اسلام آباد تا ناران و خنجراب ٹورگائیڈ –
موسم گرما کے آغاز کے ساتھ لوگ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے نکلتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد سے خنجراب تک اپنے سفر کے تجربات لوگوں سے شیئر کیے جائیں تاکہ لوگوں کو سیر کی پلاننگ کرنے کے لیے ضروری معلومات میسر آسکیں اور وہ پریشانی سے بچ سکیں۔ یہ معلومات اگست 2016ء میں کی گئی سیر کی ہیں اور ممکن ہے کچھ امور میں حالیہ معلومات کی ضرورت ہو (مثلا کمرو ں کے ریٹس یا سڑکوں کی حالت) جس کے لیے کسی ٹور گائیڈ اور مینیجمنٹ کا کام کرنے والی کمپنی یا شخص سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
• سیر کا پلان (ٹور پلان)
– پہلا دن
اسلام آباد سے علی الصبح پانچ یا چھ بجے ناران کے لیے نکلنا چاہیے تاکہ آپ حسن ابدال و ایبٹ آباد کے ٹریفک رش سے بچ کر ڈھائی گھنٹے میں ایبٹ آباد کراس کر سکیں۔ ایبٹ آباد کراس کرکے مناسب جگہ دیکھ کر ناشتہ کرلیں۔ اگر آپ راستے میں بالاکوٹ، مکڑا ویو پوائینٹ و چند دیگر مقامات پر فوٹوگرافی کے لیے رکتے ہوئے بھی چلیں تو لگ بھگ آٹھ سے نو گھنٹے میں ان شاء اللہ باآسانی ناران شہر پہنچ جائیں گے۔ اسلام آباد سے ناران تک براستہ حسن ابدال یہ لگ بھگ 280 کلومیٹر کا سفر ہے (میری گاڑی کے سپیڈو میٹر کے مطابق)۔ ناران پہنچ کر ہوٹل میں سامان رکھیے اور شام کو دریائے کنہار پر وقت گزاریے۔
– دوسرا دن
دوسرے دن صبح ناشتہ کرکے بذریعہ جیپ پہلے لالہ زار جائیں جو ناران شہر سے کوئی 20 کلومیٹر کی مسافت پر ہے اور لگ بھگ 50 منٹ میں وہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ آخری پانچ کلومیٹر انتہائی دشوار اور ایڈونچر سے بھرپور سفر پر محیط ہیں جہاں صرف جیپ جاسکتی ہے۔ وہاں گھنٹہ دو (حسب شوق) گزاریں اور ناران واپس آجائیں۔ اب اسی روز جھیل سیف الملوک جائیے جو ناران شہر سے 9 کلومیٹر اور 40 منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہ سفر بھی بذریعہ جیب ہی ممکن ہے۔ وہاں دوپہر کا کھانا کھائیے، مرضی کے مطابق کچھ وقت گزاریے اور شام کو ہوٹل واپس آجائیے۔ یوں دوسرا روز ختم ہوا۔
– تیسرا دن
اس روز آپ کو ہنزہ کے شہر کریم آباد پہنچنا ہے جو ناران سے لگ بھگ 300 کلومیٹر اور دس سے گیارہ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ لہذا آپ کو صبح چھ بجے کے آس پاس نکلنا چاہیے۔ ناران سے لگ بھگ 50 کلومیٹر (ڈیڑھ سے دو گھنٹے) کی مسافت پر واقع مون ریسٹورنٹ سے ناشتہ کریں۔ یہ مقام بذات خود نہایت دلکش اور دیکھنے لائق ہے۔ اس سے چند کلومیٹر آگے تھوڑی دیر کے لیے للو سر جھیل پر رکیں، اس کے سولہ کلومیٹر بعد بابو سرٹاپ آتا ہے جہاں کچھ دیر ضرور رکنا چاہیے۔ یہ وادی کاغان کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اس کے بعد آپ چلاس کی طرف اترنا شروع کریں گے۔ چلاس چیک پوسٹ بابوسرٹاپ سے کوئی چالیس کلومیٹر دور ہے۔ ابتدائی بارہ سے تیرہ کلومیٹر کی اترائی بہت زیادہ ڈھلوان کی صورت میں ہے، لہذا پہلے اور دوسرے گیئر میں اتریں تاکہ بریک کا کم سے کم استعمال کرنا پڑے کیونکہ مسلسل زیادہ استعمال سے بریک شو نہایت گرم ہوکر کام کرنا چھوڑتے جاتے ہیں۔ چلاس چیک پوسٹ پر پہنچ کر اب آپ دائیں طرف مڑ کر شاہ راہ قراقرم پر چلتے ہوئے رائے کوٹ پل کی طرف چلیں گے جو 50 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ سڑک کا یہ حصہ کافی خراب ہے اور آپ کو ڈیڑھ گھنٹہ لگے گا (ناران سے بابو سر ٹاپ تک سڑک بھی کئی مقامات پر خراب ہے)۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ناران سے بابوسر ٹاپ نیز چلاس سے رائے کوٹ تک کا سفر کافی تھکادینے والا ہے۔ البتہ بابوسرٹاپ سے چلاس تک سڑک بہت عمدہ ہے۔ رائے کوٹ پل کے بعد بہترین کارپٹڈ سڑک شروع ہوجاتی ہے جو گلگت، ھنزہ و خنجراب تک جاتی ہے۔ اگر آپ ستر اسی کی سپیڈ سے اور مناسب مقامات پر فوٹو گرافی کے لیے رکتے ہوئے بھی چلتے جائیں تو شام پانچ چھ بجے تک باآسانی ہنزہ پہنچ جائیں گے۔
دوپہر کے کھانے اور نماز کے لیے آپ گلگت شہر رک سکتے ہیں۔ البتہ گلگت سے کوئی 30 کلومیٹر قبل آپ کو جگلوٹ کے مقام پر رکنا چاہیے جہاں دریائے سندھ و گلگت نیز ہندوکش، ہمالیہ و قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہ مقام عین شاہراہ قراقرم پر واقع ہے اور سائن بورڈ بھی لگا ہوا ہے۔ اسی طرح ہنزہ سے کوئی 30 کلومیٹر قبل راکا پوشی پہاڑ کے ویو پوائنٹ پر بھی رکا جاسکتا ہے۔ شام کو ہنزہ کے شہر کریم آباد کے کسی ہوٹل میں پڑاؤ ڈالیں۔ کریم آباد میں آپ کو کھانے کے اچھے پوائنٹس نہیں ملیں گے، بس دال سبزی پر گزارا کیجیے۔
– چوتھا روز
صبح سویرے کریم آباد شہر کا منظر انجوائے کیجیے۔ پھر ناشتہ کرکے خنجراب کے لیے نکلیں جو ہنزہ سے لگ بھگ 170 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ راستے میں عطا آباد جھیل پر ضرور رکیے جو کریم آباد شہر سے کوئی 25 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ پھر 25 کلومیٹر مزید آگے پاسو کونز (کون نما پہاڑ) آئیں گے اور پھر اگلے 120 کلومیٹر اللہ کا ورد کرتے جائیے کیونکہ یہ بورنگ و ڈراؤنا سفر ہے۔ البتہ خنجراب پاس (پاک چین بارڈر) پہنچ کر آپ کو اچھا محسوس ہوگا۔ سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ انتہائی سرد مقام ہے، یہاں فیملی خصوصا بچوں کے ساتھ زیادہ دیر رکنا مشکل ہوتا ہے۔ واپسی کا سفر شروع کیجیے اور تین چار بجے تک واپس کریم آباد ہنزہ آجائیں۔ واپسی پر خنجراب سے کریم آباد تک ڈھائی سے تین گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا آپ واپسی پر سوست کے مقام سے کھا سکتے ہیں جو خنجراب سے کوئی 85 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کچھ تاریخی چیزیں دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو کریم آباد میں دو عدد قلعے (التیت و بلتیت فورٹس) دیکھ ڈالیے (یہ صرف شام پانچ ساڑھے پانچ بجے تک دیکھے جاسکتے ہیں)۔ مجھے دلچسپی نہ تھی لہذا میں نے یہ نہیں دیکھے۔
