[RIGHT]فیصل آباد سے پنڈی کا سفر بھی بہت زبردست تھا۔ بس موٹر وے پر سفر کر رہی تھی اور بس کا ماحول اور سروس
انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی بالکل فلائٹ کی طرح ۔یعنی بس کے چلتے ہی ہیں گراؤنڈ ھوسٹس (ائیر ھوسٹس کا ا لٹ) نے
پہلے تو کانوں پر لگانے والے ائر فون تقسیم کئے پھر وقفہ وقفہ سے تمام بس پسینجرز میں کولڈ ڈرنک پانی، چپس، چاکلیٹ
وغیرہ تقسیم کیں دو گھنٹے کے بعد بس ایک جگہ رکی جوکہ ڈایووکا اسٹاپ تھا۔ وہاں ظہر کی نماز، کھانا وغیرہ کھایا،
یہاں میں بتاتا چلوں کہ کراچی سے گھر سے نکلتے وقت بیگم نے دو روٹیوں کے رول بناکر دے دیئے ایک تو رات کے
کھانے کے طور پر ٹرین میں کھا چکا تھادوسرا رول میرے پاس تھا لیکن میں اسکی طرف سے مشکوک تھا کہ پتا نہیں خراب
ہی نہ ہوچکا ہو۔ بھوک بہت زور کی لگ رہی تھی کیونکہ میں صبح کا ناشتہ بھول گیا تھا۔ چنانچہ جب کھانے
والے بیگ میں جب میں نے وہ شامی کباب کا رول دیکھا تو ایک تو بیگم بہت یاد آئیں دوسرے اس رول نے مزہ بہت دیا کہ
بھوک بہت زور سے لگی ہوئی تھی۔ کولڈ ڈرنک کے ساتھ کھایابہت مزہ آیا, الحمد اللہ! ڈیڑھ بجے ہم اس مڈ اسٹاپ پوائنٹ پر
پہنچے تھے اور پونے دو بجے بس نے روانگی کا ہارن دے دیا بس کے ٹائمنگ انتہائی اعلیٰ تھیں۔ بس روانہ ہوئی اور گراؤنڈ
ھوسٹس نے اعلان کیا ہم انشاء اللہ ساڑھے تین بجے پنڈی پہنچیں گے تو میں نے پنڈی میںوجود اپنے دوست کو فون کیا کہ ہم
ساڑ ھے تین بجے تک پنڈی پہنچیں گے تو اس نے کہاکہا کہ پنڈی پہنچ کر فون کردینا اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اسے یقین
نہیں ہے کہ بس ساڑھے تین بجے پنڈی پہنچے گی۔
پنڈی شہر سے 10/15 منٹ پہلے گراؤنڈ ھوسٹس نے پھر اعلان کیا کہ ہم ٹھیک ساڑھے تین بجے اپنے اڈے پر پہنچیں
گے تو میں دوبارہ اپنے اس دوست کو جس کے پاس میری بائیک تھی، فون کیا کہ بھائی بس بالکل آ ن ٹائم ہے اور تم بس
کے پہنچنے سے پہلے بس اڈے پر پہنچ جانا ۔ بس ٹھیک ساڑھے تین بجے کائنات ٹریولز کے اڈے پر پہنچ گئی اور آپ یقین
کیجئے کہ جب بس اڈے میں داخل ہورہی تھی تو گھڑی سیکنڈ ٹو سیکنڈ ساڑھے تین بجارہی تھی اور وہ دوست باہر اپنی بائیک
سے اتر رہا تھا۔ اور اترتے ہی اس نے ہاتھ ہلاکر مجھے احساس دلایا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ اس دیکھا دیکھی اور
ٹائمنگ کے احساس نے اپنے کشن کو جو میں نے بس کی سیٹ پر اپنی کمر کے پیچھے لگا لیا تھا بھول گیا۔ اور اپنے اس
