Log In
کشمیر جنت نظیر، جولائی 2019۔ روئیداد سفر۔ تحریر ہارون الرشید
Travel N Tours
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2020-12-14 12:36:08 +0500
#324
وقت تقریباً پونے گیارہ بجے کا تھا۔ پہلے تو ہم وہیں کھڑے ہو کر آبشار کا نظارہ کرتے رہے کیونکہ قدرت کے ہر نظارے کی خوبصورتی کا فاصلے اور زاویے کی تبدیلی سے ایک الگ ہی پہلو نظر آتا ہے اور پہاڑی علاقے میں تو آبشار وہ قدرتی چیز ہے جس کی طرف لوگ کھنچے چلے جاتے ہیں۔ سڑک کے ساتھ ہی مقامی لوگوں نے گاڑیوں کے دھونے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا اور بغیر موٹر پمپ کے پانی کے پائپ سے پانی کا پریشر کسی سروس اسٹیشن جیسا ہی تھا۔ اس کام کیلئے مقامی لوگ بلندی سے آتے ہوئے چشمے کے راستے میں کچھ بلندی پر پائپ رکھ دیتے ہیں اور نیچے آتے آتے پانی کا پریشر بالکل سروس اسٹیشن جیسا ہو جا تا ہے۔
IMG_20190716_104609.jpg
4160x3120 4.02 MB
IMG_20190716_104558.jpg
4160x3120 5.89 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2020-12-14 12:53:38 +0500
#325
کچھ دیر وہاں کھڑے کھڑے آبشار اور گردو پیش کا نظارہ کرنے کے بعد ہم نے آبشار کی طرف چلنا شروع کر دیاجس کی طرف ایک پتلی سی پگڈنڈی جا رہی تھی۔
IMG_20190716_104656.jpg
3120x4160 3.71 MB
IMG_20190716_104737.jpg
3120x4160 3.85 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2020-12-14 13:03:26 +0500
#326
تھوڑا سا آگے گئے تو وہ چشمہ سامنے آ گیا جو کہ آبشار کے پانی کی وجہ سے وجود میں آیا تھا اور سڑک پر سے بہتا ہوا نیچے دریائے نیلم کا حصہ بن رہا تھا ۔ چشمے کے بائیں طرف والا راستہ جو کہ بائیں پہاڑ کی بنیاد کے ساتھ جا رہا تھا وہ نسبتاً زیادہ ہموار تھا اسلئے ہم نے وہی راستہ اختیار کیا ۔ جیسے جیسے ہم آبشار کے پاس ہوتے جارہے تھے اس کی خوبصورتی بڑھتی جا رہی تھی ۔ پہاڑ کی بلندی جہاں سے وہ نیچے آ رہی تھی وہاں سے کچھ اوپر کا منظر بھی نظر آ رہا تھا اور اوپر بھی اسکے بہاؤ کی ایک چھوٹی ڈھلوان نظر آ رہی تھی۔
IMG_20190716_104753.jpg
3120x4160 3.87 MB
IMG_20190716_104832.jpg
4160x3120 4.84 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2020-12-14 13:23:26 +0500
#327
کچھ ہی دیر میں ہم آبشار کے قریب تھے۔ ہم جلدی آ گئے تھے اس وجہ سے سیّاحوں کا رش بہت کم تھا اس لئے سکون سے آبشار کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میں نہ صرف اس کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہا تھا بلکہ اس کی موسیقی بھی سن رہا تھا جس کا اپنا ہی ترنّم اور دھن تھی۔ قدرت کی موسیقی انسان کے جسم میں سکون ہی سکون بھر دیتی ہے اور ایسا ہی میرے ساتھ ہو رہا تھا ۔ یہ اس سفر کی پہلی آبشار تھی جو ہمارے راستے میں آئی تھی۔
IMG_20190716_104936.jpg
3456x4608 3.03 MB
