haroonmcs26
(haroonmcs26)
#344
کنڈل شاہی آبشار کی ویڈیو کہانی۔ برائے مہربانی میرے چینل کو سبسکرائب کریں اور اگلی اقساط کیلئے بیل آئیکون کو بھی ضرور دبائیں۔ شکریہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#345
تقریباً ساڑھے تین بجے ہم نے کنڈل شاہی آبشار کو خیر باد کہا اور واپس کنڈل شاہی کی طرف چل پڑے ۔ جانا ہم نے کٹن اور جاگران تھا جو کہ کہ کنڈل شاہی آبشار سے آگے تھے لیکن کم علمی کی وجہ سے ہم نے کنڈل شاہی کا رخ کیا۔ واپس کنڈل شاہی پہنچ کر پتا چلا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے تو پھر دوبارہ کنڈل شاہی آبشار والی سمت کا رخ کیا اور اسے کراس کرتے ہوئے آگے روانہ ہو گئے لیکن اس دوران کوئی بیس منٹ کا نقصان ہو گیا۔ آبشار سے آگے کا راستہ اور بھی خوبصورت تھا ۔ ایک طرف بلند پہاڑ اور دوسری طرف تیز رفتار پہاڑی نالہ۔ نالہ سڑک سے کچھ ہی گہرائی میں تھا اور سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا بہہ رہا تھا ۔ جس طرح سانپ کی بلدار چال میں ایک خوبصورتی ہوتی ہے لیکن ہوتا وہ خطرناک ہے بالکل اسی طرح وہ نالہ بھی تھا۔ کٹن کا فاصلہ کنڈل شاہی سے تقریباً چھ کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے ۔ راستے میں چند آہنی پل بھی آئے لیکن راستہ ماسوائے چند موڑ کے زیادہ چڑھائی والانہیں تھا۔ سڑک کی حالت اچھی تھی اس لئے چار بج کر چند منٹ پر ہم کٹن پہنچ گئے (میٹر ریڈنگ 23959)۔ کٹن ایک درمیانہ قصبہ ہے اور چھوٹی موٹی ضرورت کی چیزیں وہاں سے مل جاتی ہیں لیکن اس علاقے کے لوگوں کا اصل مین بازار کنڈل شاہی ہی تھا۔ کنڈل شاہی سے یہاں اور جاگران تک پبلک ٹرانسپورٹ بھی نظر آ رہی تھی جس میں جیپ، وین اور پرانے ماڈل کی کاریں شامل تھیں۔ کٹن قصبہ کے بازار کے اختتام پر ایک اور آہنی پل کو کراس کیا ۔ پل سے تھوڑا سا آگے چند میٹر کا خراب روڈ آیا جس کی خرابی کی وجہ وہاں سے گزرنے والا پانی تھا ۔ اس سے آگے پھر کٹن کی آبادی شروع ہو گئی۔ پہاڑی علاقوں کی آبادی میں گھر عام طور پر بالکل ساتھ ساتھ نہیں ہوتے بلکہ ایکدوسرے سے کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں ۔ سڑک کی حالت تو ٹھیک تھی لیکن چڑھائی زیادہ تھی اور اسی وجہ سے اب تک کے سفر کے دوران طلحہ کو کوئی دو جگہ اترنا بھی پڑا۔ ابھی تک ہم نے بائیک کا ایئر فلٹر نہیں نکالا تھا کیونکہ راستے میں کچھ مٹی بھی تھی جو کہ انجن کیلئے نقصان دہ تھی۔ اب ہمارا سفر جاگران کی سمت جاری تھا اور کٹن کے بعد چڑھائیاں اور زیادہ ہو گئی تھیں۔ کئی بلدار موڑ تو اتنی چڑھائی والے تھے کہ بائیک کی بھی بس ہو جاتی تھی۔کٹن کے بعد کے کچھ مناظر
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#346
راستے میں چند جگہ ہمیں ایف ڈبلیو او کی کرین اور ایک اور بلڈوزر ٹائپ مشین نظر آئی۔ وہ مشین بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور چڑھائی اتنی تھی کہ ہماری بائیک بھی تقریباً رینگ رہی تھی۔ ہم نے کچھ انتظار کیا کہ وہ مشین کچھ آگے نکل جائے اور پھر ہم کچھ رفتار دے کر اس کو کراس کر لیں۔ جب وہ کچھ آگے چلی گئی تو میں نے بائیک کو ایکسٹرا ایکسلریشن دیا اور اس کو کراس تو کر لیا لیکن پھر زیادہ چڑھائی کی وجہ سے بائیک رہ گئی اور بند ہو گئی اور پھر طلحہ کو حسب معمول دھکا لگانا پڑا۔ اس چڑھائی کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کہیں بائیک اور وہ بھی دو افراد کے ساتھ یہاں آ کر ہم نے غلطی تو نہیں کی۔ ہونڈا ون ٹو فائیو پر ایک مقامی افراد نے ہمیں دھکا اور ٹانگیں لگا کر چڑھتے دیکھا تو اس نے فخر سے اپنی بائیک پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہاں یہ چڑھتی ہے وہ نہیں جو ہمارے پاس تھی اور ہم صرف مسکرا کر رہ گئے ۔ ہمیں مسئلہ دو افرا د اور سامان کی وجہ سے ہو رہا تھا ورنہ میرے خیال میں ایک فرد کیلئے اتنا مسئلہ نہیں تھا۔بہرحال موجودہ صورتحال میں بائیک کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی سخت محنت کرنا پڑ رہی تھی اور خاص طور پر طلحہ کو۔ کیونکہ جب وہ کسی چڑھائی پر اتر کے بائیک کو دھکا لگاتا تو بائیک تو چڑھ جاتی اور میں اس چڑھائی کے اختتام پر پہنچ کر طلحہ کے آنے کا انتظار کرتا اور جب وہ چڑھائی چڑھ کر آتا تو اس کی بس ہو جاتی لیکن نو جوان خون تھا اس وجہ سے پرجوش تھا اور حوصلہ نہیں ہار رہا تھا۔ بائیک مجبوراً مجھے ہی چلانا پڑ رہی تھی کیونکہ وہ کوئی اتنا اچھا ڈرائیور نہیں تھا ورنہ میں اس کی مشقت کچھ کم کر دیتا۔ لیکن مشکل چڑھائیوں سے قطع نظر کریں تو راستہ اتنا ہی خوبصورت تھا ۔ پہاڑوں پر سبزہ وافر مقدار میں موجود تھا اور ساتھ خوبصورت مگر خطرناک پہاڑی نالے کا سفر جاری تھا لیکن وہ اب کافی گہرائی میں بہہ رہا تھا ۔ نالے سے دوسری طرف کے پہاڑ پر کافی بلندی پر مکانات نظر آ رہے تھے اب پتہ نہیں کہ وہ کون سی آبادی تھی اور آیا کہ وہاں کو ئی گاڑی وغیرہ کا بھی راستہ تھا یا پیدل ہی جانا پڑتا تھا۔ بہرحال بلندی پر بنے وہ مکانات دور سے بہت خوبصورت نظر آرہے تھے اور کہیں کہیں سر سبز پہاڑوں کے پیچھے سے برفانی چوٹیوں والے پہاڑوں کی بھی جھلک نظر آ جاتی تھی۔ وقت تقریباً پونے پانچ کا ہو چکا تھا ۔ جب ہم نے دیکھا کہ زیادہ چڑھائی کی وجہ سے بائیک مسئلہ کر رہی ہے تو ہم نے اس کا ایئر فلٹر نکال دیا تاکہ بائیک کے انجن کو آکسیجن کی کمی کا سامنا نہ ہو۔ میں نے بائیک کے انجن پر تھوڑا سا پانی ڈالا تو دیکھا کہ وہ پانی ابل کر فوراً بھاپ میں تبدیل ہو گیا اس کا مطلب تھا کہ بائیک گرم ہو گئی تھی۔ اسلئے ہم نے کچھ دیر وہاں قیام کرنا مناسب سمجھا اور پانی وغیرہ پیا۔ آسمان پر بھی بادل چھانا شروع ہو گئے تھے اور بائیکرز ٹورسٹ کیلئے یہ اچھی نشانی نہیں سمجھی جاتی۔ ایئر فلٹر نکالنے پر بائیک کی کارکردگی میں نمایا ں فرق پڑا تھا۔ کچھ آگے جا کر ہمیں ایک مقامی جوان ملا جو ایک ہونڈا سیونٹی کو پیدل جاگران والی سائیڈ سے لا رہا تھا ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ پنکچر ہو گئی ہے ۔ اب پنکچر کا سامان تو ہمارے پاس تھا لیکن پنکچر لگانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا دوسرا اگر پنکچر لگانے بیٹھ جاتے تو ہمیں دیر ہو جاتی اور اوپر سے موسم بھی خراب ہو رہا تھا ۔ پھر دل میں خیال آیا کہ یہ ہمارے ساتھ بھی تو ہو سکتا ہے اور قریب کوئی آبادی یا پنکچر شاپ بھی نہیں تھی اور اس کو کئی کلومیٹر تک پیدل بائیک کو لے جانا پڑتا تو ہم نے سوچا دیکھی جائے گی جو ہو گا اور اسکی بائیک کو پنکچر لگانے میں جت گئے۔ اب شروع تو ہو گئے لیکن ٹائر تھا کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور جو کام پنکچر شاپ پر دیکھنے میں آسان لگتا ہے اب خود کرنے پر پتا چلا کہ بھائی یہ تو انتہائی مشکل ہے۔ اتنے میں ایک اور مقامی شخص وہاں ہونڈا ون ٹو فائیو پر آ گیا جو کہ پہلے والے کا جاننے والا بھی تھا۔ میں اور وہ دونوں مقامی جوان بھر پور کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح ٹائر کھل جائے لیکن ٹائر بھی انتہا درجہ کا ڈھیٹ تھا دوسرے الفاظ میں ہماری نا اہلی تھی کہ کھلنے پر راضی نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اتنے میں بہت ہلکی ہلکی بوندیں شروع ہو گئی یعنی جس کا خطرہ تھا وہی ہوا۔ طلحہ نے ہماری بائیک اور سامان پر پیرا شوٹ کا کور چڑھا دیا لیکن اللہ کا شکر تھا کہ کچھ ہی لمحوں بعد بارش رک گئی۔ جب میں نے دیکھا کہ ٹائر تو مان ہی نہیں رہا تو میں نے ان لوگوں کو کہا کہ پورے وہیل کو کھول کر باہر نکال لیتے ہیں تاکہ ٹائر کے کھلنے میں کچھ آسانی ہو ۔ وہیل آسانی سے نکل آیا کیونکہ رینچ میرے پاس بھی تھا اور انکے پاس بھی۔ وہیل کو باہر نکال کر ہم دوبارہ ٹائر پر پل پڑے۔ جب لیور ٹائر میں ڈالتے تو ایسا لگتا کہ بس اب کھلا کہ اب کھلا لیکن پھر وہ اپنی جگہ پر چلا جاتا۔ بائیک والے کے ساتھ والے بندے نے لیور کے ساتھ پیچ کس کا بھی استعمال شروع کر دیا ۔ میں نے اس سے کہا بھی کہ اس سے ٹیوب کو بھی نقصان ہو سکتا ہے لیکن اس وقت ٹائر کو کھولنے کی دھن ایسی سوار تھی کہ اس نے میری بات ان سنی کر دی۔ بہرحال کافی محنت کے بعد ہم ٹائر کو کھولنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ہم لوگوں کے ہاتھ ایسے کالے ہو گئے جیسے ہم پروفیشنل پنکچر لگانے والے ہوں۔ ایک جگہ پنکچر کو محسوس کرکے میں نے اس جگہ کو تھوڑا رگڑ کر سلوشن کے ساتھ پنکچر کا ٹکڑا رکھ کر پنکچر لگا دیا اور پمپ سے ہوا بھر ی تو پتا چلاکہ تھوڑے فاصلے پر ایک اور پنکچر ہے ۔ اس کو بھی پنکچر لگایا اور ہوا بھرنے پر پتا چلا کہ نہیں بھائی ابھی کام ختم نہیں ہوا ایک اور پنکچر بھی تھا ۔ یہ سب پیچ کس استعمال کرنے والے بھائی کا کارنامہ تھا جو ٹائر کھولنے کے چکر میں ٹیوب میں خود پنکچر کرتا رہا۔ بہرحال اس طرح چار پانچ پنکچر نکلے اور وہ بھی کوئی تین انچ کے حصہ کے اندر اندر۔ میرے پاس کوئی پنکچر کے سات آٹھ ٹکڑے تھے چار پانچ ٹیوب میں لگ گئے اور ایک آدھ ہم سے ضائع ہو گیا اور اب ہمارے پاس ایک دو ہی ٹکڑے بچے تھے اگر اور پنکچر نکل آتے تو پھر ہم بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ پنکچر لگا کر چیک کیا تو فی الحال ٹیوب اوکے تھی لیکن میں نے بائیک والے کو ہدایت کی کہ کہیں بھی پنکچر شاپ دیکھ کر یا تو پوری ٹیوب تبدیل کروا لے یا پھر پکا پنکچر لگوا لے کیونکہ اتنے سارے پنکچر ز کا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ کب جواب دے جاتے۔ دوبارہ وہیل کو فٹ کرنے لگے تو وہیل اڑی کر گیا لیکن وہ جلد ہی قابو آگیا اور پنکچر لگانے کا مشکل ترین مشن اختتام پذیر ہوا اور ہمیں ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم نے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو۔ ایک پنکچر کئی پنکچرز میں تبدیل ہو گیا تھا لیکن کہتے ہیں نا کہ عملوں کا دارومدار نیت پر ہے تو ہماری نیت تو نیک اور اس شخص کی مدد کرنے کی تھی باقی اس کی قسمت۔میں نے ان سے پوچھا کہ جاگران کتنی دور ہے اور کیا آگے بھی اسی طرح کی چڑھائیاں ہیں تو انھوں نے بتایا کہ دس بیس منٹ لگیں گے اور آگے چڑھائی ختم ہو جائے گی یہ سن کر اطمینان محسوس ہوا باقی جو انھوں نے کہا کہ دس بیس منٹ لگیں گے اس پر بالکل یقین نہیں کیا کیونکہ جو وقت مقامی لوگ بتاتے ہیں اصل میں اس سے دو یا تین گنا لگتا ہے۔ انھوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور وہ کٹن والی سمت اور ہم جاگران والی سمت روانہ ہو گئے لیکن پنکچر مشن میں کم و بیش ہمارا ایک گھنٹہ لگ گیا۔ واقعی ہی کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد چڑھائی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ اتنی ہی اترائی نے لے لی لیکن اترائی میں صرف بائیک کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے اس کا زور نہیں لگتا ۔کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد سڑک سے دائیں طرف کچھ بلندی پر موجود ایک آبشار کو دیکھ کر خود بخود بریک لگ گئی۔ وقت چھ بجکر دس منٹ ہو چکے تھا۔ آبشار کا پانی تو بہت زیادہ نہیں تھا لیکن اس کا محل وقوع خوبصورت تھا کیونکہ اسکے دائیں بائیں اور اوپر سبزہ ہی سبزہ تھا۔ اس کا پانی سڑک پر سے بہتا ہوا نیچے گہرائی میں جا کر نالے کا حصہ بن رہا تھا ۔ ہمیں اس کا نام تو معلوم نہیں تھا لیکن ہم نے اسے جاگران آبشار کانام دے دیا۔ آبشار ایک تو کچھ بلندی پر تھی اور دوسرا اس کے دامن کے پاس کچھ مقامی خواتین موجود تھیں ورنہ اس کے قریب جا کر اسکا نظارہ کرنے کا ارادہ تھا اسی لئے سڑک پر سے ہی کچھ دیر اس کا نظارہ کرنے پر اکتفا کیا اور دوبارہ آگے چل پڑے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#347
کچھ ہی منٹوں بعد ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے آگے سڑک ہی ختم ہوگئی اور سامنے دیکھا تو بلندی سےایک تیز رفتار چشمہ گزر کر نیچے نالے کا حصہ بن رہاتھا اور اس نالہ نما چشمہ سے چند میٹر آگے کچھ بلندی پر جاگران کی آبادی نظر آ رہی تھی۔ کچھ گاڑیاں اس چشمے سے پہلے ہی پارک تھیں۔ جہاں سے گزرنے کا راستہ تھا وہاں چشمے کا پانی تیز تھا اور میں شش و پنج میں تھا کہ یہاں سے گزروں یا نہیں اور اسی وجہ سے چند منٹ یہ سوچتے ہوئے ہی گزار دیئے۔ اسی دوران وہاں کچھ مرد و خواتین سیاحوں کی گاڑی بھی آئی اور وہ بھی وہاں رک گئے اور اس چشمے اور جاگران کی مقامی آبادی کو دیکھنے لگے۔ ان کی باتوں اور انداز سے لگ رہا تھا کہ ان کو جاگران آ کر مایوسی ہوئی ہے اور ان کے یہ الفاظ بھی کانوں میں پڑے کہ وقت ہی ضائع کیا اور وہ جلد ہی واپس روانہ ہو گئے۔ شاید ان کو یہاں کسی تاج محل نما چیز کی توقع تھی ۔ اب کوئی ہم سے پوچھے کہ اتنی مشقت اٹھانے کے بعد کیا ہمارے دل میں یہ خیال آیا کہ ہم نے وقت ضائع کیا تو میرا جواب نفی میں ہوتا۔ فطرت کے دلدادہ لوگوں کیلئے جاگران کا راستہ ہی اصل خوبصورتی ہے ۔ ہم جیسے آوارہ گردوں کیلئے راستے کے پیچ و خم ، پہاڑ اور دوسرے قدرتی مناظر کسی البیلی خوبصورت حسینہ کی اداؤں سے کم نہیں تھے۔ اس وجہ سے ہم نے واپسی کی بجائے رات جاگران میں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اب مسئلہ تھا کہ ان نالہ نما چشمہ کو کیسے عبور کریں تو جلد ہی اس کا حل نکل آیا ۔ تھوڑا بائیں طرف چشمہ کے اوپر لکڑی کا کوئی دو تین فٹ کا ایک چھوٹا سے پل بنا ہوا تھا ۔ طلحہ کو اتار کر میں نے ڈرتے ڈرتے اس پل سے بائیک کر گزارا اور رکنے کی بجائے آگے چل پڑا کیونکہ آگے چڑھائی والا راستہ آف روڈ تھا اور رکنےکی صورت میں بائیک چڑھانا مشکل ہو جاتی ۔ کچھ بائیک اور کچھ ٹانگوں کا زور لگا کر بالآخر میں وہ آف روڈ چڑھائی چڑھنے میں کامیاب ہو گیا اور جاگران بازار میں جا کر بریک لگائی۔ چشمہ اور چھوٹا سا لکڑی کا پل جس سے میں نے بائیک کو گزارا:
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#348
جتنی دیر میں طلحہ آتا اتنی دیر میں میں نے جاگران کا ایک طائرانہ جائزہ لیا۔ جاگران ایک چھوٹا سا گاؤں لگ رہا تھا اور بازار کے نام پر چند دوکانیں تھیں۔ جیسے ہی بازار میں داخل ہوں تو دائیں طرف تھوڑی سے چڑھائی پر ایک ہوٹل بھی تھا اور بائیں طرف جامع مسجد تھی۔ بازار کی سڑک ایک آف روڈ ٹریک کا منظر پیش کر رہی تھی۔ جاگران آرمی کے زیر انتظام علاقہ تھا۔ بازار میں چند جیپیں اور گاڑیاں بھی کھڑی تھیں۔ پہاڑوں پر بھی گھر بنے نظر آ رہے تھے اور جاگران سے آگے دور ایک پہاڑ کی چوٹی پر برف بھی نظر آ رہی تھی۔ طلحہ آ گیا تو اسے بیٹھا کر جاگران کا چکر لگانے کیلئے آگے روانہ ہو گئے لیکن چند میٹر بعد ہی گاؤں کا اختتام ہو گیا ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#349
نماز ادا کرنے کے بعد ہم مسجد کے باہر آ گئے۔ مسجد کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر مسجد میں رات گزارنے کے اجازت مل جائے تو یہ زیادہ بہتر آپشن ہے۔ مسجد کے باہر ایک مقامی شخص سے میں نے باتوں ہی باتوں میں پوچھا کہ کیا مسجد میں رات گزارنے کی اجازت مل جائے گی تو اس نے کہا کہ کیوں نہیں ملے گی اس کے لئے امام صاحب سے پوچھ لینا۔ مغرب کی نماز سے پہلے ہی ہم مسجد کے ہال میں جا کر بیٹھ گئے ۔ ایک شخص نے آ کر اذان دی اور پھر کچھ اور مقامی افراد آگئے اور ہم نے بھی ان کے ساتھ با جماعت نماز ادا کی ۔ نماز کے بعد تقریباً سب نمازی چلے گئے تو میں نے اس شخص کی طرف رخ کیا جس نے اذان دی تھی اور اس سے کہا کہ کیا ہم رات مسجد میں گزار سکتے ہیں تو اس نے کہا کہ میں خطیب صاحب سے پوچھ کر بتاتا ہوں ۔ خطیب صاحب اس وقت کہیں اور گئے ہوئے تھے تو اس نے فون پر ان سے رابطہ کیا اور ہمیں اجازت دلوا دی۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مسجد کی دیواریں تو کنکریٹ کی تھیں لیکن اس کی چھت اور ستون لکڑی کے بنے ہوئے تھے اور اندر ہال میں قالین بچھا ہوا تھا۔ جتنا چھوٹا علاقہ لگ رہا تھا اس کے حساب سے تو بہت بڑی مسجد تھی لیکن بعد میں ایک مقامی نے بتایا کہ اردگرد کی چھوٹی موٹی آبادیوں سے نماز جمعہ کیلئے لوگ یہاں ہی آ تے ہیں ۔ رات گزارنے کا بندوبست کرنے کے بعد ہم کھانا کھانے کیلئے بازار کے آغاز میں دائیں طرف تھوڑی سی بلندی پر موجود ہوٹل میں آ گئے۔ میرے خیال میں وہ اس جگہ کا واحد ہوٹل تھا۔ کھانے میں صرف لوبیہ تھا ۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور انتخاب تو تھا نہیں اسلئے اس کا ہی آرڈر دیدیا۔ کھانا بس گزارے لائق تھا ۔ لوبیہ اور چھ روٹیوں کا بل ایک سو ساٹھ روپے بنا۔ کھانے کے ساتھ ساتھ ہوٹل کے ہال میں موجود ٹی وی کو بھی دیکھتے رہے اور جب عشاء کا وقت ہو گیا تو مسجد میں آ کر با جماعت نماز ادا کی ۔ نماز کے بعد ہم نے بائیک پر موجود سامان اندر منتقل کیا اور پھر سب کے جانے کے بعد بائیک کو بھی اندر کر لیا۔ سونے سے پہلے واش روم سے فارغ ہوئے جو کہ مسجد کے پیچھے کچھ نشیب میں تھے۔ ان میں روشنی کا انتظام نہیں تھا اس لئے موبائل کی ٹارچ کو ہی استعمال کرنا پڑا۔ وہاں سے واپس آکر مسجد کے مرکزی دورازے کو بند کرکے اس کے آگے ایک پتھر رکھا جس کی ہدایت ہمیں مؤذن نے کی تھی تاکہ رات کو کوئی کتا وغیرہ اندر داخل نہ ہو سکے اور پھر مسجد کے ہال کے ایک کونے میں اپنے سلیپنگ بیگز بچھائے اور موبائل کو چارجنگ پر لگا کر سو گئے لیکن نماز فجر سے پہلے کا الارم لگانا نہ بھولے۔ مسجد کے ہال کا منظر:
