haroonmcs26
(haroonmcs26)
#61
مورخہ 8 ستمبر 2019ء۔
ہم مسجد میں سو تو گئے تھے لیکن دل میں یہ ہی کھٹکا تھا کہ کہیں پمپ والے منع نہ کریں لیکن جب وہاں پمپ کے بھی چند افراد کو لیٹے دیکھا تو ہم بھی سو گئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد چھ بجے میں کھڑا ہوگیا ۔ دل تو کر رہا تھا کہ ابھی مزید سو جاؤں لیکن ہمارا سفر کافی پڑا تھا اور میرا ارادہ آج ہی کمراٹ پہنچنے کا تھا اور وہ مزید سو کر پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ شعیب کو بھی اٹھانے کے بعد میں صابن لیکر واش رومز کی طرف چلا گیا۔ واش روم سے بھی فارغ ہو کر بیسن پر منہ ہاتھ دھوئے اور باہر آ گیا۔ شعیب نے بھی وہاں کا رخ کیااور میں بیگ سے کنگھا تیل وغیرہ نکال کر حلیہ درست کرنے لگ گیا۔ کچھ دیر بعد شعیب بھی وہاں آ گیا۔ نیند چاہے تھوڑی ہی لی تھی لیکن طبیعت فریش ہو گئی تھی۔ شعیب بھی فریش موڈ میں تھا ورنہ مجھے اس کی ہی پریشانی تھی کہ اس کا پہلا بائک ٹور ہے کہیں تھکن وغیرہ سے بد دل نہ ہو جائے ۔ شعیب میرے ساتھ ایک بار گاڑی کے ٹور میں تو گیا تھا لیکن بائک اور گاڑی کے آرام میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن وہ ابھی تک قائم و دائم تھا۔ جب ہم بائک پر نکلنے کی تیاری کر رہے تھے وہ وہاں ایک کوسٹر میں ایک ٹور گروپ آیا جو کہ نو جوان لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل تھا ۔ میرے اندازے کے مطابق تو کسی یونیورسٹی کے طلبا ء و طالبات لگ رہے تھے۔ انھوں نے ہم سے تو بات نہیں کی لیکن ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ ہمیں بائکس پر دیکھ کر حیران ہو رہے تھے ۔ اب ان کو کیا پتا کہ سیاح تو ہوتا ہی سر پھرا ہے اور مزید کھل کر بات کی جائےتو عام لوگ تو ہم جیسے لوگوں کو پاگل ہی سمجھتے ہیں۔ وہیں پمپ سے میں نے اپنی بائک میں تین سو کا پٹرول ڈلوایا اور پھر دوبارہ سڑک پر آ گئے ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#62
اسی دوران بابر سے بھی رابطہ ہو گیا جس نے روات سے ہمارے ساتھ شامل ہو نا تھا ۔ اس کو ہم نے اپنی پوزیشن بتائی اور اسے روات جی ٹی روڈ پر پہنچنے کا کہا۔ بغیر رکے ہم روات پہنچے اور پھر بابر کو فون کیا تو اس نے کہا وہ کچھ آگے کھڑا ہے ۔ اس سے ملے اور سلام دعا کے بعد ارادہ کیا کہ کچھ آگے جا کر ناشتہ کیا جائے۔ بابر گھر سے ناشتہ کر کے آیا تھا۔ بابر کا تھوڑا سا تعارف کروا دوں کہ ویسے تو اس کا تعلق اوکاڑہ ساہیوال سائیڈ سے تھا لیکن جاب کے سلسلے میں اب اس نے رہائش کہوٹہ رکھ لی تھی اور فیملی کو بھی وہاں لے آیا تھا۔ اس سے رابطہ بائکرز کے ایک واٹس ایپ گروپ کے ذریعے ہو ا تھا۔ پنڈی کے پاس ایک جگہ روڈ کے ساتھ ہی بازار سا لگا ہوا تھا وہیں کھانے کے ٹھیلے بھی نظر آئے۔ ہم وہاں رک گئے تاکہ ناشتہ کر لیں کیونکہ اب تو بھوک بھی لگ رہی تھی۔ بابر نے ہمیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہاں لاہور والا ذائقہ نہیں ملے گا اور مجھے بھی اس کا احساس تھا لیکن پیٹ پوجا تو کرنی تھی نا۔ پہلے ٹھیلے کے پاس گئے اور اس کے چنوں کو دیکھا تو وہ شکل و صورت سے بے مزہ لگ رہے تھے ۔ دوسرے کے پاس گئے تو اس کے چنے بہتر نظر آئے۔ وہیں کرسیوں پر ڈیرہ ڈال دیا۔ ویٹر سے ریٹ کا پوچھا اور جیسے ہی اس نے ریٹ بتایا فوراً ہی دیگچوں کے پاس موجود شخص نے اونچی آواز میں مقامی زبان میں اس سے کچھ کہا ۔ میں بات تو مکمل نہ سمجھ سکا لیکن اتنا ضرور پتا لگ گیا کہ وہ ویٹر کو ڈانٹ رہا تھا کہ ریٹ کیوں بتایا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ وہی بات جو عام طور پر ہر سیاح کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ جب کہیں جاتا ہے تو زیادہ تر مقامی لوگ اس سے زیادہ پیسے اینٹھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی وہاں ہوا تھا۔ بہت سے مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاحوں کے پاس بڑا پیسہ ہوتا ہے اسی لئے وہ گھومنے پھرنے آتے ہیں لیکن انھیں کیا پتا کہ ہم بھی ان جیسے ہی لوگ ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں سے پائی پائی بچا کر اپنی دیوانگی سے مجبور ہو کر پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے میرا ہمیشہ یہ اصول ہوتا ہے کہ جہاں بھی کوئی چیز لو پہلے ریٹ ضرور طے کر لو۔ فی الحال میں نے اس شخص سے بحث نہ کی کہ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ریٹ تو مجھے پتا لگ ہی گیا تھا۔ چنے ویسے مزیدار تھے اور میں اور شعیب تین نان کھا گئے۔ بل دیتے وقت اس شخص نے اتنے ہی پیسے کاٹے جتنے ویٹر نے بتائے تھے شاید اس نے سوچا کہ ویٹر ریٹ پہلے ہی بتا چکا ہے اس لئے بحث مناسب نہیں۔ میرا خیال ہے کہ چنے اور تین نان کا بل کوئی ایک سو دس یا بیس روپے بنا۔ چائے کا یہ سوچا کہ کچھ آگے جا کر پئیں گے تاکہ کچھ فاصلہ بھی طے ہو جائے۔ ترتیب ہم نے یہ بنائی کہ شعیب کو آگے کر دیا اسکے بعد بابر اور پھر میں۔ شعیب کے پاس روڈ پرنس سیونٹی ، بابر کے پاس سوزوکی کی 185 سی سی ٹریل بائک اور میرے پاس سوزوکی سپرنٹر 110 سی سی ۔ بابر اور ہماری بائکس کا کوئی جوڑ نہیں تھا اس لئے کبھی تو وہ اتنا آگے نکل جاتا کہ ہمیں نظر ہی نہیں آتا اور کبھی پیچھے رہ جاتا اور سکون سے ایک آدھ سگریٹ پی کر دوبارہ ہمارے ساتھ شامل ہو جاتا۔ رفتار ہم لوگوں کی ساٹھ کے اوپر نیچے ہی تھی۔ پھر کبھی ترتیب بدل بھی جاتی میں آگے ہو جاتا پھر کبھی وہ دونوں۔ میں شعیب کو نظر میں رکھ کر چل رہا تھا کہ وہ ابھی نیا بندہ ہے بابر تو کئی ٹورز کر چکا تھا۔ اکوڑہ اٹک کے پاس ہم پنجاب سے کے پی کے کی حدود میں داخل ہو گئے ۔ اسی کے آس پاس ہم نے صاف و شفاف پانی کی دریا کی مانند ایک پختہ نہر بہتی دیکھی ۔ ہم پہلے تو اسے ہی دریائے سندھ سمجھے لیکن آگے جب دریائے سندھ پر پہنچے تو ہماری غلط فہمی دور ہو گئی۔ اس نہر کا پانی بہت صاف و شفاف اور خوبصورت لگ رہا تھا شاید وہ کسی ڈیم سے نکل کر آ رہی تھی۔
selman
(salman ahmed)
#63
bullet proof jacket lag rahi hai.... 
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#65
ہا ہا ہا۔ میری کمراٹ کی اس جیکٹ میں فوٹو دیکھ کر کچھ دوستوں نے کچھ ایسے ہی کمنٹ کیے کہ لگتا ہے کشمیر جا رہے ہو۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#66
شکریہ ۔ مجھے واقعی ہی اس نہر کا نام نہیں پتا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#67
اس نہر ( جس کا مجھے بعد میں نام غازی بروتھا پتا چلا) کے پاس سے آگے روانہ ہوئے اور آپس میں مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ کامرہ کے آس پاس کہیں چائے پیئیں گے اور میں نے کہا چائے کسی پر سکون سی جگہ پر پی جائے۔ کامرہ سے کچھ پہلے سڑک کنارے ایک پر سکون سا ہوٹل دیکھ کر رک گئے۔ بائک کو پارک کرنے کے بعد چائے کا آرڈر دیا اور میں نے واش روم کا رخ کیا۔ سیاحتی سفر کے دوران کہیں بھی اگر واش روم جیسی سہولت میسر آئے تو چاہے آپ کو معمولی سی بھی ضرورت ہو استفادہ کر لینا چاہیئے ورنہ بندہ اگر یہ سوچے کہ جب بس ہو جائے گی تو ہی واش روم کا رخ کیا جائے تو بعض اوقات بندہ بری طرح پھنس بھی جاتا ہے اور پھر اس چیز کا جادو اس کے سر چڑھ جاتا ہے اور وہ دیوانوں کی طرح جگہ ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ ماحول میں ابھی تک گرمی کا عنصر شامل تھا اس لئے ہم نے پنکھا چلوا دیا تھا۔ چائے پینے کا مزہ آ گیا اور ریٹ بھی مناسب تھا ۔ تین کپ چائے نوّے روپے کی پڑی۔ وقت تقریباً دس گیا رہ کا ہو گیا تھا اور ہم تقریباً صوبہ خیبر پختونخواہ کے آغاز میں ہی تھے اور ابھی تو بہت آگے جانا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#68
