haroonmcs26
(haroonmcs26)
#101
لاموتی کے قصبے سے پہلے دریا اور سڑک کے فاصلے اور اونچائی کم ہو گئی تھی اور دریا سڑک کے لیول سے کچھ ہی نیچے بہہ رہا تھا ۔ سڑک کی حالت بہت اچھی نہیں تو زیادہ بری بھی نہیں تھی۔ ہر قسم کی گاڑی وہاں تک آ جا رہی تھی یہ اور بات کہ کچھ حصہ ایسا آتا جہاں سے گاڑی گزارتے وقت بہت احتیاط کرنا پڑتی تھی لیکن بائکس کی وجہ سے ہمیں کوئی اتنا مسئلہ محسوس نہیں ہوا۔
Dear Haroon bhai. Aoa. Ap k safarnamay perh kr Tarrar sahib jaisasa tasur milta hai. Shaid jo ek cheez common hai wo ye k reader bhe apnay apko safar men sath mehsoos kerta hai.
Apki sehat tandrusti ke dua.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#103
جزاکم اللہ برادر۔ یہ تو بس آپ لوگوں کی محبت ہے ورنہ میں کہاں اور وہ عظیم آوارہ گرد کہاں۔ تارڑ صاحب میرے بھی پسندیدہ سفر نامہ نگار ہیں۔ باقی خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کو ہمارے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پسند آ جاتے ہیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#104
شعیب اور بابر مجھے کافی دیر سے نظر نہیں آ رہے تھے لیکن مجھے یہ پتا تھا کہ وہ مجھ سے آگے ہی ہیں اس لئے میں بھی رکے بغیر چلا جا رہا تھا۔ مین بازار لاموتی کے چوک دروازو کے پاس مجھے بابر کی بائک نظر آئی جبکہ بابر ساتھ موجود ایک دوکان میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے سیدھا راستہ تھل اور کمراٹ کی طرف جا رہا تھا اور دائیں والا راستہ جہاز بانڈہ۔ ہمارا ارادہ جہاز بانڈہ جانے کا تھا اور ایک مقامی شخص کے مطابق یہ راستہ شارٹ کٹ تھا ۔ شعیب کے متعلق پوچھنے پر بابر نے بتایا کہ وہ تو ابھی تک یہاں نہیں پہنچا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ تو مجھ سے آگے تھا لیکن اس نے کہا کہ وہ تو یہاں سے نہیں گزرا۔ میں بھی سوچنے لگا شاید مجھ سے ہی غلطی ہو رہی ہو۔ ہو سکتا ہے وہ ابھی پیچھے ہو۔ میں نے بھی بائک وہاں پارک کر دی اور اس کا انتظار کرنے لگے۔ چوک کے پاس ہی ایک مسجد دیکھ کر میں نے سوچا کہ واش روم سے فارغ ہو لیا جائے پتا نہیں آگے کیا صورتحال ہو۔ مسجد کی طرف گیا تو مجھے وہاں کوئی واش روم نظر نہ آیا ۔ ایک مقامی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مسجد کے اندر سے گزر کر آخر میں چلے جاؤ۔ جوتے وہیں اتا ر کر میں اندر داخل ہوا نماز والی جگہ سے آگے وضو خانہ آ گیا اس سے آگے گیا تو بالکل خستہ حال کمرہ جو ایسے لگ رہا تھا جیسے کافی عرصے سے استعمال نہیں ہوا۔ میں حیرت سے دیکھنے لگا کہ واش روم کہاں ہے وہاں روشنی بھی کم تھی ۔ پھر مجھے کونے میں ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آیا ۔ میں جو واپس جانے کا سوچ رہا تھا اس طرف بڑھ گیا اسے کھولا تو واقعی وہ واش روم تھا ۔ ویسے عجیب جگہ بنایا ہوا تھا کہ پوری مسجد سے گزر کر آخر میں۔ بہر حال وہاں سے فارغ ہو کر میں دوبارہ چوک میں آ گیا ۔ ابھی تک شعیب نہ آیا تھا ۔ اسی دوران میں نے وہاں سے چالیس روپے کے آدھا کلو سرخ سیب لے لئے اور بیٹھ کر سیب کھانے لگ گئے۔ جب کچھ دیر اور گزر گئی تو مجھے فکر ہونے لگی شعیب کا نمبر مل نہیں رہا تھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ میں واپس جا کر اور بابر آگے جا کر اسے دیکھے۔ ایک مقامی موٹر سائیکل سوار جو آگے جا رہا تھا اس سے بھی ہم نے کہا کہ اس حلیے کا اگر کوئی لڑکا نظر آئے تو اسے کہنا کہ اس کے ساتھی پیچھے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے بائک کو واپس موڑا اور آس پاس دوکانوں اور جگہوں کو کھنگالتا ہوا چل پڑا ۔ دل میں برے برے خیالات بھی آ رہے تھے اس لئے میں دعا ئیں مانگتا ہوا جا رہا تھا۔ میرے خیال میں تو شعیب مجھ سے آگے تھا لیکن بابر کی اس بات نے کہ اس نے شعیب کو آگے نکلتے نہیں دیکھا پریشان کر دیا تھا۔ میں ایک کلومیٹر سے بھی زیادہ پیچھے آگیا تھا لیکن ابھی تک وہ نظر نہیں آیا۔ میں سہمے ہوئے دل سے روڈ کے آس پاس بھی دیکھتا جا رہا تھا کہ کہیں خدانخواستہ اور اس سے آگے سوچنے کی میری ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔ دل تھا کہ برابر اللہ سے اس کی خیرو عافیت کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ اتنے میں میرا موبائل بجنے لگا اٹینڈ کیا تو بابر کی کال تھی کہ شعیب آ گیا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دوبارہ اسی چوک کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ وہ کافی آگے نکل گیا تھا اور اسی مقامی بندے کے کہنے پر جس کو ہم نے کہا تھا وہ واپس آیا تھا۔ مزید شعیب نے بتایا کہ وہ تو آگے ایک آئسکریم شاپ پر آئسکریم کھا رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ ہم لوگ آئیں تو ہمارے لئے بھی آئسکریم کا آرڈر دے اور ادھر میرا خون خشک ہو رہا تھا۔ ایک دوسرے کو آگے پیچھے رہنے کی ہدایات دے کے ہم اس چوک سے دائیں طرف نشیب میں جانے والے راستے پر چل پڑے جو کہ اچھی حالت میں نہ تھا ۔ کچھ آگے جا کر راستہ تو نسبتاً ہموار ہو گیا لیکن تھا آف روڈ قسم کا ۔ آگے جا کر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر دائیں طرف جہاز بانڈہ اور بائیں طرف تھل لکھا ہوا تھا ۔ ہم دائیں طرف مڑ گئے۔ اب راستہ ایک پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔ کچھ جگہوں پر راستہ کنکریٹ کا بنا اور اچھی حالت میں بھی تھا۔ ایک جگہ ایک چشمہ بلندی سے کچھ نیچے گرتا ہوا اس نالے میں شامل ہو رہا تھا۔ اس نالے کے آس پاس فصلیں بھی نظر آرہیں تھیں جن میں نمایاں مکئی کی فصل تھی ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#105
کچھ آگے دونوں ساتھی رکے ہوئے تھے پتا چلا کہ ہم جہاز بانڈہ کا راستہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ واپس مڑنا پڑا۔ میں اب بھی شعیب کی وجہ سے پیچھے تھا کہ اسے پیچھے نہیں چھوڑنا۔ ایک جگہ ایک چشمے کے اوپر کنکریٹ کے پائپ رکھ کر گزرنے کا راستہ بنا ہوا تھا اور اس میں ایک درز میں شعیب کی بائک کا ٹائر پھنسا ہوا تھا اور وہ اس کو نکالنے کی تگ و دد میں تھا ۔ میں نے اسے ساکن رہنے کا اشارہ کیا کہ کہیں دوسرا ٹائر بھی وہاں نہ پھنس جائےاور بائک سے اتر کا اس کی بائک کو اٹھا کر اس درز سے نکالا ۔ کچھ فاصلہ واپسی کا طے کرنے کے بعد ہم اس جگہ آ گئے جہاں سے ایک خطرناک چڑھائی والا راستہ اوپر جا رہا تھا اور اس راستے پر جا بجا چھوٹے بڑے پتھر نظر آ رہے تھے ۔ اس راستے کو دیکھ کر میری پیشانی پر پریشانی کی کچھ شکنیں نمودار ہوئیں لیکن پھر اللہ کا نام لیکر آگے بڑھنے کا ارادہ کیا۔ پہلے بابر گیا اور اسکی پاور فل بائک کو کوئی مشکل نہ پیش آئی۔ اسکے بعد جب وہ چڑھائی چڑھ کر آگے چلا گیا تو شعیب آگے بڑھا ۔ آدھی چڑھائی کے بعد اسے ٹانگوں کا بھی زور لگا نا پڑا لیکن بہر حال وہ بھی نکل گیا۔ پھر اللہ کا نام لیکر میں بھی چل پڑا۔ آدھے سے زیادہ فاصلہ تو بائک تیز بھگانے کی وجہ سے بائک اپنے زور میں ہی چڑھ گئی لیکن آگے مجھے ٹانگوں کا بھر پور استعمال کرنا پڑا لیکن جیسے تیسے کرکے میں بھی وہ چڑھائی چڑھ گیا۔ شعیب چڑھائی چڑھ کر مجھے دیکھ رہا تھا ۔ آگے ایک اور مشکل چڑھائی منہ کھولے کھڑی تھی۔ اس چڑھائی پر بابر کی بائک تھوڑی سے کوشش کر کے چڑھ گئی لیکن شعیب کی بائک کو اچھی خاصی ایفرٹ کرنا پڑی۔ اب میرا نمبر تھا ۔ میری بائک راستے میں ایک جگہ پھنس گئی اور با وجود بائک اور ٹانگوں کے زور کے چڑھنے سے انکار کر دیا۔ وجہ کچھ یوں تھی کہ وہاں چھوٹے چھوٹے آزاد پتھر تھے جن کے نیچے سے ہلکا ہلکا سے پانی بہہ رہا تھا اور اس وجہ سے بائک کے ٹائر پکڑ نہ کر رہے تھے اور مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں ان پتھروں پر ہی پھنس گیا۔ مجھے مشکل میں دیکھ کر شعیب اتر کر آیا اور دھکا لگایا ۔ بالآخر تگ و دد کے بعد میری بائک بھی اس چڑھائی کو عبور کر ہی گئی۔ آگے جہاں دونوں کی بائکس رکی ہوئیں تھیں میں نے بھی بائک کو وہاں روک دیا۔ حالانکہ ہم نے کوئی زیادہ فاصلہ طے نہ کیا تھا لیکن میں پسینے میں شرابور تھا۔ اس چڑھائی کو چڑھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ اس سے بھی مشکل چڑھائیاں اور وہ بھی زیادہ بلندی پر میں اپنے جولائی میں کشمیر کے سفر پر چڑھ چکا تھا خاص طور پر رتی گلی جھیل کی چڑھائیاں جو کہ اس سے کئی درجہ مشکل تھیں تو پھر کیا مسئلہ ہوا ۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ بائک میں کوئی مسئلہ ہے۔ ایک تو بائک کی اگلی بریک چڑھائی اور ہینڈل موڑنے پر زیادہ پکڑ کر رہی تھی اور دوسرا مجھے بائک کی طاقت بھی کم محسوس ہو رہی تھی ۔ ایسے لگ رہا تھا کہ کلچ پلیٹوں میں کوئی مسئلہ تھا کیونکہ شعیب کی ستر سی سی بائک میری ایک سو دس سی سی بائک سے اچھا پر فارم کر رہی تھی۔ اب ایسا بھی نہیں تھا کہ میں بائک کو صحیح ہینڈل نہیں کر رہا تھا ۔ لگتا تھا کہ رتی گلی جھیل کی چڑھائی کے اثرات بائیک نے اب ظاہر کرنا شروع کر دیئے تھے۔ یہ صورتحال بڑی پریشان کن تھی ہمیں آگے کے راستے کا کچھ اندازہ نہیں تھا کہ ایسا ہی ہے کہ آسان۔ اب جو دو خطرناک چڑھائیاں چڑھ کر آئے تھے تو ان سے واپس اترنے کو بھی دل نہیں مان رہا تھا ۔ میں نے بائک کو کچھ طاقت دینے کیلئے اس کا ایئر فلٹر کھول کر ویسے ہی اس کا بیرونی خول کس دیا ۔ جس راستے سے ہم آرہے تھے وہ کوئی عام گزرگاہ نہیں لگ رہا تھا ۔ وہیں ایک مقامی شخص سے بات چیت کے دوران پتا چلا کہ جہاز بانڈہ کی طرف جانے والا اصل راستہ مرکزی سڑک پر ہی آگے تھل نامی قصبے سے نکلتا ہے ہم شارٹ کٹ راستے پر مڑ گئے تھے ۔ اب ہمیں کیا پتا کیونکہ ہمیں تو اس چوک سے مقامی افراد نے ہی گائیڈ کیا تھا۔ اس مقامی شخص نے مزید بتایا کہ آگے تھوڑا ہی فاصلہ ہے پھر یہ راستہ تھل سے جہاز بانڈہ جانے والی سڑک سے مل جائے گا۔ یہ سن کر دل کو کچھ اطمینان ہوا ۔ وہ راستہ بالکل ایسا نہیں تھا کہ وہاں سے عام گاڑیوں کی آمدو رفت ہو سکے جب کہ میرے علم کے مطابق تو جہاز بانڈے کی طرف جانے والے راستے پر گاڑیاں جا سکتیں تھیں اور اسی وجہ سے میں پریشانی کا شکار تھا لیکن اس مقامی شخص کی بات سے اصل بات کا پتا چلا۔ اس کے بعد بابر شعیب کی بائک کو چلا کر تھوڑا آگے تک لے گیا اور پھر اپنی بائک کی طرف واپس آیا۔ میں اپنی بائک کو پہلے گئیر میں کہیں اس کی طاقت اور کہیں ٹانگوں کی طاقت سے اگلی چڑھائی چڑھ کر شعیب وغیرہ سے کچھ آگے لے گیا۔ اس کے بعد شعیب وہ چڑھائی چڑھ کر آیا اور میں نے اونچی آواز میں اس کی حوصلہ افزائی کی کیونکہ وہ بہترین انداز میں پر فارم کر رہا تھا ۔ بائک اور اسکا دونوں کا وزن کم تھا اور یہ چیز بھی اسے مدد دے رہی تھی۔ بابر کی بائک کو تو اپنی طاقت کی وجہ سے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہو رہا تھا۔ آگے راستہ نسبتاً آسان ہو گیا تھا اور دل میں پہلی دو چڑھائیوں سے جو خدشہ ابھرا تھا وہ کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔ بالآخر ہم اس سڑک پر آ گئے جو تھل سے جہاز بانڈہ کی طرف جا رہی تھی۔ سڑک وہ بھی ٹوٹی پھوٹی تھی لیکن جس راستے سے ہم آئے تھے اس سے بدرجہا بہتر تھی اور جہاز بانڈہ کی طرف جانے والا اصل راستہ وہی تھا جو تھل سے آرہا تھا لیکن شارٹ کٹ کے چکر میں ہم مارے گئے تھے ۔ ایسا ہی میرے ساتھ جولائی 2019 کے کشمیر ٹور میں ہوا تھا جب ایک مقامی شخص کے کہنے پر شارٹ کٹ کے چکر میں ہم بنجوسہ جھیل جاتے پھنس گئے تھے اور ہمیں دن میں تارے نظر آ گئے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#106
اب راستہ بہت حد تک بہتر تھا ۔ پیچدار راستہ اور کچا پکا جہاں کبھی چڑھائی تو کہیں اترائی تھی۔ راستے میں چھوٹی چھوٹی سی آبادیا ں بھی نظر آ رہیں تھیں۔ کئی جگہ راستہ اتنا تنگ آ جاتا کہ آگے سے آنے والی گاڑی کو راستہ دینے کیلئے بائک کو بھی سائیڈ پر لگانا پڑتا۔ اس راستے پر زیادہ تر فور بائی فور گاڑیاں نظر آ رہیں تھیں لیکن اس کے ساتھ کاریں، ہائی روف وغیرہ بھی تھیں۔ کئی چڑھائیاں ایسی بھی آئیں جہاں ہمیں اپنی ٹانگوں کا بھی استعمال کرکے بائک کو چڑھانا پڑا۔ ایک جگہ شادی تھی اور جہیز کا سامان ایک چھوٹے ٹرک سے اتارا جا رہا تھا وہاں ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ تقریباً آدھے پونے گھنٹے کے بعد ہم جہاز بانڈہ کی طرف جانے والے راستے کے پہلے بیس کیمپ جام شر سے کچھ پہلے ایک پہاڑی نالے /ندی کے پاس پہنچ گئے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں گاڑیوں والے گاڑیوں کو روک کر کچھ آرام دیتے اور ریڈی ایٹر میں پانی ڈال کر انجن کو ٹھنڈا کر تے تھے۔ ہم نے بھی وہاں بریک لگا دیں اور منہ ہاتھ دھو کر ذرا فریش ہوئے۔ وہاں کچھ ٹورسٹ تو نہا بھی رہے تھے لیکن ہمارا ایسا کچھ ارادہ نہیں تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#107
جام شر بیس کیمپ کچھ آگے تھا ۔ اس سے پہلے ایک چڑھائی جو تھی تو چھوٹی سی لیکن تھی کچھ مشکل کیونکہ ہمارے سامنے ہی وہاں ایک لینڈ کروزر اپنے فرنٹ بمپر سے محروم ہو گئی تھی۔ جب گاڑیوں کا رش کم ہوا تو ہم نے بھی بائک کو تھوڑا بھگا کر چڑھا ہی لیا۔ جام شر بیس کیمپ پر پارکنگ کی سہولت بھی موجود تھی اور ایک دو ٹینٹ بھی نظر آ رہے تھے۔ کار اس جگہ تک تو آسکتی تھی لیکن اس سے آگے صرف فور بائی فور کا راستہ تھا۔
tourist
(tourist)
#108
Tararr Sahab to meray Ideal hen, lekin likhnay ka andaz Haroon bhai ka behtar hay.
tourist
(tourist)
#109
Tararr Sahab to meray Ideal hen, lekin likhnay ka andaz Haroon bhai ka behtar hay.
