haroonmcs26
(haroonmcs26)
#263
کچھ اور آگے گئے تو کچی سڑک اترائی کی طرف جا رہی تھی اور وہاں ایک کھلی میدان نما جگہ پر جا کر ختم ہو رہی تھی اور اس سے آگے پہاڑ کی پیدل چڑھائی شروع ہو رہی تھی۔ اس میدان نما بیس کیمپ میں کئی خیمہ ہوٹل بھی نظر آ رہے تھے۔ ہوٹل والوں نے سر سبز گھاس کے قالین کے اوپر کرسیاں بھی رکھی ہوئیں تھیں۔ ہم نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا تھا سوچ یہ تھی کہ گنگا چوٹی کے راستے میں کر لیں گے لیکن ابھی تک ہمیں راستے میں کوئی ہوٹل نہیں ملا تھا۔ اب یہ خیمہ ہوٹل ملے تھے سوچا کہ پہلی چھوٹی پہاڑی کی چوٹی پر موجود خیمہ ہوٹل سے کچھ کھاتے ہیں کیونکہ وہاں سے اردگر د کے خوبصورت مناظر کا نظارہ بھی زیادہ اچھی طرح کیاجا سکتا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#264
پہاڑی نشیب و فراز پر بہت سی چراگاہیں نظر آ رہیں تھیں۔ اسکے بعد خیمہ ہوٹل سے ناشتے وغیرہ کا پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی آلو کے چپس کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ یہاں عام طور پر سیاح لنچ کرتے ہیں اور وہ ابھی تیار نہیں تھا ۔ خالی پیٹ ہم چٹ پٹے چپس کھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے اسلئے ناشتے کا پروگرام مؤ خر کر دیا لیکن سبق ملا کہ جب کہیں ٹریک کیلئے نکلو تو ناشتہ کرکے چلو کیونکہ پتا نہیں آگے کچھ ملے یا نہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#265
جب ہم وہاں رکے ہوئے تھے تو چار جوان العمر مقامی خواتین بھی وہاں پہنچیں جنھوں نے اپنے ساتھ اپنا کھانا بھی اٹھایا ہوا تھا۔ اگلی پہاڑی کی چڑھائی زیادہ عمودی تھی اورکوئی با قاعدہ راستہ بھی نہیں تھا جہاں جس کے سینگ سمائیں وہاں سے چڑھ دوڑے۔ جب چڑھنا شروع کیا تو پتا چلا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ پاؤں بڑی احتیاط سے جمانے پڑ رہے تھے کیونکہ پھسلنے کا بھی خطرہ تھا اور چڑھائی میں ٹانگوں کا زور بھی لگ رہا تھا۔ ان خواتین نے بھی ہمارے پیچھے پیچھے چڑھنا شروع کر دیا تھا۔ آدھی چڑھائی کے بعد سانس پھول گیا اور گھٹنے جواب دے گئے تو ہم سستانے کیلئے رکے تو وہ خواتین بھی وہاں ہی رک گئیں۔ اسی دوران ان سے کچھ گپ شپ بھی ہوئی جس کا آغاز بھی انھوں نے ہی کیا تھا۔ وہ چاروں خواتین جن کی عمریں بیس سے تیس کے درمیان تھیں ضلع باغ سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ اکیلی ہی گنگا چوٹی دیکھنے آ ئیں تھیں ۔ ہمت تھی ان کی ورنہ ہمارے علاقے کی خواتین اتنی ہمت نہیں کر سکتی تھیں کہ اکیلے ہی اتنی مشکل چڑھائیاں چڑھیں لیکن مقامی خواتین ان ہی پہاڑوں پر پل کر جوان ہوتی ہیں اس وجہ سے شاید ان کے لئے اتنا مسئلہ نہیں تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد دوبارہ پھر اوپر چڑھنا شروع کر دیا۔ وہ خواتین بھی ساتھ ساتھ تھیں اور ان سے ہلکی پھلکی بات چیت بھی جاری تھی۔ مشکل چڑھائی کے بعد جب چوٹی پر پہنچے تو وہ خواتین وہاں سستانے کیلئے رک گئیں ۔ آگے نظر دوڑائی تو ابھی گنگا چوٹی بہت دور تھی جبکہ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔ جس چوٹی پر ہم چڑھے تھے آگے اسکی کچھ اترائی تھی اور اسکے بعد اگلی چوٹی کی چڑھائی تھی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#266
