Log In
کشمیر جنت نظیر، جولائی 2019۔ روئیداد سفر۔ تحریر ہارون الرشید
Travel N Tours
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 13:09:36 +0500
#384
تحریر نمبر 163 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
جھیل کی طرف جانے والا راستہ آگے گھوم کر دوبارہ ہمارے دائیں طرف چڑھائی کی طرف جا رہا تھا اس وجہ سے ہم نے شارٹ کٹ مارنے کا سوچا اور دائیں پہاڑ پر چڑھ کر دوبارہ اس راستے پر پہنچ گئے لیکن اتنی سی محنت نے ہمارے سانس پھلا دیئے تھے ۔ کچھ بلندی پر آ کر منظر اور بدل گیا ۔ کچھ دیر پہلے ہمیں پہاڑ سے کودتا ہوا جو آبشار نما چشمہ نظر آیا تھا اب اس سے نیچے کا منظر واضح نظر آ رہا تھا ۔ وہ چشمہ نیچے ایک چھوٹی جھیل کا روپ دھار رہا تھا اور اس جھیل سے پانی پھر دو شاخوں میں بہتا ہوا نیچے آ کر پھر اکٹھا ہو رہا تھا اور ایک نالے کا روپ اختیار کر رہا تھا ۔ اس چشمے اور چھوٹی جھیل کے آس پاس برف بھی موجود تھی۔ ہم ایک پتھر پر بیٹھ کر اس حسین منظر سے کچھ دیر تک لطف اندوز ہوتے رہے۔
IMG_20190718_110827.jpg
4160x3120 2.43 MB
IMG_20190718_110557.jpg
4160x3120 3.69 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 13:19:48 +0500
#385
تحریر نمبر 164 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
جس راستے پر ہم چل رہے تھے اسی پر پیدل اور گھوڑوں پر سوار لوگ بھی جا رہے تھے اور چلتے چلتے کسی سیّاح سے ہیلو ہائے بھی ہو جاتی اور جب انھیں پتا چلتا کہ ہم بائیک پر یہاں آئے ہیں تو وہ ہمیں حیرت سے دیکھنے لگتے اور کہتے بڑی بات ہے ہمیں تو جیپ میں ڈر لگ رہا تھا اور آپ بائیک پر یہاں آ گئے۔ اب ان کو کیا پتا کہ ہمیں یہاں تک آنے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں ۔ پانی کی وجہ سے وہ راستہ کئی جگہ سے خراب تھا جس کو مزید خراب گھوڑوں اور ان کی باقیات نے کیا ہوا تھا اس وجہ سے ان جگہوں سے بڑا بچ کر گزرنا پڑ رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد اس راستے کا اختتام ایک بڑ ے گلیشیئر پر ہوا ۔ رتی گلی جھیل تک جانے کیلئے اس گلیشیئر کو عبور کرنا ضروری تھا ۔ گھوڑوں کے آلودہ راستے سے ہٹ کر ہم نے تھوڑا سا دائیں والا صاف ستھرا راستہ اختیار کیا جہاں کی برف صاف تھی۔ کچھ لوگوں کو برف پر سلائیڈ لیتا دیکھ کر طلحہ کے اندر چھپا ہوا بچہ جاگا اور اس نے اپنے بیگ سے ایک پالیتھین شیٹ نکالی جو ہم نے بارش سے بچاؤ کیلئے رکھی تھی اور اس پر بیٹھ کر گلیشئیر پر سلائیڈلینے لگ گیا ۔
IMG_20190718_111223.jpg
4160x3120 2.91 MB
IMG_20190718_111345.jpg
4160x3120 3.09 MB
IMG_20190718_111231.jpg
4160x3120 3.17 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 13:31:29 +0500
#386
تحریر نمبر 165 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