اب آپ نے واپسی کا سفر شروع کرنا ہے۔ سفر پر جاتے ہوئے یاد رکھیے کہ آپ جتنا دور جا رہے ہیں، آپ کو اتنا ہی سفر واپسی پر بھی کرنا ہے اور جانے کا سفر ختم ہونے پر آپ کو واپسی کا طویل سفر ایک انتہائی سخت مصیبت دکھائی دے گا۔ یہ احساس مجھے تب دامن گیر ہوا جب ہنزہ کے قریب میری گاڑی کا سپیڈو میٹر مجھے بتا رہا تھا کہ تم اپنے گھر سے 600 کلومیٹر دور ویران پہاڑوں میں اکیلے گھوم رہے ہو۔ چونکہ مجھ پر اور میری گھر والی پر یہ کیفیت سختی سے طاری تھی لہذا میں نے چوتھے ہی روز واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ ہم چوتھے روز صبح سامان گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر خنجراب کو نکلے کہ اگر وقت ہوا تو گلگت چلے جائیں گے اور میں نے ایسا ہی کیا۔ چوتھی رات ہم نے گلگت شہر میں گزاری۔ البتہ یہ ذہن نشین رکھیں کہ اس صورت میں آپ کو پہلے جاتے ہوئے کریم آباد سے خنجراب تک 170 کلومیٹر اور پر خنجراب سے گلگت تک 270 کلومیٹر واپسی کا سفر کرنا ہوگا، یعنی لگ بھگ 10 گھنٹے کی ڈرائیو۔
– پانچواں دن
اب اگر آپ چاہیں تو صبح پانچ یا چھ بجے ہوٹل سے گاڑی کی سلف ماریں اور رات آٹھ نو بجے تک (براستہ ناران و حسن ابدال) اسلام آباد آپہنچیں۔ میری گاڑی کے سپیڈو میٹر کے مطابق یہ لگ بھگ 480 کلومیٹر کا سفر ہے۔ ناشتہ آپ کہیں راستے میں کرلیں اور دوپہر کا کھانا ناران میں کرلیجیے۔ اگر آپ ڈرائیونگ کی اتنی مشقت برداشت نہیں کرنا چاہتے تو چوتھے روز ہنزہ میں ہی قیام کیجہے اور پانچویں روز ناران آکر رات رک جائیں اور پھر چھٹے روز اسلام آباد۔
ایک ممکنہ پروگرام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ چوتھے روز گلگت آجائیں اور پانچویں روز ناران کے بجائے شوگران رات قیام کیجیے۔ ناران سے بالاکوٹ کی طرف جاتے ہوئے لگ بھگ 60 کلومیٹر کی مسافت پر واقع کوائی کے مقام سے شوگران کے لیے اوپر راستہ جاتا ہے جو کل 7 کلومیٹر ہے۔ یہاں رات قیام کرنے کے بعد اگلی صبح بذریعہ جیپ سری پائے گھومیے جو خوبصورت مقام ہے۔ شوگران واپس آکر دوپہر کا کھانا کھائیے اور پانچ چھ گھنٹے میں اسلام آباد۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ واپسی پر سیر کے کسی نئے مقام کو پروگرام میں شامل کرنا مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ سب لوگ اکتاہٹ و تھکاوٹ کا شکار ہو چکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ چاہیں تو جاتے ہوئے پہلی رات شوگراں میں قیام کیجیے اور باقی سفر جوں کا توں رکھیے۔
• ہدایات و احتیاطیں
ٹور پلان کے بعد اب آئیے چند ضروری ہدایات کی طرف۔ اگر آپ فیملی کے ساتھ ہیں تو بالخصوص ان پر عمل کیجیے.
o پوری کوشش کیجیے کہ پہاڑی علاقوں میں تمام سفر دن کی روشنی میں کیا جائے، اس کے لیے صبح سویرے سفر کا آغاز لازم ہے.
o دو عدد چھتریاں بھی ساتھ لے لیجیے.