پہلی پہاڑی کی اترائی کے بعد اگلی چوٹی کی چڑھائی شروع کی تو وہ بھی اتنی آسان نہیں تھی۔ وہ خواتین اب ہم سے کچھ پیچھے رہ گئیں تھیں۔ کچھ لوگ گنگا چوٹی کی طرف سے واپس آرہے تھے انھوں نے کہا کہ آگے ابھی کئی چوٹیوں کے بعد گنگا چوٹی ہے اور وہاں کچھ نہیں ہے بہتر ہے واپس مڑ جاؤ۔ وہ بھی منزل سے پہلے ہی مڑ آئے تھے۔ لیکن پہاڑی علاقے کی منزل کے متعلق میرا نظریہ مختلف تھا میں جانتا تھا کہ پہاڑی علاقے میں منزل کے متعلق یہ نہ سوچو کہ وہاں کوئی تاج محل بنا ہو گا بلکہ اس کے راستے سے لطف اندوز ہو جو کہ ایک آوارہ گرد کا اصل طریقہ ہے۔ دوسرا پھر پتا نہیں کب چکر لگے اس لئے میں گنگا چوٹی کے اتنا قریب آ کر ویسے ہی واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ دوسری مشکل چڑھائی پر بھی کچھ سستانے کے بعد جب ہم دوسری چوٹی پر پہنچے تو وہاں ایک مقامی لڑکا ایک چٹائی بچھا کر کولڈ ڈرنکس، جوس اور چپس وغیرہ بیچ رہا تھا ۔ ہم اسکے پاس ہی بیٹھ گئے۔ابھی بھی گنگا چوٹی نظر نہیں آ رہی تھی وہ دور بادلوں میں چھپی ہوئی تھی ۔ان دو چڑھائیوں کو چڑھ کر دل میں خیال آ رہا تھا کہ بھائی لوگ اپنے کان لپیٹو اور واپس چل پڑو پھر جب پچھلی پہاڑی کی چوٹی سے اترتی خواتین کو دیکھو تو سوچا کہ جناب کیا تم ان سے بھی گئے گزرے ہو تو اس سوچ نےمردانہ انا کو ابھار دیا اور سوچا اب جو ہو سو گنگا چوٹی کو دیکھ کر ہی جائیں گے۔وہ خواتین ابھی پچھلی چوٹی کی اترائی اتر رہی تھی ۔ اسی دوران ہم نے لاہور سے تعلق رکھنے والے ان جوانوں کو دیکھا جو کہ سدھن گلی سے گنگا چوٹی کے راستے میں ہمیں ہونڈا سٹی پر ملے تھے ۔ انھوں نے چڑھائی کے بجائے اس چوٹی کی ایک طرف سے آتی ہوئی پگڈنڈی کو منتخب کیا تھا۔ اب وہ جوان اور وہ مقامی خواتین گپیں مارتے ہوئے آ رہے تھے اور ان میں سے ایک جوان بہت باتونی تھے جو مسلسل بول رہا تھا یا شاید خواتین کے ساتھ کی وجہ سے تھا۔ خالی پیٹ کی وجہ سے کچھ کمزوری محسوس ہو رہی تھی اسلئے مقامی جوان سے ایک ہاف لٹر بوتل اور ساتھ لیز کے دو پیکٹ لے لئے کہ کچھ تو پیٹ پوجا ہو۔میرا خیال تھا کہ یہ جوان اتنی دور اور اوپر اپنی دوکان سجا کر بیٹھا ہے تو یقیناً اس کا ریٹ بھی زیادہ ہو گا لیکن اس نے وہی نارمل ریٹ لیا جو کہ عام دوکان پر ہوتا ہے۔ جب پیٹ میں کچھ پڑا تو جسم میں توانائی کا احساس ہوا اور اپنے گھوڑے آگے دوڑا دیے۔ گھوڑوں سے مراد سچ مچ کے گھوڑے نہیں بلکہ اپنی ٹانگوں کے گھوڑے تھے جو کہ سر پٹ تو دوڑنے سے رہے لیکن پھر بھی آہستہ آہستہ دوڑ ضرور رہے تھے ۔ اب وہ مقامی گھوڑیاں ان چاروں جوانوں کے ساتھ آگے سفر کر رہیں تھیں اور ہمیں اس باتونی جوان کے مسلسل بولنے کی آواز سارے راستے سننا تھی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#267
