صبح گیارہ بجے ریڈ پیلس ہوٹل، کچہری روڈ، خیرپور سے قلعہ کوٹ ڈیجی کی جانب روانہ ہوئے، رات کو ہم نے شہر کے اندر جابجا پولیس کی موبائلیں کھڑی دیکھی تھیں، اب بھی جگہ جگہ پولیس کی موبائلیں پورے سندھ میں کھڑی دیکھیں۔ تقریبا آدھہ گھنٹے بعد ہمیں قلعہ کوٹ ڈیجی نظر آنے لگا۔ بھاگم بھاک اس کی طرف لپکے۔
قلعہ کوٹ ڈیجی
یہ قلعہ سندھ کے حکمران ٹالپر خاندان کا تھا اور غالبا صرف فوج کے لئے استعمال ہوتا تھا، جس میں جابجا چوکیاں، فصیلیں، سیکورٹی ٹاور بنائے گئے تھیں۔ یہ قلعہ اتنا بڑا ہے کہ آپ تقریبا 4 گھنٹے لگا کر تسلی سے اسے دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ٹالپر حکمرانوں کا رہائشی محل الگ ہے اور ہڑپہ تہزیب کی نوادرات کا میوزیئم الگ کل ملا کر اگر آپ نے ایک دن میں سب کچھ دیکھ لیا تو گویا آپ نے کمال کردیا۔ ہم تو صرف 3 گھنٹے میں قلعہ اور اس کی چیدہ چیدہ جگہیں ہی دیکھ پائے، جس میں گھوڑوں کا اصطبل، حوض، ٹارچر سیل، عمر قید خانہ (جو کہ واقعی خانہ ہی تھا)، پھانسی گھاٹ، بادشاہ کے بیٹھنے کی جگہ، موسیقی کے پروگرام کے لئے مختص حصہ (موجودہ دور میں مختص کیا گیا) اور اسلحہ ڈپو، ٹاور، فصیلیں وغیرہ شامل ہیں۔ یہ عسکری حفاظت کے نکتہ سے زبردست قلعہ تھا اور کافی بڑا بھی۔
آج پیر کا دن تھا مگر پھر بھی دن کے بارہ بجے رش لگا پڑا تھا، ایک اسکول والے آئے ہوئے تھے، پھر نوجوان لڑکوں کی ٹولیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا (کچھ تو جیکب آباد سے آئے تھے) اور جس وقت ہم روانہ ہورہے تھے، اسوقت فیملیاں چلی آرہی تھیں۔ زیادہ تر لوگ اریب قریب ہی کے لگ رہے تھے۔
کوئی شرارت ہی کارفرما لگتی ہے کہ سندھ کو جان بوجھ کرپسماندہ رکھ کر کچھ شیطانی فوائد حاصل کئے جارہے ہوں۔ ورنہ عوام تو بڑی ہی محبت والی ہے پھر کیونکر لوگ رات تو رات دن میں سفر کرنے سے کتراتے ہیں، کیونکر سندھ کی پولیس باقی صوبوں سے زیادہ کرپٹ ہے؟
میں خود پہلے کبھی اندرون سندھ، بغیر مقامی رہبر کے نہیں گیا، مگر میں نے دیکھا سندھ میں بھی لوگ ویسے نہیں جیسا کہ ہم نے سن رکھا تھا، کوٹ ڈیجی کے لوگ واقعی بڑے پیارے ہیں، مجھے دکاندار، استاد، مقامی مزدور سے بات کر کے احساس ہوا کہ وہ واقعی خوش ہوتے ہیں، جب دور دراز سے لوگ ان کے علاقوں میں تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔ یہی محبت اور ربط واہی پاندی اور جوہی کے علاقوں میں بھی نظر آیا اور عزت و اکرام جو مٹھی میں ملی تھی وہ تو بس لاجواب تھی۔ بہاولپور اگرچہ سندھ میں نہیں ہے مگر، ہائے اس کا مقابل کوئ نہیں اب تک۔ جس مکینک محمد اکبر سے میں نے بہاولپور میں گاڑی کی مرمت کروائ تھی وہ روزانہ فون کرکے پوچھتا ہے کہ گاڑی صحیح چل رہی ہے یا نہیں
ھالا، سندھ