s5618472
(Naikdad khan)
#110
Bhai ap choti bike may ziada takat k keay honda 125 deluxe 5 gear wala lay,iski gear choti hoti hai jiski waja say takat ziada milta hai
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#111
آپ کی محبتوں کا شکریہ برادر۔ لیکن میں کسی بھی طرح اپنے آپ کو تارڑ صاحب سے بہتر نہیں پاتا یہ میں دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں۔ وہ تو ہمارے لئے ایک لیجنڈ ہیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#112
میرا ارادہ ان شاء اللہ سوزوکی جی ایس 150 لینے کا ہے اب دیکھیں عملی جامہ کب پہناتا ہوں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#113
جام شر بیس کیمپ پر کوئی ہوٹل یا عمارت نہیں تھی بس ایک کھلی سی جگہ تھی جس سے آگے کی چڑھائیاں دیکھنے میں ہی مشکل نظر آ رہی تھیں۔ مرکزی راستہ یا سڑک سے دائیں طرف چند قدم گہرائی میں گاڑیاں کھڑیں تھیں اور دو خیمے بھی نصب آ رہے تھے۔ ایک خیمے کے پاس کافی موٹر سائیکلیں کھڑیں تھیں جو کہ آنے والے سیّاحوں کی تھی۔ آگے عام کاریں وغیرہ تو جا نہیں سکتیں تھیں صرف فور بائی فور ہی آتی جاتی نظر آ رہیں تھیں۔ باقی جو سیّاح بائکس پر آتے ہیں وہ زیادہ تر اپنی بائکس جام شر میں ہی پارک کر تے ہیں اور اور پارکنگ والا سو سے دو سو روپے پارکنگ فیس چارج کر رہا تھا جو جہاں پھنس جائے۔ ہم وہاں تھوڑی دیر رکے تو بائکرز کا ایک گروپ جو اگلے بیس کیمپ جس کا نام ٹکی ٹاپ ہے سے واپس آیا تھا انھوں نے ہمیں کہا کہ بابر والی بائک تو چڑھ جائے گی لیکن باقی میری اور شعیب کی بائکس کا چڑھنا مشکل ہے۔ سامنے نظر آنے والی چڑھائی مشکل تو مجھے بھی لگ رہی تھی لیکن میں نے سوچا کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ بابر نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔ تو سب سے پہلے میں نے آغاز کیا۔ ہموار جگہ سے بائک کو تھوڑا بھگا کر پہلی چڑھائی پر چڑھ دوڑا۔ تقریباً آدھی چڑھائی تو بائک اپنے زور میں چڑھ گئی لیکن اس کے بعد جسم کے انجن کی قوت دو ٹانگوں کے ذریعے لگانی پڑی اور جیسے تیسے کر کے پہلی چڑھائی چڑھ گیا لیکن مجھے ایک بار لگ پتا گیا تھا۔ میرے بعد شعیب نے ہمت کی اور میری ہی طرح وہ بھی پہلی چڑھائی چڑھ گیا۔ بابر کی ہمیں فکر نہیں تھی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#114
آگے دو اور چڑھائیاں بھی ہم نے اسی طرح عبور کیں ۔ بابر بآ سانی ہم سے آگے نکل گیا تھا اور طاقتور بائک کی اہمیت کا ہمیں وہاں احساس ہو گیا۔ اگلی چڑھائی کچھ اس قسم کی تھی کہ درمیان میں پتلی سی جگہ اور اس کے دونوں طرف فور بائی فور گاڑیوں کے چلنے سے گہرے گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ وہ چڑھائی میں مشکل سے آدھی تو چڑھ گیا لیکن پھر بائک نے جواب دے دیا۔ میں نے بائک کو ایک طرف لگا دیا اور میں اور شعیب راستے کے متعلق تبادلہ خیال کرنے لگ گئے۔ میں اس سے مشکل اور زیادہ بلندی والی چڑھائیاں اپنی بائک پر ماضی میں چڑھ چکا تھا پھر کیا وجہ تھی کہ یہاں دال گلنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور لگ رہی تھی۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ بائک کی کلچ پلیٹس کمزور ہو گئی ہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ میں یہ چڑھائیاں نہ چڑھ پاتا حالانکہ میں آنے سے پہلے بائک کا مکینک سے مکمل چیک اپ کروا کر آیا تھا اور باقاعدہ اس سے کہا تھا کہ بائک کو چلا کر چیک کرو اور کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتاؤ لیکن وہ بھی چوک گیا تھا۔ اب میرے سامنے دو راستے تھے۔