اب ہم اس دوسری چوٹی کی اترائی اتر رہے تھے اور اسکے بعد ایک اور چھوٹی پہاڑی آ گئی جو کہ ہمارے راستے کے لحاظ سے چھوٹی تھی لیکن اگر نیچے سے دیکھا جائے تو بہت بڑی تھی۔ ابھی تک ہمارا سفر سر سبز پہاڑوں میں سے تھا اور آگے بھی سبزہ ہی سبزہ نظر آ رہا تھا۔ بائیں طرف گہری کھائی میں موجود وادی اور اسکی ڈھلوانوں پر سر سبز درخت نظر آ رہے تھے لیکن گنگا چوٹی ٹریک کی اصل خوبصورتی دائیں طرف تھی۔ اب تک کی خوبصورتی نے مجھے فریش کر دیا تھا اور مجھے یہاں آنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوہ نہیں تھا بلکہ سوچ رہا تھا کہ اگر پہلی ہی چوٹی کے بعد راستے میں ملنے والے سیاحوں کی باتوں میں آ کر واپس مڑ جاتا تو ان خوبصورت قدرتی نظاروں سے محروم ہو جاتا جو آنکھوں کے علاوہ دل و دماغ کو بھی سکون دے رہے تھے۔ اس چھوٹی پہاڑی کی کچھ اترائی کے بعد دوبارہ چڑھائی شروع ہو رہی تھی ۔ راستہ صاف دیکھ کر ہم نے اترائی کی طرف گھوڑوں کو سر پٹ دوڑا دیا ۔ اب گھوڑے دوڑ تو پڑے تھے لیکن رک نہیں رہے تھے ۔ ہم نے بھی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں کہ جب چڑھائی چڑھنے لگیں گے تو خود ہی عقل آ جائے گی اور رک جائیں گے۔اگلی چڑھائی پر ہم سے کچھ آگے وہ مقامی خواتین اور وہ جوان جا رہے تھے اور پیچھے کی طرح ہم مسلسل اس باتونی جوان کو سن رہے تھے جس کے الفاظ کا ذخیرہ ان خواتین کے سامنے ختم ہی نہیں ہو رہا تھا بلکہ اب تو وہ خواتین خود ان سے پیچھا چھڑانا چاہتیں تھیں لیکن اب وہ ریچھ اور کمبل والا حساب بن رہا تھا کہ میں تو کمبل کو چھوڑ رہا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔ ان جوانوں کا ایک ساتھی میرے اور طلحہ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا جبکہ باقی آگے تھے وہ بھی اس باتونی جوان سے تنگ لگ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کہیں یہ بندہ ہمیں چھتر نہ پڑوا دے۔ میں بھی جان بوجھ کر ان لوگوں سے فاصلہ رکھ کر چل رہا تھا کیونکہ میں سکون کی تلاش میں یہاں آیا تھا اور اس باتونی کی باتوں سے اپنے سکون کو غارت نہیں کرنا چاہتا تھا اس وجہ سے میں ان کی بجائے اردگرد پھیلی خاموشی میں کھویا ہوا تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم ایسا تھا جیسا کہ ابھی بارش ہو جائے گی لیکن شکر ہے اب تک بچت رہی تھی۔کبھی وہ بادل یا دھند ہمارے اردگرد اتنے گہرے ہو جاتے کہ آس پاس کی وادیاں اور چوٹیاں نظر آنا بند ہو جاتیں اور حد نظر چند میٹر تک رہ جاتی اور کبھی وہ ہلکے ہو جاتے اوراردگرد کے مناظر دوبارہ واضح ہو جاتے۔ خوشگوار خنکی کا احساس ہو رہا تھا اور میں اپنی ہائیک سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ (اس دوران تصاویر کی بجائے میں نے ویڈیوز زیادہ بنائیں جس کا مجھے بعد میں احساس ہوا)۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#268
