haroonmcs26
(haroonmcs26)
#444
کچھ دیر میں ہم مچھل گاؤں سے گزر رہے تھے۔میٹر ریڈنگ24129 ۔ بازار میں چند دوکانیں بھی تھیں۔ کل کیل میں بائیک کا کام کرانے کی تگ و دد میں میرا لیدر کا ایک دستانہ کہیں گرگیا تھا مچھل میں ایک دوکان سے دستانوں کا ایک جوڑا خریدا جو کہ ہمیں دو سو روپے میں پڑا۔ مچھل سے آگے ہمارا سفر پھر قدرتی حسن کے ساتھ تھا ۔ پونے آٹھ ہو رہے تھے اور سڑک بالکل خالی تھی ۔ پونے آٹھ بجے کے بعد مخالف سائید سے ہمیں ایک جیپ آتی ہوئی نظر آئی۔ زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں زندگی کا آغاز عام طور پر طلوع آفتاب کے بعد ہی ہوتا ہے۔ کچی اور پتھروں والی سڑک پر اب چڑھائیاں اور اترائیاں زیادہ ہو گئیں تھیں۔ زیادہ خطرناک چڑھائی یا اترائی پر طلحہ کو اترنا بھی پڑ رہا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#445
تقریباً آٹھ بجے جام نگر کی آبادی سے پہلے ایک موڑ والی مشکل چڑھائی تھی۔ میں نے بائیک کو تھوڑا بھگایا تاکہ وہ چڑھائی چڑھ سکیں لیکن ایک پتھر پر سے اگلا ٹائر اچھلا اور ہم دونوں بائیک سمیت نیچے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ہم دونوں کی ایک ایک ٹانگ بائیک کے نیچے دبی ہوئی تھی اور بائیک اپنے اور سامان کے وزن کے ساتھ ہمارے اوپر۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ طلحہ اٹھ کر بائیک کو ہٹائے گا اور طلحہ اس انتظار میں کہ ماموں اٹھ کر یہ کام کریں گے۔ وہاں اس وقت وہاں کوئی اورنظر نہیں آ رہا تھا جو ہماری مدد کرتا۔ جب طلحہ کی طرف سے میں نے کوئی ہل جل نہ دیکھی تو سوچا کہ اب جو کرنا ہے مجھے ہی کرنا پڑے گا۔میں نے اپنی آزاد ٹانگ کی مدد سے بائیک پر زور لگا یا اور کسی نہ کسی طرح اپنی ٹانگ کو بائیک کے نیچے سے نکال کر کھڑا ہوا اور پھر بائیک کو طلحہ کے اوپر سے ہٹایا۔ یہ چڑھائی ایک موڑ پر تھی۔ جب میں نے گردو پیش کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ اللہ نے ہی حفاظت کی ہے ورنہ ہم تھوڑا سے اور آگے گرتے تو سیدھا نیچے گہری کھائی میں جاتے ۔ جس طرح ہم گرے تھے ہمارے سر زمین سے ٹکرائے تھے لیکن الحمد للہ ہم دونوں نے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے بچت ہو گئی باقی ٹانگوں پر ہلکی پھلکی خراش اور دباؤ پڑا تھا ۔ میں نے جب ہیلمٹس کو چیک کیا تو ان پر اچھی خاصی رگڑ نظر آئی۔ یہ سوچ کر ہی جھر جھری آ گئی کہ اگر ہیلمٹ نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔اس وقت مجھے بائیک کے سیفٹی گیئرز کی اہمیت کا شدّت سے اندازہ ہوا اور میں نے سوچ لیا کہ اگر آئندہ بائیک ٹور کرنا ہے تو سب سیفٹی گیئرز خریدنے ہوں گے۔بہرحال بچت ہونے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور تھوڑا سا آگے جام نگر کی آبادی سے پہلے ایک تیز نالے کو پل کی مدد سے عبور کرنے کے بعد ہم جام نگر کی آبادی میں تھے۔ جام نگر کے چھوٹے سے بازار میں سے سڑک آگے کافی چڑھائی کی طرف جا رہی تھی ۔ طلحہ کو اتار کر میں اکیلا ہی بائیک کو آگے لے گیا اور چند میٹر آگے بلندی پر رک کر جام نگر کی چھوٹی سی آبادی کو دیکھتے ہوئے طلحہ کا انتظار کرنے لگا۔ میٹر ریڈنگ 24134۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#446
