haroonmcs26
(haroonmcs26)
#221
وعلیکم السلام۔ بہت شکریہ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#222
واپسی کا سفر ہم نے تقریباً ساڑھے بارہ بجے شروع کیا تھا اور ارادہ تھا کہ جہاز بانڈہ پہنچ کر وہاں سے قریب ہی ایک آبشار کو بھی دیکھ لیا جائے۔ عمودی اترائی کو اترنے کیلئے ہمیں چند منٹ انتظار بھی کر نا پڑا کیونکہ اترنے اور چڑھنے کا صرف ایک ہی تنگ راستہ تھا ۔وہاں کوئی واش روم تو تھا نہیں اس لئے چھوٹی رفع حاجت کیلئے پتھروں کا رخ کیا۔ واپسی پر ہم نے یہ حکمت عملی طے کی کہ بجائے چڑھائی والے راستے کے جھیل سے نکلنے والے نالے کے ساتھ ساتھ سفر کیا جائے تاکہ جتنا ہو سکے چڑھائی سے گریز کر کے توانائی کو بچایا جا سکے۔ واپسی کا سفر اترائی کی وجہ سے کافی تیز تھا اور ہماری یہ تیز رفتاری تقریباً آدھے راستے سے کچھ پہلے تک بر قرار رہی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#223
جھیل کی سمت والا راستہ جس سے ہم واپس آ رہے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#224
چھوٹی کٹورہ جھیل سے کچھ پہلے ہمیں نالے کو چھوڑنا پڑا کیونکہ اس کے ساتھ اتنے بڑے بڑے پتھر آ گئے تھے جن کو عبور کرنا بہت مشکل تھا اس لئے مجبوراً ہمیں دوبارہ چڑھائی چڑھنی پڑی۔ پتھر تو وہاں بھی بڑے تھے لیکن ان کے درمیان سے راستہ موجود تھا۔ اس وقت زیادہ تر لوگ واپسی کا سفر کر رہے تھے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو ابھی بھی جھیل کی طرف جا رہے تھے جو کہ میرے خیال میں مناسب وقت نہیں تھا کیونکہ واپسی میں پھر دیر ہو جانی تھی۔ اب تھکن دوبارہ طاری ہو نا شروع ہو گئی تھی لیکن ہم چھوٹے چھوٹے وقفوں میں سانس لیتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اب ہمارا سفر چھوٹی کٹورہ جھیل کے ساتھ جاری تھا اور ہم اتنی بلندی پر تھے کہ جھیل کے کنارے چرنے والے مویشی بہت چھوٹے چھوٹے نظر آ رہے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#225
کچھ دیر چھوٹی کٹورہ جھیل کے پاس سانس لینے کے بعد پھر چل پڑے کچھ آگے جا کر ایک نسبتاً ہموار میدان آ گیا۔ اس کے بائیں طرف تھوڑی چڑھائی چڑھنے کے بعد ایک مقامی گھر بنا ہوا تھا ۔ ہمارے راستے میں چند بچے جن کا تعلق اس گھر سے تھا لسی بیچ رہے تھے۔ ہاف لٹر بوتل کی قیمت پچاس روپےتھی۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ دودھ ہے اس نے کہا کہ لا دیتا ہوں سو روپے کی ہاف لٹر بوتل ہو گی تومیں نے کہا کہ گرم کرکے لانا ۔ سوچ یہی تھی کہ گرم دودھ پی کر کچھ توانائی بحال ہو جائے گی لیکن وہ بچہ جب دودھ لیکر آیا تو وہ ٹھنڈا تھا اس لئے نہیں خریدا تاہم تھوڑی دیر تک ان بچوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ ہم ان سے کہنے لگے کہ یار تھوڑی رعایت کر دو لیکن وہ بڑے پکے تھے ایک روپے کی رعایت بھی دینے کو راضی نہیں تھے۔ وہاں سے آگے تھکن کا احساس بڑی شدت سے ہو رہا تھا اور میرے سر میں درد بھی ہو رہا تھا لیکن میں اس کا زیادہ اظہار نہیں کر رہا تھا کیونکہ شعیب جو پہلے ہی بہت تھکا ہوا تھا وہ کہیں ہمت ہی نہ چھوڑ جائے۔ صرف ہم ہی نہیں واپس جانے والے اکثر لوگ اس تھکن کا شکار ہو رہے تھے۔ ہم تھوڑی تھوڑی دیر بعد مختصر قیام کرتے نہ چاہتے ہوئے بھی چلے جا رہے تھے۔ سفر کا آخری چوتھا حصہ بمشکل رکتے رکتے طے کیا۔ جب ہم اپنے کیمپ کے پاس پہنچے تو تھکن سے برا حال تھا ۔ بابر جو لگتا تھا کافی پہلے پہنچ گیا تھا وہ ٹینٹ میں سویا ہوا تھا۔ بابر ہم سے سفر کے آغاز میں ہی بہت آگے نکل گیا تھا اور اس کی وجہ اس کا ہائیکنگ کا تجربہ تھا کیونکہ وہ ایک پروفیشنل گروپ کے ساتھ ہائیکنگ کرتا رہتا تھا۔ شعیب بھی جا کر ٹینٹ میں لیٹ گیا ۔ وقت تقریباً چار بجے کا تھا۔دل تو میرا بھی آرام کرنے کا کر رہا تھا لیکن میں نے شوز اتارے اور چپل پہن کر صابن وغیرہ لیکر ٹینٹ سے کچھ میٹر دور پانی کے پائپ کے پاس گیا اور اچھی طرح منہ ہاتھ اور پیر دھونے کے بعد وضو کیا اور کیمپنگ ایریا میں درمیان میں بچھی چٹائی پر ہی ظہر اور عصر کی نماز ادا کی۔ جسم اور سر بہت دردر کر رہا تھا مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بخار ہو۔ ویسے تو میں بروفن اور اس جیسی پین کلر ادویا ت سے حتی الامکان پرہیز کر تا ہوں بلکہ پیناڈول جیسی گولی کھانے کے بھی حق میں نہیں لیکن یہ بھی پتا تھا کہ گھر سے باہر ہوں اور پھر آگے اور واپسی کا سارا راستہ بائک پر ہی طے کرنا ہے اس لئے ایک بروفن اور ایک اور گولی کھائی جس کے اثرات کچھ دیر بعد ہی محسوس ہونے لگے اور میں خود کو کافی بہتر محسوس کرنے لگا۔ اب اگلےپروگرام کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں سے بات کرنے لگا۔ بابر کہنے لگا کہ جہاز بانڈہ سے تقریباً پونے گھنٹے کی مسافت پر آبشار کو دیکھنے چلتے ہیں ۔ اس آبشار کو میں بھی دیکھنا چاہتا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر اب ہم آبشار دیکھنے جاتے تو رات کو ہمیں لازمی طور پر جہاز بانڈہ ہی قیام کرنا پڑتا اور ہمارے پاس صرف کل کا دن اور تھا اور کل شام کو ہمارا واپسی کا سفر شروع ہونا تھا اور یہاں رات قیام کی صورت میں ہماری بائکس تک کا پیدل سفر طے کرنے میں ہمیں تقریباً کل دوپہر ہو جاتی اور اس صورت میں ہمیں وادی کمراٹ اور کالا چشمہ اپنے پروگرام سے ہٹانے پڑتے ۔ اب ہمارے پاس دو ہی آپشن تھی یا تو آبشار دیکھ لیتے یا وادی کمراٹ اور کالا چشمہ۔ میں نے یہ تجویز دی کہ وادی کمراٹ دیکھے بغیر ہمارا ٹور نامکمل ہے اسلئے آبشار کی قربانی دے لو اور ایک ضروری جگہ دیکھ لو۔ کچھ دیر کے بعد میرے ساتھی بھی متفق ہو گئے۔ واپسی کا پیدل سفر کئی گھنٹوں کا تھا اس لئے فیصلہ کیا کہ کھانا کھا کر نکلیں گے۔ ایک دو جگہ سے پتا کیا تو وہاں سے کچھ نہیں ملا۔ ایک اور ہوٹل سے پتا کیا تو اس کے پاس چاول پکے تھے ۔ اس نے کہا کہ تین سو روپیہ دو اور جتنے مرضی کھاؤ۔ یہاں جتنی مہنگائی تھی اس لحاظ سے میں ہوٹل والے کی دریا دلی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے اور جب میں نے چاول کا پہلا نوالہ منہ میں رکھا تو اس دریا دلی کا بھانڈہ پھوٹ گیاکیونکہ ان میں سے بو آ رہی تھی۔ اس کے چاول خراب ہونا شروع ہو گئے تھے اور یہی وجہ تھی اس کی دریا دلی کی۔ ہم نے چاول واپس کر دیئے اور استفسار کیا کہ کچھ اوربھی کھانے کو ہے تو اس نے کہا کہ چکن ہے اور ایک پلیٹ ساڑھے پانچ سو روپے کی۔ ہمارا ارادہ مٹن سے بھی مہنگا چکن کھانے کا نہیں تھا اس لئے ہم دوسرے ہوٹل کی طرف چل پڑے۔ وہاں پتہ چلا تو ثابت مسور پکے تھے۔ اب مزید کوئی ہوٹل نہیں بچا تھا تو مجبوراً مسور کا ہی آرڈر دے دیا وہ نادر ونایاب مسور کی چھوٹی سے پلیٹ ڈیڑھ سو روپے کی تھی اور چالیس روپے کی ایک پتلی سی روٹی اور اس دال کا ذائقہ بھی ایسا تھا کہ ہم تینوں ایک ہی پلیٹ میں سیر ہو گئے۔ کل بل بنا تین سو دس روپے۔ جہاز بانڈہ میں جو ملے کھانا پڑتا ہے کیونکہ وہاں آپ کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہوتیں اور پسند نا پسند اور ذائقہ کے بارے میں تو سوچیں بھی نہیں۔ اس کے بعد جلدی جلدی ٹینٹ اور سامان کو پیک کیا اور اسکو کمر پر لادا۔ شعیب کو ہم نے بہت کم سامان دیا تاکہ وہ اپنا اسٹیمنا بر قرار رکھے۔ جب ہم سامان پیک کر رہے تھے تو اس جگہ جو مقامی ٹینٹ لگے تھے ان کا مالک آ گیا جو تقریباًپچاس سال کا تھا ۔ پہلے تو اس نے ہمیں کہا کہ جو اورنج رنگ کی آؤٹر شیٹ آپ نے ٹینٹ کے اوپر ڈالی تھی وہ ہمیں دے دو لیکن ظاہر ہے وہ ہمارے کام کی چیز تھی اس لئے ہم نے انکار کر دیا پھر کہنے لگا کہ پیسے لے لو تم اور لے لینا لیکن ہم اس پر بھی تیار نہیں ہوئے تو پھر روکھے انداز میں کہنے لگا کہ یہاں ٹینٹ لگانے کا دو سو روپیہ دو۔ میں نے اسے یاد دہانی کروائی کہ میں نے یہاں ٹینٹ لگانے سے پہلے اسے کہا تھا کہ ہم یہاں ٹینٹ لگانے کے کوئی پیسے نہیں دیں گے اس پر وہ خاموش ہو گیا۔ جب ہم وہاں سے ٹکی ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے تو تقریباً چھ بج چکے تھے۔ سیاح اگر تھکتا ہے تو پھر تھوڑے آرام کے بعد ریکور بھی جلد کر لیتا ہے اور ایسا ہی ہمارے ساتھ تھا۔ کچھ آرام اور کھانا کھا کر انرجی لیول بڑھ گیا تھا۔ اس دفعہ بابر بھی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور جب آپ لوگ گروپ میں چلتے ہیں تو باتوں میں فاصلے کا بھی پتا نہیں چلتا اور تھکن بھی کم ہوتی ہے کیونکہ باتوں میں انسان بہت سی چیزوں سے غافل ہو جاتا ہے اور ہم بھی غافل ہو گئے اور اسی غفلت میں جنگل میں سے گزرتے ہوئے اصل راستے سے ہٹ گئے اور غلط سمت میں چل پڑے لیکن ہمیں جلد ہی احساس ہو گیا اور یہ احساس اس وقت ہوا جب ہم ٹریک کی تقریباً آدھی مسافت میں واقع مقامی آبادی کے کچھ گھروں کے قریب پہنچے ۔ سامنے جو پگڈنڈی نظر آرہی تھی ایسا لگتا تھا کہ اس پر آمدو رفت بہت کم ہے اور اسی چیز نے مجھے چونکا دیا ۔ مقامی گھر ایک چھوٹی پہاڑی پر نظر آرہے تھے۔ کچھ دیر ہم وہاں ہی کھڑے ہو کر تبادلہ خیال کرتے رہے کہ اب کس طرف جائیں کیونکہ وہاں کوئی تھا ہی نہیں جس سے پوچھتے۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ سامنے چڑھائی چڑھ کر مقامی لوگوں کے گھر سے معلومات لیں لیکن اس کی ضرور ت ہی نہ پڑی کیونکہ کچھ دیر بعد ہمیں دائیں طرف تقریباً تین سو میٹر کے فاصلے پر کچھ سیاح جاتے نظر آئے۔ انھیں اونچی آوازیں دیکر پوچھا کہ ٹکی ٹاپ کا راستہ کونسا ہے ۔ اصل راستہ وہی تھا جس پر وہ جا رہے تھے اس لئے ہم بھی دائیں طرف مڑ گئے۔ شکر ہے جلد ہی غلط راستے کا احساس ہو گیا ورنہ ہم تو اترائی میں چلتے جا رہے تھے اور اگر کچھ دیر اور چلتے رہتے تو بے آباد جنگل میں کافی دور تک نکل جاتے اور دوبارہ درست راستے پر آنے کیلئے کافی چڑھائی چڑھنی پڑتی۔ اب تک کا ہمارا سفر بڑا اچھا گزرا تھا اور تھکن کا بھی احساس نہیں ہوا تھا لیکن اب اس تین سو میٹر کی چڑھائی نے ساری کسر پوری کر دی اور پسینہ آ گیا۔ دوبارہ ٹریک پر آکر جب سفر کا آغاز کیا تو تھکن کا احساس شروع ہو چکا تھا لیکن چلنا تو تھا۔مقامی گھروں کے قریب پہنچ کر ہم نے کوشش کی کہ دودھ مل جائے ایک دو گھروں کے پاس کھڑے ہو کر آوازیں بھی دیں لیکن جواب ندارد اس لئے چل پڑے۔ کچھ دیر کے بعد اندھیرا چھا گیا اور ہمیں موبائل کی ٹارچ جلانی پڑی ۔ اس دوران کچھ اور سیاح بھی ہمارے ساتھ مل گئے۔ اندھیرے میں مقامی لوگ جنگل سے گزرتے ہوئے وقتا ً فوقتا ًہاتھ کو منہ پر لگا کر اونچی آوازیں بھی نکالتے تھے جو ان کے مطابق جنگلی جانوروں کو دور رکھنے کیلئے تھا۔ بہرحال راستے کے آس پاس کے جنگل سے کوئی بھی آواز آتی تو ہمارے تو کان کھڑے ہو جاتے اور ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی چیتا شیر تعاقب کر رہا ہو اور اسی وجہ سے ہم وقتاً فوقتا ً پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لیتے۔ ٹریک کے آخری حصے میں تو اتنا اندھیرا چھا گیا کہ اصل راستہ تلاشں کرنا مشکل ہو گیا تھا اندازے سے آگے بڑھتے رہے۔ آخری حصہ میں تقریبا ً پینتالیس ڈگری کی اترائی تھی اور اترتے وقت پیر جمانے مشکل ہو رہے تھے اور گرنے کا خطرہ تھا مزید کسر اندھیرا اور تھکن پوری کر رہے تھے۔ دس پندرہ سیاحوں کا ایک گروپ مقامی لوگوں کے گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاز بانڈہ جا رہے تھے ان کو جہاز بانڈہ پہنچتے پہنچتے رات کے گیارہ بج جانے تھے۔ اللہ اللہ کرکے ہم تقریبا ً آٹھ بجے ٹکی ٹاپ پہنچ گئے ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#226