گلیشیئر سے کچھ آگے بلندی پر گئے تو آگے پہاڑ کی بلندی پر کچا زینہ نما راستہ جا رہا تھا ۔ وہاں جا کر لوگ گھوڑوں سے اتر رہے تھے ۔ پتا چلا کہ گھوڑوں کا سفر یہاں تک ہی تھا اور اگلا راستہ گھوڑے پر طے کرنا خطرناک تھا ۔ اب جو لوگ گھوڑوں پر سفر کرکے یہاں تک پہنچے تھے ان کو اگلی تقریباً عمودی چڑھائی بہت پریشان کر رہی تھی۔ اس راستے پر کھڑے ہو کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو نیچے نظر آنے والا منظر بھی کم خوبصورت نہیں تھا جس میں چھوٹی جھیل ، اس سے نکلنے والا نالہ ، اس کے پاس موجود گلیشیئر، بلندو بالا پہاڑاور بیس کیمپ سے آنے والا راستہ نظر آ رہا تھا جبکہ بیس کیمپ کی کوئی جھلک نظر نہیں آ رہی تھی ۔
IMG_20190718_112909.jpg
4608x3456 2.68 MB
IMG_20190718_113841.jpg
4160x3120 4.65 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 13:53:26 +0500
#387
تحریر نمبر 166 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
آہستہ آہستہ ہم نے وہ عمودی چڑھائی شروع کر دی ۔ آس پاس کوئی چیز سہارا لینے کیلئے بھی نہیں تھی اس وجہ سے دیکھ بھال کر قدم رکھ رہے تھے جبکہ کچھ لوگوں کے پاس ہائیکنگ اسٹکس بھی تھیں۔ جھیل کی طرف مرد و خواتین گامزن تھیں جبکہ ان میں کچھ زیادہ عمر کے افراد بھی تھے جن کو چڑھنے میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہاتھا۔ہم بھی اس پتلی سے پگڈنڈی پر سانس لے لے کر چڑھ رہے تھے کیونکہ تقریباً بارہ ہزار کی بلندی پر آکسیجن کی مقدار ویسے بھی کم تھی اور اسی وجہ سے چڑھائی پر سانس جلد پھول رہا تھا ۔
IMG_20190718_113332.jpg
4160x3120 3.78 MB
IMG_20190718_113013.jpg
4160x3120 5.39 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 14:30:37 +0500
#388
تحریر نمبر 167 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
اب ہم اس پہاڑ کی بلندی پر پہنچنے والے تھے جس کی چڑھائی کے آخر میں برف نظر آ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ چڑھ کر ہم برف پر پہنچے اور برف پر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد سامنے دیکھا تو ایسا لگا جیسے کسی جادوگر نے جادو کی چھڑی گھما دی ہو اور پورا منظر ہی یکدم بدل گیا ۔ میرے سامنے جو منظر تھا اس نے مجھے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا کیونکہ میں بارہ ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع خوبصورت ترین رتی گلی جھیل کا دیدار کر رہا تھا۔
IMG_20190718_113847.jpg
4160x3120 3.72 MB
IMG_20190718_114004.jpg
4160x3120 3.69 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 14:59:37 +0500
#389
تحریر نمبر 168 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
سامنے پہاڑوں کے گھیرے میں جھیل ایک بہت بڑے آئینے کی طرح نظر آ رہی تھی جس کے کناروں پر موجود برف چاندی کی نقاشی کا کام دے رہی تھی اور اس کے پیچھے کے پہاڑوں سے بادل جھانک جھانک کر جھیلوں کی شہزادی کا دیدار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جھیل کو دیکھ کر میری زبان سے جو پہلا لفظ نکلا وہ سبحان اللہ تھا ۔ جس کی تخلیق اتنی خوبصورت ہو وہ خالق کتنا خوبصورت ہو گا شاید اسی وجہ سے جنتیوں کیلئے سب سے بڑا انعام اس ذات کا دیدار ہو گا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ مسحور سا ہو کر میں جھیل کی طرف چل پڑا۔ ہم جس جگہ پر چل رہے تھے ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی نرم قالین پر چل رہے ہوں ۔ جب میں نے نیچے دیکھا تو ہمارے قدموں میں گھاس تھی جس کے اوپر سے تازہ تازہ برف پگھلی تھی اسی وجہ سے اس کی مٹی میں نمی کا تناسب زیادہ تھا اور بالکل قالین کی طرح نرم لگ رہی تھی لیکن ایسی نہیں کہ کیچڑ بن جائے ۔