پہلا یہ کہ دل کی بات مان کر جنوں خیزی میں آگے کی راہ لیتا اور اس میں بائک کی کلچ پلیٹ مکمل طور پر فارغ بھی ہو سکتیں تھیں اور مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ میری بائک کی کلچ پلیٹس اس علاقے میں مل جائیں اور اگر ایسا ہو جاتا تو ہمیں اپنا اگلا پروگرام کینسل کرنا پڑتا کیونکہ اس دفعہ بجٹ بائک ٹور کا ہی بنا کر آئے تھے اور مقامی گاڑی کرائے پر لینے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ دماغ کہہ رہا تھا واپس جام شر جاؤ اور بائک وہاں پارک کرکے پیدل ہی اگلا سفر طے کرو ۔ سکون سے دونوں راستوں کے متعلق سوچا اور پھر بادل نخواستہ دماغ کا مشورہ مان کر واپسی کی ٹھانی۔ کسی سیاح کیلئے واپس لوٹنا بہت مشکل اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے لیکن ٹور کو مکمل کرنےکیلئے یہ کرنا ضروری بھی تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#115
اب اترائی کا سفر بہت آہستہ ہو رہا تھا کیونکہ جاتے وقت جو چڑھائیاں تھیں اب وہ اترائیاں بن گئیں تھیں اور اترائیوں میں بائک پر احتیاط اس وجہ سے بھی ضروری ہوتی ہے کہ پھسلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ واپس جام شر پہنچ کر خیمے کے پاس موجود بائکس کے ساتھ ہم نے اپنی بائکس پارک کیں اور ضروری سامان جس کی ہمیں ضرورت تھی جیسے ٹینٹ اور اس کی آؤٹر شیٹ، سلیپنگ بیگز، جیکٹ، برساتی، ادویات، پاور بنک، پانی کی بوتل وغیرہ ان کو بیگز میں ڈال لیا۔ باقی سامان بائکس کے ساتھ موجود باکس اور پیراشوٹ بیگ میں تھا۔ اب مسئلہ تھا میری آرمرڈ جیکٹ و نی پیڈ کا کیونکہ وہ باکس اور بیگ میں نہیں آ سکتے تھے۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھر اللہ کا نام لیکر ان کو بائک کی سیٹ کے اوپر الاسٹک رسیوں سے باندھا اور بائک کو پیرا شوٹ کور کے ساتھ مکمل طور پر ڈھانپ دیا۔ مزید احتیاط کیلئے کہ کہیں ہوا وغیرہ سے پیرا شوٹ کور اڑ نہ جائے اسے بھی الاسٹک رسیوں کے ساتھ باند ھ دیا۔ اس بے احتیاطی سے سامان کو چھوڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنے پہاڑی علاقوں کے سفر میں کبھی چوری جیسی صورتحال سے واسطہ نہ پڑا تھا ورنہ بڑے شہروں میں میں ایسی بے احتیاطی کبھی نہ کرتا اور یہ دوسرے الفاظ میں پہاڑی علاقے کے لوگوں پر اعتماد تھا اور اللہ کرے میرا اعتماد کبھی مجروع نہ ہو۔ پارکنگ کے پاس موجود ایک مقامی شخص نے پارکنگ فیس کا کہا جس پر ہم نے کہا کہ واپسی پرادا کر دیں گے۔ ہماری پانی کی بوتلوں میں پانی ختم ہو چکا تھا اور پیدل چڑھائی پر ہمیں اس کی ضرورت پڑنے والی تھی لیکن آس پاس ہمیں کوئی جگہ نظر نہ آئی۔ کچھ فاصلے پر کچھ گہرائی میں ایک چشمہ بہہ رہا تھا لیکن اس کا پانی ایک کھیت میں سے بہتا ہوا آ رہا تھا اور ہم تذبذب میں تھے کہ یہاں سے پانی بھریں یا نہیں۔ پھر ایک مقامی شخص نے ایک پائپ کے مطابق بتایا جو کہ کھلی جگہ میں ایک جگہ چھپا ہو ا تھا اور لوگ وہیں سے ہی پانی بھر رہے تھے۔ پانی ٹھنڈا اور فرحت بخش تھا اور ذائقہ بہترین۔ میں تو پہاڑی علاقوں میں عام طور پر مقامی پانی ہی استعمال کرتا تھا یہ منرل واٹر کے چونچلے مجھے نہیں آتے تھے۔جب ہم جام شر پہنچے تھے تو تقریباً گیارہ سے کچھ اوپر وقت ہوا تھا لیکن جام شر سے کچھ پہلے آنے والی ندی پر رکنے اور ٹکی ٹاپ کی طرف جانے والے راستے سے واپسی کی وجہ سے ظہر سے کچھ اوپر وقت ہو گیا تھا۔ ہم بہت لیٹ ہو گئے تھے اور بابر ٹکی ٹاپ پر پہنچ کر ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔ سامان کو کمر پر لاد کر میں اور شعیب پیدل ہی ٹکی ٹاپ کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ آج کا دن ہمارے لئے کئی امتحان لانے والا ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#116
