haroonmcs26
(haroonmcs26)
#121
وہاں ہوٹل والے نے چند لکڑی کے کمرے بھی بنائے ہوئے تھے جن میں فرشی میٹریس کا انتظام تھا۔ مغرب کا وقت قریب تھا اور اب ہم اپنے اگلے پروگرام پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ ہم رات اسی جگہ کیمپ لگا لیتے ہیں اور صبح آگے چلیں گے کیونکہ اگلا سارا سفر پیدل تھا اور تھا بھی پہاڑی سفر اور ہمیں آگے دیکھنے سے نظر آ رہا تھا کہ جنگل کا سفر ہے۔ لیکن دونوں نے کہا کہ چلتے ہیں ۔ میں نے ایک آدھ بار ان کو مزید کہا لیکن جب ان کے ارادے دیکھے تو میں نے بھی کہا چلو پھر۔ ضروری سامان کو ہم نے تین حصوں میں تقسیم کرکے کمر پر لادھا اور پانی کو بھی تین بوتلوں میں تقسیم کرکے جہاز بانڈہ کی راہ لی۔ ٹکی ٹاپ سے آگے کے راستے پر نہ تو گاڑی جا سکتی تھی اور نہ ہی بائک کیونکہ راستہ تو سرے سے تھا ہی نہیں صرف جنگل ، چڑھائیوں اور پتھروں کے درمیان سے گزرتی پگڈنڈیاں تھیں اور کہیں تو وہ بھی نہیں تھی اور راستہ کی نشاندہی مشکل ہو جاتی تھی۔ یا تو لوگ ٹکی ٹاپ سے جہاز بانڈہ تک پیدل جاتے تھے یا اگر جیب اجازت دے تو گھوڑے اور خچر جن پر فی بندہ کا کرایہ پندرہ سو تھا۔ ایک اور بھی آپشن تھی کہ اگر آپ کے پاس سامان ہے لیکن آپ پیدل ہی جانا چا ہ رہے ہیں تو سامان گدھے پر لدھوا دیں اور خود پیدل چلے چلیں۔ ہم چل تو پڑے تھے لیکن میرے ذہن میں اندیشے تھے اور آگے چل کر وہ صحیح ثابت ہوئے۔
Haroon bhai . Excellent. Travelogue going to be more interesting.
ہارون بھائی اگر آپ سیدھے راستے سے جندرئی میوزیم پہنچتے اور اس راستے سے( یعنی راجہ تاج محمد کے گھر کے سامنے والے راستے سے) جہاز بانڈہ جاتے تو چند جنگلوں سے ہوتے ہوئے لگ بھگ 4 سے 5 گھنٹے لگ جاتے اس لئے کہ میں راجہ تاج محمد کے بیٹے کے ساتھ 12ستمبر2015 کو اس راستے سے گیا تھا اور ہم تقریباً ساڑھے چار گھنٹے میں جہاز بانڈہ پہنچ گئے تھے۔ میرے خیال سے تو یہ ٹکی ٹاپ والا راستہ کافی لمبا ہے۔
ذیل میں اس راستے کی چند تصوریرں شیئر کررہاہوں معذرت کے ساتھ۔
tourist
(tourist)
#124
Wah Haroon bhai wah
Kia kehnay hen, bohat hi zabardast jagha aur unki zabardast photos hen,
Dil chah raha hay abhi aur isi waqt Wahan chalay jaen.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#125
جی برادر اب کہانی ردھم میں آ گئی ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#126
شکریہ برادر۔ ویسے اس میں شک کوئی نہیں کہ کمراٹ کا علاقہ ابھی تک اپنی فطری حالت میں ہے اور یہی اس جگہ کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے۔ باقی سہولیات ابھی بہت کم ہیں۔ لیکن ہم جیسے لوگ سہولیات کہاں دیکھنے جاتے ہیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#127
شکریہ برادر۔ جب کہانی ردھم میں آ جاتی ہے تو پھر دلچسپ بھی ہو جاتی ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#128