وہاں پہنچ کر ہم ہوٹل کے باہر لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ دوسرے سیاح تو جیپ اور بائکس پر نیچے روانہ ہو گئے اور کچھ جیپ کا انتظار کر رہے تھے۔ یہاں صرف بابر کی بائک تھی اور ہماری بائکس نیچے جام شر بیس کیمپ میں کھڑی تھیں۔ ہم نے سوچا تھوڑا ریسٹ کرنے اور چائے پینے کے بعد چلیں اسلئے تین کپ چائے کا آرڈر دے دیا۔ کچھ دیر بعد چائے آ گئی چالیس روپے کے حساب سے تین کپوں کا بل ایک سو بیس روپے بنا۔ چائے پینے کے بعد ہم نے کچھ سامان بابر کی بائک پر باندھ دیا اور باقی سامان میں نے اور شعیب نے اٹھا لیا۔ میرا خیال ہے بابر نے ہوٹل والوں کو اپنی بائک کی پارکنگ کے سو روپے دیئے تھے۔ بابر اپنی بائک لیکر روانہ ہو گیا اور ہم دونوں پیدل ہی روانہ ہو گئے۔ سفر اترائی کا تھا اس لئے ہم وہاں سے روانہ ہو گئے ورنہ پہلے ہمارا ارادہ ٹکی ٹاپ پر ہی کیمپنگ کا تھا۔ اترائی کی وجہ سے سفر تیز تھا اور ہم بغیر رکے ہوئے جا رہے تھے لیکن آدھے راستے کے بعد ہمارے گھٹنوں کی بریکوں اور شاکوں کا کام ہو گیا ۔ پہاڑی علاقوں میں جانے والوں کو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اترتے وقت سارا زور گھٹنوں اور ایڑی پر آتا ہے ۔ لیکن ہم بہت زیادہ تھکاوٹ کے باوجود چلتے رہے۔ تقریباً گھنٹے سوا گھنٹے کے سفر کے بعد ہم جام شر پہنچ گئے وقت نو سے اوپر کا ہورہا تھا اور تھکن سے ہمارا برا حال تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#227
جب ہم بیس کیمپ کے آغاز میں پہنچے تو ہم نے وہاں بابر کی بائک کے ساتھ ایک اور بائک بھی کھڑی دیکھی جو کہ سوزوکی 150 سی سی تھی اور ساتھ ہی ایک پچاس سال سے اوپر کا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ پتا چلا کہ وہ جہانگیر صاحب ہیں جو کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر بائیکر ہیں۔ وہ جب ٹکی ٹاپ سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ سے اترتے وقت بائک سلپ ہونے کی وجہ سے زخمی ہو گئے تھے۔ ان کے بازو، گھٹنے اور ہاتھ پر چوٹیں لگیں تھیں۔ایک ہاتھ کا انگوٹھا تو کافی زخمی تھا۔ پہلے تو میں ان کی بائک کو چلا کر نیچے بیس کیمپ کے میدانی حصے میں لایا اور اسکے بعد اپنے بیگ سے فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا۔ اس وقت تھکن سے میرا اتنا برا حال تھا کہ صحیح طرح سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا لیکن ان کو فرسٹ ایڈ دینا زیادہ ضروری تھا۔ پہلے پائیوڈین کی مدد سے ان کے زخم صاف کیے اور پھر انکے ہاتھ کی پٹی کر دی۔ اسی دوران بیس کیمپ میں لگے ایک خیمے میں سے ایک مقامی جوان اور معمر شخص بھی وہاں آ گیا۔ دوا دینے سے پہلے جہانگیر صاحب کو کچھ کھلانا ضروری تھا کیونکہ انھوں نے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا اور ان کا ارادہ تھل جا کر قیام کا تھا ۔ ان کے پاس کپ کیک تھا انھوں نے پانی کے ساتھ وہ کھایا ۔ وہاں کوئی ہوٹل تو تھانہیں کہ ہم انھیں چائے وغیرہ پلا دیتے۔ وہاں ہمارے علاوہ کوئی ٹورسٹ موجود نہ تھا۔ اسکے بعد ان کو کچھ میڈیسن اور پین کلرز بھی دیں۔ ہم نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ رات ہمارے پاس ہی رک جائیں کیونکہ اس حالت میں ڈرائیو کرنا خطرے سے خالی نہیں دوسرا ان کی بائک کو بھی گرنے سے تھوڑا مسئلہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے ہماری پیش کش کو قبول کر لیا۔ مقامی جوان نے کہا کہ اسکا جو دوسرا خیمہ ہے آپ لوگ بغیر کسی معاوضہ کے وہاں قیام کر لیں۔ ٹینٹ تو ہمارے پاس بھی تھا لیکن اس کے مقابلے میں خیمہ زیادہ کھلا تھا اور اس میں میٹریس بھی لگا ہوا تھا لیکن اوپر لینے کیلئے کوئی لحاف یا رضائی وغیرہ نہیں تھی۔ ہمارے پاس تین سلیپنگ بیگ تھے جبکہ جہانگیر صاحب کے پاس کوئی سلیپنگ بیگ نہیں تھا کیونکہ وہ ہوٹل میں قیام کرتے رہے تھے۔ اسکا حل یہ نکالا کہ میرا جو سلیپنگ بیگ تھا وہ بڑا تھا تو اس کی زپ کو کھولا تو ایک رضائی کی صورت اختیار کر گیا ہم میں سے شعیب کی جسامت کم تھی اسلئے اس نے اور جہانگیر صاحب نے اس سلیپنگ بیگ کو رضائی کی صورت اوپر لے لیا اور میں اور بابر نے چھوٹے سلیپنگ بیگز جن میں صرف ایک بندہ ہی آسکتا تھا لے لئے۔ اس دوران میرا وہ یو ایس بی بلب بہت کام آ رہا تھا جس کو ہم پاور بینک سے جلا رہے تھے۔ کچھ دیر بعد بلب بند کرکے ہم سب سو گئے۔
tourist
(tourist)
#228
Wah, bohat maza araha hay Haroon bhai.