جام گڑھ سے چند منٹ کے فاصلے کے بعد ایک جگہ چڑھائی پر جب میں اپنی ٹانگوں کا زور لگا رہا تھا تو میرے ٹراؤزو کی جیب سے میرا موبائل نیچے گر گیا لیکن مجھے بالکل بھی پتا نہ لگا۔ کوئی سو میٹر آگے جانے کے بعد سڑک کے بائیں طرف سر سبز جنگل کا خوبصورت منظر دیکھ کر ہم رک گئے اور میں نے جب جیب میں ہاتھ مارا کہ موبائل نکال کر اس کی تصویر اتار سکوں تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ اس وقت یہ میرے لئے پریشانی نہیں بہت پریشانی کی بات تھی ۔ موبائل کا نقصان تو اپنی جگہ تھا لیکن میرے اس سارے ٹور کی تصاویر اور ویڈیوز اس میں تھی اور اس لحاظ سے موبائل کے کھونے کی وجہ سے میں اس ٹور کے پورے ریکارڈ سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ میں نے آخری بار موبائل کو جام گڑھ کے گاؤں کے بعد استعمال کیا تھا تو اس لحاظ سے موبائل جام گڑھ اور یہاں تک کے درمیانی فاصلے میں کہیں گرا تھا ۔ ابھی تک راستے میں ہمیں کوئی شخص بھی نہیں ملا تھا اس وجہ سے میں نے طلحہ کو جلدی سے پیچھے دوڑایا کہ شاید موبائل مل جائے ۔ میں نے اللہ سے دعا کرنا شروع کر دی اور انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد ہی طلحہ واپس آتا نظر آیا اور موبائل اس کے پاس دیکھ کر جان میں جان میں آئی اور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے موبائل گرنے کے چند لمحوں بعد ہی میرے دل میں اس جنگل کی تصویر اتارنے کا خیال ڈالا ورنہ تو پتا نہیں مجھے کب پتا چلنا تھا۔ اگر موبائل نہ ملتا تو آج آپ لوگ میرا یہ سفر نامہ نہ پڑھ رہے ہوتے کیونکہ اس پورے سفر کی تصاویر اور ویڈیوز اس میں ہی تھیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#447
اگلی چھوٹی آبادی رحمٰن آباد کی تھی ۔ اس سے پہلے ایک مشکل اترائی اور چڑھائی کے بعد ایک نالے کو پل کے ساتھ عبور کیا اور چند منٹ وہاں رک کر آرام کرنے کے بعد پھر آگے چل پڑے۔ میٹر ریڈنگ 24137۔ خوبصورت دریائے نیلم اب بھی ہمارے ساتھ ساتھ بہہ رہا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#448
تقریباً پونے نو بجے ہم جندر سیری تھے ۔ جو رحمٰن آباد سے تقریباً دو کلومیٹر دور تھا ۔میٹر ریڈنگ 24139۔ وہاں بھی نالے کے اوپر موجود پختہ پل کو پار کیا ۔ ایسے نالے ہم نے راستے کی تقریباً ہر آبادی کے پاس دیکھے تھے ۔ پہاڑی علاقوں میں آبادی عام طور پر پانی کے نزدیک ہی ہوتی ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#449
راستے میں دریا پار ایک خوبصورت نالہ بھی بہتا نظر آیا جو کہ گہرے جنگل سے نکل کر دریا میں شامل ہو رہا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#450
راستہ کافی دشوار ہوتا جا رہا تھا بہت سی جگہوں پر تو سڑک اتنی تنگ ہو جاتی کہ ایک وقت میں صرف ایک گاڑی گزر سکتی تھی اس پر مزید یہ کہ اترائیاں اور چڑھائیاں۔ بہت سی چڑھائیاں ایسی تھی کہ بائیک کو ایک بندے کے ساتھ بھگا کر چڑھاؤ تو پھر بھی ٹانگوں کا استعمال کرنا پڑا بلکہ کچھ جگہوں پر دھکا بھی لگانا پڑا۔ کئی جگہ پر تو سڑک پہاڑ کے چھجے کے نیچے سے گزر رہی تھی اور مجھے سکردوجانے والی سڑک یاد آ رہی تھی جس میں کئی جگہ پر پہاڑ سڑک پر سائبان کی طرح سایہ کیے ہوئے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#451