IMG_20190716_105055.jpg
4160x3120 4.98 MB
IMG_20190716_105059.jpg
3120x4160 5.24 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2020-12-14 13:30:26 +0500
#328
ہم نے پہلے ہی واٹر پروف سینڈل پہنے ہوئے تھے جو کہ پہاڑ ی علاقوں کے سفر میں میں لازمی ساتھ رکھتا ہوں تاکہ چشموں وغیرہ کے پانی سے لطف اندوز ہوا جا سکے اسلئے میں آبشار کی بنیاد کے پاس چلا گیا اور اسکے چشمے کے پانی میں کھڑا ہوا گیا ۔ پانی بہت ٹھنڈا نہیں تھا بلکہ اس میں کھڑے ہو کر ایک خوشگوار احساس ہو رہا تھا۔ اگر وہ سڑک سے تھوڑ ا ہٹ کر ہوتی تو شاید ہم اس میں نہا بھی لیتے۔ پانی کی ہلکی ہلکی پھوار مجھ پر بھی پڑ رہی تھی اور ایک فرحت بخش احساس پیدا کر رہی تھی۔ میں کبھی اس کے قریب ہو جاتا اور کبھی ایک قدم دور جیسے اس کے پانی کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہوں ۔ اس وقت میرے احساس ایک بچے کی طرح تھے جو بارش کی پھوار میں کبھی بھیگنے لگتا ہے اور کبھی دوڑ کر کسی سائبان کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ بچوں جیسی حرکتیں ایک حقیقی خوشی کا احساس پیدا کر دیتی ہیں اور میں اسی احساس سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔
IMG_20190716_105346.jpg
3120x4160 5.24 MB
IMG_20190716_105529.jpg
3120x4160 5.07 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2020-12-14 13:34:19 +0500
#329
یہ کھیل کچھ دیر تک جاری رہا اور پھر میں دوبارہ بچپن سے جوانی کی طرف لوٹ آیا۔ قریب ہی دو ٹین ایجر بہن بھائی اپنی تصویریں اتار رہے تھے ۔ وہ کوشش کر رہے تھے کہ انکی سیلفی کے ساتھ پوری آبشار کا منظر بھی آئے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے ۔ اس پر میں نے انکو مدد کی پیشکش کی اور انھوں نے قبول کر لی اور میں نے دونوں کی الگ الگ اور اکھٹی کچھ تصاویر انکے موبائل سے بنائیں۔ کچھ دیر اور وہاں گزارنے کے بعد ہم واپس اپنی بائیک کی طرف چل پڑے ۔ واپسی کیلئے ہم نے چشمے کا راستہ اختیار کیا اور اس کے پانی میں اپنے پیروں کو بھگوتے ہوئے چل پڑے۔ کچھ نیچے آ کر چشمے کا پانی ایک چھوٹا سے تالاب بنا رہا تھا جس میں کچھ دیر پہلے چند بچے نہا بھی رہے تھے ۔ نہانے کی خواہش تو میرے دل میں بھی انگڑائیاں لے رہی تھی لیکن میں نے اس خواہش کو تھپکی دے کر سلا دیا کہ بندے خیال کر ۔ تالاب کے پاس جا کر طلحہ کے اندر چھپا ہوا سائنسدان جاگا اور وہ اس چھوٹے تالاب کی گہرائی ماپنے کی تحقیق میں لگ گیا ۔ وہ گھٹنوں تک پانی میں گیا اور اس کے بعد اپنی تحقیق کو وہیں روک دیا کیونکہ اس سے آگے کپڑے بھیگنے کا خطرہ تھا اور دوسرا وہ اتنا بڑا سائنسدان نہیں بننا چاہتا تھا کہ کپڑے بھگو نے کا خطرہ مول لے اور پھر سارا راستہ بائیک پر ٹھنڈ برداشت کرتا رہے۔ بائیک کے پاس آ کر طلحہ کی شرارتی رگ ایک بار پھر پھڑپھڑائی اور اس نے پائپ سے نکلنے والے پانی کے پریشر کے ساتھ جرابیں دھونا شروع کر دیں جو کہ گزشتہ بارش کی وجہ سے گیلی ہو گئیں تھیں ۔ میں اس دوران اس کے پاس کھڑے ہو کر اس سے مذاق کرتا رہا اور و ہ بھی جولی موڈ میں جواب دیتا رہا ۔ سڑک کا منظر۔
