اے پاک وھیلز کے امیروں، اما، تمھیں کیا معلوم غربت کیا ہوتی ہے، کہانی سنو، زبانی سنو۔
ایک بڑی ہی پیاری کورے تھی ۲۰۰۵ ماڈل کی، جس کو چلانے میں مزہ آتا تھا۔ جس دوست سے لی تھی، اُس نے بنک سے لون لے کر گاڑی لی تھی۔ اُس دوست کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اُس کے انتقال کے بعد اُس کے بڑے بھائی کے صرف پیر نہیں پکڑے باقی ساری منت سماجت کرکے دیکھ لی، کہ بھائی گاڑی کے کاغذات بنک سے نکلواکر دے دو، مُجھے پنجاب جانا ہے۔ لیکن وہ بھائی بل گیٹس سے زیادہ مصروف آدمی ہے۔ "نہیں" کبھی نہیں کہا، پر کبھی کاغذات بھی نہیں دلوائے، سالہا سال گزرگئے۔
کچھ مہینوں کے لیئے راولپنڈی شفٹ ہوا، تو کورے نہیں لے کر آیا کیونکہ میں نے انجن بھی نیا ڈلوادیا تھا، جبکہ ریکارڈ میں وہی پُرانا انجن نمبر ابھی بھی موجود تھا اور کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کی حدود میں پولیس کے گاڑی ضبط کرنے کا اندیشہ بڑھ گیا تھا۔ راولپنڈی میں بحریہ ٹاون میں پڑائو ڈالا، تو ایک سیکنڈ ھینڈ بائک خریدلی۔ کُچھ آسانی ہوگئی۔ پر سردیوں میں دُبک کر گھر میں بیٹھا رہا۔ بھائی دو دہائیوں میں کراچی میں پڑنے والی کُل سردی سے زیادہ سردی یہاں پنڈی میں ایک ہی دن میں پڑجاتی ہے
رمضان میں کراچی عید کرنے جانا تھا، تو ایک دوست سے تزکرہ ہوا۔ اُس کو بھائی بننے کا شوق ہے
لندن میں بیٹھ کر اُس نے کورے بِکوادی، اُس کی مہربانی، اور ساتھ میں ایک خیبر ۱۹۹۸ ماڈل کی دلوائی۔ یہ عقد بعد میں عیاں ہوا کہ وہ گاڑی نہیں، چلتی رینگتی میت تھی۔ بھائی اگر آپ کو غربت لاحق ہے، تو قطعئی ستائیس سال پُرانی گاڑی نہ لیجئے، آپ لاکھوں لگالو پر یہ اِدھر سے اُدھر سے، بے راگ الاپتی ہی رہے گی۔
میں کورے کو ذہن میں رکھ کرسارا کام کروایا، یہ پاکستانی قوم فلسطینیوں سے محبت کا جھوٹا دعوی کرتی ہے، ابے تُو پہلے پاکستانیوں سے تو محبت کرلے۔ کسی فنکار نے انجن میں گریس جیسی کوئی چیز ڈال رکھی تھی تاکہ آواز اور دھواں دب جائے۔ ہائے بلائیں لے لوں تیری فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے احتجاجوں پر۔
بہرحال سارے کام کروالیئے، اینڈروائڈ اِسکرین بھی لگوالیا، سامنے کا شیشہ بھی نیا لگوالیا۔ گلشنِ حدید تک ٹیسٹ ڈرائیو بھی کرلی۔ ریڈی ایٹر، ٹائر، غرض ہر چیز جہاں تک انسان کا خیال جاسکتا تھا ریپئر کروالیا۔
نہایت سادہ سا مطالبہ ہے میرا۔ روڈ ٹرپ پر مُجھے مزہ آتا ہے پر میں نہیں چاہتا حالات میرے مزے لیں۔ مُجھے نہیں معلوم تھا، اب کی بار مزے لینے کی باری حالات کی تھی۔
