[RIGHT]ابتدائیہ
ہم اترے تو کھانا کھانے مگر لگ گئے ایک ایسی چیز کی تلاش میں جو ہمارے خوابوں میں رنگ بھر سکتی تھی
اسکرود کے اس بازار میں ہم نے کھانا کھایا اور بجائے روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیاء کے بجائے ہم نے
کرائے کی موٹر سائیکل ڈھونڈنے میں گھنٹوں گزار دیئے، پورا بازار چھان مارا مگر کرائے کی بائیک نہ ملنی تھی
نہ ملی۔ یہ بات ہے ہمارے 2010 کے شمالی علاقوں کے ٹور کی، جب ہم اسکردو کے بازار میں گھوم پھر رہے
تھے ۔
جوں ہی اس نے مجھے عندیہ دیا میں 22 اگست 2014 بروز جمعہ، جمعہ کی نماز کے بعد اسکے گھر پہنچ گیا
وہ ابھی نماز پڑھ کے گھر نہیں آیا تھا میں اسکے انتظار میں اسکے گھر کے باہر کار میں اسکا انتظار کرنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد وہ مجھے آتا ہوا نظر آیا میں نے کار کا دروازہ کھول کر اسکو بیٹھنے کا اشارہ دیا اور ہماری بات
چیت شروع ہوگئی۔ سودا ایک لاکھ میں طے پایا مگر اس طرح کہ میں اسکو پچاس ہزار ابھی دونگا اور بقیہ پچیس
پچیس ہزار کی قسطوں میں ہر مہینے، اس طرح سوزوکی جی ایس 150 میری ہوگئی۔
وہ خواب جومیں اور میرا دوست سید جمیل عرصہ دراز سے دیکھ رہے تھے کہ بذریعہ بائیک شمالی علاقہ جات
کی سیر وتفریح کو نکلا جا ئے، اس جانب عملی طورسے پیش رفت 22 اگست 2014 کو جمعہ کی نماز کے بعد
ہوئی۔ بائیک لے کر جو سب سے پہلا کام میں نے کروایا وہ اسکی ٹنکی میں 300 روپے کا پیٹرول اور پہیوں میں
ہوا بھروائی، کیونکہ بائیک عرصہ دراز سے چلی نہ تھی یہ کام ہم نے ہوش محمد شیدی فلائی اوور کے نیچے
ایک پیٹرول پمپ سے کروایا۔ دو تین دن تک بائیک چلا کر اس کی بیٹری کو چارج کیا تب جا کر اس کے سیلف نے
کام شروع کیا۔ اسپیر چابی بنوائی اور گاڑی ٹرانسفر کروانے کیلئے کاغذی کارروائی کی، ایک مسئلہ
ڈرائیونگ لائسنس کا تھا میرے پاس ایک ڈرائیونگ لائسنس تھا جس کا پتہ نہیں تھا کہ کہاں ہے ۔فوری طور سے تو
یہی سمجھ میں آیا کہ لرننگ ڈرائیونگ لائسنس بنوالیا جائے جو ایک دن جا کر بنوالائے۔ حیدرآباد ریلوے اسٹیشن
سے بائیک کو بلٹی کروانے کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کیں اور ہالا ناکہ کے پولیس اسٹیشن سے
این او سی بنوایا ۔ 11 ستمبر 2014 کو بالآخر حیدرآباد ریلوے اسٹیشن سے راولپنڈی کیلئے 1260روپے میں
بائیک کوبک کروادیا۔
ایک اہم بات یہ کہ بائیک کو لمبے سفر کیلئے فٹ کرنے کی کارروائی کے بعد مجھے اپنا بھی فٹنیس ٹیسٹ پاس
کرنا تھا جو میں نے حیدرآباد سے کراچی، اور پھرکراچی سے واپس حیدرآباد کا سفر کرکے خود ہی اپنے آپ کو
فٹنیس سرٹیفکٹ دے دیا۔ اور جب میں اپنی چھٹیوں میں کراچی گیا تو اپنے میکینک کے ورکشاپ کے پاس ہی واقع
ریلوے کے بکنگ آفس سے اپنے لئے ملت ایکسپریس کا ایک عدد بزنس کلاس کا ٹکٹ فیصل آباد کیلئے
خرید چکا تھا ۔ یہ کام میں نے 28 اگست کو کرلیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ مجھے اچانک میری کمپنی نے ایک دفتری
کام کے سلسلے میں کوہاٹ کے نزدیک ایک گیس پلانٹ پر بھیج دیا جہاں کچھ پرابلم چل رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے وہ
پرابلم میرے ہاتھوں حل کروانی تھیں تو میں وہاں سے سرخرو ہوالیکن اس دوران میری چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں یعنی میں
اپنی بائیک کو مکمل طور سے تیار نہ کر پایا اور دوبارہ 14 دن کیلئے ڈیوٹی پر حیدرآباد چلا گیا۔ 3 ستمبر 2014 کو میں
نے ڈیوٹی جوائن کی ۔ 15 ستمبر کو ڈیوٹی ختم ہونی تھی اور 17 ستمبر کو مجھے اپنے تنہا سفر پر روانہ ہونا
تھا۔
پندرہ ستمبر کو جب میں ڈیوٹی ختم کرکے کراچی پہنچا تو میرے پاس صرف دو دن تھے سفر کی تیاری کیلئے۔ اس
دوران میں نے بائیک کے پچھلے ٹائر کو تبدیل کرواکر چوڑا ٹائر ڈلوایا،لیگ گارڈ لگوایا اور پچھلے کیریئر میں تبدیلی
کروائی، ساتھ ہی ساتھ سفری سامان پیک کیا ،گرم کپڑے نکلوائے۔ سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو ذہنی اور جسمانی
طور سے ایک سخت اور تنہا سفر کیلئے تیار کرنا تھا جو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا چنانچہ
اسکے آگے گڑگڑا کے دعا مانگی کہ اے اللہ تو یہ سفر میرے لئے آسان فرما اور سفر کے دوران پیش آنے والی
مشکلات دورفرما۔
اس سال کے شروع میں اپنے دوست سید جمیل صاحب نے مجھے ای میل پرپاک وہیلز کی ایک تھریڈ کا لنک
بھیجا، شروع میں تو میں نے اسے نظر انداز کیا۔ لیکن ایک دن بس سرسری طور پر لنک کھول لیا، بس جی وہ لنک
کا کھلنا تھا توگویا میگنٹ کا لوہے سے چپکنا تھا۔ وہ تھریڈ سلمان صاحب کا موٹر بائیک پر4000 کلو میٹر استور
تک کا سفر اور اس کی روداد تھا۔ جب تک ختم نہیں کرلیا چین نہیں آیا۔ میں وہ تھریڈ پڑھتا جاتا تھا اور عزم ارادہ
پختہ اور جوان ہوتا جاتا تھا ۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ بائیک خریدنی ہے اور شما لی علاقہ جات کا کم
از کم ایک ٹور کرنا چاہئے ہکا۔ اس کے بعد موٹر بائیک کی تلاش شروع کردی ، یہ اتفاق تھا کہ مجھے بھی ویسی
ہی بائیک ملی جیسی سلمان صاحب ڈرائیو کرکے استور لےگئے تھے۔ باقی سارے کام اللہ تعالیٰ نے آسان کردیئے۔
بائیک خریدنے کے بعد سفر کی تیاری کے دوران

بائیک کی سفر کی مناسبت سے تبدیلی

بائیک کی بکنگ


[/RIGHT]