کہیں کہیں پہاڑوں پر آباد چھوٹی موٹی آبادیاں بھی نظر آ جاتیں۔ دور دراز اور سڑک کی حالت اچھی نہ ہونے کے باعث یہ علاقہ اپنے اندر قدرتی حسن سموئے ہوئے تھا۔ دریا، نالے، چشمے، سر سبز اور گھنے جنگل، بلند و بالا پہاڑ اور برفانی چوٹیاں ہر قسم کا پہاڑی حسن یہاں موجود تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#452
تقریباً ساڑھے نو بجے ہم ایک نسبتاً بڑی آبادی جانوئی پہنچ گئے۔ میٹر ریڈنگ 24143۔ اس آبادی میں مجھے مکینک ، پٹرول اور چھوٹی موٹی ضروریات زندگی کی اشیاء کی دوکانیں بھی نظر آئیں۔ کیل کے بعد یہ پہلا بڑا گاؤں تھا۔ اس گاؤں سے دو جگہ پر اطراف کو بھی راستے نکلتے نظر آئے مگر ہم نے اسی سڑک کو پکڑے رکھا اور گاؤں کے اندر کی چڑھائیاں اترائیاں ناپنے ہوئے ہم گاؤں سے باہر نکل آئے۔ آگے ایک سیکورٹی پوسٹ پر اندراج کرایا جس سے آگے ایک مشکل چڑھائی کی وجہ سے طلحہ کو اتار کر میں بائیک کو آگے لے گیا اور بلندی پر پہنچ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ پہلے دریا سڑک کے ساتھ ساتھ بہہ رہاتھا اور سڑک سے زیادہ گہرائی نہیں تھی لیکن اب دریا کافی گہرائی میں چلا گیا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#453
راستے میں ایک تبلیغی جماعت سے بھی ملاقات ہوئی جو کہ پیدل ہی جانوئی کی طرف جارہی تھی۔ کچھ دیر ان سے بات چیت کرنے کے بعد ہم دوبارہ آگے روانہ ہو گئے۔ دریا کی دوسری طرف ایک بڑا پہاڑی نالہ نظر آیا جو کہ کافی بلندی سے آرہا تھا اور اسی وجہ سے اس کے پانی کی رفتار بھی کافی تیز تھی۔ اس کے بہاؤ کا اندازہ ہمیں اس سے بھی ہورہا تھا کہ اس کے اندر ہمیں بہت سے درختوں کے ٹوٹے ہوئے تنے بھی نظر آ رہے تھے ۔ بارش میں تو اس کا بہاؤ بہت ہی خطرناک ہو جاتا ہو گا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#454
دس بجے سے کچھ پہلے ہم ایک اور بڑے گاؤں پھلاوئی پہنچ گئے۔ یہ گاؤں جانوئی سے تقریباً پانچ کلومیٹر آگے تھا ۔ میٹر ریڈنگ 24148۔ یہاں بھی مکینک،درزی، پٹرول و ڈیزل وغیرہ کی دوکانیں نظر آ رہیں تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہمیں وہاں ہوٹل بھی نظر آئے۔ پھلاوئی سے پہلے ہم ایک نالے پر پہنچے جس پر لوہے کا پل بنا ہوا تھا ۔ وہ نالہ بڑا ہی خوبصورت تھا جس کا صاف و شفاف پانی اچھلتے ہوئے پل کے نیچے سے بہہ کر دریائے نیلم میں شامل ہو رہا تھا ۔ اس نالے کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر ہم کچھ دیر وہاں رک کر اس کا نظارہ کرتے رہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#455
پھلاوئی کے بعد دریا کا پاٹ چوڑا ہو گیا اور اس کے اردگرد ریت کا چھوٹا میدان بھی نظر آ رہا تھا ۔ اب دریا ہم سے زیادہ گہرائی میں نہ تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#456