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#350
سترہ جولائی 2019ء (ساتواں دن) :
صبح نماز فجر سے پہلے بیدار ہوئے اور پھر نماز با جماعت ادا کی۔ نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ سو گئے اور ساڑھے چھ بجے اٹھکر سامان پیک کیا اور جب جانے لگے تو مسجد کے ساتھ ہی ملحق دو کمروں کے رہائشی حجرے میں خطیب صاحب نے جو واپس آ گئے تھے ہمیں بلایا۔ وہ بڑے پر تپاک انداز میں ملے اور زبردستی ہمیں ناشتہ کروایا۔ ناشتہ چائے اور پراٹھوں پر مشتمل تھا ۔ اللہ کے گھر کے مہمان بنے تھے تو اس نے ہی یہ ناشتے کا بندوبست بھی کروا دیا تھا کہ میرے مہمان بھوکے نہ جائیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد خطیب صاحب کا شکریہ ادا کرکے اجازت لی اور جاگران کو بھی الوداع کہہ کر صبح کے آٹھ بجے واپس کنڈل شاہی کی طرف روانہ ہو گئے (میٹر ریڈنگ 23971)۔ ارادہ تو تھا کہ آگے جائیں لیکن مقامی افراد سے ہی پتا چلا تھا کہ آگے راستہ بند ہے تو اسی وجہ سے واپس کنڈل شاہی کی راہ لی۔ جاگران سےکنڈل شاہی کا فاصلہ تقریباً اٹھارہ کلومیٹر تھا اور جاگران سے کٹن تقریباً بارہ کلومیٹر دور تھا۔ جاگران آتے ہوئے تو چڑھائی زیادہ تھی لیکن واپسی کے سفر میں یہ چڑھائی خطرناک اترائی میں بدل گئی جہاں پر بائیک کو لوئر گیئر میں چلانا پڑ رہا تھا تاکہ وہ کنٹرول میں رہے اور بوقت ضرورت بریک کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا لیکن زیادہ نہیں۔ سوا نو بجےکٹن اور کنڈل شاہی کے درمیان ایک جگہ نالے کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر بریک لگا دی وہاں نالہ تھوڑے وسیع رقبہ پر شاخیں سی بناتا ہوا بہہ رہا تھا۔ کچھ مقامی افراد نالے سے ریت نکالنے میں مصروف تھے۔ میں اپنی اکثر تحریروں میں یہ کہتا ہوں کہ اکثر مناظر کی خوبصورتی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کیمرے کی آنکھ اسے بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہے اور ایسا ہی یہاں تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#351
نو بجکر چالیس منٹ پر ہم نیلم روڈ کنڈل شاہی پہنچ گئے (میٹر ریڈنگ 23989)۔ کیونکہ جاگران جاتے ہوئے مقامی افراد کی بائیک کو پنکچر لگانے کی وجہ سے ہمارے پاس پنکچر لگانے کے ٹکڑے ایک دو ہی رہ گئے تھے اس وجہ سے ایک پنکچر کی دوکان سے کچھ اور ٹکڑے خریدے اور پھر اٹھمقام کی طرف روانہ ہو گئے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#352
کٹن اور جاگران کے سفر کی ویڈیو کہانی، برائے مہربانی میرے چینل کو سبسکرائب کریں اور اگلی اقساط کیلئے بیل آئیکون کو بھی دبائیں۔ شکریہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#353
تحریر 138۔
نو بجکر چالیس منٹ پر ہم نیلم روڈ کنڈل شاہی پہنچ گئے (میٹر ریڈنگ 23989)۔ کیونکہ جاگران جاتے ہوئے مقامی افراد کی بائیک کو پنکچر لگانے کی وجہ سے ہمارے پاس پنکچر لگانے کے ٹکڑے ایک دو ہی رہ گئے تھے اس وجہ سے ایک پنکچر کی دوکان سے چار اور ٹکڑے خریدے جو پچاس روپے کے ملےاور پھر اٹھمقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ کنڈل شاہی سے کچھ آگے جا کر ایک ریسٹورنٹ ڈیرہ شمیم آیا جہاں پر دیسی کھانے جیسے ساگ، مکئی کی روٹی، لسی وغیرہ دستیاب تھی۔ ہمارا ارادہ تو اس وقت کھانے کا نہیں تھا اس وجہ سے ہم نے رکے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ دس بجکر گیارہ منٹ پر ہم اٹھمقام پہنچ گئے (میٹر ریڈنگ 23999)۔ اٹھمقام وادی نیلم کا صدر مقام ہے اور کافی بڑا قصبہ ہے جہاں پر تقریباً ہر قسم کی روزمرّہ استعمال کی اشیاء، بینک، پٹرول پمپ، ورکشاپس وغیرہ بھی موجود ہیں۔ کیونکہ مقامی افراد کے مطابق اس سے آگے پٹرول پمپ موجود نہیں اور آگے کھلا پٹرول ملتا ہے اس لئے ہم نےمزید تین سو روپے کا پٹرول ڈلوا کر پمپ سے بائیک کی ٹینکی فل کروالی ۔ پمپ والے سے میں نے پوچھا کہ اپر نیلم کا راستہ کہاں سے نکلے گا تو اس نے بتایا کہ کیرن سے ۔ پھر جب یہ پوچھا کہ کیسی جگہ ہے تو اس کا جواب بڑا دلچسپ تھا کہ ہمیں تو سب جگہیں ایک جیسی لگتی ہیں ۔ ظاہر ہے مقامی افراد کی تو روٹین ہے ان جگہوں کو دیکھنے کی تو انھیں تو سب ایک جیسی لگتی ہیں جب کہ ہم لوگوں نے کبھی کبھی آنا ہوتا ہے ۔ اس سے مزید استفسار کیا کہ یہاں سوزوکی بائیک کا کام کون سا مکینک کرتا ہے تو اس نے پاس ہی عبداللہ آٹوز کا بتایا ۔ وہاں سے ہم نے بائیک کے دونوں وہیل کھلوا کر بریکس کو ریگ مار لگوایا تاکہ بریک مزید بہتر ہو جائے اور ساتھ ہی پلگ بھی صاف کروایا۔ مکینک ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا جو کہ اپنے کام میں کافی ماہر لگتا تھا کیونکہ ہم جتنی دیر بھی وہاں رکے میں نے وہاں کسٹمر ز کو آتے جاتے دیکھا اور اس نے ہم سے پیسے بھی کافی مناسب لئے جو کہ میرے خیال میں ڈیڑھ سو روپیہ تھا۔ میری جیب میں کیش کم تھا جو کہ چار ہزار کے اردگرد تھا تو سوچا کہ اے ٹی ایم سے مزید پیسے نکلوا لیں پتا نہیں کہ آگے یہ سہولت ملتی ہے یا نہیں۔ نیشنل بینک اور حبیب بینک دو اے ٹی ایم سے چیک کیا لیکن لنک ڈاؤن کا ہی پیغام نظر آ رہا تھا ۔ یہ تو پریشانی بن گئی کیونکہ آگے ہمارا ارادہ رتی گلی، شاردہ، کیل اور تاؤ بٹ وغیرہ گھوم کر شاردہ سے نوری ٹاپ کے ذریعے ناران کا تھا اور رقم ہمارے پاس زیادہ تھی نہیں۔ پھر ایک مقامی شخص نے بتایا کہ آگے شاردہ اور کیل میں بھی بینک مل جائے گا تو کچھ حوصلہ ہوا لیکن اس بات کا شدّت سے احساس ہوا کہ ان علاقوں میں اے ٹی ایم پر بھروسہ کی بجائے کیش رقم رکھو کیونکہ اتنے دور دراز علاقوں میں نیٹ ورک کا کچھ پتا نہیں کہ کب ڈاؤن ہو جائے۔ بازار سے تیس روپے کا ایک کنگھا اور سو روپے کے چار کیڈبری چاکلیٹ بھی خرید لئے۔ ایک جگہ سموسے دیکھ کر من للچانے لگا تو دو سموسوں کا آرڈر دیا ۔ دوکان والے نے کاغذ پر دو سموسے رکھ کر پکڑا دیئے۔ ہم نے پہلے سموسوں کو اور پھر دوکان دار کو حیرت سے دیکھا کیونکہ ہمیں چٹنی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس سےکہا کہ چٹنی بھی ڈال کر دو۔ دوکان دار کو شاید ہماری بات سمجھ نہیں آئی اس نے اندر دوکان سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک پلیٹ کا انتظام کیا اور وہی دو سموسے ہمیں پلیٹ میں رکھ کر پکڑا دیئے۔ میں نے اسے دوبارہ چٹنی کا کہا تو اس نے کہا کہ چٹنی تو نہیں ہے ۔ شاید وہاں چٹنی کا رواج ہی نہیں تھا ۔ ہم نے پلیٹ اسے واپس کی اور کاغذ پر ہی اپنے دو سموسے اور وہ بھی بغیر چٹنی کے وصول کیے اور تیس روپے اسے ادا کر دیئے ۔ سموسے کھا تو لئے لیکن چٹنی کے بغیر مزہ نہیں آیا بلکہ ٹھنڈے اور خشک سموسے کو نگلنے کیلئے پانی کا استعمال کرنا پڑا۔ گیار ہ بجکر پینتیس منٹ پر ہم نے اٹھمقام کو اللہ حافظ کہا اور آگے روانہ ہو گئے۔ کیرن سے کچھ پہلے ایک جگہ دریا کا خوبصورت نظارہ دیکھ کر بریک لگا دی ۔
zkzamin
(Zamin Khan)
#354
Zabardast haroon bhai. Is pr jald likhe q k mera plan hai is tour ko insha Allah buht jald
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#355
شکریہ برادر۔ آپ اس روئیداد سفر کے ساتھ ساتھ میرے یو ٹیوب چینل پر بھی کمنٹس کرتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جہاں تک نئے سفر نامہ کی بات ہے تو پہلے اس سفر نامے کو مکمل کر لوں اس کے بعد دیکھیں گے۔ کوشش تو ہو گی کہ اسے بھی تحریر میں لاؤں ورنہ ویڈیو فارم میں تو ضرور اپ لوڈ کر وں گا۔ ان شاء اللہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#356
تحریر نمبر 139 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