دوست سے گلے ملا جس نے پنڈی میں میری بائیک وصو ل کی تھی وہ مجھے اپنے گھر لے گئے جوکہ کائنات ٹریولز سے
کچھ ہی فاصلے پر تھا وہاں ان کا اصرار تھا کہ کھانا کھایا جائے جبکہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ راستے میں رول سے پیٹ
بھر چکا تھا۔ چنانچہ ان سے معذرت کی اور کہا کہ فی الحال چائے بنوالیں اور اس دوران میں نے عصر کی نماز وغیرہ سے
فارغ ہوگیا اور بیگ میں سے بائیک کا سامان وغیرہ نکالا اس کو بائیک میں فٹ کیا ہیلمٹ نکالا چائے وغیرہ سے فارغ ہوکر
گھڑی پر نظر ڈالی تو ساڑھے چار بجارہی تھی۔ چنانچہ اپنے عزیز دوست سے اجازت چاہیں کہ رخصت عنایت فرمائیں۔
انکے گھر سے نکل پشاور ہائی وے پر بائیک کو محتاط انداز سے دوڑایا، اور اپنےخوف اور جھجک کو دور کیا۔جب ذرا
شہر سے باہر آگیا تو ایک پیٹرول پمپ سے پانچ سو روپے کا پیٹرول ڈلوایا۔ پیٹرول پمپ والے سے گپ شپ کے دوران اس
سے ٹیکسلا تک کا فاصلہ اور ٹائم پتہ کیا اور وہ مجھ سے مل کر اور میرا پروگرام سن کر بہت حیرت اور خوشی کا اظہار
کر رہا تھا۔ یہ ایک ابتداء تھی پاکستان کے لوگوں کی طرف سے محبت کے اظہار کی، اس محبت اور اپنائیت کے کچھ واقعات
اپنے اس سفر نامے میں بیان کرونگا۔ پشار ہائی وے پر 30/35 کلو میٹر چل کر ٹیکسلا کا کٹ آگیا جہاں سے مجھے
رائٹ ٹرن ہونا تھا یعنی پشاور ہائی وئے کو چھوڑنا تھا۔ ٹیکسلا پہنچا تو شام کے 5 یا ساڑھے 5 بج رہے تھے
پروگرام یہ تھا کہ ہری پور میں ٹہرا جائے۔ مگر ٹائم دیکھ کر میں نے ٹیکسلا ہی میں کسی ہوٹل میں ٹہرنے کا فیصلہ کیا۔
مجھے ایک ایسے ہوٹل کی تلاش تھی جو میری بائیک کو ہوٹل کے اندر یا محفوظ مقام پر جگہ عنایت فرمائے تھوڑی سے
تگ ودو کے بعد ایک ہوٹل مل گیا اور وہ بائیک کو اندر رکھنے پر راضی تھا۔ چنانچہ وہیں رکنے کا فیصلہ کیا نہاکر
اور کپڑے وغیرہ بدل کر مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی۔ کھانا کھایا اور تھوڑی دیر ٹیکسلا کے بازار میں ایک لمبا راؤنڈ مارا
کچھ دوائیں لیں راستے کیلئے 9/10 بجے آکر لیٹا تو نیند فوراً آگئی، لیکن تھوڑی دیر میں سخت گرمی کی وجہ سے آنکھ
کھل گئی وجہ اس کی یہ تھی کہ لائٹ چلی گئی تھی۔ چوکیدار سے پوچھنے پر پتا چلا کہ ایک گھنٹہ لائٹ آتی ہے اور دو
گھنٹہ غائب رہتی ہے اور اس پریشانی کا حل بھی اس نے بتایا کہ آپ اپنی چارپائی کمرے سے باہر لے آئیں چھت پر سوجائیں۔
چنانچہ ایسا ہی کیا اور نیند کے مزے لئے مچھروں سے بچھنے کیلئے اپنے منہ کو تولئے سے لپیٹا اور موزے چڑھائے۔
موٹر وے کے کچھ مناظر





میرے خوابوں کے سفر کا آغاز





[/RIGHT]