پھلاوئی سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے بعد ہم سرداری گاؤں پہنچ گئے ۔ یہاں میں نے ایک چیز محسوس کی کہ باہر کی نسبت آبادی کے اندر کی سڑکیں زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں اور انکی اترائی اور چڑھائی بھی اچھی خاصی تھی۔ سرداری کے گاؤں کے بعد بہت ہی خوبصورت مناظر تھے۔ دریا کا وسیع پاٹ، اس کے پار پہاڑ کا دامن اور اس کی بلندی پر خوبصورت میڈوز اور ہماری طرف دریا کے ساتھ خوبصورت سبز میدان۔کمال کا منظر تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#457
کچھ اور آگے بڑھے تو اس سے بھی زیادہ خوبصورت منظر ہمارا منتظر تھا۔ دریا پار ایک بہت خوبصورت سر سبز وادی جس میں سے ایک خوبصورت ندی کئی شاخوں میں بہہ کر دریا سے مل رہی تھی۔ اس وادی کے پیچھے سبز اور جنگلات سے بھر پور پہاڑوں کا سنگم اور وادی میں موجود اکّا دکّا مکانات اور کئی شاخوں میں منقسم ندی کسی پر بھی فسوں پھونکنے کیلئے کافی تھی۔ اس منظر نے مجھے اتنا مبہوت کر دیا کہ میں کافی دیر ساکت کھڑا اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی خوبصورتی کو کیسے بیان کروں۔ نہ تو الفاظ ساتھ دے رہے ہیں اور نہ ہی تصاویر ایسی ہیں کہ اس کی اصل خوبصورتی کو دکھا سکیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#458
سرداری کے بعدلینڈ اسکیپ اور سینری بہت زبردست ہو گئی تھی ۔ ایک مشکل چڑھائی کو چڑھ کر جب میں ایک ڈھابہ ہوٹل کے پاس کھڑا ہو کر طلحہ کا انتظار کر رہا تھا تو دور ہلمت کا علاقہ نظر آ رہا تھا جو کہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ میری ذاتی رائے میں اگر کوئی وادی نیلم کی سیر کے دوران کیل سے تاؤ بٹ کا سفر نہیں کرتا تو وہ وادی نیلم کی اصل خوبصورتی سے محروم ہو جاتا ہے۔ آج سفر کے دوران جن جگہوں اور مناظر سے ہمارا سامنا ہوا تھا وہ دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ سفر میں اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#459
سرداری سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہلمت کا علاقہ آیا وہ بھی ایک خوبصورت علاقہ تھا۔وہاں داخلے سے قبل پوسٹ پر اندراج کروایا۔ ہلمت کی آبادی بھی کافی تھی اور وہاں پر کافی بڑا سکول، ہوٹل اور دوکانیں بھی نظر آ رہیں تھیں۔ اس آبادی کے پاس ہی سڑک سے ہٹ کر راستہ دریا کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا جو کہ تمام کا تمام گول پتھروں پر مشتمل تھا جہاں سے ہم نے بائیک کو بہت احتیاط سے نکالا کیونکہ وہاں گرنے کا خطرہ تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#460
ہلمت کے بعد ہم ایک اور خوبصورت چھوٹی آبادی نیکرو سے گزرے ۔ ہم شکر کر رہے تھے کہ آج موسم صاف ہے ورنہ اگر کیل سے تاؤبٹ کا سفر بارش میں کرنا پڑجائے تو سڑک پر مٹی کی موجودگی کی وجہ سے پھسلن بہت زیادہ ہو جاتی اور پھر جو سفر ابھی بھی آسان نہیں لگ رہا تھا وہ عذاب بن جانا تھا ۔ چڑھائیوں ، اترائیوں اور بلدار سڑک پر کبھی بیٹھتے کبھی اترتے ہوئے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہم تاؤ بٹ پہنچ ہی گئے۔ میٹر ریڈنگ 24167۔ تاؤبٹ کی اصل خوبصورتی سے پہلے ایک آبادی اسی نام سے آتی ہے جو کہ کسی قدیم بستی کی طرح نظر آتی ہے ۔ کئی انجان لوگ اس آبادی کو ہی اختتام سمجھ کر مایوس ہو کر واپس چلے جاتے ہیں لیکن تاؤ بٹ کی اصل خوبصورتی اس آبادی سے کچھ آگے ہے۔ اس آبادی سے آگے جو سب سے پہلی چیز نظر آئی وہ ایک لکڑی کا پل تھا جس کے پار سر سبز لان والے بہت سے خوبصورت ہوٹل نظر آئےجن کے لان میں بیٹھ کر بہت خوبصورت وقت خوبصورت دریائے نیلم کی سنگت میں گزارا جا سکتا تھا۔ دوسرا اس سے بھی اور خوبصورت منظر دریائے نیلم کے مٹیالے اور نسبتاً بائیں طرف سے آنے والے ایک خوبصورت نالے کے صاف و شفاف پانی کا ملاپ تھا۔ پہلے دونوں پانی کچھ دور تک ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور اس کے بعد نالے کا صاف و شفاف پانی اپنے وجود کو اپنے سے بڑے نیلم کے پانی کے حوالے کر رہا تھا۔ ان کے ملاپ کا یہ منظر ایک فطرت سے محبت کرنے والے کو مسحور کر دیتا ہے اور وہ ساکت کھڑا اس منظر میں کھو جاتا ہے۔ کیل اور تاؤبٹ اور ان کے درمیان کا علاقہ بلا شبہ وادی نیلم کے ماتھے کا جھومر ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#461
سیّاحوں کی ایک جیپ پل کے پاس کے منظر کو دیکھ کر واپس ہو گئی لیکن ہم نے سوچا کہ جہاں تک جا سکتے ہیں وہاں تک جائیں تاکہ بعد میں کوئی افسوس نہ ہو۔ اور کچھ آگے جانے کے بعد ہمیں اپنے اس فیصلے پر خوشی ہی ہوئی۔ آگے سڑک اس صاف وشفاف نالے کے ساتھ آگے جار ہی تھی ۔ اس نالے کا حسن بھی اپنی ایک مثال تھا۔ صاف و شفاف پانی آسمان اور سبزے کی وجہ سے زمردیں اور نیلے رنگ کا ملاپ لیے ہوئے تھا۔ ہم نے بائیک اس نالے کے پاس پارک کی اور اس کے کنارے پر بیٹھ کر اس کے خوبصورت پانیوں کا نظارہ کرنے میں محو ہو گئے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#462
کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد ہم آگے گئے تو ایک کافی کھلی جگہ آ گئی جس کی بائیں طرف کئی دوکانیں اور مکانات تھے اور دائیں طرف نالے کے اوپر سے لکڑی کا ایک کافی بڑا پل تھا جس پر سے گاڑی بھی گزر سکتی تھی۔ سامنے اس کھلی جگہ کے بعد کا راستہ کچھ آگے جا کر ایک پگڈنڈنی نما راستے میں تبدیل ہو رہا تھا اور اس سے آگے کا علاقہ تاؤ بٹ بالا کہلاتا ہے۔ ہم بائیک کو پل پر سے گزار کر آگے لے گئے جہاں کافی ہوٹل بنے ہوئے تھے ۔ پل کے بعد کنکریٹ کی سڑک کچھ دور جا کر ختم ہو رہی تھی اور اس سے آگے دریائے نیلم نظر آ رہا تھا لیکن دریائے نیلم سے پہلے ہی ایک بانس لگا کر راستے کو بلاک کیا ہوا تھا ۔ وہاں سرکاری رہائش کی عمارت بھی نظر آئی جہاں بہت اعلیٰ حکومتی عہدہ داران قیام کرتے ہیں۔ ہم جیسے آوارہ گرد بھی ہوٹلوں کو تکنے کی بجائے ایسی جگہ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں جہاں قدرت اپنے رنگوں میں رنگی ہو اس لئے دوبارہ پل کے پاس آگئے اورپہلے وہاں اس کے قریب ایک مسجد کے باہر بنے ہوئے واش روم سے فارغ ہوئے جس کا پانی بہت ٹھنڈا تھا ۔ اس کے بعد پل سے پہلے بائیں طرف نالے کے قریب ہی ایک جگہ کا انتخاب کرکے وہاں اپنی بائیک کو پارک کیا اور نالے کے کنارے پر اس کے پانی میں اپنے پاؤں ڈال کر بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو تروتازہ کیا۔ جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں قریبی ڈھابہ ہوٹل والوں نے ایک باغیچہ بھی بنایا ہوا تھا جس میں لکڑی کی بنی ہوئی میز اور اس کے گرد لکڑی کے ہی بینچ رکھے ہوئے تھے۔ نالے کے ساتھ لکڑی کے تنے کو کاٹ کر اور سیدھا کھڑا کرکے بیٹھنے کیلئے موڑھے نما انداز میں رکھا ہوا تھا ۔ ہم انھیں تنوں پر بیٹھے اس خوبصورت نالے کی قربت میں اپنا وقت گزار رہے تھے۔ پانی ٹھنڈا تھا اس وجہ سے ہم کبھی اس میں پاؤں ڈال دیتے اور کبھی نکال لیتے۔ اتنے لمبے سفر کے بعد ایک سکون کا سا احساس ہو رہا تھا ۔ دوسرا ہمیں پتا تھا کہ وادی نیلم کے سفر کا یہ ہمارا اختتامی مقام ہے اور اپنا سفر خیر و عافیت سے مکمل ہونے پر اور بھی سکون محسوس ہو رہا تھا ۔ ساتھ موجود ڈھابہ ہوٹل کو ہم نے چائے اور پکوڑوں کا آرڈر دیا ہوا تھا ۔ طلحہ قریب ہی ایک دوکان سے بسکٹ کے دو ہاف رول بھی لے آیا اور اس خوبصورت جگہ پر اس خوبصورت نالے کی سنگت میں چائے پی کر مزہ آ گیا اور میرے دل و دماغ میں وہ منظر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#463
ڈیڑھ گھنٹہ اس خوبصورت نالے کی سنگت میں گزار کر ہم واپسی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چائے اور پکوڑوں کا بل جو ایک سو تیس روپے بنا تھا ادا کرکے ہم بائیک پر بیٹھے اور تقریباً ایک بجے واپس کیل کی طرف روانہ ہو گئے۔ تاؤ بٹ ایک ایسی خوبصورت جگہ تھی جہاں کئی دن گزارے جا سکتے تھے لیکن ہمارے ساتھ یہ مجبوری تھی کہ یہ ہمارے ٹور کا دسواں دن تھا اور ابھی کم از کم دو دن ہمیں واپسی کیلئے درکا ر تھے اس وجہ سے مجبوراً ہمیں تاؤ جی کو خدا حافظ کہنا پڑا اور یہ بھی سوچ لیا کہ اگر ان شاء اللہ دوبارہ آنا ہوا تو تاؤبٹ، سرداری اور ہلمت کے مضافات میں اور ان مضافات میں دریا پار شاخدار ندیوں والی وادی میں بھی کچھ وقت گزاریں گے۔ واپسی کے سفر میں قیام بہت کم تھا اور تقریباً پانچ بجے ہم کیل پہنچ گئے۔ وہاں دوبارہ اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکالنے کی کوشش کی لیکن لنک ڈاؤن۔ اب میرے پاس کوئی ڈیڑھ ہزار روپیہ رہ گیا تھا جو کہ ناکافی تھا۔ ابھی ہمارے پاس وقت تھا سوچا کہ بجائے کیل میں قیام کرنے کے شاردہ ہی چلتے ہیں ۔ روانہ ہونے سے پہلے کیل سے چھ سو پچاس روپے کا پانچ لٹر پٹرول ڈلوایا تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔شاردہ کے آدھے راستے کے بعد ایک بڑا چشمہ جو سڑک پر سے گزر رہا تھا اس کو پار کرتے ہوئے بائیک اس میں موجود پتھروں میں پھنس گئی اور بڑی مشکل سے ہلا ہلا کر اسے باہر نکالا ۔ بہر حال تقریباً سات بجے ہم شاردہ تھے ۔ وہاں پہنچ کر ایک پٹھان ہوٹل سے کھانا کھایا جو کہ چکن اور چھ روٹیوں پر مشتمل تھا اور بعد میں چائے بھی پی۔ کل بل 190 روپے کا بنا ۔ آج گرنے کی وجہ سے جسم تھوڑا درد کر رہا تھا ۔ ویسے تو میں پینا ڈول بھی بہت کم استعمال کرتا ہوں لیکن ابھی ہمارا کافی طویل سفر باقی تھا اس وجہ سے درد دافع دوا لی اور ایک زیر تعمیر دوکان میں کیمپ لگا کر سو گئے۔