کامرہ سے کچھ آگے جا کر ایک پمپ سے سب نے پٹرول ڈلوایا دوسروں کا تو پتا نہیں لیکن میں نے چار سو کا پٹرول ڈلوایا ۔ میں مکمل ٹینکی فل نہیں کروا رہا تھا بلکہ ایک ڈیڑھ لٹر کی گنجائش ٹینکی میں رہنے دیتا تاکہ پٹرول چھلکے نہ۔ کامرہ سے آگے جا کر ہم دریائے سندھ کو کراس کرنے والے پل پر پہنچ گئے۔ اس سے پہلے میں کئی بار دریائے سندھ کو دیکھ چکا تھے صادق آباد سے آگے بھی اور گلگت بلتستان میں بھی لیکن جو اب دیکھ رہا تھا اس میں فرق تھا۔ پہلے میری عظیم دریائے سندھ سے جب بھی ملاقات ہوئی اس کا پانی مٹیالا تھا اور یہاں صاف و شفاف جس میں سفیدی کے ساتھ سبزی مائل نیلاہٹ نظر آ رہی تھی۔ خوبصورت نظارہ تھا۔ دریا کے اندر چھوٹی جزیرہ نما جگہیں بھی نظر آرہی تھی اور کسی پرانے پل کے باقی ماندہ ستون بھی نظر آ رہے تھے جبکہ وہ پل غائب تھا۔ دریا کے بائیں کنارے پر کچھ آگے ایک پرانے قلعے کے آثار بھی نظر آئے۔ بابر کے مطابق اس علاقے میں دریائے سندھ اور آس پاس کے علاقے کی زمین میں سونے کی آمیزش تھی لیکن اس کو نکالنے پر سرکاری پابندی تھی۔ ہمیں سونے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ہمیں تو دریائے سندھ کے رنگوں کی چاندی اور زمرد نے روکا تھا اور ہم نے کچھ دیر وہاں رک کر ان رنگوں کو آنکھوں کے ذریعے دل میں اتارا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#69
نوشہرہ کے پاس ایک چوک سے ہم نے جی ٹی روڈ کو چھوڑ کر مردان کی طرف دائیں مڑنا تھا لیکن ہم بے دھیانی میں آگے نکل گئے وہ تو شکر ہے کہ اتفاقاً پانی پینے کیلئے رکے اور ویسے ہی ایک مقامی شخص سے راستے کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ آپ مردان جانے والی سڑک کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ اگر اتفاقاً ہم پانی کیلئے نہ رکتے اور نہ ہی راستے کو پوچھتے تو ہم نے پشاور پہنچ جانا تھا ۔ ویسے تو پشاور سے بھی کمراٹ کی طرف راستہ نکلتا ہے لیکن فاصلہ طویل ہو جانا تھا۔ کچھ آگے سے یو ٹرن لیا اور جی ٹی روڈ کو چھوڑ کر مردان جانے والی سڑک پر چل پڑے۔ سڑک اچھی حالت میں تھی لیکن جی ٹی روڈ کی نسبت رفتار ذرا کم ہو گئی تھی لیکن سفر مسلسل جاری تھا ۔ راستے میں ہمیں کئی ٹورسٹ بائکرز ملے جن میں سے کچھ تو کمراٹ اور کچھ سوات جا رہے تھے۔ دونوں وادیوں کا راستہ مالا کنڈ ڈویژن کے شہر چکدرہ تک تو ایک تھا اس کے بعد راستے جد ا ہو جاتے ہیں۔ تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم مردان تھے۔ میٹر ریڈنگ 27103۔یعنی آج صبح سے ہم 251 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔کار کردگی زیادہ بری نہیں تھی۔ جب مردان میں داخل ہونے لگے تو ایک بڑا دروازہ بنا ہوا تھا جس پر لکھا تھا "مسکرائیے آپ مردان میں ہیں" اور میں نے تو مسکرانے کی بجائے اچھا خاصا قہقہہ لگایا۔ بعض اوقات ایک معمولی سی بات بھی سیاح کو فریش کر دیتی ہے۔ اب ہم آگاہی بورڈز پر تیمر گرہ کا راستہ ضرور دیکھ رہے تھے کیونکہ کمراٹ سے پہلے وہ ایک اہم شہر تھا۔ جب ہم مردان سے گزر رہے تھے تو شعیب اور بابر آگے تھے اور میں پیچھے تھا ۔ ایک چوراہے پر پہنچے تو وہ اس سے تیزی سے سیدھا گزر گئے۔ میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس کے مطابق تیمر گرہ کا راستہ دائیں طرف تھا اور اس وقت میں نے گوگل میپ بھی آن کیا ہوا تھا اس کے مطابق بھی دائیں طرف مڑنا تھا۔ میں دائیں مڑ کر رک گیا اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دونوں واپس مڑ کر آ جائیں۔ جب کافی دیر ہو گئی تو میں نے ان کو فون کرنا شروع کر دیا لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہے تھے۔ جہاں میں رکا ہوا تھا وہاں دھوپ بھی بڑی شدت کی لگ رہی تھی اور آرمرڈ جیکٹ پہن کر مجھے گرمی بھی بہت محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ دیر بعد شعیب کا فون آیا۔ میں نے کہا کہ کہاں چلے گئے ہو ہم نے دائیں مڑنا تھا لیکن وہ کہنے لگا کہ نہیں ہم نے مقامی لوگوں سے پوچھا ہے سیدھا ہی جانا ہے۔ کچھ دیر ہم میں یہ بحث چلتی رہی اور پھر میں ان کی طرف چل پڑا تاکہ مل کر یہ مسئلہ حل کیا جائے ۔ گوگل بی بی ابھی بھی اپنی بات پر مصر تھی کہ دائیں طرف ہی جانا ہے۔ وہ لوگ کوئی چار پانچ کلومیٹر آگے نکل گئے تھے ۔ ان کے پاس پہنچا تو بابر نے چیک کرنے کیلئے ایک چاول کی چھوٹی پلیٹ لی ہوئی تھی۔ یہ چاول چارسدہ کے مشہور موٹے چاول کہلاتے ہیں۔ ا ن کی ترکیب میں موٹے چاول، دال ،ریشے دار بڑا گوشت اور کچھ مصالحے شامل ہوتے ہیں۔ چاول کھچڑی کی طرح نرم تھے کھایا تو مجھے تو بڑے مزیدار لگے حالانکہ ہمارے پنجاب میں لوگ موٹے چاول کم ہی پکاتے ہیں لیکن ان کی یہ ڈش کمال کی تھی۔ چاول والا پیسے نہیں لے رہا تھا اسے زبردستی پچاس روپے دیئے ۔ وہاں پھر وہی بحث چھڑ گئی کہ سیدھا جانا ہے یہ واپس اسی چوک سے دائیں طرف۔ ہم نے دوبارہ مقامی افراد سے کنفرم کیا تو انھوں نے بھی سیدھا راستہ ہی بتایا ۔ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ گوگل بی بی موٹر وے والا راستہ بتا رہی تھی اور ظاہر ہے ہم بائکس کو موٹر وے پر تو لے جانے سے رہے۔ وہاں سے چلتے گئے اور ظہر کے وقت ہم درگئی پہنچ گئے ۔ درگئی کے بعد وہ پہاڑی علاقہ تھا جس کو کراس کرکے ہم نے مالا کنڈ ڈویژن میں داخل ہو نا تھا ۔ اس پہاڑی علاقے کی چڑھائی ایسی ہی تھی جیسے مری کی ۔ ہم تقریباً مسلسل ہی سفر میں تھے اس لئے میں نے ایک مسجد کے پاس بریک لگا دی تاکہ نماز ادا کر سکیں اور ساتھ ہی بائکس کو بھی ان چڑھائیوں سے پہلے کچھ آرام مل جائے۔ میٹر ریڈنگ 27145۔ جیکٹ ، نی پیڈ اور شوز اتار کر بائک کے اوپر رکھے اور بابر بائکس کے پاس کھڑا ہو گیا تاکہ ا ن کا خیال رکھ سکے جبکہ میں اور شعیب وضو کرکے نماز ادا کرنے لگے۔ سفر میں اللہ تعالیٰ نے نماز کے سلسلے میں بڑی آسانی رکھی ہے ایک تو نماز قصر یعنی مکمل کی بجائے مختصر نماز اور دوسرا ہم چاہیں توظہر اور عصر کی نماز کو اکٹھا کر سکتے ہیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نماز کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ آگے پتا نہیں کہاں بریک لگے اس لئے میں نے ظہر اور عصر اکٹھی کر لیں۔ جب ہم فارغ ہو گئے تو بابر نماز ادا کر نے چلا گیا۔ اس دوران ہم مسجد کی سیڑھیوں کی سائیڈ پر بیٹھ کر شوز وغیرہ پہننے لگ گئے۔ وہیں ایک ادھیڑ عمر شخص سے ملاقات ہوئی جس کا تعلق ضلع اوکاڑہ میں میرے آبائی گاؤں کے ساتھ والے گاؤں سے تھا ۔ جب اسے پتا چلا کہ وہ میرا آبائی گاؤں ہے تو پھر وہ منع کرنے کے باوجود کولڈ ڈرنکس اور گلاس لے آیا ۔ میں نے بھی بیگ سے بسکٹ کا ہاف رول نکال لیا ۔ اسی دوران ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔ وہ عرصہ دراز سے روزگار کے سلسلے میں وہاں رہائش پذیر تھا اور ایک گھی کی فیکٹری میں ملازم تھا اور وہ اپنے علاقے سے بہت دور پیٹ پالنے کیلئے نوکری کر رہے تھے اور کم از کم مہینے بعد ہی انکا چکر گھر لگتا تھا۔ سامنے سے درہ درگئی کے پہاڑ نظر آ رہے تھے اور ہمیں اپنی طرف بلا رہے تھے۔ اس شخص کا جسے وہاں حاجی صاحب کہہ کر بلا رہے تھے پر خلوص شکریہ ادا کر کے ہم ان پہاڑوں کی طرف چل پڑے۔