برادر جس راستے کا آپ ذکر کر رہے ہیں میری معلومات اس کے متعلق بالکل بھی نہیں تھی حالانکہ راجہ صاحب کا نام تو میں نے بھی سنا ہوا ہے لیکن اس وقت ذہن میں نہیں تھا۔ دوسرا وہ راستہ اس وقت مناسب ہے جب کوئی مقامی آپ کے ساتھ ہو ورنہ بھٹکنے کے چانس بی ہیں کیونکہ آپ نے خود دیکھا ہو گا کہ جنگلوں میں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ باقی میں نے تو لوگوں کو ٹکی ٹاپ والے راستے سے ہی جاتے دیکھا اور ہم نے وہی راستہ اختیار کیا۔ آپ کی تصاویر کو دیکھ رکر لگ رہا ہے کہ آغاز سفر تو مختلف جگہوں سے ہے لیکن آگے جا کر دونوں راستے مل جاتے ہیں۔
ہارون بھائی! آپکی بات بالکل صحیح ہے وہ راستہ کافی پیچیدہ ہے اور بہت ہی گھنے جنگلوں (جس میں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے) سے ہوکر گزرتا ہے اور بعد میں یہ راستہ وہی ٹکی ٹاپ والے راستے سے مل جاتا ہے زیادہ تر سیاح ٹکی ٹاپ والا راستہ آسانی اور سواری کی وجہ سے چنتے ہیں کہ اس راستے پرلوگ ایک مخصوص جگہیں تک فاصلہ اپنی سواری یا کرائے کی گھڑ سواری پر طے کر سکتے ہیں لیکن میرے خیا ل سے یہ راستہ تھوڑا سا لمباہے اور رہی بات آغاز سفر کی تو وہ راجہ تاج کے گھر کو جو راستہ جاتا ہے اس راستے پر تھوڑاواپس آکر دائیں کی طرف مڑکراور دریا کو پار کرکےشروع ہوتا ہے یہ راستہ پیچیدہ ہے لیکن بہت ہی خوبصورت اور گھنے گھنے جنگلوں سے ہوتے ہوئے جاز بانڈہ پہنچتا ہے ۔ میں نے بھی اپنے ساتھ راجہ تاج کا بیٹا ساتھ لیا تھا
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#130
لاہور سے شرینگل، ویڈیو کہانی
tourist
(tourist)
#131
Masha Allah
Bohat maza aya video dekh kar,
Aisa lag raha tha k ham bhi aap k sath hen.
Haroon bhai ye bataiye k jab aap thakan say choor hokar tent men soye to koi hifazati iqdamat bhi kiye thay?
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#132
شکریہ برادر۔ میں جب بھی کیمپ لگاتا ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ ویرانے میں کیمپ نہ لگایا جائے۔ خاص طور پر اس جگہ جہاں جنگلی جانور ہوتے ہیں وہاں اکیلے اور لوگوں سے دور کیمپ نہ لگایا جائے۔ باقی ان علاقوں میں چوری اور ڈکیٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ شرینگل میں میں نے جب کیمپ لگایا تو وہ دوکانوں کے سامنے والا برآمدہ نما حصہ تھا اور مکمل آبادی والا حصہ تھا۔ باقی دعائیں پڑھ کا اللہ کا نام لیکر سو جاتے ہیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#133
بائیکرز کے سیفٹی گیئرز کی اہمیت کے پیش نظر میں یہ ویڈیو یہاں شیئر کر رہاہوں شاید اس سے کسی کو مدد مل سکے۔ یہ وہ سیفٹی گیئرز ہیں جو میں نے اپنے کمراٹ کے سفر سے پہلے لئے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے پچھلے ٹور میں ایک جگہ گرا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محفوظ رہا لیکن اس وقت میرے ذہن میں سیفٹی گیئرز کی اہمیت آئی تھی۔
