[RIGHT]پانچواں دن 21 ستمبر 2014
جب آنکھ کھلی تو سات آٹھ بج رہے تھے حوائج ضرور یہ سے فارغ ہوکر فجر کی نماز پڑھی جب سب تیار ہوگئے
تو نیچے ناشتےکیلئے آگئے ناشتہ کا آرڈر دیا اور خود گپ شپ لگانے لگے وہاں ناشتے کی میز پر ہم نے اپنا
تفصیلی تعارف کروایا۔ فاروق صاحباور آصف صاحب دونوں ہی تجربہ کار ہائیکرز اور ٹریکر تھے انہوں نے پیدل
ان تمام علاقوں کا چپہ چپہ کھنگالا ہوا تھا ، موٹربائیک پر پہلی دفعہ نکلے تھے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے نئی
بائیک خریدی تھی اس میں زبردست خوبصورت موڈیفیکیشن کروائی ہو ئی تھی اور ہر طرح کا سامان بھر رکھا تھا
جس کی وجہ سے انکی بائیک کافی سے زیادہ بوجھل ہورہی تھی، دونوں حضرات نے پیدل نوری ٹاپ، کراس کر
رکھا تھا۔ جبکہ فاروق صاحب تو کے ٹو کے بیس کیمپ تک ہو آے تھے جبکہ میں ایک عام سا سیاح ہی تھا، ایک
اوربات جو قابل غور تھی جو انہوں نے بتائی کہ یہ لوگ راتوں کو پیدل ٹارچ کی روشنی میں سفر کرنے کے عادی
تھے ، پہاڑی علاقوں میں رات ہو جانا ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا ، جبکہ میں اس معاملے میں کافی حساس
،واقع ہوا تھا ، میری کوشش ہوتی تھی کہ شام ہونے تک ٹھکانے پہنچا جائے، اس معاملہ میں یہ لوگ مجھے کافی
لاپرواہ لگے، یعنی یہ لوگ وقت کی پابندی نہیں کررہے تھے، مثلاً انہیں فیری میڈو جانا تھا اور یہ ساڑھے نو بجے
تک چلاس میں بیٹھے ناشتہ ہی کر رہے تھے، جبکہ میرے حساب سے انہیں کم از کم صبح دس بجے تک تو رائے
کوٹ برج تک پہنچ ہی جانا چاہئے تھا۔ ناشتہ کی ٹیبل پر ان سے پہاڑی علاقوں کی مناسبت سے کافی معلوماتی
گفتگو ہوئی۔ ناشتہ سے فارغ ہوکر واپس کمرے میں آئے اور سامان وغیرہ کو بائک پر باندھا، اور جب ہم روانہ
ہونے کیلئے نیچے اترے تو ساڑھے دس بج چکے تھے انہوں نے چلاس سے پیٹرول بھی بھروایا اس میں مزید آدھا
گھنٹہ ضائع ہوا اور چلاس سے نکلتےنکلتے گیارہ بج گئے، بہرحال کے کے ایچ پر گلگت کی طرف سفر شروع کیا
، رات کو جب ہم چلاس پہنچے تھے تو موبائل کے سگنل بحال ہوگے تھے،اور واٹس ایپ پر سلمان صاحب کا
میسج آگیا تھا ، کہ وہ اب ہنزہ میں ہیں اور اگلے دن انہوں نے خنجر اب پاس کےلئے نکلنا ہے۔ یعنی وہ آگے آگے
اور میں پیچھے پیچھے ایک ہی منزل کی جانب سفر کر رھے تھے چلاس سے رائے کوٹ برج تک کا کے کے
ایچ کا یہ ٹکڑا بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور مرمت کا کام بھی لگتا ہے عرصہ دراز سے بند پڑا
ہے چلاس سے رائے کوٹ برج تک کا جو فاصلہ ایک گھنٹہ میں طے ہوجانا چاہئے تھا وہ تقریباً ڈھائی گھنٹے میں
مکمل ہوا جب میں وہاں پہنچا تو دوپہر کا ایک،ڈیڑھ بج چکا تھا ، فاروق اور آصف صاحب ابھی تک نہیں پہنچے
تھےمیں وہیں شنگریلا ہوٹل کے گیٹ پر لیٹ کران دونوں کا انتظار کرنے لگا، تھوڑی ہی دیر میں وہ بھی پہنچ گئے
بائیک سے اترتے وقت کی تصویر آپ دیکھ رہے ہیں ،خراب راستے نے ہمیں بری طرح تھکا دیا تھا میرا اوربائیک
کا انجر پانجر ڈھیلا ہوا تھا، یہاں شنگریلا ہوٹل والوں نے ہوٹل کے اندر داخل ہونے کی فیس لگارکھی ہے اسلئےا
اندر تو داخل نہیں ے وہیں باہر لان میں تصویریں کھینچوائیں وہاں ایک اور صاحب بھی آگئے جو فاریسٹ گارڈ تھے
ہمارے ساتھ تصویر کھینچواکر فرمائش کی کہ وہ تصویر ان کو ارسال کردی جائے۔
پاکستان ھوٹل چلاس سے رائے کوٹ برج تک کا سفر




زیرو پوئنٹ بابوسر اور کے کے ایچ



رائے کوٹ برج پر

تتہ پانی


شنگریلا کے گیٹ پر دونوں ساتھیوں کا انتظار

لو وہ دونوں پہنچ گئے

[COLOR=#ff0000][SIZE=5]شنگریلا رائے کوٹ[/SIZE][/COLOR]

[/RIGHT]