o سخت سردی سے بچاؤ کے لئے گرم کپڑے ضرور ساتھ رکھیے.
o کھانا، پانی و رہائش مناسب و صاف ستھرا رکھیے تاکہ صحت خصوصا پیٹ کے مسائل سے بچا جائے.
o فرسٹ ایڈ بکس میں تمام ضروری ادوایات (بخار، نزلہ، الرجی، درد، پیٹ خراب، سادہ سی اینٹی بائیوٹک، زخموں پر لگانے والی ٹیوب، آنکھ کان میں ڈالنے کے قطرے، زخم پر لگانے کی پٹی، سنی پلاسٹ وغیرہ) ساتھ لے کر چلیں۔ اگر آپ کسی بیماری (مثلا بلڈپریشر وغیرہ) کی کوئی خاص دوا استعمال کرتے ہیں تو گھر سے ہی لے کر نکلیں، راستے میں ملنے کی امید پر نہ چلیں۔ ناران و ہنزہ میں چند ضروری ادویات کے سواء دوا ملنا مشکل ہوتا ہے.
o تمام سفر میں پانی اور کچھ ہلکا پھلکا کھانے کا سامان گاڑی میں رکھیں، بسا اوقات کئی گھنٹے تک کوئی مارکیٹ نہیں آتی.
o گاڑی کی ضروری ٹول کٹ، جس میں سٹپنی، جیک، جیک راڈ، گاڑی کھینچنے والی رسی، کچھ ضروری آلات (سکریو ڈرائیور، پلاس، ٹیسٹر، دس و بارہ نمبر کی چابی وغیرہ) اور ممکن ہو تو ٹائر میں ہوا بھرنے والا پمپ شامل کریں.
o کوشش کیجیے کہ پٹرول کی ٹنکی کو ایک تہائی لیول سے نیچے نہ ہی جانے دیں، جہاں مناسب پمپ دکھائی دے پٹرول لے لیجیے۔ ممکنہ فلنگ پوائنٹس یہ ہوسکتے ہیں: بالاکوٹ، ناران (البتہ یہاں احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ سب پمپس کا پٹرول ٹھیک نہیں)، چلاس چیک پوسٹ سے پانچ کلومیٹر بعد پمپ، جگلوٹ و گلگت، کریم آباد ہنزہ سے پانچ کلومیٹر قبل علی آباد شہر (کریم آباد میں فلنگ سٹیشن نہیں ہے)، سوست۔ یاد رہے، سوست کے بعد خنجراب تک غالبا کوئی فلنگ سٹیشن نہیں.
o گاڑی کی سپیڈ مناسب رکھیں (مناسب کا مطلب وہ سپیڈ جس پر آپ اعتماد سے گاڑی چلا سکیں)، پہاڑی علاقوں پر اوور ٹیکنگ سامنے سے آنے والی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے کیجیے، بلائینڈ موڑ پر ہرگز نہیں.
o سفر سے قبل گاڑی کو اپنے مکینک سے مکمل طور پر چیک کرائیں، خصوصا اس کی سسپنشن، بریک، انجن اور پانی کی سرکولیشن کا نظام بالکل صحیح ہونا چاہیے.