ہارون بھائی ۔ خیر تو ہے سکرین پر کافی دنوں سے آف آرہے ہو۔اللہ خیر کرے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#135
برادر آج کل آفس ورک بہت زیادہ ہو گیا ہے اس وجہ سے لکھ نہیں پا رہا، کوشش کروں گا جلد ہی دوبارہ آغاز کروں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#136
ٹکی ٹاپ ہوٹل سے چند قدم کے بعد جنگل کا آغاز ہو گیا اور جس ابتدائی چڑھائی سے ہمارا واسطہ پڑا وہ واقعی ہی مشکل ثابت ہوئی۔ تقریباً چالیس ڈگری کا زاویہ بن رہا تھا اوپر سے کوئی مخصوص راستہ نہیں تھا اور مٹی بھی تھی۔ جا بجا درختوں کی جڑیں ہر طرف پھیلی ہوئیں تھیں اور اپنا راستہ خود منتخب کرنا پڑ رہا تھا ۔ شعیب کا عزم تو ابتدا کے پانچ دس منٹ میں ہوا ہو گیا اور کہنے لگا کہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ میں نے اسے کہا کہ جب میں کہہ رہا تھا تو اس وقت سمجھ نہیں آئی اب چلتے رہو۔ آسان تو میرے لئے بھی نہیں تھا لیکن جب اوکھلی میں سر دیا تو موسلوں سے کیا ڈرنا۔ میں اسے وقتاً فوقتاً حوصلہ دے رہا تھا اور آسانی کیلئے ہر چند منٹ کے بعد ہم رک جاتے ۔ جسم سے پسینہ پھوٹ رہا تھا اور چڑھائی کی وجہ سے سانس کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن ہائیکنگ کرنے والوں کو ان باتوں کا پتا ہوتا ہے کہ ابتدا میں مشکل لگتا ہے لیکن وقت کے ساتھ بندہ عادی ہو جاتا ہے۔ بابر ہم سے آگے چل رہا تھا ۔ جب واپس آنے والوں نے ہمیں بتایا کہ یہ مشکل چڑھائی تھوڑی ہی ہے اس کے بعد آسان ہو جائے گی تو کچھ حوصلہ ہوا لیکن آنے والوں کی حالت کافی پتلی لگ رہی تھی۔ سیدھا چڑھنا تو کافی مشکل تھا اس لئے ہم کچھ زگ زیگ انداز میں درختوں کی جڑوں کے درمیاں بنے ہوئے راستے پر قدم جماتے ہوئے رکتے رکتے چل رہے تھے۔ چڑھائی کا زاویہ اتنا زیادہ تھا کہ قدم مضبوطی سے جما جما کر رکھ رہے تھے ورنہ لڑھکنے کا بھی خطرہ تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی حقیقی مشکل چڑھائی کے بعد ہم ایک پگڈنڈی نما راستہ پر تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#137
اب ہم سوچ رہے تھے کہ آگے کا راستہ بھی شروع کی چڑھائی جیسا مشکل ہوا تو پھر سمجھو ہمارا کام ہو گیا۔ پگڈنڈی نما راستے پر کچھ دیر رک کر اپنے سانس بحال کیے اور پھر چل پڑے ۔ راستہ پہلے کی نسبت کچھ آسان ہو گیا ۔ حالانکہ چڑھائی اب بھی تھی لیکن یہ پہاڑ کے اطراف سے ہوتی ہوئی چڑھائی تھی ۔ رات اپنے سائے پھیلاتی جا رہی تھی۔ ہمارے سفر کا آغاز تھا اور جانے والے کم تھے جبکہ واپس آنے والے زیادہ تھے۔ واپس آنے والوں میں مر دو خواتین دونوں شامل تھے ۔ حالت تو مردوں کی بھی زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن خواتین کا حال برا تھا۔ چہرے تھکن اور کمزوری سے زرد ہو رہے تھے۔ کچھ خواتین تو اپنے ساتھ موجود مردوں کے سہارے سے چل رہیں تھیں۔ کچھ مردو خواتین ایسے بھی نظر آئے جو لنگڑا کر چل رہے تھے ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ راستہ میں گرے ہیں۔ اکثر لوگوں کے ہاتھ میں ہائیکنگ اسٹکس تھیں اور کچھ نے درختوں کی لکڑیوں کو بطور لاٹھی پکڑا ہوا تھا۔ ہمیں بھی ایک لکڑی نظر آئی تو اسے شعیب نے سنبھال لیا اور کچھ دیر کے بعد میرے ہاتھ بھی جادوگروں کی طرح کی ایک ٹیڑھی میڑھی لکڑی ہاتھ لگ گئی۔ ان اونچے نیچے رستوں پر یہ لاٹھی نما لکڑیاں بہت کارآمد ثابت ہو رہیں تھیں اور جسم کو سہار ابھی دے رہی تھیں۔ پگڈنڈی پر کچھ چڑھائی کے بعد اترائی شروع ہو چکی تھی۔ پگڈنڈی کے بائیں طرف پہاڑ اور جنگل جب کے دائیں طرف کھائی اور اس میں پھیلا ہوا جنگل تھا ۔ پگڈنڈی زیادہ کشادہ بھی نہیں تھی اس وجہ سے کئی جگہوں پر تو آنےو الوں کو راستہ بھی دینا پڑ رہا تھا۔ اب شعیب کے اوسان کچھ بحال ہو چکے تھے ۔ جب ہم جام شر سے ٹکی ٹاپ کی طرف پیدل آ رہے تھے تو شعیب نے مجھ سے کہا کہ ہارون صاحب آپ تو شادی شدہ ہیں اس لئے اگر جنگل میں کوئی پری ملی تو آپ نے اس کی طرف نہیں دیکھنا میرے لئے چھوڑ دینا اور میں نے ہنس کر اس کی بات کو تسلیم کر لیا اور اب شعیب اپنی "مایا" نام کی پری کو اونچی اونچی آوازیں دے رہا تھا ۔ کبھی مایا مایا چلا تا اور کبھی کہتا مایا تم میری ہو۔ جب اس کی آواز پہاڑوں سے ٹکر ا کر گونج کر واپس آتی تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ۔ اس موضوع پر ہماری ہلکی پھلکی نو ک جھونک بھی چل رہی تھی۔ راستے میں آنے اور جانے والے جب ایکدوسرے سے پوچھتے کہ آگے کتنا فاصلہ رہ گیا تو تسلی ملتی کہ بس تھوڑا ہی رہ گیا ہے اور حوصلہ کچھ بڑھ جاتا لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ صرف تسلیاں ہی ہوتیں تھیں لیکن ایسے سفر پر یہ تسلیاں بہت سہارہ دیتی ہیں ورنہ انسان حوصلہ ہار دیتا ہے۔ ایک جگہ جب واپس آنے والوں نے پوچھاکہ کتنا فاصلہ رہ گیا تو شعیب نے کہا کہ ابھی تو بہت ہے تو میں نے شعیب کو منع کیا کہ تسلی دو حوصلہ نہ توڑو۔اترائی کے بعد ہم نے ایک چھوٹے سے چشمے کو ایک درخت کے تنے کے ذریعے عبور کیا اور پھر تھوڑی سے چڑھائی چڑھے تو مقامی لوگوں کے کچھ گھر بھی نظر آئے۔ یہ مقامی آبادی کی گرمائی رہائش گاہیں تھیں جہاں وہ اپنے مال ڈنگر کو لے کر آتے تاکہ جانوروں کو چارے کا مسئلہ نہ ہو اور جب سردیوں کا آغاز ہوتا تو وہ واپس نشیبی علاقوں کی طرف چلے جاتے۔ تقریباً ہم آدھا فاصلہ طے کر چکے تھے اور اب دن کی روشنی بہت ہلکی بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی ۔ اب راستے کے آس پاس درخت بھی کم تھے اس لئے راستہ نظر آرہا تھا ۔ ان گھروں کے پاس بہت سی گائیں اور بیل راستے پر کھڑے تھے ۔ ہم ڈرتے ڈرتے ان کے پاس سے گزرے کہ کہیں ان کو غصہ چڑھ جائےاور وہ اپنا غصہ ٹکر کی صورت میں ہم پر نہ نکال دیں۔ لیکن شکر ہے انھوں نے ہمیں کچھ نہ کہا۔ ان گھروں سے آگے کچھ اترائی تھی اور پھر چڑھائی شروع ہو چکی تھی۔ ایک تو روشنی کم تھی دوسرا مشکل اور پر تھکن راستہ اس لئے کچھ ویڈیوز تو بنائیں لیکن تصویر نہ لے سکے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#138