IMG_20190718_114213.jpg
4160x3120 3.58 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 15:10:24 +0500
#390
تحریر نمبر 168 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
کچھ آگے جا کر ہم پتھروں پر بیٹھ گئے کیونکہ گھاس تو اتنی گیلی تھی کہ اس پر بیٹھنا ممکن نہ تھا اور دوبارہ جھیل اور گردو نواح کی خوبصورتی میں کھو گئے۔اب ہم سوچ رہے تھے کہ اگر ہم لوگوں کے کہنے پر اپنا حوصلہ توڑ کر واپس چلے جاتے تو ہم یہ سب کھو دیتے اور اسے پانے کی خوشی ہمارے چہروں پر واضح نظر آ رہی تھی۔
IMG_20190718_114225.jpg
4608x3456 2.56 MB
IMG_20190718_114348.jpg
4160x3120 3.63 MB
IMG_20190718_114251.jpg
4160x3120 3.77 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-25 15:18:12 +0500
#391
تحریر نمبر 169 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
میں نے بیس کیمپ سے ادھر آتے ہوئے جو مناظر دیکھے تھے اس وقت میں نے سوچا تھا کہ کہ پیسے تو یہاں ہی پورے ہو گئے اب جو مل جائے وہ بونس ہے لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ بونس اتنا خوبصورت ہو گا کہ پچھلے مناظر بھی اس کے سامنے ماند پڑ جائیں گے۔ جھیل کی بے پناہ خوبصورتی کے آگے راستے کی دشواری کے اب کوئی معنی نہیں رہ گئے تھے ۔جیسے جیسے ہم ملاقات کیلئے اس جھیل کے قریب جا رہے تھے اتنی ہی اس کی خوبصورتی بڑھتی جارہی تھی اور اس کے شفاف آئینے کے سائز میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔ جھیل کے کنارے پر اور بھی لوگ موجود تھے لیکن وہ نسبتاً بائیں طرف تھے اور کیونکہ میں تو ایسے قدرتی نظاروں سے رازو نیاز کی باتیں کرتا ہوں اس وجہ سے میں نے نسبتاً دائیں طرف کی راہ لی تاکہ ہماری ملاقات میں کوئی مخل نہ ہو سکے۔ ہمارے راستے میں برف کی چاندی کا فرش بھی موجود تھا ۔
IMG_20190718_114534.jpg
4160x3120 3.61 MB
IMG_20190718_114538.jpg
4160x3120 4.4 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 10:36:18 +0500
#392
تحریر نمبر 170 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
جب ہم بلندی پر تھے تو جھیل کا انداز اور تھا اور جب ہم اس کے کنارے آ گئے تو اس کا انداز ہی بدل گیا۔ اب وہ کافی بڑی لگ رہی تھی اور خوبصورت بھی۔ کچھ دیر تو میں اس کا قریب سے اچھی طرح دیدار کرتا رہا اور پھر ہم اس کے ساتھ کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے لگے۔
IMG_20190718_114759.jpg
4160x3120 2.62 MB
IMG_20190718_115033.jpg
4160x3120 3.11 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 11:02:07 +0500
#393
تحریر نمبر 171 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
