[RIGHT] اب چلتے ہیں تھوڑا ماضی کی طرف،۲۰۱۰ میں جب میں اور میرے دوست سید جمیل اوپر لالہ زار میں دو دن کے
لئے ٹہرے تھے تو وہاں ہمیں ایک بہت دلچسپ اور ہنس مکھ کردار سےواسطہ پڑا، وہ کردار تھا سلیم کا،جیسا کہ
تزکرہ کر چکا ہوں کہ سلیم ہرفن مولا شخصیت کا مالک تھا، سلیم جلد گھل مل جانے والا بندہ تھا اور ہم دونوں
بھی،چناچہ ان دو دنوں میں ہم ایک دوسرے سے کافی بے تکلف ہوگے تھے۔سلیم کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے
منہ سے پرندے کی سی ایک خاص اسٹائل کی سیٹی بجاتا تھا جو عام طور عام آدمی نہی بجا سکتے،ہم فرمائش کر
کے سلیم سے وہ سیٹی بجواتے تھے،سلیم کچھ عرصہ کراچی میں ڈبلیو گیارہ کا کنڈکٹر رہا ہے وہ سیٹی اس نے
وہیں سے سیکھی تھی،، یہاں پہاڑی علاقے میں یہ سیٹی کمونیکیشن کا بہترین ذریعہ ہے ایک آدھ کلو میٹر سے وہ
سیٹی بآسانی سنائی دیتی ہے،
سلیم کے پاس اوپر ٹہرنے کا ارادہ تو تھا لیکن بائیک کے گرنے سے ارادہ ملتوی کردیا،مشکل سے بائیک اٹھائی
اور اس کو پیدل ہی چلاتے ہوئے نیچے لانے لگا،اس دوران ایک مقامی آدمی آگیا اس سے مدد کی درخواست کر
کے بائیک کچھ پیدل،کچھ سٹارٹ کر کے مشکلوں سے نیچے لایا اور بغیر پیچھے دیکھے سیدھا اپنا رخ ںاران کی
طرف کر لیا،میں نہی چاہتا تھا کہ سفر کے اختتام پر کوئی نا خوشگوار واقعہ، یا ٹریجڈی ہو،بائیک کو کھلے روڈ پر
دوڑاتا ہوا سیدھا ںاران پہنچ کر دم لیا،،راستے کی کوئی تصویر نہی لی،اور ناران کے شروع میں ہی ایک اچھا ہوٹل
مل گیا وہاں کمرہ لے لیا،اس ہوٹل میں کافی سارے پاکستانی سیاح گروپ کی صورت میں ٹہرے ہوے تھے،جب میں
وہاں پہنچا تو سب نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی بابوسر کے بارے میں، جتنی دیر ہوٹل کا ملازم بائیک پہ
سے سامان کھولتا رہا میں ان کے سوالات کے جواب دیتا رہا، ،پھر اپنے کمرے مِیں آکرکچھ دیر ریسٹ کیا،نہا کر
اور کپڑے بدل کر نیچے آیا تو سامنے جلیبیاں تلی جارہیں تھیں،جلیبیاں ہوں اور میں نا کھائوں یہ کیسے ہوسکتا ہے
تو جی اس شام جلیبیوں نے سفر کی ساری کدورتیں ختم کردیں،،
امٰغرب کی نماز پڑھنے ناران کے بازار میں واقع مسجد میں گیا،نماز پڑھ کر رات کا کھانا کھایا اور تھوڑی واک کر
کے کمرے میں آکر سو گیا۔
مغرب کا وقت اور ہوٹل کی لائٹس آن
اگلے دن ناران کے بازار سے ہوٹل کی تصویر
اگلے دن ہوٹل خالی، میں اور میری بائیک بس

جلیبیوں کی دوکان

ہوٹل میں میرا کمرہ


[/RIGHT]