Mash'Allah haroon bhai bohat khoob safarnama chal rah hai bari dil jasb batein parhne ko milein hain, or same mere tours mein bhe aisa howa hai ke maqami bande ko pata lagta hai ke app naye ho or tour pe aye howe hain bari khatir dari karte hain yeh to hamare mulk ki sabse bari khasiyat hai ke hum mehman nawazi mein sab se agge hain
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#71
جزاکم اللہ ریحان بھائی۔ آپ نے بالکل درست فرمایا۔ دوران سفر آپ کو بہت سے پرخلوص لوگوں اور کچھ لالچی لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ ہر جگہ ہر رنگ ڈھنگ کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پر خلوص لوگ ہمیشہ دلوں میں خوشگوار اثرات چھوڑ جاتے ہیں اور لالچی لوگوں کے اعمال پر بھی پردہ ڈال دیتے ہیں۔
nagar1
(nagar1)
#72
Swat area k log boht mehman mawaz hain aur boht izzat krne wale
tourist
(tourist)
#73
Hotel walon aur drivers ko hatakay 
nagar1
(nagar1)
#74
Hm jb kumrat gae they sb drivers aur hotel walon ka attitude boht acha tha. Kumrat ,thal ,bahrain ,malam jabba ki baat kr raha hoon
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#75
ہر جگہ پر ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں چاہے وہ دنیا کا کوئی بھی علاقہ ہو۔ زیادہ تر میرا واسطہ اچھے لوگوں سے ہی رہا ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#76
درہ درگئی کے علاقے میں بابر آگے ، شعیب درمیان میں اور میں پیچھے تھا۔ سڑک بہترین بنی ہوئی تھی لیکن روڈ سنگل ہی تھا اس لئے اوور ٹیکنگ بہت دھیان سے کرنا پڑ رہی تھی۔ بلدار راستوں کی وجہ سے آگے سے آنے والی ٹریفک کا بہت خیال رکھنا پڑ رہا تھا۔ چند جگہوں سے شعیب نے نچلی سائیڈ سے ٹرکوں کو کراس کیا جس پر میں نے اسے تنبیہہ بھی کی۔ چڑھائی زیادہ نہیں تھی بس ایسے ہی جیسے مری کی چڑھائیاں ہیں لیکن بائک پہلے دوسرے گیئر میں ہی چل رہی تھی۔ سڑک مصروف تھی کیونکہ زیادہ تر لوگ وادی سوات اور کمراٹ جانے کیلئے یہی راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ چڑھائی کی وجہ سے ٹرک بڑی سست رفتاری سے حرکت کر رہے تھے اور اسی وجہ سے زیادہ رفتار بھی نہیں ماری جا سکتی تھی۔ درہ درگئی سے آگے راستہ مزید آسان ہو گیا اور رفتار میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ چھوٹی موٹی آبادیوں سے گزرتے ہوئے ہم باڈداں چوک پہنچ گئے۔ یہاں سے اگر سیدھا سفر جاری رکھا جائے تو سوات جا سکتے ہیں جبکہ بائیں طرف دریا کا پل عبور کرکے چکدرہ شہر میں داخل ہو کر آگے دیر کی طرف جا سکتے ہیں۔ہماری منزل ضلع دیر میں واقع وادی کمراٹ تھی اس لئے ہم بائیں طرف مڑ گئے۔ جب میں دریا کا پل عبور کر رہا تھا تو دریا کا خوبصورت منظر دیکھ کر میں نے پل پر ہی بائک کو روک دیا ۔ مجھے دیکھ کر شعیب نے بھی بریک لگا دی جبکہ بابر حسب معمول ہمیں دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دیر وہاں قیام کر کے ہم چکدرہ کے شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ میٹر ریڈنگ27175۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#77