کراچی سے ابھی جامشورو مُڑا بھی نہیں تھا کہ مُجھے ریڈی ایٹر میں پانی کم محسوس ہوا۔ پوری سیہون روڈ جگہ جگہ گاڑی روک کر پانی ڈالتا گزرا۔ عظیم مِلت، دن کے بارہ بجے کاروبار شروع کرتی ہے، اس لیئے رستے بھر میں کوئی ریڈی ایٹر والا نطر نہیں آیا، یہاں تک کہ میں سیہون روڈ سے قاضی احمد والی روڈ پر آگیا۔ پہلا ریڈی ایٹر والا نظر آیا، وہیں گاڑی روکی۔ معلوم ہوا واٹر باڈی لیک کررہی ہے، تبدیل کروانی پڑے گی، سو کروالی۔ ٹوٹل چار ساڑے چار ہزار میں واٹر باڈی اور مزدوری دے کر ہم نکلے۔
ایک ہی جماعت پچھلے ۵۰ برس سے زیادہ حکومت میں ہے۔ درجن بھر ٹول ٹیکس (ستر روپے فی ٹول) اینٹھنے کے اڈے بنا رکھے ہیں۔ مورو سے آگے تو ایسا واہیات ٹول تھا، مُجھ سے رہا ہی نہیں گیا میں نے کیشئر کو کہا، ستر روپے تو لے رہے ہو، کم از کم یہ جو ٹول سے چار قدم پہلے والی روڈ مخدوش ہے اِس کو تو بنوالو۔ کہتے ہیں کہ وفاق پیسے نہیں دیتا اس لیئے ھائی وے نہیں بناسکتے۔ شہر کراچی کی سڑکیں تو تم ہی بنادو، سڑکیں نہیں بناسکتے تو گلیاں تو بنا ہی لو، یا وہ بھی وفاق کی زمہ داری ہے؟ اکیلا کراچی پورے پنجاب سے کُچھ بہت ہی کم، پر ٹیکس دیتا ہے، منہ کے فائر کے علاوہ کچھ نہیں کرنا انہیں۔ میرے گھر والے رہتے ہیں کراچی میں، محض اس لیئے بادلِ نخواستہ، کراچی جانا پڑتا ہے ورنہ کدو کبھی میری جوتی بھی کراچی نہ جائے، گڑہوں سے بھرپور سڑکیں، عزت، دولت غیر محفوظ۔
مورو پر سڑک کی حالت نہایت مخدوش تھی، ریڈی ایٹر میں پانی ابھی بھی وقتاً فوقتاً چیک کرہی رہا تھا۔ مورو سے کُچھ آگے ھائی وے جام تھی، کوئی سیاسی پارٹی کنال کے لیئے احتجاج ریکارڈ کروارہی تھی۔ اللہ جزائے خیرعطا فرمائے، ایک نیک دل وکیل نے فیملی دیکھ کر، گاڑی کے لیئے جگہ بنائی اور میں نکل پایا۔
اللہ اللہ کرکے کھجور کے درخت نظر آنے لگے۔ پر سکھر کے قریب تاحدِ نگاہ بڑے بڑے ٹرالر ساکت کھڑے تھے۔ تھوڑی دور اور بڑھے تو سکھر جانے والی روڈ پر گاڑی لے جانا ناممکن تھا، اس لیئے سکھر سے آنے والی سڑک پر گاڑی ڈال دی۔ پر یہ کیا، تھوڑی دور جاکر مزید ٹرالر یہاں بھی ساکت کھڑے نظر آئے، سکھر کی جانب منہ کرکے۔ اتنی ہی جگہ تھی کہ یا تو گاڑی آسکتی تھی یا جاسکتی تھی، اللہ اللہ کرکے یہاں سے بھی نکلے۔ ابھی سکھر میں داخل ہی ہورہے تھے کہ وکلا برادری کو کنال کے سلسلے میں روڈ بند کرکے احتجاج کرتے ہوئے پایا، اِدھر اُدھر کرکے گاڑی کو ٹریفک میں پھنسا کر اندرون سکھر سے گرزتے گرزتے کوئی پون گھنٹے بعد موٹروے پر پہنچے۔ اللہ کا شُکر ادا کیا۔ بیس تیس منٹ میں کوئی گاڑی گزرتی تھی، کوئی ہیوی ٹریفک نہیں تھا، نہ ٹرک نا بسیں، صرف پرائیوٹ گاڑیاں۔