رتی گلی جھیل کی خوبصورتی کا جو احساس اس وقت میرے دل میں تھا میرے الفاظ ان احساسات اور اس قدرتی حسن کو بیان کرنے سے قاصر ہیں اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس بے مثال حسن کو کیسے بیان کروں۔ سامنےنصف دائرہ نما شکل میں پہاڑوں نے جھیل کو گھیرا ہوا تھا جس کا پانی اتنا صاف و شفاف تھا کہ پہاڑوں،بادلوں، برف اور چشموں کا عکس اس میں نظر آ رہا تھا اور عکس اتنا صاف تھا کہ اس پر اصل کا گمان ہو رہا تھا ۔ ایک جگہ تو ایک چشمے کا عکس ایسا بن رہا تھا کہ ایسے لگتا تھا جیسے دو ایک جیسی تصویروں کو ایک دوسرے کے ساتھ الٹا کرکے رکھ دیا ہو۔ پانی میں طلاطم کی بجائے سکون تھا ۔ ہماری طرف والے کنارے پر پانی میں برف نہیں تھی لیکن سامنے دوسرے کنارے اور دائیں بائیں کے کناروں کے ساتھ پانی پر منجمد برف نظر آ رہی تھی۔ سامنے پہاڑوں پر جگہ جگہ برف گری ہوئی نظر آ رہی تھی اور جھیل کے پرلے کنارے کے ساتھ ساتھ برف کی دیوار سی بنی ہوئی تھی ۔ جگہ جگہ سے پہاڑوں کی برف پگھل پگھل کر چشموں اور جھرنوں کی صورت میں جھیل کا حصہ بن رہی تھی۔ سّیاحوں کی تعداد کافی کم تھی اس وجہ سے وہاں کی فضا میں ایک سکون سا محسوس ہو رہا تھا۔
IMG_20190718_115237.jpg
4160x3120 2.46 MB
IMG_20190718_115231.jpg
4160x3120 3.31 MB
IMG_20190718_115244.jpg
4160x3120 3.32 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 11:15:24 +0500
#394
تحریر نمبر 172 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
جب کنارے کے پاس کھڑے ہوکر ہم جھیل کے حسن کو دل و نظر میں سراہ رہے تھے تو دل میں ایک خواہش نے سر اٹھایا کہ اس کو چھو کر دیکھا جائے ۔ پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی یخ ٹھنڈا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اتنی بلندی پر موجود جھیل اور وہ بھی برفانی گلیشیئر ز کے پگھلنے سے وجود میں آنے والی کا پانی گرم ہونے سے تو رہا۔ پانی ٹھنڈا ہونے کے باوجود بھی ہم کچھ دیر تک اس کے پانی کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے رہے۔
IMG_20190718_115400.jpg
4160x3120 2.42 MB
IMG_20190718_115446.jpg
4160x3120 2.53 MB
IMG_20190718_115316.jpg
4160x3120 2.91 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 11:52:27 +0500
#395
تحریر نمبر 173 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
دائیں پہلو کا حسن بھی کم نہیں تھا ۔ حسن کی ہر ادا کا ایک اپنا ہی انداز ہوتا ہے اس لئے اس انداز کو دیکھنےکیلئے ہم آہستہ آہستہ دائیں سمت کے کنارے کی طرف چل پڑے لیکن نظر یں ابھی بھی اس قاتل حسینہ پر تھیں۔
IMG_20190718_115734.jpg
4160x3120 3.11 MB
IMG_20190718_115730.jpg
4160x3120 3.19 MB
IMG_20190718_115718.jpg
4160x3120 3.26 MB
IMG_20190718_115821.jpg
4160x3120 3.32 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 12:39:22 +0500
#396
تحریر نمبر 174 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
راستے میں ایک جگہ برف دیکھ کر طلحہ نے اسکے سفید گیند بنائے اور ان کے ساتھ کھیلنے لگا۔ پھر اس نے ایک گیند کو سر پر اور باقی دو کو دونوں ہاتھوں میں رکھ لیا اور مستیاں کرنے لگا۔