Masha Allah Achcha andaz hay likhnay ka.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#229
برادر حوصلہ افزائی کیلئے آپ کا مشکور ہوں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#230
گیارہ ستمبر 2019ء۔
رات آرام سے گزر گئی سردی کا بھی احساس نہ تھا۔ صبح اٹھا اور ٹینٹ میں ہی نماز ادا کی ۔ باہر نکلا تو نہ کوئی بندہ نہ بندہ کی ذات۔ میں پارکنگ کی طرف گیا جہاں دوسری بائیکس کے ساتھ میری بھی بائک کھڑی تھی۔ پیرا شوٹ کور ہٹانے کے بعد دیکھا کہ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ مجھے تھوڑی فکر آرمرڈ جیکٹ اور نی پیڈ وغیرہ کی تھی جو بائک کی سیٹ پر ویسے ہی رکھ دیئے تھے لیکن کسی نے بھی انہیں نہ چھیڑا تھا۔ ٹول بکس کا تالہ بھی لگا نا بھول گیا تھا لیکن وہ بھی اسی حالت میں تھا۔ بائک کو پیدل ہی اپنے خیمے کے پاس لے آیا۔ کچھ دیر میں دوسرے لوگ بھی اٹھ گئے۔ شعیب بھی پارکنگ سے اپنی بائک لے آیا۔ پارکنگ والے کو ہم نے دو بائیکس کے دو سو رپے پارکنگ کے دیئے۔ اس کے بعد ہم جہانگیر صاحب کی بائک کو چیک کرنے لگ گئے۔ اسکے لیور اور بریک وغیرہ جہاں تک ہو سکتے تھے سیٹ کئے اور باقی ان سے کہا کہ تھل پہنچ کر کسی ورکشاپ سے سیٹ کروا لیں۔ سب نے اپنا اپنا سامان لوڈ کیا ۔ بابر تھوڑا پہلے نکل گیا تاکہ وہ کچھ آگے موجود ندی نما نالے پر منہ ہاتھ دھو سکے۔ جب میں نے بائک سٹارٹ کر کے پارکنگ ایریا سے کچھ بلندی پر واقع راستے پر چڑھانے کی کوشش کی تو بائک نے جواب دیدیا۔ ایسے لگتا تھا کہ بائک زور ہی نہیں لگا رہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ کلچ پلیٹوں نے اب جواب دیدیا ہے لیکن میں بائک کے ساتھ اپنی طاقت لگا کر اس کو راستے پر لے ہی آیا۔ ذہن میں اب تشویش سی پیدا ہو گئی کہ ابھی تو ہم نے وادی کمراٹ اور کالا چشمہ بھی جانا ہے کیا بائک وہاں تک چلی جائے گی کیونکہ اس علاقے میں اس کی کلچ پلیٹس ملنا تو بہت مشکل تھا۔ سب آگے آگے چل پڑے اور میں انکے پیچھے۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے راستے میں ایک بیگ پڑا دیکھا جسے دیکھتے ہی میں پہچان گیا کہ یہ تو جہانگیر صاحب کا بیگ ہے جو کہ وہ راستے میں گرا گئے تھے ۔ میں نے اسے اپنی بائیک پر لٹکایا اور آگے چل پڑا۔ مجھے جہانگیر صاحب سامنے پہاڑ کی چڑھائی پر نظر آئے بلدار فاصلہ اتنا تھا کہ میری آواز تو ان تک پہنچ نہیں سکتی تھی اسلئے میں نے بار بار ہارن دیا لیکن انھوں نے دھیان نہ دیا۔ اب میری بائیک کی کلچ پلیٹس کمزور تھی ورنہ تو بائک بھگا کر ان کو پکڑ لیتا۔ سوچا کہ کہیں نہ کہیں تو انھیں اندازہ ہو گا کہ بیگ نہیں ہے تو پھر واپس آئیں گے یا رکیں گے۔ کچھ دیر بعد مجھے بابر اور شعیب نظر آئے میں نے انھیں کہا کہ جہانگیر صاحب کو روکو ان کا بیگ میرے پاس ہے۔ بابر اپنی 185 سی سی ٹریل پر آگے نکل گیا اور ہم پیچھے پیچھے۔ کچھ آگے گئے تو جہانگیر صاحب رکے ملے۔ ان کو خود تو بیگ کا پتا ہی نہیں چلا بابر نے ہی انہیں بتایا تھا۔ پھر دوبارہ تھل کی طرف روانہ ہو گئے۔ شکر تھا کہ بائک ساتھ دے رہی تھی ورنہ تو مجھے ڈر تھا کہ پتا نہیں تھل تک بھی لے جاتی ہے یا نہیں لیکن اب اندازہ ہو رہا تھا کہ ابھی کلچ پلیٹس ساتھ دے جائیں گی۔ راستے میں چھوٹی موٹی آبادیوں اور ہلکی پھلکی چڑھائیوں سے ہوتے ہوئے ہم تھل پہنچ گئے۔ راستے میں وہ جگہ بھی آئی جہاں سے کالام جانے والا راستہ نکلتا تھا جو کہ درہ باڈگوئی جیسے آف روڈ ٹریک سے ہوتا ہوا کالام جاتا تھا۔ پہلے ہمارا ارادہ اسی راستے سے واپسی کا تھا لیکن اب پروگرام تبدیل کر دیا تھا ۔تھل میں جہانگیر صاحب کی بائک کیلئے ایک ورکشاپ کا پتا کیا جو کہ کچھ دیر بعد کھلنی تھی اس کے بعد جہانگیر صاحب سے فون نمبرز کا تبادلہ ہوا اور پھر دریا کا پل پار کرکے ایک ہوٹل پر رک گئے جہاں ناشتہ تیار ہو رہا تھا۔ تھل اس علاقے کا ایک بڑا قصبہ ہے جس کے بعد آگے اتنی بڑی آبادی نہیں ملتی۔ اسمیں ورکشاپ، ہوٹل اور پٹرول پمپ وغیرہ بھی موجود تھا۔ ناشتے میں انڈہ ، پراٹھا اور دال ماش تھی۔ انڈے پراٹھے کے ساتھ دال ماش کا آرڈر دیا تو ناشتے والے نے بتایا کہ اگر آپ نے چائے اچھی پینی ہے تو اسی ہوٹل پر موجود چائے والے سے کہو کہ میں نے آپ کی یو ٹیوب پر ویڈیو دیکھی ہے آپ کی چائے کی تو لوگ تعریف کرتے ہیں پھر دیکھنا وہ کیسی چائے پلاتا ہے۔ دراصل ایک دفعہ ایک ٹورسٹ نے اس سے چائے پی تھی اور چائے مزیدار ہونے کی وجہ سے اپنی یو ٹیوب ویڈیو میں اس چائے والے کو بھی دکھایا تھا۔ بابرنے جب اس چائے والے کے پاس جا کر وہی باتیں کیں تو وہ خوش ہو گیا اور کہنے لگا کہ دیکھنا آپ کو کیسی چائے پلاتا ہوں اور اس نے ڈبے کی بجائے قدرتی دودھ کی چائے چڑھا دی۔ چائے واقعی مزیدار تھی لیکن ناشتہ اس کے برعکس بد مزہ تھا ۔ دال ماش کا تو پوچھو ہی نہ سب نے ایک دو لقمے کھا کر دال کو تو ویسے ہی چھوڑ دیا اور پیٹ بھرنے کیلئے پراٹھے ، آملیٹ اور چائے پر ہی گزارہ کیا۔ کاش ناشتے والے کی بھی کوئی ویڈیو ہو تی تو وہ بھی ہمیں اچھا ناشتہ بنا کر دیتا لیکن اب کیا کریں۔ جہانگیر صاحب ناشتے کے پیسے دینا چاہ رہے تھے لیکن ان کا ارادہ بھانپ کر میں نے ان سے پہلے کھڑے ہو کر ادائیگی کر دی۔ ناشے کا بل 360 بنا اور چار کپ چائے کے 120 روپے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ لوگوں نے میر ے ساتھ اتنا تعاون کیا اب ناشتہ تو میری طرف سے بنتا ہے لیکن ہم نے پیار سے ان کی بات ٹال دی۔ جہانگیر صاحب نے ایک میڈیکل سٹور سے دوا بھی لی۔ ہم نے آگے وادی کمراٹ کی طرف جانا تھا جبکہ جہانگیر صاحب نے بائیک کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد واپس لاہور کا سفر کر نا تھا کیونکہ وہ جہاز بانڈہ سے پہلے ہی وادی کمراٹ اور کالا چشمہ دیکھ آئے تھے۔ اسلئے ہم نے ان کو اللہ حافظ کہا اور تقریباً ساڑھے دس بجے ہم وادی کمراٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ میٹر ریڈنگ27385۔ جہانگیر صاحب کے ساتھ ایک تصویر۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#231
تھل سے باہر نکلنے لگے تو وہاں ایک پمپ سے بابر نے اپنی بائک کی ٹینکی فل کروائی۔ ٹریل بائیک کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی ٹینکی کی گنجائش چھوٹی ہوتی ہے اور اسکی فیول ایوریج بھی کم ہوتی ہے اس وجہ سے جلد پٹرول ڈلوانا پڑتا ہے لیکن دوسری طرف آف روڈنگ میں یہ کافی آرام دہ ہوتی ہے۔ قصبے کے بازار سے نکلے تو سڑک کے ساتھ مقامی آبادی کی رہائش گاہیں نظر آ رہی تھیں اور بائیں طرف دریائے پنجگورہ بہہ رہا تھا ۔ اس دریا جیسی خوبصورتی اور سحر میں نے بہت کم پہاڑی دریاؤں میں دیکھا ہے۔ راستہ کہیں تو پختہ پی سی والا تھا اور کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#232
تھوڑا آگے آ کر ایک پولیس چیک پوسٹ نظر آئی ۔ وہاں رک کر اپنی انٹری کروائی اور پانی بھی پیا۔ دریا کا پاٹ کہیں تو تنگ ہو جاتا اور کہیں کچھ چوڑا کہیں اس کی روانی میں تیزی آ جاتی اور کہیں وہ پر سکون ہو جاتا۔گیارہ بجکر سات منٹ پر ہم وادی کمراٹ کے جنگل میں داخل ہو گئے ۔ میٹر ریڈنگ 27393۔اس جنگل کا آغاز تھل کے قصبے سے تقریبا ًآٹھ کلومیٹر آ گے جا کر ہوتا ہے اور جنگل کے آغاز کے ساتھ ہی یہ راستہ خوبصورت آف روڈ ٹریک میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اب تک جن علاقوں میں میں نے بائیک ڈرائیو کی ہے یہ سب سے خوبصورت جنگل ٹریک تھا۔ راستے میں ہموار کچا راستہ ، اونچا نیچا راستہ، کیچڑ، پتھر اور ندی نما چشمے بھی تھے جس سے بائیک کو ڈرائیو کرنے کا بیحد لطف آ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر جہاز بانڈہ آبشار کی وجہ سے ہم وادی کمراٹ کے اس جنگل اور راستے کو پروگرام سے نکال دیتے تو یہ میری سیاحتی زندگی کا بہت بڑا نقصان ہوتا۔ جنگل میں راستے کے ساتھ ساتھ کیمپ بھی موجود تھے اور ہٹ نما ہوٹل بھی تھے جہاں کھانے کی سہولیات بھی میسر تھیں۔ جنگل کے ابتدائی حصے تک تو کاریں بھی نظر آرہیں تھیں لیکن آگےکالا چشمہ تک بالکل آف روڈ ٹریک ہے۔جنگل ، ٹریک اور دریا کی خوبصورتی کو دیکھ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ ہم ایک رات بھی یہاں نہ گزار سکے ورنہ تو میرے خیال میں کیمپنگ کی بہترین جگہ ہے۔ جب راستے سے گزرتے ہوئے چشموں سے بائیک کو گزارتے تھے تو مزہ ہی آ جاتا تھا۔ لیکن ان چشموں کے اندر ناہموار راستہ اور پتھر بھی تھے اسلئے جب بھی کسی ایسے چشمے سے گزرتے تو اس سے پہلے رک کر اس جگہ کا تعین کرتے جہاں سے بائیک کو گزارنا ہوتا ۔ ان چشموں میں کئی تو ایسے بھی تھے کہ پانی بائیک کے سائیلنسر تک آ جاتا اور اسلئے بائیک کو ایکسلریشن بھی دینا پڑتا کہ کہیں پانی سائیلنسر میں گھس کر بائیک کو بند ہی نہ کر دے۔ بائیک ٹور میں ویسے فوٹو گرافی بہت کم ہوتی ہے کیونکہ ہر جگہ ہی خوبصورت نظر آ رہی تھی اور ہر جگہ رکا بھی نہیں جا سکتا دوسرا بائیک چلاتے وقت راستے پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#233
زیادہ تر چشموں کا پانی صاف و شفاف تھا اور ان کی تہہ کے پتھر بھی نظر آ رہےتھے لیکن پانی کی گہرائی باہر سے دھوکہ دیتی ہے اور ایسا لگتا کہ کچھ بھی گہرائی نہیں لیکن یہ صرف نظر کا دھوکہ ہوتا ہے کیونکہ اصل گہرائی اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ دیکھنے میں ایسا لگتا کہ تہہ کے پتھر ہموار ہیں لیکن جب بائیک کو ان سے گزارا جاتا تو بائیک کے جھٹکے بتاتے کہ نہیں بھائی یہاں بھی دھوکہ ہے۔ کہیں کہیں چڑھائیوں سے بھی واسطہ پڑ رہا تھا لیکن ابھی تک ہمیں کوئی خاص دشواری محسوس نہیں ہوئی تھی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#234
اب تک مجھے راستے کے اردگرد کیمپنگ سائٹس اور ٹین اور لکڑی سے بنے ہوئے ہوٹلوں کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ایک جگہ ہم نے انکے واش روم کو بھی استعمال کیا جس میں فلش اور پانی وغیرہ کی سہولت بھی میسر تھی اور صفائی کا معیار بھی اچھا نظر آیا۔ کہیں تو ان ہوٹلوں کی اچھی خاصی تعداد نظر آتی کہ چھوٹی سی آبادی کا گمان ہوتا اور کہیں اکا دکا اور کہیں بالکل سنسان علاقہ۔ بائیں طرف دریا کبھی تو راستے کے بالکل ساتھ آ جاتا اور کبھی کچھ فاصلے پر چلا جاتا۔ فطرت کی خوبصورتی بار بار رکنے پر مجبور کر رہی تھی اور ہم بار بار مجبور ہو کر رک بھی رہے تھے لیکن تصاویر لینے کا ہوش کم ہی رہتا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#235
شعیب کو اچانک بابر کی بائیک کو چلانے کا شوق چرایا اور اس پر سوار ہو گیا۔ ڈرتے ڈرتے ذرا مشکل سے اس نے اس کو چلانا شروع کیا ۔ عام بائیک اور اس ٹریل کے گیئر ز کی ترتیب میں بھی فرق تھا اس لئے بھی اسے تھوڑی مشکل ہو رہی تھی لیکن پھر بھی اس کھلی جگہ پر ایک چھوٹا سا چکر لگا ہی لیا ۔ جب اس چکر کے دوران اس کا رخ دریا کی طرف تھا تو بابر زور زور سے کہنے لگا "سامنے دیکھ ، بریک لگا"بہرحال شعیب نے اپنا شوق پورا کر ہی لیا اور پھر مجھ سے کہنے لگا کہ ا ب مجھے پتا چلا کہ بابر اتنا تھک کیوں نہیں رہا کیونکہ اس کی بائیک بہت آرام دہ ہے اور پھر اس نے عزم کیا کہ جب بھی وہ دوبارہ ٹور پر آیا تو کم از کم 125 سی سی پر آئے گا۔ کچھ دیر کی خوش گپیوں کے بعد ہم دوبارہ آگے روانہ ہو گئے۔

haroonmcs26
(haroonmcs26)
#236
راستے میں کچھ دیرکیلئے جنگل ختم بھی ہوا لیکن جلد ہی وہ لوٹ آیا۔ اردگرد کے مناظر کو دیکھ کر بار بار ذہن میں یہ خیال آتا کہ جس طرح یہ علاقہ ابھی تک انسان کی دست برد سے محفوظ فطری حالت میں ہے اللہ کرے کہ ایسا ہی رہے کیونکہ ایسی فطرت کی خوبصورتی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ راستے میں جا بجا چشمے آئے جن میں سے گزر کر ہم آگے بڑھتے رہے۔ کہیں کہیں تھوڑی مشکل چڑھائی بھی تھی لیکن وہ ایسی بھی نہ تھیں کہ بائیک کی بس ہو جائے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#237
ایک خوبصورت سی جگہ پر کچھ دیر سانس لینے اور اس جگہ کی خوبصورتی سے آنکھوں کو تسکین دینے کیلئے رک گئے۔ وہاں دریا کے کنارے پرتکونی شکل کے بڑے سٹائلش قسم کے ہٹ بھی بنے ہوئے تھے جو کہ کرایہ پر میسر تھے۔

nagar1
(nagar1)
#238
In he huts main him ne apne trip pa rat guzari thi...abbotabad k ek sahab hain blke baba g hain wo chalate hain..