پیدل چلنےکیلئے ہم نے گاڑیوں والے راستے کی بجائے سیدھا شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا ۔ پہلے ہمیں ایک چھوٹی سے پہاڑی چڑھ کر دوبارہ کچھ گہرائی میں اترنا پڑا اور اس تھوڑے سے فاصلے میں ہی ہمارا سانس پھول گیا تھا اور پانی کا گھونٹ بھی بھرنا پڑ گیا تھا۔ کمر پر لادے سامان کی وجہ سے بھی کچھ مشکل پیش آ رہی تھی۔ عرصہ ہوا پہاڑوں کی ہائیکنگ کو چھوڑے ہوئے اور اب اچانک ہی میرا اس سے دوبارہ پالا پڑ گیا تھا تو سانس کا پھولنا اور تھکن کا ہونا تو لازمی تھا لیکن میرا سابقہ تجربہ مجھے یہ بھی بتا رہا تھا کہ کچھ دیر بر داشت کرنے کے بعد جسم کافی حد تک اس کا عادی ہو جائے گا اور بھولی ہوئی ہمت دوبارہ حاصل کر لے گا۔ اب دوبارہ چڑھائی چڑھ کر ہم گاڑیوں والے راستے پر آ گئے تھے لیکن پسینہ مساموں سے پھوٹ پڑا تھا لیکن ہم اکیلے ہی اس پیدل مسافت کے راہی نہ تھےیہ اور بات ہے کہ واپس آنے والے لوگ زیادہ تھے اور جانے والے چند ہی۔ اگر ہمیں پتا ہوتا کہ ہمیں ٹکی ٹاپ کی طرف پیدل ہی جانا پڑے گا تو سامان بابر کی بائک پر ہی لوڈ کر دیتے اور اس اللہ کے بندے نے بھی پلٹ کر نہ پوچھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#117
اس راستے پر چڑھائی تو تھی لیکن کچھ آسان۔ ہمارے دائیں طرف بلندی پر گھنا اور سنسان جنگل اور بائیں طرف گہری کھائی جس کے نشیب میں ایک پہاڑی نالہ زور و شور سے بہہ رہا تھا اور اس نالے کے پار بلندیوں پر چرواہوں کے کچے گھر نظر آ رہے تھے اور کہیں کہیں مقامی بچے اور عورتیں اپنے گلّے کو چراتی ہوئیں بھی نظر آ رہیں تھیں۔ شام نے اپنے سائے پھیلانا شروع کر دیئے تھے اور کئی کچے گھروں میں سے دھواں بھی بلند ہو رہا تھا ۔ کبھی کبھی کوئی جیپ ہمارے پاس سے گزر جاتی اور کبھی واپس آنے والے سیّاحوں سے مڈ بھیڑ ہو جاتی۔ سیاحوں کے ایک گروپ نے ہمیں کہا کہ آگے کا راستہ بہت مشکل ہے ابھی ٹکی ٹاپ تک پہنچنے میں ہی گھنٹہ لگ جائے گا اور جہاز بانڈہ تو اس سے بھی تین گھنٹے کا سفر ہے کیا کر لوگے ؟ میں نے کہا کہ کوشش کریں گے ۔ اتنے میں ان میں سے ایک لڑکے کی نظر میرے براؤن آرمی شوز پر پڑی تو اس نے ساتھ والے کو ٹوک دیا کہ بھائی یہ کر لیں گے آپ ان کے شوز نہیں دیکھ رہے ۔ وہ مجھے شوز کی وجہ سے آرمی کا بندہ سمجھ رہا تھا ۔ میں اس کی بات پر مسکر ادیا اور وہ آگے چل دیئے۔ پاکستان کی عوام کے اپنی آرمی کے متعلق ایسے ہی خیالات ہیں کہ ان کی ہمت اور عام آدمی کی ہمت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ حالانکہ وہ بھی گوشت پوشت سے بنے انسان ہیں لیکن ان کے اولوالعزم حوصلے ہی ان کی اور عام آدمی کی ہمت میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ کچھ آگے جا کر ایک چشمہ آ گیا جو سڑک پر سے گزر رہا تھا ۔ ایک راستہ سیدھا اس چشمے سے گزر کر جارہا تھا اور پھر گھوم کر دوبارہ دائیں طرف مڑ رہا تھا ۔ جب کہ دوسرا شارٹ کٹ راستہ دائیں طرف چشمے اور جنگل کے درمیان چڑھائی پر جاتی ہوئی پگڈنڈی کی صورت میں تھا۔ جنگل جتنا گھنا تھا اگر رات ہوتی تو ہم کبھی بھی شارٹ کٹ راستے کا رسک نہ لیتے لیکن وہاں سے کچھ اور لوگوں کو گزرتے دیکھ کر ہم نے بھی وہی راستہ اختیار کیا جبکہ گاڑیوں کا راستہ چشمے کے پار دوسری بلندی پر سے گزر رہا تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#118
جہاں ہمت جواب دے جاتی وہاں ہم چند لمحے رک کر دوبارہ چلنا شروع کر دیتے۔ ٹکی ٹاپ کی طرف سفر صرف ہمارا ہی امتحان نہیں تھا بلکہ وہ تو طاقتور فور وہیلر گاڑیوں کیلئے بھی آزمائش سے کم نہیں تھا جس کا اندازہ ہمیں بائیں طرف والے راستے سے گزرنے والی ہائی لکس فور وہیلر جیسی طاقتور گاڑی کی تگ و دد سے لگ رہا تھا جس کو آگے سے آنے والی ایک گاڑی کی وجہ سے رکنا پڑا اور پھر اس کے پیچھے پتھر لگا کر اس کو دوبارہ آگے چڑھایا گیا اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس کا ڈرائیور زیادہ تجربہ کار نہ ہو۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#119
