اے پاک وھیلز کے امیروں، تمھیں کیا معلوم غربت کیا ہوتی ہے، کہانی سنو، زبانی سنو، آئو۔
ایک بڑی ہی پیاری کورے تھی، جس کو چلانے میں مزہ آتا تھا۔ جس دوست سے لی تھی، اُس نے بنک سے کار لون لے کر گاڑی لی تھی۔ اور پھر میرے اُس دوست کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اُس کے انتقال کے بعد اُس کے بڑے بھائی کے صرف پیر نہیں پکڑے ساری منت سماجت کرکے دیکھ لی کہ بھائی گاڑی کے کاغذات بنک سے نکلواکر دے دو۔ لیکن وہ بھائی بل گیٹس سے زیادہ مصروف آدمی ہے۔ "نہیں" کبھی نہیں کہا، پر کبھی کاغذات بھی نہیں دلوائے۔
کچھ مہینوں کے لیئے راولپنڈی شفٹ ہوا، تو کورے نہیں لے کر آیا کیونکہ میں نے انجن بھی نیا ڈلوایا تھا اور کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کی حدود میں پولیس کے گاڑی ضبط کرنے کا اندیشہ بڑھ گیا تھا۔ راولپنڈی میں بھی بحریہ ٹائون میں پڑائو ڈالا، تو ایک سینکڈ ھینڈ بائک خریدلی۔ کُچھ آسانی ہوگئی۔ پر سردیوں میں دبک کر گھر میں بیٹھا رہا۔
پھر رمضان میں کراچی عید کرنے جانا تھا، تو ایک دوست سے تزکرہ ہوا۔ اُس کو بھائی بننے کا شوق ہے
لندن میں بیٹھ کر اُس نے کورے بکوادی، اُس کی مہربانی، اور ساتھ میں ایک خیبر ۱۹۹۸ ماڈل کی دلوادی۔ یہ عقد بعد میں عیاں وہ گاڑی نہیں، میت تھی۔
میں کورے کو ذہن میں رکھ کرسارا کام کروایا، یہ پاکستانی قوم فلسطینیوں سے محبت کرتی ہے، تف ہے، پہلے پاکستانیوں سے تو محبت کرلے۔ کسی فنکار نے انجن میں گریس جیسی کوئی چیز ڈال رکھی تھی تاکہ آواز اور دھواں دب جائے۔ بہرحال سارے کام کروالیئے، اینڈروائڈ بھی لگوالیا، سامنے کا شیشہ بھی نیا لگوالیا۔ گلشنِ حدید تک ٹیسٹ ڈرائیو بھی کرلی۔ ریدڈی ایٹر، ٹائر، غرض ہر چیز جہاں تک انسان کا خیال جاسکتا تھا کروالیا۔
نہایت سادہ سا مطالبہ ہے میرا۔ روڈ ٹرپ پر مُجھے مزہ آتا ہے۔ میں نہیں چاہتا حالات میرے مزے لیں۔ پر مُجھے نہیں معلوم تھا، اب حالات کی باری تھی مزے لینے کی۔
کراچی سے ابھی جامشورو مُڑا بھی نہیں تھا کہ مُجھے دیڈی ایٹر میں بانی کام محسوس ہوا۔ میں نے پورا سیہون روڈ جگہ جگہ گاڑی روک کر بانی ڈالتا گزارا۔ عظیم مِلت دن کے بارہ بجے کاروبار شروع کرتی ہے، اس لیئے رستے بھر میں کوئی ریڈی ایٹر والا نطر نہیں آیا، یہاں تک کہ میں سیہون روڈ سے قاضی احمد والی روڈ پر آگیا۔ پہلا ریڈی ایٹر والا نظر آیا، وہیں گاڑی روکی۔ معلوم ہوا واٹر باڈی لیک کررہی ہے، تبدیل کروانی پڑے گی۔ ٹوٹل چار ساڑے چار ہزار میں واٹر باڈی اور مزدوری دے کر ہم مزے مزے سے نکلے۔