o اس پورے سفر میں واپسی پر چلاس تا بابو سرٹاپ تک چالیس کلومیٹر مسلسل چڑھائی ہے۔ آخری بارہ تیرہ کلومیٹر کی چڑھائی خاصی سخت ہے، لہذا پہلے اور دوسرے گیئر میں چلنا ممکن ہے (اندازہ لگانے کے لیے یہ سمجھ لیں جیسے دامن کوہ سے مونال کی چڑھائی ہے)۔ اس مقام پر گاڑی گرم ہونے کا اندیشہ و امکان بھی ہوتا ہے، لہذا یہاں ہر دس سیکنڈ بعد نظریں گاڑی کا درجہ حرارت بتانے والی سوئی پر ڈالتے رہیں۔ اگر گاڑی گرم ہونے لگے تو ایک طرف پارک کرکے گاڑی کو کچھ دیر کے لیے کھڑا کرکے ٹھنڈا ہونے دیں۔ دھیان رہے، گرم گاڑی کے ریڈی ایٹر اور انجن پر پانی، خصوصا ٹھنڈا، ڈال کر گاڑی کو جلدی ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنا مناسب طریقہ نہیں۔ اگر گاڑی کا انجن زیادہ گرم ہو تو پانی ڈالنے سے اس کی ہیئت (shape) میں خرابی آنے کا اندیشہ ہوتا ہے (جیسے بہت گرم لوہے پر اگر آپ ٹھنڈا پانی ڈالیں تو وہ سکڑ و پھیل جاتا ہے)۔ گاڑی کا بونٹ اٹھا کر پندرہ بیس منٹ چھوڑ دیجیے۔
o رہی یہ بات کہ کون سی گاڑی اس سفر پر جانے لائق ہے، تو میں نے لینڈ کروزر سے لے کر سوزوکی مہران کو اس پورے سفر میں دیکھا ہے۔ اگر آپ کے پاس سوزوکی کی 650 سی سی گاڑی ہے تو اس کا انجن بھی مہران سے بہرحال طاقتور ہے (مہران گاڑی کا انجن 40 ہارس پاور جبکہ جاپانی 650 سی سی آلٹو کا انجن 47 ہارس پاور کا ہے)۔ ہاں، کوشش کیجیے کہ چھوٹی گاڑی پر زیادہ بندوں کا لوڈ نہ ہو، ورنہ چلاس سے بابو سر ٹاپ کی چڑھائی پر مشکل پیش آسکتی ہے اور آپ کو بار بار گاڑی ٹھنڈی کرکے راستہ عبور کرنا پڑے گا۔ ویسے آپ کو پورے سفر میں ہی درجہ حرارت کی سوئی پر گاھے بگاھے نظر رکھنا چاہیے کیونکہ اگر خدانخواستہ ایک مرتبہ گاڑی گرم ہوکر گیس کٹ جل گئی تو پھر ورک شاپ اور میکینک ملنا خاصا دشوار کام ہے اور آپ کا پورا دن ضائع ہوسکتا ہے، اور فیملی کی ٹینشن الگ۔ اسی طرح بابو سرٹاپ سے چلاس اترتے ہوئے بریک کا زیادہ استعمال کرنے کے بجائے گاڑی کو پہلے اور دوسرے گیئر میں رکھیں تاکہ بریک شو گرم نہ ہوں، جیسا کہ پہلے بتایا گیا۔ بریک کے زیادہ دیر مسلسل استعمال سے احتیاط کیجیے۔ اس ایک مقام کے سوا اس پورے سفر میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں کوئی چھوٹی گاڑی نہ جاسکے۔ خنجراب پاس کے قریب پہنچ کر بھی چند کلومیٹر تک کافی چڑھائی ہے لیکن وہ ایسی سخت نہیں۔ اسی طرح ناران سے بابوسرٹاپ جاتے ہوئے بھی آخری دو تین کلومیٹر زیادہ چڑھائی ہے.
o پہاڑی علاقوں پر ہر وہ شخص گاڑی چلا سکتا ہے جو کسی ہائی وے نیز آمنے سامنے چلنے والی ٹریفک والی سڑک پر پر اعتماد انداز میں گاڑی چلا سکتا ہے.