پگڈنڈی آگے جا کر دوبارہ مین راستے سے ہی مل گئی کیونکہ وہ راستہ ایک پل کی وجہ سے دوبارہ چشمے کے دائیں طرف آ گیا تھا۔ اب تک کے سفر میں ہم اپنی پانی کی ڈیڑھ لٹر والی بوتلیں آدھی خالی کر چکے تھے۔ یہاں ہم سے ایک غلطی ہوئی کہ ہم نے بوتلوں کو چشمے سے دوبارہ نہ بھرا کیونکہ ٹکی ٹاپ پر پانی کی شدید کمی تھی اور وہاں بھی موجود ہوٹل والے اسی چشمے سے پانی بھر کر لے جاتے ہیں لیکن ہمیں اس وقت پتا نہ تھا ۔ اب آگے پھر اسی طرح دو راستے ایک تو مین راستہ بائیں طرف جا کر اور چکر کاٹ کر دوبارہ دائیں طرف آرہا تھا اور دوسرا پنتالیس کی چڑھائی پر جاتا ہوا سیدھا شارٹ کٹ اور انسان تو شارٹ کٹ کے چکر میں ہوتا ہے چاہے وہ اس کو زیادہ ہی نہ تھکا دے اور شارٹ کٹ کے بعد ہی انسان کو احساس ہوتا ہے کہ سیدھا راستہ ہی زیادہ بہتر تھا لیکن پھر بھی یہی غلطی با ر بار ہو جاتی ہے۔ شعیب پہلے شارٹ کٹ جانے کا کہہ رہا تھا اور جب میں نے چڑھائی شروع کی تو وہ سیدھے مین راستے کی طرف چل پڑا ۔ میں کچھ چڑھائی چڑھ چکا تھا اس لئے واپس مڑنے کا ارادہ ترک کرکے چڑھنے لگا۔ چڑھائی مشکل ضرور تھی لیکن زیادہ طویل نہیں تھی ۔ اوپر دوبارہ مین راستے پر جا کر ایک پتھر پر بیٹھ کر اپنی سانسیں بحال کر نے لگ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ شعیب بھی پہنچ جائے۔ کچھ دیر میں شعیب بھی پہنچ گیا۔ حالات بتا رہے تھے کہ ہم ٹکی ٹاپ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ایک چڑھائی اور موڑ مڑنے کے بعد ٹکی ٹاپ ہمارے سامنے تھا۔ وہاں دو چھوٹے موٹے ہوٹل نظر آرہے تھے لیکن لوگوں کا کافی ر ش تھاباقی مقامی آبادی کوئی نہیں تھی۔ ایک ہوٹل تھوڑا بائیں بلندی پر شروع میں ہی تھا اور لوگوں کا زیادہ رش وہیں تھا۔ مین راستے کے ساتھ ہی بہت سی بائکس پارک کی ہوئیں تھیں اور دوسرا ہوٹل تھوڑا سا آگے تھا ۔ پہلے ہوٹل کی بلندی پر ہمیں بابر بھی نظر آ گیا جو ہمیں اشارے سے اپنی طرف بلا رہا تھا لیکن اس وقت ہم میں اس بلندی پر چڑھنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے ہم مین راستے کے ساتھ ہی موجود گھاس پر دراز ہو گئے کہ کچھ پر سکون ہو کر ہی ہوٹل کی طرف چلیں گے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#120
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہوش ٹھکانے آئے تو ہوٹل کی طرف چل پڑے۔ چند قدموں کی ہی چڑھائی تھی لیکن جب یہاں پہنچے تھے تو یہ چند قدم بھی بہت دور لگ رہے تھے۔ ہمارا ارادہ پہلے تو کھانا کھانے کا تھا۔ کھانے کے متعلق بابر نے بتایا کہ کھانے کی آپشنز یہاں بہت محدود ہیں۔ اس نے ایک ہوٹل والے سے کہہ کر دال ماش رکھوائی ہوئی تھی جو اس کے پاس آخری پلیٹ ہی بچی تھی لیکن ہمارے لیٹ ہونے کی وجہ سے وہ بھی نہیں رہی۔ ہوٹل والے سے پوچھے تو اس نے کہا کہ دال چنا مل جائے گی اور وہ بھی ختم ہونے کے مراحل میں تھی ۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی کہ یہ نہ ہو اس سے بھی محروم ہو جائیں۔ شعیب نے کہا کہ وہ واش روم ہو کر آتا ہے ۔ ہوٹل والوں سے پوچھا تو انھوں نے کچھ نیچے ہوٹل سے دائیں طرف کا بتایا۔ وہ وہاں گیا اور جلد ہی واپس آ گیا ۔ پتا چلا کہ وہاں پانی ندارد ہے۔ پانی ہوٹل والے بھی نہیں دے رہے تھے تو مجبوراً ایک بوتل تلاش کر کے اپنی بوتلوں کا پانی اس میں منتقل کیا کہ شعیب کی تو ایمرجنسی ٹلے۔ جب وہ واپس آیا تو اسی وقت کھانا بھی آ گیا۔ دال کی پلیٹ ایک سو پچاس روپے کی اور چار روٹیوں کی قیمت ایک سو ساٹھ روپے۔ یعنی فی روٹی چالیس روپے۔ یہ میری سفری زندگی کی سب سے مہنگی روٹی تھی لیکن ٹکی ٹاپ میں آپ کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ لینی ہے تو لو ورنہ جاؤ۔ اتنی قیمتی روٹیوں کو ہم نے احتیاط سے کھایا کہ مبادا کوئی ذرہ ضائع نہ ہوجائے۔ اتنے میں ہوٹل والا ایک چھوٹا کولر بھر کر لایا۔ میں نے شعیب کو اشارہ کیا اور اس نے جلدی جلدی ڈیڑھ بوتلیں بھرلیں۔ اسی اثنا میں ہوٹل والا آ گیا اور بولنے لگا کہ وہ اتنا نیچے جا کر چشمے سے پانی بھر کر لایا ہے اور ہم بوتلیں بھر رہے ہیں۔ اس پر ہم نے اسے کہا کہ کھانے کے ساتھ آپ لوگوں نے پانی تو دیا نہیں تو ظاہر ہے ہم نے پانی تو پینا ہے اس پر وہ ٹھنڈا ہوا۔ بہرحال ہوٹل پر صفائی کا معیار اچھا نہیں تھا لیکن مجبوراً ہی وہاں کھانا کھایا تھا۔