ملتان پہنچ کر دم لیا، گاڑی چیک کی سب ٹھیک لگا، سرونگ ایریا میں ہی ھوٹل کا کمرہ لیا۔ دن بھر کے سفر کے بعد اے سی آن کرکے سوگئے۔ صبح اُٹھے ناشتہ کیا، اور روانگی کی تیاری شروع کی۔ فیملی کو وڈیو اور تصاویر کے زریعے خیروعافیت کی اطلاعات دیں۔ اور سفر کا آغاز کیا۔ نظر ٹمپریچر کے کانٹے پر تھی، جو اوپر ہی ہوئے جارہا تھا، اسپیڈ کم کرو تو نیچے آنے لگ جاتا، اس لیئے میں نے اسپیڈ کو ۸۰ سے ۱۰۰ کے درمیان ہی رکھی۔ پھر مُجھے شک ہوا کہ حالات پھر مزے لینے کے موڈ میں ہیں تو چیک کرنے کی غرض سے پٹرول پمپ کی جانب رُخ کیا ابھی پہنچا ہی تھا کہ گاڑی خود بخود بند ہوگئی۔ اندازہ ہوگیا تھا مُجھے۔ دیا کُچھ گڑبڑ ہے۔ دوپہر کا وقت تھا۔
موٹروے کی موبائل ورک شاپ مکینک سے بات چیت ہوئی، عقد کھلا کہ گیس کٹ اُڑ چکی ہے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ٹو کرنے والا ٹرک آیا، ہم میاں بیوی خیبر میں بیٹھے رہے، اُنہوں نے ٹرک کے اوپر گاڑی کو چڑھایا اور روانہ ہوگئے۔ کچھ آدھے گھنٹے بعد وہ ہمیں وہاڑی چھوڑ کر بھاگ نکلے، کوئی پیسے نہیں لیئے۔ مکینک کو اللہ نے فرشتہ بنا کر بھیجا، وہ اتفاقاً وہاں پر موجود تھا۔ اُس بیچارے نے بائک پر بیٹھ کر دھکا دیا اور قریبی موڑ پر اپنے ورک شاپ لے گیا۔ میں نے نوٹ کیا یہی وہ موڑ تھا جہاں سے وہ ٹو ٹرک ہمیں چھوڑ کر گزرا تھا، پتہ نہیں اُس کی کڈنی بک جاتی اگر وہ ورک شاپ پر ہی اتاردیتا، کچھ مزید سہولت مل جاتی۔ رات میں ورک شاپ سے متصل ہوٹل پر میں نے اُسی ٹو ٹرک ڈرائیور کو کھانا تناول کرتے دیکھا، مطلب یہ اُس کا مقامی علاقہ تھا۔ اللہ سب کو ھدایت دے، آمین، جانے لوگوں کی زندگی میں مُشکلیں کم کرنے میں کیا مشکل درپیش آتی ہے۔
بہرحال مکینک نے بتایا کہ واٹر باڈی ٹوٹ گئئ ہے۔ جی ہاں وہی جو میں نے قاضی احمد میں نئی والی لگوائی تھی۔ اِس ٹوٹ پھوٹ میں قاضی احمد والے مکینک کی غلطی نہیں تھی، واٹر باڈی کے نزدیک ایک پرزے کا نٹ بولٹ ڈھیلا ھوگیا تھا، اور اُس نے سندھ کی حکومت کو دہائی دیتے دیتے اپنا سر واٹرباڈی پر مار مار کر اُسے ہی توڑ دیا۔ کوئی بیس ہزار کے لگ بھگ خرچ ہوئے، آئل بھی ڈلوالیا، کیونکہ سب آئل پانی مل کر کاک ٹیل تیار ہوگیا تھا اندر۔ ٹیوننگ بھی کروالی۔ رات کے کوئی دس بجے گاڑی کو ٹیسٹ کیا اور واپس موٹروے پر سفر شروع کیا۔ حالات کونے میں کھڑے مُسکرارہے تھے۔ اُن کے ارادے دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے کہہ رہے ہوں، ابھی تفریح باقی ہے، میرے دوست۔
