[RIGHT] ناشتے کے بعد مجھے اپنے کمرے میں جانا پڑگیا کیونکہ میرے دونوں موبائل کی بیٹریاں بیٹھ رہی تھی اور سفر
سے پہلے ان کو بہرحال فل چارج ہونا چاہئے رات کو تھکن کی وجہ سے جلد سوگیا تھا تو چارجنگ پر لگانا بھول
گیا تھا اگر ابھی چارج نہیں کرتا تو راستہ میں مشکل پیش آسکتی تھی کمرے میں آکر اپنے موبائل کو چارجنگ پر
لگا کر دوبارہ سوگیا سامان میں صبح پیک کر چکا تھا دس بجے کے قریب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ بارش تو تھم
چکی تھی لیکن بادل ابھی بھی گھرے گھڑے تھے۔ پھر آدھ پون گھنٹے کے بعد اچانک دیکھا کہ دھوپ نکل آئی اور
پوری وادی ہنزہ تیز چمکدار دھوپ سے روشن ہوگئی باہر جاکر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ بادل اب نہیں آئیں گے۔ گلگت
کی طرف سے آسمان پوری طرح کھل چکا تھا اور بادل سوست / خنجراب کی طرف چلے گئے تھے۔ بس یہی میں
چاہتا تھا مجھے اب گلگت کی طرف ہی سفر کرنا تھا لہٰذا بیگ لیکر اوپر بائیک پر آگیا وہاں ہوٹل کا مالک اور
مسٹر زاویے میری بائیک کے پاس ہی کھڑے تھے ہوٹل کے مالک کی مدد سے بیگ کو بائیک پر رسیوں سے
باندھا،احتیاطا بیگ پر پولیتھین کا تھیلا چڑھا لیا ناگاہ کہیں بارش نے آلیا تو سامان کی بچت ہو جاے، ان دونوں سے
:d:pاجازت چاہی ہیلمٹ کو اچھی طرح صاف کیا جو کل کی مٹی میں بری طرح اٹا ہوا تھا اور اپنے تئیں ٹارزن نے
واپسی کا سفر شروع کردیا اس وقت گیارہ بج چکے تھے نیچے علی آباد میں آکر چابی بنانے والے کی تلاش کی
پندرہ بیس منٹ اس میں ضائع کئے بہرحال واپسی کا سفر شروع کردیا آپ کو یاد ہوگا کہ جب میں ہنزہ آرہا تھا تو
زیادہ تصاویر وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں بناسکا تھا اس کا ازالہ مجھے اب کرنا تھا چنانچہ جگہ جگہ وادی
ہنزہ کی اور راکا پوشی کی تصاویر اتارتا رہا ۔ لیکن وقت ضائع کئے بغیر اسی طرح ایک مقام ایسا بھی تھا
جہاں سے اولڈ سلک روڈ برابر کے پہاڑ پر ایک لکیر کی صورت میں نظر آرہی تھی اس کی بھی تصویریں بنائیں
ایک بات تو بتانا بھول ہی گیا کہ وادی ہنزہ کے پورے سفر میں اوپر جاتے وقت بھی اور اب آتے وقت بھی جب
بھی کوئی آبادی قریب آتی تھی تو سیبوں کی خوشبو سے فضا معطر ہوتی تھی اس کی وجہ آج کل سیب کی فصل
کا تیار ہونا ہے۔ ہنزہ کے قیام کے دوران اور ابھی آتے ہوئے تازہ سیب اور ناشپاتی کھاتے ہوئے گذارہ کیا وادی
ہنزہ سے جانے کو دل نہیں کر رہا تھا لیکن جانا تو تھا بارش کی وجہ سے ٹائم بھی کافی ضائع ہوگیا تھا میرا آج کا
پروگرام شام تک چلاس پہنچنے کا تھا اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے مجھے بائیک بھی تیز چلانی پڑ رہی تھی
اور میں انجوائے بھی نہیں کر رہا تھا دوپہر ایک بجے کے قریب میں دینور پہنچ گیا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں اس
پل پر پہنچ گیا تھا جو گلگت اور ہنزہ کو ملاتا ہے ارادہ یہ تھا کہ رائے کوٹ پل تک جہاں تک روڈ بہت اچھی ہے
