جناب حنیف بھٹی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پاک وہیل کے زریعے پاکستانی سیر و سیاحت کو نہ صرف پہلی بار متعارف کرایا بلکہ عوام الناس میں اس کا شوق پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔.کچھ تصاویر ہمارے پہلے تنہا سفر کی :
سوات کی وڈیو اپلوڈ کرنے کی کوشش ناکام ثابت ھو رہی ہے. پھر کوشش کروں گا
ذبردست ماشااللہ، آپ کی اگلی پوسٹ کا انتظار رہے گا
دوسرا تنہا سفر تھرپارکر ننگر پارکر وغیرہ
پہلے سفر کے 3 ماہ بعد ہی میں نے ایک بار پھر سے اکیلے سفر کی ٹھانی۔ بارشوں کے بعد تھر کا صحرا گلزار میں تبدیل ہو چکا تھا۔ سو میں نے اب کے تھر کا رخ کیا۔ راستے میں ٹنڈو آدم میں ایک دوست کے اصرار پر ان کے گھر رات قیام کیا۔ ان سے دوستی بھی تازہ تازہ ہوئ تھی۔ جب مری میں رات کے قیام کے بعد صبح اپنا سامان بائک پر باندھ رہا تھا تو یہ 4 لڑکے مجھے بغور دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے میرا انٹرویو شروع کردیا۔ کراچی سے یہاں تک بائک پر سفر نےانہیں حیران کردیا۔ اب ان کا تقاضہ چائے اور کھانے کا تھا۔ میری معذرت انہوں نے قبول نہیں کی اور چائے سے کم پر راضی نہ ہوئے۔ بعد میں وہ ہمارے گھر کراچی بھی آئے۔ ان کا اصرار تھا کہ ہم بھی ان کے گھر ضرور آئیں۔اگلے دن میرپور خاص ، عمر کوٹ، مٹھی، اسلام کوٹ وغیرہ سے ہوتے ہوئے رات قیام ننگرپارکر میں کیا۔ ننگرپار سے زرا پہلے ایک بہت بڑی جگہ پر لکڑی کا کارخانہ، چارپائ ہوٹل اور ایک ٹرک کھڑا تھا۔ ہم پانی پینے جب وہاں رکے تو ہمارا حلیہ اور بائک دیکھ کر چارپائ پر لیٹا ایک آدمی ہمارے پاس آیا اور بہ اصرار چائے کا آرڈر دیا۔ میں نے اس سے معذرت کی کہ کراچی جیسی کڑک چائے ( اور کھانے، اور مٹھائ وغیرہ وغیرہ بھی) ہمیں پورے ملک میں کہیں نہیں ملتی۔۔۔ اس پر اس نے خود اٹھ کر چائے بنائ جو قدرے بہتر تھی۔ اس آدمی نے جس کا نام طالب تھا نے رات کے کھانے پر ایڈوانس میں مدعو کیا جو ہم نے شکریہ کے ساتھ رد کر دیا۔ لیکن ننگر میں نماز مغرب کے بعد جب پتہ چلا کہ آس پاس کے ہوٹلوں کے مالک اور یہاں کی غالب آبادی ہندو ہے تو ہمیں واپس طالب کے پاس جانا پڑا۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ خود کچن میں گیا ہمارے لئے گرما گرم روٹیاں ڈالیں، پیاز کاٹی، دال گرم کی، اور بہ اصرار کھانا کھلایاجس میں نمک مرچ اور مصالحے بہت کم لیکن خلوص کی مقدار بہت زیادہ تھی۔کھانے کے بعد جب ہم نے پیسے دینے چاہے تو طالب ناراض ہو گیا اور تب ہمیں پتہ چلا کہ لکڑی کا کارخانہ، اس کے آگے کھڑا ٹرک اور یہ منجی ہوٹل کا مالک خود طالب ہے۔ گاوں کے اس پرخلوص دوست سے ہمارا رابطہ اب بھی ہے۔ یہ پرخلوص لوگ محبت کے بدلے میں صرف محبت طلب کرتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ سفر میں ہمیں ایسے لاتعداد مخلص دوست ملے۔ان سفر میں ٹنڈو جام تا میرپور خاص اور ننگر پار تا اسلام کوٹ ہم نے سفر صبح 4 بجے شروع کیا۔ ٹھنڈی ہوا کے مست جھونکے، سنسان اور تاریک راستے، اور روڈ کےدونوں جانب قد آدم جھاڑیاں ۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ آپ تنہا اس طرح نکلنے سے پرہیز کریں لیکن مجھے بہت لطف آیا۔ یوں بھی میں اپنے ہر سفر میں ہر ایک گھنٹے کے بعد راستے میں کسی بھی سایہ دار درخت کے تلے پاوں پسار کر لیٹ جاتا ہوں، بیگ سے جوس، بسکٹ، نمکو وغیرہ نکال کر چکھتا، اردگرد کے نظاروں سے توانائ کشید کر کے تازہ دم ہو کے سفر پھر سے شروع کر دیتا ہوں۔ میری نزدیک تفریح صرف منزل پر پہنچ کے نہیں کی جاتی ۔۔۔ بلکہ پورا سفر ہی تفریح ہے۔ مجھے کہیں پہنچنے کی جلدی نہیں ہوتی۔ کراچی کے آس پاس جب میں سفر کرتا ہوں تو راستے سے مرغی، مچھلی یا بکرے کا گوشت خرید کر کھانا بھی ہم خود پکاتے ہیں۔ full moon پر اکٹر ہماری راتیں ہاکس بے یا کلری جھیل پر گزرتی ہیں جہاں میں اور میرے دوست رات بھر گپ شپ کرتے ہیں، پرانے پاکستانی گانے سنتے ہیں، چائے کافی پیتے ہیں۔ چاند رات کے آخری پہر اتنے نیچے آ جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ بھی شریک محفل ہے۔ چاند، دریا یا سمندر کا کنارہ، جان سے پیارے دوست، نورجہاں مہدی حسن احمد رشدی مالا بیگم کے گانے اور دور تک پھیلی ہوئ چاندنی اور سکوت ۔۔۔۔۔۔ زرا تصور کریں ہم اپنے آپ کو کسی سلطنت کا شہزادہ محسوس کرنے لگتے ہیں جسے کوئ غم نہیں ہوتا بس عیش ہی عیش۔۔۔۔۔۔
تھر کے سفر کی کچھ تصاویر دریا سندھ
عمر کوٹ کے قلعے میں شاہی ہتھیار اور توپ ۔۔۔۔۔ کسی مرد مجاھد کی منتظر ہیں۔ قلعے کی دیواروں پر سیاسی اور لسانی نعرے لکھے ہیں
سرکاری ریسٹ ہاؤس