ارادہ تو خیرپور سے حیدرآباد جانے کا تھا مگر سوچا کہ ھالا کے دستکار بڑے مشہور ہیں تو عزیز و اقارب کے لئے کوئ انمول تحفے ہی لیتے چلیں، اس غرض سے ھالا میں داخل تو ہوگئے مگر شیخ گوگل میپ کا دماغ پورے دن چل چل کرشاید بہک کر تھک چکا تھا۔ لہذا مقامی بندے سے مارکیٹ کا اتا پتا معلوم کرکے پہنچے درگاہ کے قریب، گاڑی پارک کی سیدھے مارکیٹ میں۔ واہ بھئ، یہاں بھی فلسفہ نفرت غلط ثابت ہوا، کیا ملنساری اور خلوص، واہ۔
یہاں مخدوم سرور نوح رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ پر حاضری دینے گئے تو پولیس اور گارڈ سے اجازت لی اندر جانے کی تو انہوں نے کہا بلکل جاسکتے ہیں، انہوں نے میری تلاشی لی تو میں نے درخواست کی کہ بھائ اچھی طرح سے تلاشی لو، ساتھ ہی میں نے اہلیہ کا ھینڈ بیگ لیا اور ان سے درخواست کی کہ اس کی بھی اچھی طرح تلاشی لیں اور خدارا اس کو اپنی پریکٹس بنائیں، میں نے ان سے کہا کہ ہمیں تو یہ سب اس لئے کرنا چاہیئے کہ ہم تو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا شکار کئ سالوں سے ہیں، ناں کہ جب سو ڈیڑھ سو لاشیں گرجائیں اور تلاشی لیتے وقت ہم بندے کے ظاہری حلیہ سے بلکل متاثر نہ ہوں، ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھیں۔ اس مختصر سے لیکچر پر پولیس والوں نے بلکل برا نہیں منایا، بلکہ مزید عاجزی اور خلوص کے ساتھ خیرباد کہا۔ درگاہ میں جاکر فاتحہ پڑھی اور واپس دکان پر پہنچے۔
زنانہ سوٹ 800 روپے اور مردانہ سوٹ 600 روپے کا جو کہ اگر کراچی کی کسی بڑی دستکار کی دکان پر پہچے تو ہزاروں می بکے۔ یہ دکاندار ستر سال سے اس مارکیٹ میں ہے اور شروع دن سے ہے۔ اس نے بتایا کہ جنید جمشید اپنی حیات میں ھالا سے بھی کپڑے تیار کروایا کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ ایکسپورٹ کوالٹی ڈالنے کے لئے تھوڑا معاوضہ بڑھادیا جائے تو دنیا کے کسی کونے میں بھی ھالا کی چیزیں بک سکتی ہیں۔ ان ہی کی دکان سے سامان دبئ بھی جاتا ہے۔ میں نے جو چیزیں بہاولپور فرید گیٹ کے قریب ایک بڑی دستکاری کی دکان سے خریدی اس سے ملتی جلتی چیزیں یہاں تقریبا آدھی قیمت پر فروخت ہورہی ہیں۔
رات کو گیارہ بجے ھالا سے نکلے اور ایک گھنٹے میں حیدرآباد پہنچے اور سیدھا بریز فش پوائنٹ آٹو باھن روڈ پر رکے اور مشہور زمانہ مچھلی نوش فرمائ۔ وہاں کے گارڈ سے مشورہ کیا کہ کس ہوٹل میں رکیں، اس نے بتایا کہ یوں تو پیچھے علاقے میں بھی گیسٹ ہائوس ہیں مگر ان کی شہرت اچھی نہیں آئے دن پولیس کے چھاپے پڑتے ہیں، ہم کو ریلوے اسٹیشن پر موجود کسی ہوٹل میں رکنا چاہیئے۔ لہذا ہم نے مشورہ پر عمل کرنے میں ہی خیر سمجھی اور جا پہنچے سیدھے ریلوے اسٹیشن، ایک دو ہوٹل میں معلومات کی اور بلآخر ایک ہوٹل میں قیام کرلیا۔ اور یوں ہمارا ایک اور بے حد مصروف دن تمام ہوا۔
تصویر کشی حصہ:

Red Palace, Kachery Rd, Khairpur, Sind

Kot Diji Fort from distance

Kot Diji Fort Information
ہمارے مقامی گائڈ کے مطابق، پس منظر میں موجودہ ٹالپر خاندان کی رہائش گاہ ہے
Kot Diji Tower View From Another Tower
ٹارچر سیل

Torture Cell
ٹاور سے باغ کا نظارہ
A garden near Kot Diji Fort
ایک ٹاور سے دوسرے ٹاور پر نظر
Kot Diji Fort Outside
معصومانہ سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ پھانسی دینے والا سپاہی گر نہیں جاتا ہوگا؟ اور دوسری بات یہ کہ، پھانسی یافتہ مجرم تو ہارٹ اٹیک ہی سے مرجاتا ہوگا
زرا اونچائی پر غور فرمائیں

Hangman - Kot Diji
گائڈ کے مطابق ہرے برے علاقے میں نظر آنے والی عمارت، حاکم کا محل ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اس کا نام فیض محل ہے۔
Down from Kot Diji Fort
ڈجی کوٹ کا ذخیرہ آب

Water Reserve at Kot Diji
گائڈ کے مطابق یہاں حاکم بیٹھا کرتا تھا
Royal Sitting Area - Kot Diji
موجودہ دور میں اس چبوترے پر موسیقی کی محفلیں سجائ جاتی ہیں، جس میں مقامی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
Used for Musical Events - Kot Diji
پس منظر میں سڑک سے متصل ٹیلا دراصل دریائے سندھ کے قریب آباد ہڑپہ تہزیب کے کھنڈرات ہیں۔
Kot Diji Ancient Civilization Ruins from Kot Diji Fort
ٹاور سے ٹاور تک کا نظارہ
Kot Diji Fort Outside
غالبا گھوڑوں کا اصطبل
Kot Diji Stable
گارے/مٹی اور اینٹوں سے بنائ گئ دیواریں
Bricks & Mud - Wall at Kot Diji
فصیل کے نیچے کھڑکی والے کمروں میں موجود راہداری
Corridor Light & Design - Kot Diji Fort
بلکل نیچے محکمہ ثقافت کوٹ ڈیجی کا احاطہ ہے، غالبا یہاں کچھ نوادرات بھی یہیں، یا وہ الگ سے خزانہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
Archaeological Place - Kot Diji
خوبصورت ٹاور
Fort Tower from other tower
سزائے عمر قید پانے کے لئے لوگ یہاں ڈال دیئے جاتے تھے۔

Life edanger- Kot Diji

Entrance Gate - Kot Diji
یہاں دن کے وقت میں بہت ساری چمکادڑیں موجود ہوتی ہیں اور ایک شور و غل برپا کیا ہوتا ہے۔ انہی کی وجہ سے دیواریں اور چھتیں خراب ہیں۔
Roof Art - Kot Diji by Ahmed Memon, on Flickr
کوٹ ڈیجی قلعہ چھوڑنے کے بعد۔
Alta Vista - Khairpur District
گدھے کی سواری اور دنیا و مافیہا سے بے نیازی۔ اس بھائی نے تاڑ لیا کہ میں ان کی تصویر کے لئے بے قرار ہوں تو قریب آکر رکے اور جب میں نے تصویر لے لی تو پوچھا کہ ہوگیا، میں نے اثبات میں سر ہلایا تو چلتے بنے۔
Man & Donkey - Khairpur District
با بائے سورج انکل۔
اس وقت ہم بینظیرآباد (نوابشاھ) کے قریب سے گزر رہے تھے

Sunset in Benazirabad (Nawabshah), Sind
سندھی چائے والا

Chai Wala at Fazal Ganj, Khairpur, Sind
ھالا کے قصبے میں موجود مخدوم سرور نوح رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے مین گیٹ کے سامنے کھڑی موبائل

Police Van - Near Dargah, Hala, Sind
مزار میں موجود قبریں
Inside Shrine Makhdoom Sarwar Nooh RA - Hala, Sind
مزار میں مسجد، محراب کے پس منظر میں اولیا رح کی قبریں

Mosque in Shrine Makhdoom Sarwar Nooh RA - Hala, Sind
ھالا کی دستکاری اشیا کی مارکیٹ، مزار کے برابر گلی میں موجود ہے، اس ہی بازار کی سب سے پہلی اور قدیم ترین دکان۔

Handicrafts Shop - Hala, Sind