بارہ بجکر آٹھ منٹ پر ہم کیرن تھے ۔ وہاں سیکورٹی پوسٹ پر اندراج کروایا ۔ کیرن سیکٹر وہ جگہ ہے جہاں پر پاکستانی اور ہندوستانی فوج کی چوکیاں آمنے سامنے موجود ہیں درمیان میں صرف دریا ہی موجود تھا ۔ ایسی جگہوں پر کیمرے کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ ایسے واقعات اکثر سننے میں آئے تھے کہ سیّاحوں نے کیمرے کا استعمال کیا اور دوسری طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی ۔ کیرن پوسٹ سے کچھ آگے نیلم روڈ سے بائیں اوپر کی طرف ایک پختہ سڑک اپر نیلم کی طرف نکل رہی تھی۔ مین روڈ سے اپر نیلم کا فاصلہ تقریباً چھ سے سات کلومیٹر بنتا ہے۔ بائیک روک کر سڑک کا جائزہ لیا جو زیادہ چوڑی نہیں تھی اور پھر اللہ کا نام لیکر اس پر چل پڑے ۔ سڑک مسلسل چڑھائی کی جانب جا رہی تھی اور اس کے موڑ بھی بہت زیادہ کروی تھے اور بائیک پہلے ہی گیئر میں زور لگا کر چڑھ رہی تھی ۔ کچھ آگے جانے کے بعد ہمیں دو مقامی افراد ملے ۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ اپر نیلم میں دیکھنے کو کیا ہے تو انھوں نے پہلے ایکدوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور پھر ان میں سے ایک بولا کہ بہت کچھ ہے ۔ لیکن ان کے انداز سے" بہت کچھ ہے "مجھے مشکوک لگا۔آگے سڑک کی چڑھائی اور زیادہ ہو گئی تھی اور میں نے طلحہ کو ذہنی طور پر اتر کر دھکا لگانے کیلئے تیار رہنے کا کہہ دیا ۔ ایک جگہ مشکل موڑ اور چڑھائی کی وجہ سے طلحہ کو اتر کر دھکا لگانا پڑا اور میں بائیک کو کچھ آگے ایک ہموار جگہ پر لے جا کر رک گیا ۔ وہاں ہونڈا موٹر سائیکل پر ایک آئسکریم بیچنے والا نظر آیا ۔ اس سے گپ شپ کرنے لگا ۔ میں نے اس سے کہا کہ ہماری بائیک اوپر چڑھ جائے گی تو اس نے دلچسپ انداز میں کہا" یہ تو پتا نہیں لیکن میں اپنی بائیک پر یہ آئسکریم لیکر جاتا ہوں یا تو میری بائیک چڑھ جاتی اور اگر نہیں چڑھتی تو پھر سیدھی کھڑی ہو جاتی ہے اور پھر گر جاتی ہے۔"کچھ آگے جا کر ایک اور جگہ پھر طلحہ کو اترنا پڑا ۔ جب وہ دوبارہ بیٹھنے لگا تو اس کا حوصلہ بڑھانے کیلئے میں نے کہا کہ تم بھی کہتے تھے کہ آج ایڈونچر نہیں ہوا تو اب کرو ایڈونچر ۔ آگے ہم سوچنے لگے کہ بائیک کا ایئر فلٹر نکال لیں لیکن پھر راستہ کافی بہتر ہو گیا اور ہم نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ بالآخر ہم بارہ بجکر چالیس منٹ پر اپر نیلم پہنچ گئے ۔ اپر نیلم میں ہمیں زیادہ تر ہوٹل اور ریسٹورنٹ نظر آئے اور کچھ فصلیں بھی کاشت کی ہوئی تھیں۔ اگر ایمانداری سے بتاؤں تو مجھے اپر نیلم کچھ خاص نہیں لگا اور اب مجھے راستے میں ملنے والے مقامی افراد کی معنی خیز نظروں کی سمجھ آئی۔جس سڑک پر ہم سفر کر رہے تھے وہ بالآخر ایک ہوٹل پر جا کر ختم ہو گیا اور ہم نے بھی وہاں سے یو ٹرن لے لیا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#357
تحریر نمبر 140 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
کہتے ہیں کہ ہر چیز یا جگہ میں ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو کسی اور میں نہیں ہوتی۔ میں اپر نیلم آ کر کچھ مایوس ہوا تھا لیکن پھر ایک منظر نے میری یہ ساری مایوسی ختم کر دی اور وہ تھا اپر نیلم سے دریائے نیلم کا بہت ہی خوبصورت نظارہ۔ دریائے نیلم کا جو زاویہ یہاں سے نظر آرہا تھا وہ نیچے مین روڈ سے ممکن نہیں تھا اور اس منظر نے اپر نیلم کے چھ سات کلومیٹر کے مشکل راستہ کا ازالہ کر دیا۔ کافی نیچے وادی میں دریائے نیلم بل کھاتا ہوا بہہ رہاتھا ۔ سر سبز پہاڑ وں اور وادی نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ دریا کے ایک طرف نیلم روڈ اور دوسری طرف مقامی آبادی اور کافی وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی سر سبز فصلیں۔ سبزے کی وجہ سے دریا کا پانی بھی زمردیں رنگ لئے ہوئے تھا۔ کافی دیر تک میں اس دل میں اترنے والے منظر سے اپنی آنکھوں اور دل و دماغ کو تسکین دیتا رہا ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#358
اپر نیلم سے وادی نیلم اور دریائے نیلم کا خوبصورت نظارہ۔ اگلی ویڈیوز کیلئے چینل کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکون کوبھی دبائیں تاکہ آپ خودکار طریقہ سے اگلی اقساط وصول کر سکیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#359
دریائے راوی کے قریب کیمپنگ گالا ، پاکستان کے سینئر بائیکرز سے ملاقات اور دیسی کھانوں کا مزہ۔ چینل کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکون بھی دبائیں، شکریہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#360
تحریر نمبر 141 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