ایک ہی جماعت پچھلے ۵۰ برس سے زیادہ حکومت میں ہے۔ کہتے ہیں کہ وفاق پیسے نہیں دیتا اس لیئے ھائی وے نہیں بناسکتے۔ شہر کراچی کی سڑکیں تو تم ہی بنادو، سڑکیں نہیں بناسکتے تو گلیاں تو بنا ہی لو، یا وہ بھی وفاق کی زمہ داری ہے۔ اکیلا کراچی پورے پنجاب سے کُچھ بہت ہی کم پر ٹیکس دیتا ہے، پر منہ کے فائر کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ میرے گھر والے ناں رہتے ہوں تو میں کدو کبھی کراچی نہ جائوں، گڑہوں سے بھرپور سڑکیں، عزت، دولت غیر محفوظ، تف ہے۔
بہر حال مورو پر سڑک کی حالت مخدوش تھی، ریڈی ایٹر میں پانی ابھی بھی وقتاً فوقتاًچیک کرہی رہا تھا۔ مورو سے کُچھ آگے ھائی وے جام تھی، کوئی سیاسی پارٹی کنال کے لیئے احتجاج ریکارڈ کروارہی تھی۔ اللہ جزائے خیرعطا فرمائے، ایک نیک دل انسان نے فیملی دیکھ کر، گاڑی کے لیئے جگہ بنائی اور میں نکل پایا۔
اللہ اللہ کرکے کھجور کے درخت نظر آنے لگے۔ پر سکھر کے قریب تاحدِ نگاہ بڑے بڑے ٹرالر ساکت کھڑے تھے۔ تھوڑی دور اور بڑھے تو سکھر جانے والی روڈ پر گاڑی لے جانا ناممکن تھا، اس لییئے سکھر سے آنے والی سڑک پر گاڑی ڈال دی۔ پر یہ کیا، تھوڑی دور جاکر وہ ٹرالر یہاں بھی ساکت کھڑے تھے، سکھر کی جانب منہ کرکے۔ اتنی یہ جگہ تھی کہ یا تو گاڑی آسکتی تھی یا جاسکتی تھی، اللہ اللہ کرکے یہاں سے نکلے۔ ابھی سکھر میں داخل ہی ہورہے تھے کہ وکلا برادری کو کنال کے سلسلے میں روڈ بند کرکے احتجاج کرتے ہوئے پایا، تو ادھر اُدھر کرکے گاڑی کو ٹریفک میں پھنسا کر کوئی پون گھنٹے بعد موٹر وے پر پہنچے۔ اللہ کا شُکر ادا کیا۔ بیس تیس منٹ میں کوئی گاڑی گررزتی تھی، کوئی ھیوئی ٹریفک نہیں تھا، نہ ٹرک نا بسیں، صرف پرائیوٹ گاڑیاں۔
ملتان پہنچ کر دم لیا، گاڑی چیک کی سب ٹھیک لگا، ھوٹل لیا سرونگ ایریا میں۔ دن بھر کے سفر کے بعد اے سی آن کرکے سوگئے۔ صبح اُٹھے ناشتہ کیا، اور روانگی کی تیاری شروع کی۔ فیملی کو وڈیو اور تصاویر کے زریعے خیرو عافیت کی اطلاعات دیں۔ اور سفر کا آغاز کیا۔ نظر ٹمپریچر کے کانٹے پر تھی، جو اوپر ہی ہوئے جارہا تھا، اسپیڈ کم کرو تو نیچے آنے لگ جاتا، اس لیئے میں نے اسپیڈ کو ۸۰ سے ۱۰۰ کے درمیان ہی رکھی۔ پھر مُجھے شک ہوا کہ حالات پھر مزے لینے کے موڈ میں ہے تو چیک کرنے کی غرض سے پٹرول پمپ کی جانب رُخ کیا ابھی پہنچا ہی تھا کہ گاڑی خود بخود بند ہوگئی۔ اندازہ ہوگیا تھا مُجھے۔ دیا کُچھ گڑبڑ ہے۔ دوپہر کا وقت تھا۔
موٹروے کی موبائل ورک شاپ مکینک سے بات چیت ہوئی، عقد کھلا کہ گیس کٹ اُڑ چکی ہے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ٹو کرنے والا ٹرک آیا، ہم میاں بیون خیبر میں بیٹھے رہے، اُنہوں نے ٹرک کے اوپر گاڑی کو چڑھایا اور گاڑی میں ہم بیٹھے تھے۔ کچھ آدھے گھنٹے بعد وہ ہمیں وہاڑی چھوڑ کر بھاگ گئے، کوئی پیسے نہیں لیئے۔ مکینک کو اللہ نے فرشتہ بنا کر بھیجا، وہ اتفاقاً وہاں پر موجود تھا۔ اُس بیچارے نے بائک پر بیٹھ کر دھکا دیا اور قریبی موڑ پر اپنے ورک شاپ لے گیا۔ میں نے نوٹ کیا یہی وہ موڑ تھا جہاں سے وہ ٹو ٹرک گزرا تھا، پتہ نہیں اُس کی کڈنی بک جاتی اگر وہ ورک شاپ پر ہی اتاردیتا۔ میں نے دیکھا وہی ٹرک ڈرائیور رات میں ورک شاپ سے متصل ہوٹل میں ہی کھانا تناول کررہا تھا۔ اللہ سب کو ھدایت دے، آمین، جانے لوگوں کی زندگی میں مُشکلیں کم کرنے میں کیا مشکل درپیش آتی ہے۔
بہرحال مکینک نے بتایا کہ واٹر باڈی ٹوٹ گئئ ہے۔ جی ہاں وہی جو میں نے قاضی احمد میں بناوائی تھی۔ مگر وہ مکینک کی غلطی نہیں تھی، واٹر باڈی کے نزدیک ایک پرزے کا نٹ بولٹ ڈھیلا ھوگیا تھا، اور اُس نے سندھ کی حکومت کو دہائی دیتے دیتے اپنا سر واٹر باڈی پر مار مار کر اُسے ہی توڑ دیا۔ کوئی بیس ہزار سے زیادہ خرچ ہوئے، آئل بھی ڈلوالیا، کیونکہ سب آئل پانی مل کر کاک ٹیل تیار ہوگیا تھا اندر۔ ٹیوننگ بھی کروالی۔ رات کے کوئی دس بجے گاڑی کو ٹیسٹ کیا اور واپس موٹروے پر سفر (انگریزی ولا) شروع کیا۔ حالات کونے میں کھڑے مُسکرارہے تھے۔ اُن کے ارادے دیکھ کر لگ رہا تھا، ابھی تفریح باقی ہے۔
موٹروے پر ایک جگہ سے کھانا کھایا رات کا۔ پھر سفر جاری رکھا، مسلسل ٹمپریچر کے کانٹے پر نظر تھی۔ ایک سرونگ ایریا میں رُک کر گاڑی میں سونے کی کوشش کی۔ مگر وہاں کے مچھروں کو کراچی والوں کو اُنکی فضا میں حصہ لیتے دیکھ اچھا نہیں لگا، اس لیئے وہاں سے نکل لیئے۔ سفر کرتے رہے کرتے رہے اور بالآخر سیال موڑ کے سرونگ ایریا میں گاڑی پارک کی، گاڑی کو چادر اُڑھائی اور سو لیئے گھنٹہ دو گھنٹہ بعد اُٹھے۔ پہلی بار سیال موڑ بہت اچھا لگا تھا، اس بار زہر، کیونکہ جو گولڈ لیف کا پیکٹ یہاں بحریہ میں پانچسو کا ملتا ہے وہ کراچی میں پانچسو تیس کا اور یہاں سیال موڑ پر آٹھ سے روپے سے کُچھ زیادہ کا۔ بٹ کڑھائی پر ناشتہ پھوڑا۔ گاڑی کے نیچے جھانک کر دیکھا، تھوڑا بہت پانی اور کُچھ آئل نظر آیا۔ پانی ڈالا اور موٹروے پر سفر شروع کردیا۔
ابھی کوئی پانچ منٹ ہوئے ہونگے ٹمپریچر کا کانٹا پھر میٹر سے نکلنے کی کوشش کررہا تھا۔ جو موٹروے پر سب سے آہستہ رفتار والی لین ہوتی ہے ناں، اُس کے بھی برابری والی کچی جگہ پر گاڑی بیس تیس کی رفتار سے چلانے لگا، کیوں ٹرالر تک مُجھ سے تیز جارہے تھے، اور گاڑی مسلسل گرم ہوئے جارہی تھی ، ہر پانچ منٹ بعد پانی ڈالتا پر پانی کوئی خاص کم نہیں ہورہا تھا۔ اللہ اللہ کرکے کوٹ مومن آیا، اب تک اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ ہر انٹر چینج پر کوئی نہ کوئی ورک شاپ ضرور ہوتی ہے قریب میں۔ لہذا قریبی ورک شاپ پر اُتاری، بچے کو سمجھ نہیں آیا اُس نے استاد کو بلالیا۔ مجھے ٹائمنگ بیلٹ کے ساتھ والی بیلٹ گاڑی اسٹارٹ کرنے پر بھی ساکت نظر آئی تو میں نے بچے سے کہا اُس کو چیک کرو۔ وہی مسئلہ تھا، الحمدللہ۔ اُستاد بھی آگئے اُن کے مطابق وہاڑی میں جس مکینک نے کام کیا تھا اُس نے ڈبل گیس کٹ لگا کر غلطی کی تھی، جبکہ وہاڑی والے مکینک نے فون پر بتایا کوئی مسئلہ ہی نہیں، ، ساتھ میں کوٹ مومن والے مکینک بھائ نے کہا اُنہوں نے بف صحیح سے نہیں کیا۔ بہر حال بیلٹ چڑھی گاڑی نے گرم ہونا چھوڑا تو یہ وہاڑی اور کوٹ ممون کے ٹام اینڈ جیری مکینک کی بحث بھی ختم ہوئے۔ ٹیسٹ کرنے کے لیئے بیگم کو لے کر تیزی سے گاڑی چلائی، اور اچانک سائلینسر نکل گیا، گویا میں اچانک سے کراچی کا شپاٹر بن گیا، گاڑی نے روڈ پر ایک شور مچایا ہوا تھا، قریبی سائلنسر والے کے پاس پانچسو دے کر ٹانکہ لگوالیا۔ اور واپس موٹروے پر سفر شروع ہوا۔
مُجھے ڈر تھا گاڑی کلر کہار کے پہاڑوں پر چڑھ پائے گی یا نہیں۔ ہر ایک سرونگ ایریا پر رُک کر پانی چیک کیا، گویا میں سنکی ہوگیا تھا، یوں سمجھ لیں حالات تو مستی کے موڈ میں تھے پر میرا بھروسہ اس گاڑی سے مکمل اُٹھ چکا تھا۔ مشکلیں اتنی پڑی مُجھ پر کہ آسان ہوگئیں۔ یعنی بھیرہ کے سرونگ ایریا پر تو میں نے عین پراڈو اور ہنڈا سوک کے درمیان جاکر گاڑی لاگئی، بونٹ کھول دیا۔ اور گرمی کا اثر کم کرنے کے لیئے باتھ روم کا رُخ کیا۔ منہ ہاتھ دھو کر ایک بہت مہنگی سی چائے پی سُٹہ لگایا اور چائے ختم ہوجانے کے باوجود وہاں ویٹری کی غصیلی آنکھوں کو یکسر نظرانداز کیئے اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ من کیا، چار سو روپے کی چائے پی کر گویا ہوٹل کا ہی مالک بن گیا ہوں۔ خیر سفر ڈر ڈر کے کیا۔ اور اللہ نے فضل کیا، حالات کو لگام دی اور نہ صرف کلر کہار آرام سے طے کیا بلک پورے ڈھائی دن بعد بالآخر مزید حالات کے تفریح لیئے پنڈی پہنے۔ ایک جگہ رُک کے چا شا پینے کی کوشش کی نہیں ملی تو جوس پیا، بونٹ کھول رکھا تھا، پانی وانی سب سیٹ تھا۔ بونٹ کو بند کرنے کے لیئے تھوڑی اوپر سے چھوڑا اور یہ ھیڈ لائٹ ٹوٹی۔ میں نے اس طرح اظہار کیا کہ جیسے یہ میری گاڑی ہے ہی نہیں، اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر پہنچا مغرب کے قریب۔
ڈھائی دن کا انگریزی والا سفر۔
جن جن بھائیوں کے ٹشو، آنسو پونچھتے پونھتے بھیک چُکے ہیں، بھائیوں یہ صرف ٹریلر تھا۔ ابھی تو آپ نے مُجھے گندی گندی گالیاں دینی ہے، جب میں آپ کو یہ بتائوں گا کہ دو تین ہفتہ بعد اِس ہی گاڑی میں ایوبیہ بھی گیا تھا، بیگم کو ساتھ لے کر۔ کیونکہ ہم سب شریف لوگ ہیں، ہم گالیں سننا پسند نہیں کرتے، اس لیئے میں آپ کو ایوبیہ والے سفر کے بارے میں قطعئ کچھ نہیں بتائوں گا۔
اللہ سبحانہ تعالی ہمیشہ ہم سب کو حالات کی تفریحوں سے بچا کر رکھیں، آمین، ثم آمین۔