IMG_20190716_110703.jpg
4160x3120 3.85 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2020-12-20 22:33:31 +0500
#330
وادی نیلم کی سب سے بڑی آ بشار کی ویڈیو کہانی
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 14:23:35 +0500
#331
کچھ دیر بعد ہم دوبارہ بائیک پر سوار تھے ۔ آگے ایک پل کو کراس کرنے کے بعد ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے سڑک کی حالت خراب تھی۔ اس کو دیکھ کر ہم کچھ دیر تذبذب کا شکار رہے کہ کہیں ہم غلط راستہ پر تو نہیں لیکن جلد ہی سڑک کا وہ خراب ٹکڑا گزر گیا اور ہمیں یقین ہو گیا کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔پونے بارہ بجے ہم نوسدہ کے علاقے میں ایک ڈیم پر پہنچ گئے۔ اس جگہ دریا کا پانی آ کر اکٹھا ہو رہا تھا اور آگے اس کو روکنے کیلئے کنکریٹ کی دیوار بنی ہوئی تھی اور وہاں سے پانی کی مخصوص مقدار کو ہی گزرنے دیا جا تا تھا ۔ ڈیم کے اندر درختوں کے بڑے بڑے تنے بھی موجود تھے جو دریا کے پانی کے ساتھ یہاں تک پہنچے تھے۔ جب ڈیم کا سپل وے کھولا جاتا ہے تو دریا میں ایک قسم کی طغیانی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ لکڑی آگے بہتی ہے اور اس لکڑی کو پکڑنے کیلئے مقامی لوگ بعض اوقات اپنی جان داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔ مقامی لوگوں کے مطابق کل بھی اسی وجہ سے پانچ لوگ دریا کی لہروں کی نظر ہو گئے۔ کچھ دیر ڈیم کا نظارہ کرنے کے بعد ہم دوبارہ روانہ ہو گئے۔
IMG_20190716_114811.jpg
4160x3120 3.56 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 14:32:41 +0500
#332
دوران سفر موج میں آ کر میں نصرت فتح علی خان کا گایا ہوا حمدیہ کلام "کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے" پڑھنے لگا۔ کچھ آگے جانے کے بعد ایک پولیس پوسٹ پر اندراج کروایا جس میں نام، بائیک کا نمبر، کل افراد، پتہ، کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں جانا ہے اور موبائل نمبر وغیرہ شامل تھے اس مقصد کیلئے آپ کے پاس شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ پوسٹ سے کچھ آگے ایک آگاہی بورڈ لگا ہوا تھا جس پر وادی نیلم کے مختلف علاقوں کا فاصلہ لکھا ہوا تھا ۔
IMG_20190716_120244.jpg
3120x4160 2.11 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 14:44:18 +0500
#333