موٹروے پر ایک جگہ رُک کر رات کا کھانا کھایا۔ اور سفر جاری رکھا، مسلسل ٹمپریچر کے کانٹے پر نظر تھی۔ ایک سرونگ ایریا میں رُک کر گاڑی میں سونے کی کوشش کی۔ مگر وہاں کے مچھروں کو کراچی والوں کو اُنکی فضا میں سانس لیتے دیکھ اچھا نہیں لگا، اس لیئے وہاں سے نکل لیئے۔ سفر کرتے رہے کرتے رہے اور بالآخر سیال موڑ کے سرونگ ایریا میں گاڑی پارک کی، روشنی ہوچُکی تھی۔ گاڑی کو چادر اُڑھائی اور سولیئے گھنٹہ دو گھنٹہ۔ پہلی بار (پچھلے سال) سیال موڑ بہت اچھا لگا تھا، اس بار زہر، کیونکہ جو گولڈ لیف کا پیکٹ یہاں بحریہ میں پانچسو کا ملتا ہے وہ کراچی میں پانچسو تیس کا اور یہاں سیال موڑ پر آٹھ سو روپے سے کُچھ زیادہ کا، ہر چیز ہی مہنگی ہے۔ بٹ کڑھائی پر ناشتہ پھوڑا۔ گاڑی کے نیچے جھانک کر دیکھا، تھوڑا بہت پانی اور کُچھ آئل زمین پر پڑا نظر آیا۔ ریڈی ایٹر میں پانی ڈالا اور موٹروے پر سفر شروع کردیا۔
ابھی کوئی پانچ منٹ ہوئے ہونگے ٹمپریچر کا کانٹا پھر میٹر سے نکلنے کی کوشش کررہا تھا۔ جو موٹروے پر سب سے آہستہ رفتار والی لین ہوتی ہے، اُس کے بھی برابر والی کچی جگہ پر گاڑی بیس تیس کی رفتار سے چلانے لگا، کیوں ٹرالر بھی مُجھ سے تیز جارہے تھے، اور گاڑی مسلسل گرم ہوئے جارہی تھی ، ہر پانچ منٹ بعد پانی ڈالتا پر پانی کوئی خاص کم نہیں ہورہا تھا۔ اللہ اللہ کرکے کوٹ مومن آیا، اب تک اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ ہر انٹر چینج کے قریب کوئی نہ کوئی ورک شاپ ضرور ہوتی ہے۔ لہذا قریبی ورک شاپ پر اُتاری، بچے کو سمجھ نہیں آیا اُس نے استاد کو بلالیا۔ مجھے ٹائمنگ بیلٹ کے ساتھ والی بیلٹ گاڑی اسٹارٹ کرنے پر بھی ساکت نظر آئی تو میں نے بچے سے کہا اُس کو چیک کرو۔ وہی مسئلہ تھا، الحمدللہ۔ اُستاد بھی آگئے اُن کے مطابق وہاڑی میں جس مکینک نے کام کیا تھا اُس نے ڈبل گیس کٹ لگا کر اور ھیڈ کو مشین کے زریعے بف نہ کرکےغلطی کی تھی، جبکہ وہاڑی والے مکینک نے فون پر بتایا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ بہر حال بیلٹ چڑھی، گاڑی نے گرم ہونا چھوڑا تو یہ وہاڑی اور کوٹ مومن کے ٹام اینڈ جیری مکینک کی بحث بھی ختم ہوئی۔ ٹیسٹ کرنے کے لیئے بیگم کو لے کر تیزی سے گاڑی چلائی، پر اچانک سے سائلنسر نے نکل کر غُل غپاڑہ مچادیا، اور مُجھے کراچی کا شپاٹر بنادیا۔ قریبی سائلنسر والے کے پاس پانچسو دے کر ٹانکہ لگوالیا۔ اور واپس موٹروے پر سفر شروع ہوا۔