IMG_20190718_120152.jpg
4608x3456 2.62 MB
IMG_20190718_120135.jpg
4160x3120 3.41 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 12:59:31 +0500
#397
تحریر نمبر 175 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
جیسے جیسے ہم دائیں کنارے کی طر ف بڑھ رہے تھے ہمیں ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے جھیل بھی ہمارے ساتھ ساتھ حرکت کر رہی ہو اور میں بھی اس کے ساتھ کو آنکھوں کے راستے دل میں محفوظ کر رہا تھا ۔
IMG_20190718_120452.jpg
4160x3120 3.46 MB
IMG_20190718_120805.jpg
4160x3120 3.23 MB
IMG_20190718_120457.jpg
4160x3120 3.44 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 13:22:14 +0500
#398
تحریر نمبر 176 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
دائیں کنارے کے پاس پانی کے اندر اور پانی کے باہر برف کی مقدار زیادہ تھا بلکہ میرے خیال میں تو دائیں طرف پہاڑوں کے ساتھ والےپانی کی اوپر والی تہہ تو جمی ہوئی تھی۔ سردیوں میں تو یقیناً پوری جھیل جم جاتی ہو گی۔ جہاں ہم چل رہے تھے وہاں بھی جگہ جگہ برف موجود تھی۔جب ہم دائیں کنارے کے پاس جھیل کا نظارہ کرنے میں مصروف تھے تو زور زور سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیز گر رہی ہو ۔ ان آوازوں کو سن کر مقامی لوگ بھی اونچی اونچی آوازیں نکالنے لگے۔ دائیں طرف کے کنارے کے آخری حصہ کے ساتھ موجود پہاڑ کی بلندی سے لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پتھر گر رہے تھے اور یہ آوازیں ان سےہی پیدا ہو رہیں تھیں۔
IMG_20190718_121100.jpg
4160x3120 3.46 MB
IMG_20190718_122008.jpg
4160x3120 3.48 MB
IMG_20190718_120812.jpg
4160x3120 4.29 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 13:32:04 +0500
#399
تحریر نمبر 177 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
خالق چاہے تو اتنی بلندی اور سردی میں بھی پھول کھلا دے اور اس کا مزید احساس ہمیں وہاں جھیل کے کنارے کچھ جنگلی پھولوں کو دیکھ کر ہوا جو برفیلی زمین سے پھوٹ رہے تھے ۔ ان کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اگلے مہینے تک جھیل کے آس پاس ان جنگلی پھولوں کے اگنے کی وجہ سے جھیل کے حسن میں اور اضافہ ہو جائے گا اور جھیل پھولوں کےہار اور گجرے پہن کر کسی دلہن کی طرح لگے گی لیکن افسوس اس وقت ہم یہاں نہیں ہوں گے۔
IMG_20190718_120930.jpg
4160x3120 5.72 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 13:39:29 +0500
#400
تحریر نمبر 178 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
طلحہ برف کے ایک بڑے سخت ٹکڑے کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا اور بالآخر وہ کچھ دیر کوشش کے بعد اس کو اٹھانے میں کامیاب ہو گیا اور پھر اس نے اپنے اس میڈل کے ساتھ تصویر بھی بنوائی۔ کچھ ہی دیر میں اردگرد سے گہرے بادل امڈ آئے اور انھوں نے جھیل کے دوسری طرف کے پہاڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جھیل کے بائیں کنارے اور بیس کیمپ کی طرف سے بھی گہرے بادل چھا گئے۔اس کا مطلب تھا کہ ہمیں اس قدرتی حسن کو الوداع کہنا پڑے گا کیونکہ اگر بادل برس پڑتے تو واپسی بہت مشکل ہو جاتی اور شاید حسن کی دیوی بھی تخلیہ چاہتی تھی ۔ہم نے بھی اس کی خواہش کا احترام کیا اور اس پر ایک بھر پور نظر ڈالی اور اس کو ہمیشہ کیلئے اپنے یادوںمیں قید کرکے اداس دل کے ساتھ الوداع کہہ دیا۔