تقریباً سو ا بارہ بجے ہم چلیانہ پہنچ گئے لیکن ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کنڈل شاہی ہے پھر طلحہ نے ایک دوکان پر اس کا نام لکھا دیکھا تو ہماری تصحیح ہوئی۔ چلیانہ سے آگے سڑک کے کنارے پر ہم صاف پینے کے پانی کا پائپ دیکھ کر رک گئے جس میں بلندی سے چشمہ کا پانی آ رہا تھا۔ وہاں رک کر پانی پیا بھی اور منہ پر اسکے چھینٹے بھی مارے اور ساتھ موجود بوتل میں بھی پانی بھر کر آگے چل پڑے۔فرحت بخش پانی نے تازہ دم کر دیا تھا۔
IMG_20190716_122456.jpg
4160x3120 4.5 MB
IMG_20190716_122502.jpg
4160x3120 5.91 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 14:52:08 +0500
#334
کچھ آگے جا کر نیا روڈ شروع ہو گیا اور ہماری رفتار بھی نسبتاً تیز ہو گئی۔ نئے روڈ پر بائیک چلانے کا مزہ آ رہا تھا اور ساتھ ہلکی ٹھنڈی ہوا مزہ دوبالا کر رہی تھی۔ پہاڑ سبزہ سے بھر پور تھے اور ان کے مناظر آنکھوں کو تسکین دے رہا تھے ۔
IMG_20190716_122607.jpg
4160x3120 3.95 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 15:16:23 +0500
#335
ایک جگہ سے کچھ آلو بخارے بھی خریدے تاکہ ان قدرتی اور بغیر سپرے اور بغیر کیمیکل کے پھلوں کا مزہ چکھا جا سکے۔ تقریباً پونے ایک بجے ہم باڑیاں پہنچ گئے۔ میٹر ریڈنگ 23933۔ سڑک کنارے تو باڑیاں کا بازار تھا اور اس کی اصل آبادی دریا کے دوسرے کنارے پر تھی۔ باڑیاں سے آگے کچھ دیر کیلئے ہم ایک چشمے پر رکے جو سڑک کے اوپر سے بہتا ہوا دریا میں شامل ہو رہا تھا ۔ چشمے کے پانی مٹیالے رنگ کا تھا جس کی وجہ اس علاقے کے پہاڑوں میں مٹی کی زیادہ مقدار تھی۔
IMG_20190716_125719.jpg
4160x3120 3.18 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 15:29:21 +0500
#336
کچھ آگے ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے بلندی کی طرف ایک راستہ اس بدقسمت گاؤں کی طرف جا رہا تھا جہاں کل سیلابی ریلہ کی وجہ سے تقریباً چالیس افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ۔ وہاں آرمی اور ٹریفک پولیس والے موجود تھے اور اس گاؤں کی طرف جانے والے راستے پر جانے نہیں دے رہے تھے کیونکہ امدادی سر گرمیاں جاری تھی اور راستہ ابھی مکمل نہیں کھلا تھا ۔ ہم نے سیدھا آگے نیلم روڈ پر جانا تھا اس وجہ سے انھوں نے ہمیں جانے دیا ۔ جورا بانڈی (میٹر ریڈنگ 23939) کو کراس کرتے ہوئے دو بجے سے چند منٹ پہلے ہم جورا پہنچ گئے۔ جورا بانڈی کا بازار کل والے سانحہ کی وجہ سے بند تھا لیکن جورا میں دوکانیں کھلی تھیں۔ جورا سے میں نے ایس کام نیٹ ورک کی ایک سم خریدی کیونکہ اٹھمقام سے آگے کوئی اور نیٹ ورک کام نہیں کرتا۔ اس مقصد کیلئے صرف شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ بیلنس اور سم کے کل ساڑھے تین سو روپے ادا کئے اور نیٹ پیکج بھی کروا لیا ۔ ساتھ اس دوکان والے سے بیلنس معلوم کرنے کا کوڈ (
125#) اور نیٹ پیکج لگانے کا کوڈ (
111#) بھی معلوم کر لیا ۔ طلحہ نے بازار سے سفید تربوز کی چند قاشیں بیس روپے میں خریدیں ۔تربوز دیکھنے میں تو سفید اور کچا لگ رہا تھا لیکن تھا میٹھا۔