مُجھے ڈر تھا گاڑی کلر کہار کے پہاڑوں پر چڑھ پائے گی یا نہیں۔ ہر ایک سرونگ ایریا پر رُک کر پانی چیک کیا، گویا میں سنکی ہوگیا تھا، یوں سمجھ لیں حالات تو مستی کے موڈ میں تھے پر میرا بھروسہ اس گاڑی سے مکمل اُٹھ چکا تھا۔ بھیرہ کے سرونگ ایریا پر بے پرواہی سے میں نے عین نئی نویلی پراڈو اور ہنڈا سوک کے درمیان جاکر گاڑی لگادی۔ اتنا زیادہ اعتماد تو ھیڈ اینڈ شولڈر والی خاتون کو ڈینڈرف ختم ہونے پر بھی محسوس نہیں ہوتا ہوگا۔ گرمی کا اثر کم کرنے کے لیئے گاڑی کا بونٹ کھول دیا اور خود باتھ روم کا رُخ کیا۔ منہ ہاتھ دھو کر ایک بہت مہنگی سی چائے پی سُٹہ لگایا اور چائے ختم ہوجانے کے باوجود وہاں ویٹر کی غصیلی آنکھوں کو یکسر نظرانداز کیئے اُس وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ من کیا، چار سو روپے کی چائے پی کر گویا ہوٹل کا ہی مالک بن گیا ہوں۔ ایک خیال گزرا، موٹروے پر آنے کے بعد سے، اپنی گاڑی جتنی پُرانی دوسری گاڑی میں نے نہیں دیکھی تھی۔
اللہ نے فضل کیا، حالات کو لگام دی اور نہ صرف کلر کہار آرام سے طے کیا بلکہ حالات کے مزید تفریح لیئے بنا، پنڈی پہنچا۔ ایک جگہ رُک کے چا شا پینے کی کوشش کی نہیں ملی تو جوس پیا، بونٹ کھول رکھا تھا، پانی وانی سب سیٹ تھا۔ بونٹ کو بند کرنے کے لیئے تھوڑی اوپر سے چھوڑا اور یہ ھیڈ لائٹ ٹوٹی۔ میں نے اس طرح اظہار کیا کہ جیسے یہ میری گاڑی ہے ہی نہیں، مشکلیں اتنی پڑی مُجھ پہ کہ آسان ہوگئیں۔۔
ڈھائی دن کے انگریزی والے سفر کے بعد پہنچے بحریہ ٹاون فیز ۸۔
کوئی مہینہ بعد پنڈی پہنچے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی مکڑیوں نے چمٹ چمٹ کر، تھوک والی پپیاں لے لے کر والہانہ استقبال کیا۔ اندر کمرے میں تو پردے کے اوپر ہی ڈِکوری نے اپنا مٹی کا گھر بنا رکھا تھا۔ مُجھے اُس کو مجبوراً نکالنا پڑا کیونکہ وہ کرایہ بانٹنے سے انکاری تھی۔ میں نے اُس کا گھر بھی ناجائز تجاوزات کے عنوان پر مسمار کردیا۔
اس سفر میں، تین مُختلف مکینکوں سے واسطہ پڑا۔ الحمدللہ، کسی نے بھی دو نمبری نہیں کی۔ اپنے تئیں، اپنے علم اور تجربہ کی بُنیاد پر ہر ایک نے کوشش کی، کہ مسئلہ جڑ سے حل ہوجائے۔ ہر ایک مکینک نے اِس بات کا خیال رکھا کہ فیملی ہے، اِن کا کام پہلے کردو۔ اللہ سبحانہ تعالی اِن تمام بھائیوں کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
جن جن بھائیوں کے ٹشو، آنسو پونچھتے پونچھتے بھیک چُکے ہیں، بھائیوں یہ صرف ٹریلر تھا۔ ابھی تو آپ نے مُجھے گندی گندی گالیاں دینی ہیں، جب میں آپ کو یہ بتائوں گا کہ دو تین ہفتہ بعد اِس ہی گاڑی میں ایوبیہ بھی گیا تھا، بیگم کو ساتھ لے کر، رات ساڑھے نو بجے پہنچے تھے۔ پر کیونکہ ہم سب شریف لوگ ہیں، ہم گالیاں سُننا پسند نہیں کرتے، اس لیئے میں آپ کو ایوبیہ والے سفر کے بارے میں قطعئ بھنک بھی نہیں پڑنے دونگا۔
اللہ سبحانہ تعالی ہمیشہ ہم سب کو حالات کی تفریحوں سے بچا کر رکھیں، آمین، ثم آمین۔