o جہاں کہیں خراب سڑک یا کھڈے آئیں جو اکثر آتے ہی رہتے ہیں تو گاڑی کی سپیڈ کم کرکے گزریں، تیزی سے گزارنے سے گاڑی کے سسپنشن میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ ویسے آپ کو اپنی گاڑی کے بارے میں تھوڑی بہت شد بد ہونا چاہیے۔ جاتے ہوئے گلگت کے مقام پر گاڑی کا سٹیئرنگ گھمانے سے مجھے گاڑی کے بائیں سسپنشن کی طرف سے کڑکڑ کی ہلکی سی آواز محسوس ہونا شروع ہوئی اور میں نے اندازہ لگایا کہ یہ بائیں شاک کی فاؤنڈیشن میں خرابی کی وجہ سے ہے۔ میکینک کو فون کرکے کنفرم کیا، اس نے کہا بہرحال چیک کروا لیں لیکن ٹینشن کی کوئی بات نہیں، آپ چلائیں اور واپس آ کر ہی ٹھیک کروائیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ گاڑی کے بارے میں کچھ نہ کچھ معمولی معلومات ہونا ایسے مقام پر آپ کے کام آسکتی ہے (مثلا یہ کہ اگر فین آٹو پر کام کرنا چھوڑ دے تو اسے ڈائریکٹ کیسے کرنا ہے. وغیرہ)
• اخراجات
اب آتے ہیں اس اہم سوال کی طرف کہ اس پوری سیر پر خرچہ کتنا ہوسکتا ہے۔ خرچے کا تخمینہ دو باتوں پر منحصر ہے: (الف) رہائش و خوراک وغیرہ سے متعلق آپ کی عادات، (ب) ٹور کن دنوں میں پلان کیا گیا یعنی سیزن کے دوران، پیک (peak) دنوں میں یا آف سیزن میں۔ میں چونکہ 14 اگست کے بعد گیا جو عام طور پر سیزن کا آخری حصہ شمار ہوتا ہے تو یہ تخمینہ اسی لحاظ سے دیا گیا ہے۔ سیر کے کل اخرجات کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (1) رہائش، (2) سواری/فیول، (3) کھانا۔ چوتھے کا ذکر میں آخر میں کرتا ہوں۔
(1) رہائش
ناران میں مناسب ہوٹل کا یومیہ کرایہ 1500 سے 2500 تک تھا (سیزن میں یہ 3000 سے 5000 تک ہوسکتا ہے)
ہنزہ میں فی یوم کرایہ5000 سے 10000 کے درمیان تھا۔ اگر آپ 2500 سے 3000 روپے کی اوسط کے حساب سے تخمینہ لگائیں، تو چار راتوں کا رہائشی خرچ دس سے بارہ ہزار روپے بنے گا
(2) سواری/فیول (پٹرول)
اسلام آباد سے خنجراب تک آنے جانے کا کل سفر لگ بھگ 1550 کلومیٹر ہے۔ آپ اپنی گاڑی کی فی لیٹر پٹرول اوسط کے حساب سے اندازہ لگالیں کہ کتنی مقدار و قیمت کا پٹرول لگے گا۔ اس وقت پٹرول کی قیمت تقریبا ہر جگہ 75 سے 77 روپے کے آس پاس ۔ میرے اندازے کے مطابق حالیہ قیمت کے حساب سے گیارہ ہزار کا پٹرول لگ جائے گا (الا یہ کہ آپ کے پاس کوئی ہائی برڈ کار ہو)۔ اس کے علاوہ آپ کو ناران سے لالہ زار اور سیف الملوک کے لیے جیپ بھی درکار ہوگی جو سیزن میں پانچ ہزار تک میں ملتی ہوتی ہے، مگر ان دنوں میں چار ہزار میں مل گئی تھی۔ عین قرین قیاس ہے کہ بچے لالہ زار میں گھوڑ سواری اور سیف الملوک میں کشتی رانی کی ضد کریں، تو ہزار روپے ان کے بھی شامل کرلیں۔ یہ بن گئے کل 15000 روپے۔
(3) کھانا پینا
اگر آپ میاں بیوی اور دو بچوں والی فیملی ہیں (دس سال کے لگ بھگ والے بچے) تو فی یوم 3000 تا 3500 تک کھانے کا خرچ کا تخمینہ رکھیں۔ یعنی پانچ روز کے بن گئے 15000 سے 17500۔
تو چار رات اور پانچ دن کے اس ٹور پر یہ تینوں قسم کے اخراجات ملا کر کل خرچ بنا اندازا 45000 روپے۔ آپ احتیاطا اسے پچاس ہی سمجھ لیں۔
(4) چوتھا اور اہم ترین خرچ آپ کی بیگم صاحبہ کی شاپنگ ہے جس کا تخمینہ اس دنیا کا کوئی انسان نہیں لگا سکتا، یہ سب کی اپنی اپنی قسمت کے کھیل ہیں۔ خوش رہیے!
شکریہ