IMG_20190716_135612.jpg
3120x4160 2.68 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 15:39:40 +0500
#337
جورا سے آگے تقریباً سوا دو بجے ہم اسلام پورہ مارکیٹ تھے جہاں دریا نسبتاً کھلے رقبہ پر بہہ رہا تھا لیکن اس کی طغیانی اسی طرح بر قرار تھی۔
IMG_20190716_141645.jpg
4160x3120 4.69 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 15:44:57 +0500
#338
دو بجکر پچیس منٹ پر ہم کنڈل شاہی پہنچ گئے (میٹر ریڈنگ 23949)کنڈل شاہی کا بازار کافی بڑا تھا اور وہاں ضروریات زندگی کی تقریباً تمام اشیاء نظر آ رہی تھیں۔ ویسے تو ضرورت نہیں تھی لیکن پھر بھی میں نے سو روپے کا پٹرول اور ڈلوا لیا۔ میں بائیک کے پاس کھٹرا ہوگیا اور طلحہ کو نان چپل کباب لینے بھیج دیا کیونکہ ہلکی بھوک کا احساس ہو رہا تھا ۔ آگے ہمارا ارادہ کنڈل شاہی آبشار جسے کٹن آبشار بھی کہا جاتا ہے جانے کا تھا ۔ اس کے لئے بجائے نیلم روڈ پر سیدھا جانے کے بازار سے بائیں طرف بلندی کی طرف جانے والے راستہ پر جانا پڑتا ہے۔ جب ہم اس روڈ پر مڑے تو زیادہ چڑھائی کی وجہ سے بائیک نے دو افراد کے ساتھ چڑھنے سے انکار کر دیا مجبوراً طلحہ کو اترنا پڑا اور پھر بائیک چڑھی۔ بازار سے نکلنے کے بعد ہمارا سفر ایک پہاڑی نالے کے ساتھ تھا جو کہنے کو نالہ تھا لیکن پانی اس میں دریا کی طرح تھا اور اس کا بہاؤ بھی بہت خطرناک تھا ۔ راستہ کہیں چڑھائی والا اور کہیں اترائی والا تھا ۔ ایک جگہ راستہ تھوڑا خراب اور کچا پکا تھا اور ساتھ چڑھائی بھی تھی وہاں پھر طلحہ کو اترنا پڑا اور مجھے اپنی ٹانگوں کا زور بھی لگا نا پڑا۔ چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد پونے تین بجے ہم آبشار پر پہنچ گئے۔ بائیک کو سڑک کے ایک طرف پارک کیا اور آبشار کی طرف رخ کیا جو سڑک کے کنارے سے ہی نظر آ رہی تھی۔
IMG_20190716_144856.jpg
4160x3120 4.3 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-05 15:47:14 +0500
#339
دھانی آبشار سے کنڈل شاہی/کٹن آبشار تک کے راستے کی ویڈیو کہانی۔ برائے مہربانی میرے چینل کو سبسکرائب کرکے حوصلہ افزائی کریں۔ شکریہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-07 12:19:03 +0500
#340
کچھ مناظر اتنی بھر پور طاقت رکھتے ہیں کہ دیکھنے والے کو مکمل طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیتےہیں اور کنڈل شاہی/کٹن آبشار کا منظر کچھ ایسا ہی تھا ۔ جہاں اس کی خوبصورتی متاثر کن تھی وہا ں پانی کی بھر پور طاقت کا احساس بھی دل و دماغ میں آتا ہے ۔ پانی کی ایسی بھر پور طاقت شمالی علاقہ جات میں مجھے بہت کم جگہوں پر دیکھنے میں ملی۔ایک طرف تو اس کی خوبصورتی اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور دوسری طرف اس کی طاقت سے خوف بھی محسوس ہو رہا تھا اور ذہن میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ اگر اس میں کوئی گر جائے تو اس کا کیا بنے گا۔