Muft main ptcl se calls bhi krwate hain. Attached bath huts hain 2 bando ki.2018 men 6000 per night rent tha ek hut ka

haroonmcs26
(haroonmcs26)
#239
اسی خوبصورت راستے پر سفر کرتے ہوئے ہم بارہ بجکر دس منٹ پر ایک جگہ پہنچے جہاں پر ہوٹل اور ٹینٹ لگے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ ایک مقامی سے اس جگہ کا نام پوچھا تو اس نے کورگل بتایا اب پتا نہیں اس نے درست بتایا یا کچھ اور لیکن ہمیں تو کورگل ہی سمجھ آیا۔ میٹر ریڈنگ 27399۔ تھل سے اب تک ہم چودہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ اس سست روی کی وجہ ایک تو ہمارا بار بار رکنا اور دوسرا بائیک کا پہلے دوسرے گیئر میں چلنا تھا۔ اسی مقامی شخص سے جب ہم نے کمراٹ آبشار کا پوچھا تو اس نے کہا کہ بس تھوڑا سا آگے ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#240
میں پچھلے دو تین دن سے نہ نہانے کی وجہ سے بڑی بے چینی محسوس کر رہا تھا اور میں نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا تھا کہ اگر مجھے نہانے کی کوئی مناسب جگہ نہ ملی تو مجھے چاہے دریا کے ٹھنڈے پانی میں ہی کیوں نہ نہانا پڑا میں تو نہاؤں گا۔ایک دو جگہ میں نے ارادہ بھی کیا لیکن پھر انھوں نے کہا کہ تھوڑا آگے جا کر نہاتے ہیں۔ کورگل سے تقریباً ایک کلومیٹر آگے بار ہ بجکر بیس منٹ پر ہم اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے کمراٹ آبشار کا راستہ نکلتا ہے۔میٹر ریڈنگ 27400۔ اسکے لئے اس راستے کو چھوڑ کر دائیں طرف اونچا نیچا راستہ نکلتا ہے جس پر پیدل یا بائک پر جایا جا سکتا ہے لیکن یہ کوئی لمبا سفر نہیں تقریباً نصف کلومیٹر ہی بنتا ہو گا۔ آبشار کی ایک جھلک اس مرکزی راستے سے بھی نظر آتی ہے۔ ہم بائیکس پر آبشار کی طرف چل پڑے ۔ راستہ بالکل آف روڈ تھا جہاں سپیڈ بھی نہیں ماری جا سکتی تھی اور بائیک پر اچھلتے کودتے ہم چلے جارہے تھے ایک آدھ جگہ پر ٹانگوں کی بھی جان لگانی پڑی لیکن مجھے پتا تھا کہ یہ بھی مجھے کمزور کلچ پلیٹس کی وجہ سے کرنا پڑ رہا تھا۔ راستے میں کھانے پینے کے کھوکھے بھی آرہے تھے۔ انکے ساتھ میزوں پر بوتلوں میں کوئی مائع بھر کر بھی رکھا ہوا تھا جس میں کچھ جڑی بوٹیاں بھی نظر آرہیں تھیں جو کہ مقامی لوگوں کے مطابق مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتیں تھیں۔ بابر اور شعیب آگے تھے اور میں ان سے پیچھے۔ آبشار سے کچھ پہلے جہاں راستہ زیادہ چڑھائی والا اور دشوار تھا میں نے وہاں بائیک روک دی اور شعیب کو آواز دی کہ یہاں ہی بائیک پارک کر دیتے ہیں لیکن اس تک میری آواز نہ پہنچی اور وہ آگے چلتا چلا گیا ۔ میں اپنی بائیک کا زیادہ زور نہیں لگوانا چاہتا تھا اس لئے میں نے ایک کھوکھے کے پاس ہی نسبتاً کھلی جگہ پر جہاں کرسیاں بھی رکھی تھیں اسے پارک کر دیا۔وہاں سے آبشار کے اوپر والےحصے کی جھلک واضح نظر آ رہی تھی۔