اب آخری چوٹی کی چڑھائی تھی جس کا اختتام گنگا چوٹی پر ہو رہا تھا لیکن یہ کچھ لمبی چڑھائی تھی اور بادلوں/دھند کی وجہ سے چوٹی نظر نہیں آ رہی تھی۔ راستہ بہت زیادہ چوڑا نہیں تھا دونوں طرف گہرائی تھی اور راستہ میں اب بڑے پتھر آ گئے تھے جن کے درمیان سے گزرنا پڑ رہا تھا ۔ کئی جگہوں پر تو ان پتھروں کو پکڑ پکڑ کر چڑھنا پڑ رہا تھا۔ جب سانس زیادہ پھولنے لگتی یا تھکن محسوس ہوتی تو کچھ دیر پتھروں پر بیٹھ جاتے اور پھر چل پڑتے۔ کئی پتھر تو انسانی قد سے بھی بڑے تھے اور سبزے میں کچھ کمی ہو گئی تھی لیکن موسم بڑا کمال کا تھا۔ یہ آخری پہاڑی کی چوٹی تک کی چڑھائی بھی تقریباً آدھا گھنٹہ لے گئی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#269
وہ مقامی خواتین اور وہ سیاح جوان ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے اور ابھی بھی اس باتونی جوان کی زبان نان اسٹاپ چل رہی تھی اور اس نے ان خواتین کی ناک میں دم کر دیا تھا ۔ اب تو وہ خود زبان سے اس سے کہہ رہی تھی کہ بھائی اب بس کرو ہماری جان چھوڑو۔ بہرحال جب ہم گنگا چوٹی پر پہنچے تو دیکھا کہ چوٹی کے ٹاپ کا رقبہ کم و بیش دو تین مرلے تھا جہاں پر ایک ٹاور بھی لگا ہوا تھا ۔ باقی وہاں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں تھی۔ کچھ اور سیاح بھی وہاں آئے ہوئے تھے جن میں سے کچھ مقامی بھی تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو گہرے بادل اور دھند چھائی ہوئی تھی جس کی وجہ سے چوٹی کے اردگرد کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ جس راستے سے ہم چل کر آئے تھے اس کے علاوہ ہر طرف گہرائی تھی۔ کچھ دیر بعد بادل اور دھند کم ہوئی تو اردگر د کے مناظر نظر آنا شروع ہوئے۔ گنگا چوٹی کی اصل خوبصورتی یہ ٹاپ نہیں بلکہ اس کے خوبصورت راستے کی ہائیکنگ تھی ۔ اس ہائیکنگ کے دوران ہم نے قدرتی حسن کا قریب سے مشاہدہ کیا اور بلاشبہ یہ میری سیاحتی زندگی کی خوبصورت ہائیک میں سے ایک تھی۔بہتر ہے کہ یہ ہائیک جولائی کے مہینے میں کی جائے جب ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے اور یہ سبزہ اردگرد کی وادیوں کو ایک دلہن کا روپ دے دیتا ہے جس کی خوبصورتی ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ مقامی لوگوں کو اب اس باتونی جوان کا بولنا نا گوار گزر رہا تھا اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ جوان خواتین کو تنگ کر رہا ہے اور اس کا اندازہ مجھے ان لوگوں کی آپس میں باتوں سے ہوا۔ میں نے ان جوانوں کے گروپ کے ایک بندے سے کہا کہ برادر احتیاط کرو کہیں کوئی مسئلہ نہ بن جائے باقی آگے ان کی مرضی تھی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#270
گنگا چوٹی پر ہماری ملاقات راوالپنڈی کے بائیکرز گروپ (راوالین بائیکرز)کے ایک ممبر زاہد بھائی سے ہوئی جو سینئر بائیکر ہیں۔ یہ ان میں سے ایک تھے جن سے ہمارا سامنا وہاں ہوا تھا جہاں ہم نے اپنی بائیک پارک کی تھی۔ اپنے گروپ میں سے صرف وہ ہی چوٹی تک آئے تھے جب کہ ان کے ساتھی راستے سے ہی مڑ گئے تھے۔ ان سے تھوڑی گپ شپ ہوئی اور ہم نے چوٹی پر کچھ تصاویر اور ویڈیوز بنائیں لیکن اردگرد دھند کی وجہ سے وادیوں کی تصویر لینا ممکن نہ تھی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#271