IMG_20190716_145011.jpg
4160x3120 3.38 MB
IMG_20190716_145036.jpg
4160x3120 3.22 MB
IMG_20190716_144900.jpg
4160x3120 4.23 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-07 12:30:47 +0500
#341
جہاں ہم کھڑے تھے وہاں پر کچھ کھوکھا نما دوکانیں اور ایک چھوٹا سا ڈھابہ سا تھا اور اس ڈھابے سے ہی لوگ چائے ، پکوڑے اور کھانا وغیرہ لے رہے تھے۔ سڑک سے تھوڑا سا نیچے اتر کر ڈھابہ والوں نے ایک چٹان پر کچھ کرسیاں اور میز رکھی ہوئیں تھی اور ایک چھتری بھی ایستادہ تھی۔اسی کرسیوں والی چٹان کے ساتھ ہی کچھ نیچے ایک اور بڑی چٹان بھی تھی جس کو لوہے کی تاروں کے جال میں جکڑا گیا تھا تاکہ وہ نالے کی نذر نہ ہو جائے اس پر بھی کچھ سیاح موجود تھے۔
IMG_20190716_145547.jpg
4160x3120 3.81 MB
kutton.jpg
4160x3120 3.35 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-07 13:08:26 +0500
#342
مجھے علم تھا کہ اگر تو ان کرسیوں پر بیٹھے تو لازمی ڈھابے والوں سے کچھ نہ کچھ کھانا پڑے گا جبکہ ہم اپنے نان اور چپل کباب ساتھ لائے تھے ۔ نیچے دائیں طرف تو ڈھابے والوں نے قبضہ کیا ہوا تھا جبکہ بائیں طرف جگہ خالی تھی اور ایک بڑی چٹان بھی موجود تھی۔ ہم کچھ چڑھائی کے بعد اس چٹان پر چلے گئے ۔ وہاں جا کر دیکھا کہ اس سے آگے بھی پانی کے اندر ایک اور چٹان بھی ہے ۔ دونوں چٹانوں کے درمیان چند فٹ کا فاصلہ تھا اور اس میں سے بھی تیز پانی بہہ رہا تھا ۔دونوں کے درمیان فاصلہ تو زیادہ نہ تھا لیکن جس چٹان پر ہم کھڑے تھے دوسری چٹان اس سے تھوڑی سی بلندی پر تھی اور وہاں کوئی اور موجود بھی نہیں تھا کیونکہ ایک تو اس کی سطح ہموار نہیں تھی دوسرا وہاں جانے کیلئے چھلانگ لگانا لازمی تھا۔ پہلے تو کچھ دیر ہم وہاں کھڑے سوچتے رہے کہ کیا کریں ۔ وہاں جانے کو دل بھی کر رہا تھا کیونکہ وہاں پر کوئی اور موجود بھی نہیں تھا اور دوسرا وہاں سے آبشار کا نظارہ بہت زبردست ہونا تھا لیکن پانی کی طغیانی کی وجہ سے کچھ خوف بھی محسوس ہو رہا تھا ۔ پھر میں نے دونوں چٹانوں کے درمیان خلا کا اچھی طرح معائنہ کیا اور مجھے لگا کہ ہم یہ آسانی سے کر لیں گے اور پھر چند سیکنڈز بعد ہم دوسری چٹان پر تھے۔ وہاں سے آبشار اور نالے کا منظر واقعی ہی بہت زبردست تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم نالے کے درمیان میں کھڑے ہوں اورتیز رفتار پر شور پانی ہمارے دونوں اطراف سے بہتا ہوا جا رہا تھا ۔کہنے کو تو وہ ایک نالہ تھا لیکن اس کا پانی کسی پہاڑی دریا سے کم نہیں تھا اور اوپر سے اس کا تیز بہاؤ۔نالہ پل کے نیچے سے بہتا ہوا چند فٹ بعد ایک آبشار کی صورت میں جھاگ بنتا ہوا بلندی سے گر رہا تھا اور اس کی باریک پھوار بھی اڑ رہی تھی۔ واقعی اس چٹان پر آنے کا ہمارا فیصلہ اچھا نکلا تھا اب ہم سکون سے بیٹھ کر اس جگہ کا بھر پور نظارہ کر سکتے تھے۔ اس چٹان پر آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب بھی میں کسی ایسی جگہ آتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ ہجوم سے ہٹ کر کسی پر سکون کونے میں بیٹھ کر اس جگہ کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں کے ذریعے دل میں اتاروں۔ پانی کا شور بہت زیادہ تھا لیکن اس قدرتی موسیقی کی بھی اپنی ہی خوبصورتی تھی ۔ شور کی وجہ سے ہمیں بھی نارمل سے کچھ زیادہ بلند آواز میں بات کرنا پڑ رہی تھی۔ کچھ دیر اسکا نظارہ کرنے کے بعد ہم نے اپنا سادہ اور مختصر سا کھانا کھانا نکال لیا۔ ہاف لٹر کوک ہم نے سڑک کے ساتھ موجود ایک کھوکھے سے خرید لی تھی۔ اس چٹان پر کوئی بھی ہموار جگہ موجود نہیں تھی اس لئے آسانی کیلئے ہم نے چپل کباب کو اپنے اپنے نان کے اوپر رکھا اور شوارما کی طرح نان کو رول کر لیا۔ ایسی خوبصورت جگہ پر دیسی انداز سے کھانے کا مزہ آ گیا حالانکہ نان اور کباب ٹھنڈے ہو گئے تھے ۔ساتھ ساتھ کوک کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے ہوئے مزہ اور بھی دوبالا ہو گیا ۔ آوارہ گردوں کے کھانے کی لذت کوبڑے بڑے ہوٹلوں میں بیٹھ کر کھانے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ کھانے کے بعد ہم دوبارہ اپنے گردو نواح میں کھو گئے۔
IMG_20190716_145519.jpg
4608x3456 2.97 MB
IMG_20190716_145639.jpg
4160x3120 2.76 MB
IMG_20190716_145633.jpg
4160x3120 2.94 MB
IMG_20190716_145642.jpg
4160x3120 2.69 MB
IMG_20190716_151448.jpg
4608x3456 2.67 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-07 13:19:09 +0500
#343
کچھ دیر بعد ہم دوبارہ چھلانگیں لگا کر اس چٹان سے اترے اور سڑک پر آگئے۔ اس کے بعد ہم اس نالے پر بنے لکڑی اور لوہے سے بنے پل کے اوپر آ گئے۔ پل کے ساتھ ایک بچے کی تصویر بھی لگی تھی جو کہ اس پل کے ٹوٹنے کی وجہ سے اس نالے کی طغیانی کی نذر ہو گیا تھا ۔ یہ جگہ واقعی لاپرواہی کے لائق نہیں تھی کیونکہ پانی کا بہاؤ بہت ہی تیز تھا ۔ پل پر کھڑے ہو کر جدھر سے پانی آ رہا تھا اور جدھر جا رہا تھا دونوں اطراف کا نظارہ کرنے لگے۔ پل کے پار ایک گیسٹ ہاؤس بھی نظر آ رہا تھا یعنی یہاں قیام و طعام کا بھی بندوبست موجود تھا۔ پانی میں ایک جگہ مجھے ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے وہاں کوئی چھوٹا موٹا پاور پلانٹ بھی لگا ہوا تھا یا وہاں سے پانی کو کہیں اور منتقل کیا جا رہا تھا لیکن میں مکمل طور پر پر یقین نہیں تھا۔
IMG_20190716_152201.jpg
4160x3120 4.15 MB
IMG_20190716_152410.jpg
4160x3120 3.87 MB
IMG_20190716_152527.jpg
4160x3120 4.39 MB
IMG_20190716_152548.jpg
4608x3456 2.92 MB
← previous page
next page →
Podcast
Articles