چکدرہ اچھا خاصا شہر تھا اور ضروریات زندگی کی تقریباً ہر سہولت وہاں نظر آ رہی تھی۔ کئی اچھے سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کے کیمپس بھی وہاں نظر آ رہے تھے۔ دیر کے راستے میں اس طرح کے کئی شہر نظر آتے ہیں جیسے کہ کچھ پیچھے بٹ خیلہ تھا۔ ایک جگہ بابر کی بائک کو سڑک کنارے پارک دیکھ کر ہم نے بھی بریک لگا دیئے۔ بائک پر بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ تھکن کے اثرات ظاہر ہو رہے تھے اور بائکرز جانتے ہوں گے کہ بندہ بائک پر بیٹھے بیٹھے سب سے زیادہ کس بات سے تنگ ہوتا ہے۔ سوچا کہ کچھ دیر یہاں بیٹھ کر آرام کرکے پھر روانہ ہو ں۔ شعیب قریب ہی ایک چھلی والے سے تین مکئی کی چھلیاں بھنوا کر لے آیا۔ وہیں ایک منڈیر پر بیٹھ کر ہم چھلی کھانے لگ گئے۔ باقی رہ جانے والے سفر پر بھی تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ تیمر گرہ ابھی یہاں سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور تھا اور پھر وہاں سے دیر تقریباً ستر کلومیٹر اور دیر سے کمراٹ تقریباً نوے کلومیٹر۔ اگر تو میدانی علاقہ ہوتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن پہاڑی علاقے میں ہمیں اندازہ تھا کہ وادی کمراٹ تک تو آج پہنچنا بہت مشکل تھا لیکن ہماری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح دیر تک پہنچ جائیں اور رات وہاں گزاریں۔ شام ڈھلنا شروع ہو گئی تھی۔ تقریباً بیس منٹ وہاں آرام کرنے کے بعد ہم آگے روانہ ہو گئے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ اگلا قیام تیمر گرہ کیا جائے۔ تیمر گرہ سے کوئی دس کلومیٹر پہلے دریائے دیر کا ایک منظر دیکھ کر رک گئے اور وہاں تصویریں اتارنے لگے۔ وہیں ایک مقامی شخص شعیب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس کے گھر میں بہت خوبصورت پھول کھلے ہوئے ہیں وہ وہاں آ کر تصویریں اتار لے۔ اب اللہ ہی جانے اس کا کیا ارادہ تھا لیکن شعیب نے سہولت سے انکار کر دیا اور بعد میں مجھے ساری تفصیل بتائی۔ کچھ دلچسپ فقروں کا تبادلہ ہوا اور پھر ہم دوبارہ آگے چل پڑے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#78
تیمر گرہ سے پہلے ایک جگہ سے دو راستے نکل رہے تھے ایک سیدھا اور دوسرا تھوڑا بائیں طرف سے جا رہا تھا ۔ وہیں ایک بورڈ سے پتا چلا کہ سیدھے والا راستہ تیمر گرہ شہر سے گزر کر جاتا ہے اور تھوڑا بائیں والا بائی پاس ہے۔ ہماری منزل تیمر گرہ کی بجائے دیر تھی اس لئے شہر کے رش سے بچنے کیلئے ہم نے بائی پاس کا انتخاب کیا۔ تیمر گرہ کو کراس کرنے کے بعد ایک راستہ سیدھا دریا کے پل کے اوپر سے گزر رہا تھا اور دوسرا دائیں طرف دریا کے ساتھ ساتھ۔ ہم دائیں والے راستے پر مڑ گئے۔ بابر کافی دیر سے نظر نہیں آ رہا تھا اس لئے ہم نے اسے کال کی لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا۔ اسی دوران میرے موبائل کی بیٹری داؤن ہو گئی اور موبائل بند ہو گیا۔ اب ہمیں صحیح طرح پتا نہیں تھا کہ وہ آگے ہے یا پیچھے ۔ میں نے موبائل کو پاور بنک سے جوڑا اور کچھ دیر بعد کال کی اس نے جو پوزیشن بتائی وہ ہم سے قریب تھی اور کچھ دیر بعد وہ ہم سے آ کر مل گیا۔ میں نے پوچھا کہ پیچھے کیسے رہ گئےکیونکہ وہ توہم سے آگے تھے تو اس نے بتایا کہ وہ راستے میں کہیں رک گیا تھا لیکن ہماری نظروں میں نہیں آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہاں موبائل سگنلز کا کچھ پتا نہیں اس لئے ساتھ ساتھ چلے تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔ چھ بج چکے تھے اور اب رات کے سائے پھیلنا شروع ہو گئے تھے اور ابھی بھی ہم دیر سے تقریباً ستر کلومیٹر دور تھے ۔ آگے آگے بابر اور شعیب اور حسب معمول میں پیچھے۔ کچھ دیر کے بعد رات کا اندھیرا پھیل گیا اور اب ہمارا سفر رات کی تاریکی میں تھا ۔ سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اور سڑک کے آس پاس آبادی بھی بہت کم آ تی تھی۔ کافی فاصلہ طے کرکے ایک چھوٹی سی آبادی کے بازار میں رک کر ایک دوکان سے سو روپے میں مینگو جوس کا لٹر پیک اور گلاس لئے اور وہیں دوکان کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ جوس کسی نئی ہی کمپنی کا تھا کیونکہ ہمیں تو وہاں نیسلے وغیرہ کا جوس نظر نہیں آیا۔ جب تک ہم وہاں رکے رہے کافی مقامی جوان وہاں اکٹھے ہو گئے اور ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔ ان میں سے ایک نے ہمیں پیشکش کی کہ ہم رات اس کے گھر قیام کر سکتے ہیں لیکن ہم وہاں رک نہیں سکتے تھے اس لئے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا ۔ میری آرمرڈ جیکٹ ان کی نظروں کا مرکز بنی رہی۔ ایسی ہی کچھ صورتحال در گئی میں ہوئی تھی جہاں بچوں نے میری جیکٹ کو دیکھ کر کہا کہ کیا آپ جنگ لڑنے جا رہے ہیں؟ اور میں ان کے معصومانہ سوالات پر مسکراتا رہا۔ دیر کا تقریباً آدھا سفر ہم طے کر چکے تھے اور پچیس تیس کلومیٹر سفر رہ گیا تھا۔ میری بائک کی بریک تھوڑا مسئلہ کر رہی تھی اور اچھی پکڑ نہیں کر رہی تھی اس لئے میں نے رفتار مناسب رکھی ہوئی تھی جبکہ بابر اور شعیب کی رفتار تیز تھی اس لئے کئی بار وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتے لیکن اگر میں زیادہ پیچھے رہ جاتا تو شعیب کسی جگہ رک کر میرا انتظار کر لیتا تھا اور مجھے آتا دیکھ کر دوبارہ چل پڑتا۔ دیر سے دس پندرہ کلومیٹر پہلے سڑک کنارے بنے ایک کافی بڑے ہوٹل کے پاس ہم رک گئے۔ ہوٹل ٹرک ہوٹلوں جیسا تھا جہاں میزوں کے اردگرد چارپائیاں رکھی ہوئیں تھیں۔ پہلے ہمارا ارادہ بنا کہ رات کا کھانا یہاں سے کھا لیا جائے لیکن اگر ہم یہاں رک جاتے تو تقریباً ایک گھنٹہ ہمیں یہاں لگ جاتا اسلئے صرف وہاں کا واش روم استعمال کیا ۔ وہاں مقامی افراد سے آگے کے راستے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ دیر تو آگے ہے لیکن کمراٹ جانے والا راستہ یہاں سے دس منٹ کے فاصلے پر ہے اور جہاں سے کمراٹ کا راستہ نکلتا ہے اس جگہ کا نام چکیا تن ہے یہ سن کر تو ہم نے وہاں رکنے کا پروگرام بالکل کینسل کر دیا لیکن یہ ضرور پروگرام بنایا کہ واپسی پر یہاں سے مچھلی ضرور کھائیں گے کیونکہ وہاں اکثر لوگ مچھلی کھا رہے تھے اور ریٹ بھی بہت مناسب یعنی چار سو روپے کلو تھا۔ واقعی کچھ دیر بعد ہم چکیاتن پہنچ گئے۔ یہاں سے دیر ابھی بھی تقریبا ً دس کلومیٹر دور تھا ۔ چکیاتن کے مقام سے دائیں طرف وادی کمراٹ کا راستہ نکل رہا تھا اور مین روڈ دیر کی طرف جا رہا تھا۔ ہماری مقصد کمراٹ جانا تھا اس لئے ہم صر ف رات کے قیام کیلئے دس کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ صبح ہمیں پھر دس کلومیٹر واپس آنا پڑتا۔ چکیاتن تو رات کے اندھیرے میں کوئی آباد جگہ نظر نہیں آ رہی تھی وہاں صرف ایک بڑا سے دروازہ جس کا نام باب کمراٹ تھا بنا ہوا تھا۔ وہاں ایک مقامی شخص نے بتایا کہ کچھ آگے جا کر ہوٹل بنے ہوئے ہیں تو ہم نے سوچا کہ وہیں کسی مناسب جگہ پر کیمپ لگا لیں گے۔ راستہ بالکل سنسان تھا لیکن سڑک اچھی بنی ہوئی تھی ۔ دائیں طرف سے پانی کے تیز بہنے کی آوازیں آرہیں تھیں لیکن پہاڑ کی وجہ سے پانی نظر نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑا آگے ایک ہوٹل تھا لیکن اسکے آس پاس ہمیں کیمپ کیلئے کوئی بھی مناسب جگہ نظر نہ آئی صرف ہوٹل کے ساتھ مسجد کے سامنے تھوڑی سے جگہ تھی جہاں کیمپ لگ سکتا تھا لیکن یہ جگہ بالکل سڑک کے ساتھ تھی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ یا تو ہم جیسے تیسے کرکے وہیں کیمپ لگا لیتے یا پھر آگے روانہ ہو جاتے اور تقریباً بیس کلومیٹر آگے کمراٹ کے پہلے اہم مقام شرینگل میں جا کر کیمپ لگاتے۔ ہم لوگوں کی بس ہو چکی تھی اور نیند بھی آرہی تھی اس لئے یہ بیس کلومیٹر کا فاصلہ آسان نہیں تھا لیکن بادل نخواستہ ہم نے شرینگل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ راستے میں ایک پمپ دیکھ کر فیول ڈلوایا ۔ آگے پتا نہیں کیا صورتحال ہو اس لئے میں نے چھ سو روپے میں بائک کی ٹینکی تقریباً فل کروا لی ۔ باقی دونوں ساتھیوں نے بھی فیول ڈلوایا۔ راستے میں کبھی کبھی کوئی گاڑی ہمارے پاس سے گزر جاتی ورنہ ہم تھے اور وہ سڑک جو اس وقت بالکل سنسان تھی اوپر سے نیند بھی بہت تنگ کر رہی تھی لیکن شکر تھا کہ سڑک کی حالت بہترین تھی صرف کہیں کوئی چھوٹا موٹا حصہ خراب تھا۔ بالآخر ہم شرینگل پہنچ گئے ۔ نو بجے کے گرد کوئی وقت تھا۔ وہاں دو تین ہوٹل ہی کھلے نظر آرہے تھے لیکن بازار کافی بڑا تھا۔ وہاں ایک ہوٹل کے پاس بریک لگائی اور میں نے ساتھیوں سے کہا کہ ذرا آپ لوگ یہاں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں اور میں بائک پر آگے روانہ ہو گیا اور آخر تک بازار کا ایک مکمل چکر لگایا۔ یہ میرا طریقہ ہوتا ہے کہ جب کہیں کسی آبادی میں کیمپ لگانا ہو تو ایک چکر وہاں کا لگا کر کوشش کرتا ہوں کہ کیمپ کیلئے کسی شیڈ والی مناسب جگہ کا انتخاب کروں۔ ایک دو جگہیں ذہن میں رکھ کر میں واپس ساتھیوں کے پاس آ گیا۔ کھانے کا پتا کیا تو ایک دو ہوٹل پر ہی کھانا موجود تھا اور انتخاب بھی بہت محدود تھا۔ ایک ہوٹل پر دال ماش اور چکن پکا ہوا تھا ۔ دونوں سالن پر نظر دوڑا کر میرا ووٹ تو دال ماش کے حق میں تھا جس کو ساتھیوں نے بھی قبول کیا۔ جب تک دال ماش کو تڑکہ لگتا ہم نے ہوٹل کے واش روم استعمال کیا اورباہر لگے بیسن سے ہاتھ منہ دھوئے ۔ فرشی چبوترے پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ہم نے دال ماش کے ساتھ چھ روٹیوں کا آرڈر دیا تھا لیکن دو روٹیوں کے بعد ہی دونوں ساتھیوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کیونکہ ان پر بھوک کی بجائے نیند اور تھکن غالب تھی۔ میں نے تھوڑا کھانا اور کھایا لیکن ابھی بھی تین روٹیاں اور دال باقی بچی ہوئی تھی۔ میری کوشش تو ہوتی ہے کہ رزق ضائع نہ ہو لیکن باقی کھانے کو ختم کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ چائے کا پوچھا تو دونوں نے انکار کر دیا تو میں نے ایک کپ کا آرڈر دیدیا۔ کل بل اڑھائی سو روپے کا بنا۔ اسی دوران بابر ہوٹل والے سے کسی کیمپ کی جگہ کے سلسلے میں بات کرنے لگا۔ بابر متفکر تھا کہ کیمپ کہاں لگایا جائے شاید آبادی میں کیمپ لگانے کا اس کا پہلا تجربہ تھا لیکن میں اس سے پہلے بھی کئی دفعہ آبادی میں کیمپ لگا چکا تھا اور اسی لحاظ سے میں جگہ کا انتخاب بھی کر آیا تھا لیکن خاموش رہا کہ چلو بات کرنے دو۔ ہوٹل والے نے اس سے کہا کہ سامنے سڑک کنارے کیمپ لگا لو اور پھر اسے ایک بلڈنگ کی بیسمنٹ بھی دکھائی لیکن ان میں کوئی جگہ مناسب نہیں تھی۔ میں نے بابر سے کہا کہ آپ لوگ میرے ساتھ آؤ میں آپ کو جگہ دکھاتا ہوں اور میں انھیں اپنی منتخب کی ہوئی جگہ لے گیا۔ یہ جگہ دوکانوں کے آگے بناہوا شیڈڈ برآمدہ تھا جہاں بآ سانی کیمپ لگایا جا سکتا تھا ۔ انھوں نے بھی اس جگہ کو اوکے کیا تو ہم نے وہیں اپنا ٹینٹ لگایا اور بائکس کو بھی شیڈ کے نیچے کھڑا کر دیا۔ سامان ٹینٹ کے اندر شفٹ کیا اور سلیپنگ بیگز کھول لئے ۔ کچھ دیر بعد وہاں کا مسلح چوکیدار بھی آ گیا لیکن چند باتیں پوچھنے کے بعد اس نے ہم سے کوئی تعرض نہ کیا لیکن وہ رات وقتاً فوقتاً ہمیں چیک ضرور کرتا رہا ۔ نماز میں نے کیمپ کے اندر بیٹھ کر ہی ادا کی اور پھر ہم سو گئے۔
nagar1
(nagar1)
#79
Mera experience swat ka acha rah hai balke abhe tak sab se acha experience swat ka he rah hai