محفوظ اسپیڈ میں رہتے ہوئے بغیر رکے یہ فاصلہ طے کرلیا جائے پھر جو ٹائم بچے اس میں رائے کوٹ برج سے
چلاس تک تقریباً دو گھنٹے کا سفر ہے وہ بھی دن کی روشنی ہی میں طے کیا جائے ،چنانچہ ایسا ہی کیا اور تقریباً
3 بجے دوپہر میں رائے کوٹ برج پہنچ گیا یہاں پہنچ کر پہلے نمازیں پڑھیں اور وقت ضائع کئے بغیر چلاس کی
طرف چل پڑا۔ رائے کوٹ برج سے چلاس تک کا سفر خاصا دشوار ہے ٹرک اور بسیز زیادہ اسپیڈ نہیں پکڑ سکتی
تو اگر آپ ان کے آس پاس ہوں تو وہ آپکو پوری طرح مٹی میں اٹا دیتے ہیں روڈ کہیں کچی اور کہیں پکی ہے لیکن
غیر ہموار شام پانچ بجے تک پی ایس او کے اس پیٹرول پمپ پر پہنچ گیا تھا جسکی نشاندہی سلمان صاحب نے اپنے
سفر نامے میں کی ہے وہاں سے سات سو روپے کا پیٹرول ڈلوایا جو میرے خیال میں کافی تھا ناران تک پہنچنے
کیلئے۔ پیٹرول بھروانے کے تھوڑی دیر بعد بابوسر پاس والا زیرو پوائنٹ آگیا جسکے پاس سے ہوتا ہوا میں ساڑھے
پانچ بجے شام کو چلاس پہنچ گیا۔ پہلے ارادہ کیا کہ اوپر چلاس کے قصبے میں ہوٹل لیا جائے جہاں ہم پہلے بھی
ٹہر چکے تھے پھر خیال آیا کہ کیا ضرورت ہے صبح یہیں یعنی کے کے ایچ سے چل پڑیں گے چنانچہ یہ سوچ
ارادہ بدل دیا اور نیو کشمیر ہوٹل میں کمرہ لے لیا۔ ہوٹل کافی اچھا تھا اور لوکیشن بھی، نہادھوکر فارغ ہوا تو مغرب
کی اذانیں ہورہی تھیں۔ دونوں نمازوں سے فارغ ہوکر پورے چلاس کا چکر لگایا اور اندازہ لگایا کہاں کھانا اچھا
صاف ستھرا ماحول ہے ایک ہوٹل پر روٹیاں بہت اچھی بن رہی تھیں اور ہوٹل بھی صاف تھا وہاں سے کھانا کھاکر
نکلا اور روڈ پر مٹر گشت کر رہا تھا کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو موٹر سائیکل ہاتھ سے پکڑے پیدل چل رہا
تھا اور ساتھ ہی ساتھ متلاشی نگاہوں سے آس پاس دیکھ رہا تھا میں نے ہاتھ کے اشارے سے ان صاحب
روکا اور پوچھا کہ کیا بات ہے کس چیز کی تلاش ہے تو ان صاحب نے بتایا کہ وہ کسی ہوٹل کی تلاش میں ہیں کہ
رات گذار سکیں۔ چونکہ پورا کے کے ایچ اندھیرے میں ڈرا ہوا تھا تو میں انہیں اپنے ساتھ ایک چائے والے ہوٹل
میں لے گیا اور اطمینان سے بات کی تو پتا چلا کہ موصوف شیخوپورہ سے موٹر سائیکل پر چلے ہیں اور ان کی
منزل گلگت ہے اور کے کے ایچ پر مانسہرہ بشام سائیڈ سے کے کے ایچ پر سفر کرتے ہوئے یہاں چلاس تک
پہنچے ہیں بری حالت میں تھے اور تھکن چہرے ہی سے عیاں تھی میں نے انہیں اپنے ساتھ ہی ہوٹل میں ٹھہرا لیا
رات سوتے سوتے دس بج گئے۔
وادی ہنزہ پر ایک طائرانہ نظر


اولڈ اینڈ نیو سلک روڈ وتھ نیو بائیک



پاک فوج کے شہید انجینئرز کی یادگار


جنہوں نے جان کا نزرانہ پیش کر کے دنیا کا آٹھواں عجوبہ تخلیق کیا

گلگت سے جگلوٹ

گلگت اور ہنزہ کو ملانے والا لمبا پل

خوبصورت چیک پوسٹ اور پاری سرنگ

گلگت اور اس کا نواح

گلگت اور اسکردو کو ملانے والا پل

دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا حسین سنگم

استور روڈ کی شاہراہ قراقرم سے علحیدگی

[/RIGHT]