اپر نیلم پر بہت کم تصاویر اور ویڈیو بنائیں کیونکہ موبائل کی میموری فل ہو گئی تھی حالانکہ چونسٹھ جی بی کی میموری تھی اور مجھے اس کے اتنی جلد فل ہونے کی امید نہیں تھی اسی وجہ سے جب سے لاہور سے چلے تھے اس وقت سے کیمرے کا بہت زیادہ استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں یہ مسئلہ ہوا۔ بات تو پریشان کرنے والی تھی کیونکہ ابھی تو کافی ٹور باقی تھا اور کیمرے کی میموری نے ابھی سے جواب دیدیا تھا ۔ میں نے موبائل کی میموری سے غیر ضروری اور کم اہمیت کے مواد کو ڈیلیٹ کر دیا لیکن پھر بھی خالی ہونے والی میموری بہت ہی نا کافی تھی ۔ اسی دوران کویت سے امجد بھائی کی کال بھی آ گئی کیونکہ اپر نیلم پر ایس کام نیٹ کے بھی سگنل آ رہے تھے ان سے کچھ دیر بات چیت ہوئی اور پھر وہاں موجود ایک ہوٹل سے پانی پیا اور بائیک پر سوار ہو کر اترائی کی طرف گامزن ہو گئے۔ اترائی میں بائیک کا زور تو کم لگ رہا تھا لیکن بائیک کو کنٹرول کرنے کیلئے چھوٹے گیئر اور بوقت ضرورت بریک کا استعمال بھی کرنا پڑ رہا تھا ۔ دو بجے کے اردگرد ہم مین نیلم روڈ پر ایک بازار میں تھے ۔ وہاں ایک موبائل شاپ دیکھ کر رکے اور وہاں سے سولہ جی بی کا ایک میموری کارڈ لیا جو کہ آٹھ سو پچاس روپے میں پڑا ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ مجھے کیمرے کا استعمال بھی سوچ سمجھ کر کرنا تھا تاکہ بقیہ سفر کو بھی اس کی آنکھ میں محفوظ کر سکوں ورنہ اپنے قارئین کو اگلے سفر کی تصاویر نہ دکھا پاتا ۔سڑک کے ساتھ ہی صاف پانی کا پائپ دیکھ کر رک گئے ۔ پینے کے ساتھ منہ پر خوشگوار پانی کے چھینٹے مار کر تازہ دم ہو گئے اور بوتل بھی بھر لی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#361
تحریر نمبر 142 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
کچھ آگے دو بجکر اکیس منٹ پر ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں دریا کے دوسرے کنارے پر ایک آبشار نظر آ رہی تھی (میٹر ریڈنگ 24025)۔ اب دوسرے کنارے تو جانے سے رہے اس لئے وہیں سے اس کا نظارہ کیا اور چند تصاویر بھی کھینچیں۔اس کے آس پاس کافی سبزہ تھا جس کی وجہ یہی لگ رہی تھی کہ وہاں بہت کم لوگ جاتے ہوں گے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#362
تحریر نمبر 143 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
راستے میں ہمیں رتی گلی جھیل کے ٹریک کے کھلنے کی متضاد اطلاعات مل رہی تھی اب کنفرم تو دواریاں جا کر ہی ہونا تھا جہاں سے رتی گلی جھیل کیلئے راستہ نکلتا تھا۔ دو بجکر چالیس منٹ پر ہم اس راستے کے سامنے تھے۔ یہ راستہ دواریاں کے بازار سے تھوڑا سا پہلے بائیں طرف نکل رہا تھا اور چڑھائی والا راستہ تھا ۔ وہاں دائیں طرف کھوکھے نما چند آفس بھی بنے تھے جہاں سے رتی گلی جھیل جانے کیلئے جیپ بک کروائی جا سکتی تھی۔ رتی گلی کی سڑک آغاز میں تو پختہ نظر آ رہی تھی لیکن آگے کا پتا نہیں تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#363
تحریر نمبر 144 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
ہمیں جو معلومات ملیں اس کے مطابق یہاں سے رتی گلی جھیل کے بیس کیمپ تک سولہ کلومیٹر کا فاصلہ تھا اور مزید جھیل تک دو کلومیٹر کی پیدل ہائیک تھی۔ اللہ کا نام لے کر میں نے بائیک اس راستے پر ڈال دی۔ اس وقت جھیل کو دیکھنے کے شوق میں چل تو پڑے تھے لیکن اس وقت ہمیں علم نہیں تھا کہ قدرت کی اس تخلیق کو دیکھنا اتنا آسان نہیں اور مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ اب تک کی میری بائیک رائیڈنگ کی زندگی کی یہ سب سے کٹھن رائیڈ ہو گی۔ تقریباً ایک کلومیٹر تک تو پختہ سڑک تھی لیکن پھر یہ پختہ سڑک ایک آہنی پل پر جا کر ختم ہو گئی اور اس سے آگے بلندی کی طرف جاتا کچا راستہ ہمیں چیلنج دیتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ پل پر میں نے بائیک روک دی ۔ بلندی سے آتا ہوا پر جوش و شور نالہ بائیں طرف سے پل کے نیچے سے گزر کر دائیں طرف گہرائی کی طرف جا رہا تھا ۔ میں رفع حاجت کیلئے تھوڑا سا گہرائی میں گیا اور دوبارہ آ کر ہم دونوں آگے نظر آنے والے راستہ کے متعلق تبادلہ خیال کرنے لگے جو کہ تنگ بھی تھا اور چڑھنے میں آسان نہیں لگ رہا تھا ۔