IMG_20190718_122159.jpg
4160x3120 2.1 MB
IMG_20190718_122004.jpg
4160x3120 3.66 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-26 14:12:42 +0500
#401
تحریر نمبر 179 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
واپسی کا سفر کافی تیز تھا ۔ ہم نے تقریباً ساڑھے بارہ بجے جھیل سے الوداعی ملاقات کی اور تقریباً ایک بجے ہم بیس کیمپ تھے۔ بیس کیمپ پر پہنچ کرایک جیپ کے ساتھ چند تصاویر لیں اور چائے پکوڑوں کا آرڈر دیکر اپنی بائیک کے پاس ہی کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ بادلوں نے بیس کیمپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور بارش کے بہت امکانات تھے۔
IMG_20190718_131013.jpg
4160x3120 3.33 MB
IMG_20190718_130227.jpg
4160x3120 2.3 MB
IMG_20190718_130925.jpg
4160x3120 2.99 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-27 10:55:41 +0500
#402
تحریر نمبر 180 ، کشمیر جنت نظیر، روئیداد سفر، تحریر ہارون الرشید۔
جس بچے کو ہم نے پکوڑوں کا آرڈر دیا تھا اس کی عمر تقریباً بارہ سال تھی اور نام شاید اس کا ابراہیم تھا ۔ اس سے گفت و شنید کے دوران مجھے پتا چلا کہ وہ میرے علاقے گرین ٹاؤن لاہور کے ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں یہاں اپنے آبائی علاقہ میں آیا ہوا ہے ۔ اسی واقفیت کی بناء پر وہ پچاس روپے کے اچھے خاصے پکوڑے لے آیا ورنہ تو پچاس کے وہ لوگ تھوڑے سے دے رہے تھے۔ بالکل ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی اور بارش تیز ہونے کی صورت میں بائیک پر واپسی کا سفر پھسلن کی وجہ سے بہت زیادہ مشکل ہو جانا تھا اس وجہ سے ہم نے فوری نکلنےکا سوچا۔ بارش اور بہت زیادہ اترائی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا کہ طلحہ کو سامان کے ساتھ جیپ میں بٹھا کر میں فوری طور پر نیچے کی طرف روانہ ہو جاؤں۔ ابراہیم کی مدد سے طلحہ کو تین سو روپے میں ایک جیپ میں سوار کرایا اور ابراہیم کا شکریہ ادا کرکے اور اس کو کچھ پیسے دیکر میں دو بجے سے پہلے ہی اکیلا بائیک پر نیچے روانہ ہو گیا۔ واپسی کا سفر کافی تیز تھا لیکن بریکوں کا استعمال نا چاہتے ہوئے بھی بہت کرنا پڑ رہا تھا کیونکہ اترائی اتنی تھی کہ چھوٹا گیئر بغیر بریک کے بائیک کو کنٹرول کرنے میں ناکا م تھا۔ جہاں رات کو ہم نے قیام کیا تھا وہاں عبدالوحید کو دیکھ کر جس سے ہماری رات گپ شپ ہوئی تھی رک گیا اور اس سے مختصر ملاقات کے بعد آگے روانہ ہو گیا ۔ اس کے بعد اترائی بہت زیادہ تھا اور راستے میں پتھر بھی تھے ۔ دو جگہ تو زیادہ اترائی کی وجہ سے میں گرتے گرتے بچا۔ جب انسان اکیلا ہو تو وہ اور زیادہ فکر مند ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کی صورت میں اس سے اکیلا ہی نمٹنا پڑے گا اور پھر اس وقت انسان کو اپنے اصل سہارے یعنی اپنے پروردگار اور مشکل کشا اللہ کی یاد آتی ہے اور میری زبان پر بھی اس کا ہی ذکر جاری تھا۔ حالانکہ اترائی کا سفر تھا لیکن اس کے باوجود مجھے راستے کی دشواری کی وجہ سے پسینہ آ رہا تھا ۔ یہ بھی شکر تھا کہ بارش نہیں ہوئی تھی ورنہ تو ایسی اترائی پر بارش میں اور وہ بھی بائیک پر سفر کرنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف تھا ۔ اسی طرح آرام آرام سے میں اس کھوکھا نما ہوٹل کے پاس پہنچ گیا جہاں رتی گلی جھیل جاتے ہوئے ہم نے کل چائے پکوڑے کھائے ۔ وہاں رک کر میں طلحہ کا انتظار کرنے لگ گیا اور ساتھ ہی ایک کپ چائے کا آرڈر دیدیا۔ وہ لوگ جو کل جاتے ہوئے ہمارا حوصلہ توڑ رہے تھے اب تعریف کر رہے تھے۔ چائے پی کر میں کچھ دیر وہاں رکا رہا اور پھر سوچا کہ یہاں انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ آگے نیچے اتر کر مین نیلم روڈ جا کر انتظار کروں کیونکہ اترائی کا سفر بائیک کی نسبت جیپ نے زیادہ تیزی سے کرنا تھا ۔ یہ سوچ کر وہاں سے چل پڑا اور پتھروں والے راستے سے آہستہ آہستہ اتر کر اور پھر کچے راستے سے ہوتا ہوا جب میں نالے کے آہنی پل پر پہنچا تو سکون کا احساس ہوا کیونکہ آگے پختہ سڑک تھی جس پر آرام سے بائیک چلا کر تقریباً سوا چار بجے میں دواریاں کے پاس مین نیلم روڈ پر پہنچ گیا اور وہاں بائیک کو پارک کرکے طلحہ کا انتظار کرنے لگا ۔ میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا جو با حفاظت اس مشکل راستے سے واپس لے آیا۔جب کچھ دیر گزر گئی اور طلحہ نہ آیا تو دل میں عجیب عجیب وسوسے پیدا ہو نے لگے اور سوچنے لگا کہ مجھے اس کے ساتھ ساتھ ہی آنا چاہیئے تھا لیکن اس راستے پر جیپ اور بائیک کا کوئی مقابلہ نہیں تھا ۔ بار بار دل میں عجیب عجیب خیال آ رہے تھے اور میں اس کی خیرو عافیت کی دعائیں مانگ رہا تھا ۔ تقریباً پانچ بجے طلحہ کی جیپ وہاں پہنچی اور اس کو دیکھ کر دل کو اطمینان ہوا۔ قریب ہی ایک آگاہی بورڈ لگا ہوا تھا جس پر اگلے مقامات کا فاصلہ اور درکار وقت درج تھا ۔ اس پر نظر دوڑائی اور اسکی ایک فوٹو بھی اتاری تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ ہمارا رات گزارنے کا ارادہ شاردہ تھا جو یہاں سے اٹھائیس کلومیٹر دور تھا اور درکار وقت ایک گھنٹہ لکھا ہوا تھا لیکن مجھے پتا تھا کہ ہمیں کم از کم ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جانے ہیں۔ سامان کو دوبارہ بائیک پر باندھنے کے بعد ہم وہاں سے شاردہ کی طرف روانہ ہو گئے لیکن رتی گلی جھیل اور راستے کی خوبصورتی کا جادو ابھی بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا اور طلحہ کا بھی برف کو دیکھنے ، اس کے ساتھ کھیلنے اور سلائیڈ کرنے کا شوق پورا ہو گیا تھا۔
IMG_20190718_165828.jpg
3120x4160 3.33 MB
haroonmcs26
(haroonmcs26)
2021-01-28 11:27:12 +0500
#403
رتی گلی جھیل کی ویڈیو کہانی۔ اگلی اقساط کیلئے چینل کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکون کو بھی دبائیں۔ شکریہ۔
← previous page
next page →
Podcast
Articles