کچھ دیر چوٹی پر گزارنے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کر دیا کیونکہ ہم نے آج ہی زلزال جھیل سے ہوتے ہوئے مظفر آباد جانا تھا۔ واپسی کا سفر تیزی کے ساتھ تھا کیونکہ اترائی تھی زور نہیں لگ رہا تھا بس اپنی رفتار کو کنٹرول کرنا پڑ رہا تھا۔ واپسی کے سفر میں ہم نے تھوڑا سا مختلف راستہ اختیار کیا جو کہ راستے میں آنے والی چوٹیوں کی بجائے ان کا بغلی راستہ تھا۔ جب ہم گنگا چوٹی کی طرف جا رہے تھے تو ہم نے تھوڑا مشکل چڑھائی والا راستہ اختیار کیا تھا لیکن وہ راستہ قدرتی مناظر سے بھر پور تھا جس میں ان چوٹیوں کے ٹاپ پر کھڑے ہو کر اردگرد کی وادیوں کا دور تک مشاہدہ کیا جا سکتا ہے لیکن اب واپسی کا سفر نسبتاً آسان تھا ۔ واپسی پر بھی ہم نے بیس کیمپ سے پہلے والی پہاڑی کی اصل پگڈنڈی کو چھوڑ کر تھوڑا مشکل اترائی والا راستہ اختیار کیا ۔ بہت ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی اسلئے ہم نے بیس کیمپ پر رکنے کی بجائے سڑک پر ہوتے ہوئے واپسی کا سفر جاری رکھا۔ گنگا چوٹی کے راستے سے واپسی کی آخری تصاویر جو اس سفر میں بیس کیمپ کے قریب کچی سڑک پر لی گئیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#272
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#273
تقریباً ایک بجے ہم واپس اپنی بائیک کے پاس پہنچ گئے۔ واپسی پر اترائی والا راستہ تھا اس لئے دوبارہ سے بائیک کا ایئر فلٹر لگایا اور روانہ ہو گئے۔ اگلے چار پانچ کلومیٹر مسلسل اترائی والے تھے جس میں بائیک کو چھوٹے گیئر میں چلانے کے ساتھ بوقت ضرورت بریک کا بھی استعمال ہو رہا تھا۔ اسی طرح ہم اس چوک پر پہنچ گئے جہاں سے چڑھائی شروع کی تھی۔ اس چوک سے بائیں طرف گھوم کا راستہ سدھن گلی جاتا ہے جبکہ دائیں طرف نکل جائیں تو مظفر آباد۔ اسی جگہ سے چالیس روپے کے آدھا کلو آلو بخارے لئے اور مظفر آباد والے راستے پر مڑ گئے۔ یہ سڑک اچھی حالت میں نہیں تھی لیکن شارٹ کٹ ہونے کی وجہ سے اس کا انتخاب کیا ورنہ تو سدھن گلی سے واپس باغ جاؤ اور پھر مظفر آباد۔ سڑک مسلسل اترائی میں تھی اور وہ بھی خراب حالت میں اور کئی جگہوں پر تو پتھروں سے بنا ہوا سولنگ والا راستہ جو کہ بائیک کیلئے زیادہ خطرنا ک ہوتا ہےتھا ۔ کہیں کہیں سڑک کی حالت کچھ بہتر ہوتی اور دوسرا گیئر لگانے کا موقع مل جاتا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی جو کہ زلزال جھیل سے کچھ پہلے تیز ہو گئی جسکی وجہ سے ہم نے سڑک کے ساتھ واقع ایک بند دوکان کے شیڈ کے نیچے پناہ لی۔ بائیک پر پیراشوٹ کپڑا ڈال دیا تاکہ سامان کی بچت ہو سکے۔ بارش تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی اور ہم اسی جگہ اس کے رکنے کا انتظار کر تے رہے۔ جہاں ہم رکے ہوئے تھے وہاں سے زلزال جھیل کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ یہ جھیل زلزلے کی وجہ سے وجود میں آئی تھی اور بہت سے لوگ اسکی تہہ میں دفن ہو گئے جن کی تعداد تقریباً بارہ سو بتائی جاتی ہے لیکن تقریباً زیادہ تر جھیلوں کی یہی کہانی ہے ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#274
