نے چہرہ نقاب میں چھپا لیا

ترشنگ کے راستے میں آنے والا گلیشئر



[/RIGHT]