بارش رکنے کے بعد دوبارہ سفر شروع کیا ۔ کافی وقت بارش کی وجہ سے رکنا پڑا اسلئے ارادہ تھا کہ جھیل تک جائیں اور وہاں پر کیمپنگ کریں لیکن جب ہم اس راستے پر پہنچے جو جھیل تک جا رہا تھا تو مقامی شخص نے بتایا کہ جھیل تک جانے کا راستہ ویسے بھی خطرناک ہے دوسرا بارش کی وجہ سے پھسلن ہو گی جو اسے اور خطرناک بنا دیتی ہے اور ویسے بھی فاصلہ بھی آٹھ دس کلومیٹر کا تھا ۔ میں بھی دیکھ رہا تھا کہ مین سڑک سے دائیں طرف جھیل کی طرف جانے والا راستہ آف روڈ تھا اور اسکی اترائی بھی زیادہ تھی اسلئے مقامی شخص کی بات درست تھی ۔ مجبوراً زلزال جھیل کو سڑک سے ہی دیکھ کر مظفر آباد کی طرف روانہ ہو گئے۔ جھیل کے راستہ سے کچھ آگے سڑک کی حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی اور بالآخر کارپٹڈ سڑک آ گئی۔ ایک جگہ ایک باغ کے پاس رکے تو وہاں موجود مقامی بچوں نے باغ سے تازہ ناشپاتیاں توڑ کر دی۔ مزیدار تازہ اور رس بھری ناشپاتیوں سے لطف اٹھا کر اور ان بچوں کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کر کے دوبارہ جلدی روانہ ہو گئے کیونکہ موسم کے تیور پھر خراب ہو رہے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#275
راستے میں ایک ورکشاپ سے بائیک کی چین کو کسوایا ۔ جب مظفر آباد تقریباً پینتیس کلومیٹر رہ گیا تو ہمیں دوبارہ تیز بارش نے آلیا۔ سڑک کے کنارے ایک غیر آباد چھوٹی سی عمارت کو دیکھ کر ہم وہاں رک گئے۔ اس دوکمروں پر مشتمل چھوٹی سی جگہ کے آگے تھوڑا سا شیڈ تھا جو کہ ہمیں بارش سے بچا رہا تھا۔ ان کمروں میں مقامی لوگوں نے مویشیوں کیلئے بھوسہ ذخیرہ کیا ہوا تھا۔ وہاں سے دور پہاڑوں پر بادل منڈلا رہے تھے اور بڑا خوبصورت منظر تھا۔ آوارہ گرد ایسی مصیبت میں بھی خوبصورتی ڈھونڈ رہا تھا جو کہ ہر آوارہ گرد کا خاصہ ہوتا ہے۔ ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ وہاں رکے رہے اور پھر برساتی اور اوپر پالیتھین کا بنا ایک سیلف میڈ کور پہن کر ہلکی ہلکی بارش میں روانہ ہو گئے کیونکہ وہاں بھی کب تک رکے رہتے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#276
آگے جا کر بارش دوبارہ کچھ تیز ہو گئی ۔ ایک پمپ سے تین سو کا پٹرول ڈلوایا اور پھر چل پڑے۔ میں کہیں رکنے کا سوچ رہا تھا لیکن طلحہ نے کہا کہ ماموں چلتے رہو دیکھی جائے گی اور میں نے غلطی یہ کی کہ اس کی بات مان لی ۔ غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب تیز بارش میں تقریباً مکمل شرابور ہو گئے۔ تیز بارش کی وجہ سے حد نظر بھی محدود ہو گئی تھی جس کی وجہ سے رفتار بھی کم ہو گئی اوپر سے پانی برساتی وغیرہ سے بھی گزر کر تقریباً پورے جسم کو گیلا کر گیا۔ بارش کی شدت اتنی تھی کہ مظفر آباد جانے والی مین سڑک پر سے کئی جگہ سے اتنا پانی گزر رہا تھا کہ کسی تیز چشمے کا گمان ہوتا تھا اور کئی جگہ پر پہاڑوں سے پتھر لڑھک کر سڑک پر آگئے تھے اس وجہ سے بھی بہت احتیاط سے چل رہے تھے۔ اب تو تقریباًبھیگ گئے تھے اس لئے سوچا کہ چلتے رہیں اور مظفر آباد پہنچ کر کہیں قیام کر یں۔ اسی تیز بارش میں چلتے ہوئے مظفر آباد سے کچھ کلومیٹر پہلے بنی سرنگ میں پہنچ گئے ۔ وہاں جا کر بریک لگائی اور سرنگ کے اندر بنے فٹ پاتھ پر براجمان ہو گئے۔ وہاں موٹر سائیکلوں پر سوار بہت سے لوگ رک کر بارش بند ہونے کا انتظار کر رہے تھے ہم بھی ان میں شامل ہو گئے۔ اب اپنی حالت دیکھ کر پچھتاوہ ہو رہا تھا کہ کہیں رک کیوں نہ گئے کیونکہ بائیکر کوشش کرتا ہے کہ حتی الامکان بارش میں بھیگنے سے بچا جائے ۔ اب طلحہ بھی افسوس کر رہا تھا کہ نہ رکنے کا مشورہ کیوں دیا۔ وہاں بائیک پر رکے لوگ فون کرکے اپنے گھر والوں کو بلا رہے تھے کہ انھیں لینے وہاں آ جائیں لیکن اب ہمارا گھر تو کیا کوئی رشتہ دار بھی مظفر آباد میں نہیں تھا جسے فون کر تے۔ آدھے گھنٹے سے بھی زیادہ ہو گئے اور بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میں نے فون پر اپنے ایک کزن عبدا لرّحمن سے بات کی جو کہ اکثر مظفر آباد آتا رہتا تھا یہ وہی کزن ہے جو کہ 2018ء میں گلگت بلتستان کے ٹور میں میرے ساتھ تھا۔ اس نے بتایا کہ مظفر آباد میں بڑے نئے پل کے پاس نلوچی کے علاقہ میں ایک مدرسہ ہے وہاں چلے جاؤ اور میری ان سے بات کرادینا۔ بارش کا تو رکنے کا ارادہ نہیں لگتا تھا اس لئے سوچا کہ بھیگے تو ہوئے ہیں آگے چلتے ہیں۔ مظفر آباد میں بڑے پل کو کراس کرکے پوچھ پاچھ کر اس مدرسہ میں پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک جوان لڑکے نے دورازہ کھولا۔ ہم نے صرف اتنا ہی کہا کہ مہمان ہیں تو وہ ہمیں اندر لے گیا ۔ بعد میں اندر جا کر میں نے عبدالرّحمن کا بتایا لیکن اس سے بات کروانے کی نوبت ہی نہیں آئی اور نہ ہی اس نے ہم سے کوئی مزید استفسار کیا اور مدرسہ کے اندر الگ بنے ہوئے ایک گھر میں لے گیا جو کہ اس مدرسہ کے منتظم کا تھا ۔ وہ بہترین گھر ابھی نیا تعمیر ہوا تھا لیکن ابھی وہاں فیملی نے رہائش اختیار نہ کی تھی۔ وہاں ہم جیسے چند مہمان اور بھی تھے جو کہ اس مدرسہ کے منتظم کے واقف کار تھے اور وہ لوگ لاہور کے آس پاس کے اضلاع سے ہی آئے تھے۔ ایک کچن نما کمرے میں جا کر کپڑے بدلے اور اس کمرے میں جہاں جگہ ملی اپنا سامان وہاں پھینک دیا کہ صبح ہو گی تو دیکھیں گے کیونکہ ابھی اپنے اوسان مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے تھے۔ ایک نسبتاً بڑے کمرے میں مہمانوں کی رہائش کا بندوبست تھا جہاں قالین پر فرشی بستر لگے تھے۔ عشاء کا وقت ہو رہا تھا۔ مکمل فرنشڈاٹیچ باتھ روم سے وضو کیا اور مدرسے میں جا کر با جماعت نماز ادا کی۔ واپس کمرے میں آ کر ہم نے بھی اپنے سلیپنگ بیگز بچھا لئے ۔ شکر تھا کہ سلیپنگ بیگز اور پیک شدہ کپڑے وغیرہ بھیگنے سے بچ گئے کیونکہ ہم نے انھیں پالیتھین کے بڑے شاپرز میں پیک کیا ہوا تھا ۔ طلحہ تو لیٹتے ہی سو گیا اور میں نے وہاں پہلے سے موجود چار جوان العمر مہمانوں سے کچھ دیر گپ شپ کی۔ وہ بھی اسی طرح ٹور پر آئے تھے اور رات گزارنے وہاں رکے تھے ۔ ان میں سے دو زخمی تھے اور انکے بازو اور ٹانگوں پر زخم تھے جن پر وہ مرہم لگا رہے تھے۔ پتا چلا کہ وہ آج دن کو پیر چناسی ٹاپ پر گئے تھے اور واپسی پر ان کی بائیک پھسل گئی جس کی وجہ سے وہ زخم لگے۔ اسکے بعد میں بھی سونے کیلئے لیٹ گیا۔ بھوک تو لگ رہی تھی لیکن وہاں مدرسہ کے آس پاس کوئی ہوٹل وغیرہ نہیں تھا اس لئے ایسے ہی سونے کا ارادہ کر لیا۔ کچھ دیر ہی غنودگی چھائی تھی کہ میری آنکھ کچھ شور سے کھل گئی ۔ نیم وا آنکھوں سے دیکھا تو وہ چاروں مہمان کھانا کھا رہے تھے جس کا انتظام اس مدرسہ کے منتظم نے ان کے لئے کیا تھا ۔ بھوک تو مجھے بھی بہت لگ رہی تھی لیکن مجھے اچھا نہ لگا کہ اٹھ کر ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤں کیونکہ پہلے سے موجود لوگ تو منتظم کے مہمان تھے اور ہم تو بن بلائے مہمان تھے ۔ ہم انکے اس بات پر ہی شکر گزار تھے کہ اتنی تیز بارش میں رات قیام کی جگہ مل گئی اور اب کھانے میں شریک ہو کر اپنی حدود کو کراس نہیں کرنا چاہتے تھے اسلئے بھوک جو کہ کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو سے چمک اٹھی تھی کو قابو کرکے ڈھیٹ بن کر سوتا بن گیا۔ جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو میں نے پہلو بدلا کیونکہ اتنی دیر سے ان کی وجہ سے میں نے پہلو نہیں بدلا تھا اور اب ایک طرف لیٹے لیٹے تھک گیا تھا ۔ مجھے پہلو بدلتے دیکھ کر ان میں سے ایک نے مجھے اٹھایا اور کہا کہ کھانا کھا لو۔ اب میں انکار نہ کر سکا ۔ مچھلی کا شوربے والا سالن، چاول اور روٹی تھی۔ میں نے طلحہ کو اٹھایا تو وہ نہ اٹھا ۔لگتا تھا وہ زیادہ تھک گیا تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کرکے کھانا تناول کیا ۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نے آپ لوگوں کو اس وجہ سے نہیں اٹھایا کہ کہیں آپ کی نیند میں خلل نہ ہو ۔ کھانا کھا کر میں نیند کی وادی میں کھو گیا۔
Haroon bhai kya khene bht khoob bas ab ek acha sa camera khareede or tohri photography bhe seekhe pics tohri or ache hongi to char chand lag jayenge or videos ki resolution bhe ache hojayegi 
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#278
شکریہ ریحان بھائی۔ باقی یہ کام میں اب کر چکا ہوں۔ ان شاء اللہ اگلے سفر نامے یا وی لاگ میں جو سفر میں نے اگست 2020 میں کیا ہے اس میں آپ کو 4 کے ویڈیواور 64 میگا پکسل کیمرے کی تصاویر ملیں گی۔ ۔
اس سفر میں میں نے لاہور سے ناران، کاغان، بابو سر ٹاپ، گلگت، گاہکوچ، گپس، پھنڈر ویلی، شندور ٹاپ، بونی، چترال، گرم چشمہ، کیلاش، لواری ٹنل ، دیر ، مردان سے لاہور کو بائیک پرکور کیا ہے۔
MashaAllah haroon bhai Allah tala ise tarah hamesha apko safar karwate rahe
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#280
جزاکم اللہ خیرا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں میرے لئے بہتری کا معاملہ کرے۔
tourist
(tourist)
#281
Yaqeenan Dhakka laganay ki wajah say Talha Sota rah gaya aur khanay ka bhi hosh nahi Raha.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#282
ہا ہا ہا۔ ہو سکتا ہے آپ کی بات درست ہو لیکن طلحہ کی ایک عادت ہے کہ جب سوتا ہے تو گھوڑے بیچ کر سوتا ہے۔ بہر حال اس ٹور میں طلحہ نے بڑا حوصلہ دکھایا۔