اب ہمارا سفر اونچے نیچے پتھروں کے درمیان جاری تھا اور راستہ بھی کچھ چڑھائی والا تھا ۔ رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا ۔ شعیب راستہ دیکھنے کیلئے موبائل کی ٹارچ آن کر چکا تھا جبکہ مجھے ابھی اس کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ شعیب کے انداز سے شدید تھکاوٹ ظاہر ہو رہی تھی ۔ تھکاوٹ تو مجھے بھی تھی لیکن ابھی کنٹرول میں تھی۔ ا ب شعیب اپنے اس وقت سفر کے فیصلے پر پچھتا رہا تھا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل گیا تھا ۔ اب ہم واپس بھی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ہم تقریباً سفر کے درمیان میں تھے۔ مزید پریشانی یہ تھی کہ رات کا اندھیرا تیزی سے گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ شعیب کچھ دیر چلنے کے بعد رک جاتا یا بیٹھ جاتا اور میں اس سے کہتا کہ ذرا تیزقدم اٹھائے کیونکہ ابھی کافی سفر باقی ہے اور آگے جنگل بھی ہے لیکن وہ چند قدم اٹھانے کے بعد پھر پہلے والی روٹین پر آ جاتا کبھی رک جاتا اور کبھی بیٹھ جاتا ۔ وہ بار بار بوتل سے پانی کے گھونٹ بھر رہا تھا۔ مجھے بھی احساس تھا کہ یہ ا س قسم کا اس کا پہلا سفر ہے لیکن چلتے رہنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ وہاں تو کوئی آبادی بھی نہیں تھی کہ وہاں قیام کر لیتے پھر کیمپنگ کا سار ا سامان ہمارے پاس تھا اور بابر جو آگے جا چکا تھا وہ کہاں قیام کرتا۔ اس لئے میں شعیب کی ہمت بندھواتا کہ بس تھوڑا ہی سفر رہ گیا ہے اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا ۔ کچھ آگے جا کر جنگل بھی شروع ہو گیا اور وہاں گھپ اندھیرا کیونکہ درخت کافی گھنے تھے۔ اب میں نے بھی موبائل کی ٹارچ جلا لی تھی۔ اب ہمیں ادھر ادھر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا اور ہم ٹارچ کی روشنی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔ وہاں کوئی باقاعدہ راستہ تو تھا نہیں اسلئے کئی جگہ پر راستہ تلاش کرنےکیلئے ہمیں ٹارچ کی مدد سے کوشش بھی کر نا پڑ رہی تھی۔ کئی جگہ تو اس ناہمورا پگڈنڈی نما راستے سے کئی راستے نکلتے نظر آتے اور ہم پریشان ہو جاتے کہ اب کیا کریں۔ پھر ہم موبائل کی ٹارچوں کی مدد سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے کہ کون سا راستہ دیکھنے سے زیادہ استعمال ہونے والا لگ رہا ہے اور پھر اللہ کا نام لیکر اس پر چل پڑتے۔ راستے میں ایک آدھ جگہ پر پورے کا پورا درخت زمین بوس ملتا راستہ روکتا ہوا ملتا اور ہمیں اس کے اطراف یا نیچے سے گزر کر راستہ کھوجنا پڑ تا۔ پتھروں کے درمیان میں کئی جگہ پر چھوٹے موٹے چشمے بھی مل رہے تھے ۔ ایک چشمے کو عبور کرتے وقت شعیب کے پیر شوز سمیت دلدل نما کیچڑ میں دھنس گئے اور اس کا توازن بگڑا لیکن پھر سنبھل گیا اس سے صرف اس کے شوز اور پیر ہی خراب ہوئے وہ گرنے سے بچ گیا ۔کچھ پیچھے ہمیں تین لڑکے ملے تھے جو واپس جا رہے تھے اور ان میں سے ایک لڑکا پتھروں سے گر کر زخمی تھا اور اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا جسے اس کے ساتھی سہارا دے کر لے جارہے تھے لیکن اس لڑکے کے چہرے سے تکلیف صاف پڑھی جا رہی تھی۔ دل اس کے لئے دکھی ہوا لیکن ہم اس کیلئے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ہمیں پتا تھا کہ ابھی ان کا بہت سا سفر باقی ہے اور یہ یقیناً اس زخمی لڑکے اور اسکو سہارا دینے والے دوستوں کیلئے سخت آزمائش بننے والا تھا لیکن اسی لمحے مجھے ان دوستوں کی محبت کا بھی احساس ہو رہا تھا جو خود تھکے ہونے کے با وجود اپنے زخمی دوست کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے تھے اور ایک ایسے راستے پر جہاں خود چلنا مشکل تھا وہاں وہ اپنے دوست کو سہارا بھی دے رہے تھے اور اس لمحے مجھے نبی مکرمﷺ کی وہ نصیحت بھی یاد آ رہی تھی جس میں اکیلے سفر کی بجائے ساتھیوں /جماعت کے ساتھ سفر کرنے کا کہا گیا ہے۔شعیب کا توازن بگڑتے دیکھ کر ذہن میں وہی زخمی لڑکا آ گیا جو شاید ایسے ہی کسی جگہ توازن بگڑنے پر گر کر زخمی ہوا تھا۔بلکہ وہی نہیں سفر کے آغازمیں بھی ہمیں ایسے ہی کچھ اور لوگ بھی ملے تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اندھیرے کی وجہ سے ہم پہلے ہی کافی احتیاط سے چل رہے تھے اب مزید محتاط ہو گئے۔شعیب نے بھی مایا کو آوازیں دینا بند کر دیں تھیں کہ سچ مچ میں مایا آ ہی نہ جائے اور اگر وہ آ جاتی تو شعیب کا تو پھر اللہ ہی حافظ تھا۔ میں جب مایا کو ذکر کرتا تو وہ خوفزدہ سے لہجے میں کہتا ایسی باتیں نہ کرو کہیں سچ مچ نہ آجائے بلکہ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہارون بھائی بے شک آپ شادی شدہ ہیں لیکن اگر کوئی پری شری یا مایا آ جائے تو آپ ہی اسے سنبھالیں میں دستبردار ہوتا ہوں اور میری زوردار ہنسی نکل گئی ۔ میں کبھی کبھی اس کو تنگ کرنے کیلئے ہلکی آواز میں مایا کی آواز لگاتا تو وہ مجھے منع کرنے لگ جاتا۔ ہم ایسی جگہ پر آگئے جہاں دو چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے جن کے درمیان سے راستہ گزر کر جا رہا تھا ۔ کچھ دیر سانس لینے کیلئے ہم وہاں درخت کے ایک تنے پر جس کو بنچ کی طرح کاٹ کر پتھروں پر رکھا گیا تھا بیٹھ گئے۔ مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہو رہی تھی میں نے شعیب کو کہا کہ میں پیشاب کر کے آتا ہوں تو اس نے کہا رہنے دو وہاں پہنچ کر کر لینا ۔ مجھے پتا تھا کہ وہ مجھے کیوں منع کر رہا ہے اس کے ذہن میں وہ کہانیاں آ رہیں تھیں کہ کسی نے جنگل میں ایسے پیشاب کیا اور نتیجے کے طور پر کوئی جن چڑیل اسے چمٹ گیا اور دوسرا وہ اکیلا نہیں رہنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے نہیں بتایا کہ میں اس کا ذہن پڑھ چکا ہوں لیکن ابھی پتا نہیں کتنا چلنا پڑے اس لئے میں اس سے چند قدم فاصلے پر آ گیا تاکہ فارغ ہو سکوں۔ ویسے جو خدشہ اس کے ذہن میں تھا ایسے واقعات ہو بھی جاتے ہیں کیونکہ جن وغیرہ بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہی مخلوق ہیں۔ پیشاب کرنے سے پہلے میں نے چند بار قدم مارے اور کچھ شعیب سے اونچی آواز میں بات کرنے لگا کہ اگر کوئی اللہ کی مخلوق وہاں ہو بھی تو سائیڈ پر ہو جائے۔ پھر دعا پڑھ کر کے فارغ ہوا اور دوبارہ شعیب کے پاس آ گیا ۔شعیب کی حالت کافی پتلی ہو رہی تھی۔حالانکہ اچھی خاصی سردی تھی لیکن اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اور چہرے پر پریشانی جیسے ثبت ہو گئی تھی۔ میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور ہلکی پھلکی باتوں کے دوران اسے حوصلہ بھی دے رہا تھا۔ مجھے خود صحیح اندازہ نہیں تھا کہ ابھی منزل کتنی دور ہے کیونکہ آگے کوئی روشنی بھی نظر نہیں آ رہی تھی لیکن پیچھے راستے میں مقامی افراد یا سیاحوں سے جو معلومات حاصل ہوئیں تھیں ان کے مطابق یہ جنگل ہمارے سفر کا آخری مرحلہ تھا ۔
Haroon bhai shukriya. Ap sath sath deeni maloomat bhe btatay hen.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#140
شعیب کے انداز سے پریشانی، تھکاوٹ، خوف اور مایوسی جھلک رہی تھی میری باتوں سے وہ تھوڑا سا حوصلہ پکڑتا لیکن پھر کچھ دیر بعد اسی حالت میں لوٹ آتا۔ اب راستے میں کافی بڑے پتھر تھے جن کے درمیان سے پگڈنڈی نما راستے کے نشانات بھی مشکل سے نظر آ رہے تھے ۔ شعیب چند قدم چلنے کے بعد رک اور بیٹھ رہا تھا ۔ حالت تو میری بھی اچھی نہیں تھی لیکن یہ تھا کہ حوصلہ نہیں ٹوٹا تھا۔ یہ پتا ہونے کے باوجود کہ فاصلہ طے کرنے سے ہی ختم ہونا ہے مجھے بار بار اس کی وجہ سے رکنا پڑ رہا تھا اب اس حالت میں میں اسے چھوڑ بھی تو نہیں سکتا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ اپنا سارا سامان مجھے دے دو لیکن میرے کئی بار کہنے کے باوجود وہ نہیں مانا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ہم چند قدم چلتے تو پانچ دس منٹ رکتے تھے۔ میں بھی اب اس کو تیز چلنے کا نہیں کہہ رہا تھا بلکہ میں نے بھی اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیا تھا کیونکہ میں اس کی چال میں واضح لڑ کھڑاہٹ محسوس کر رہا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بار بار کہنے پر وہ تیز چلنے کی کوشش میں گر جائے۔ اب تو سفر کا آخری حصہ مجھے بھی مشکل محسوس ہو رہا تھا کیونکہ بار بار کافی دیر رکنے اور بیٹھنے کی وجہ سے جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا اور جب جسم ٹھنڈا ہو جائے تو پہاڑوں پر چڑھنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ اس نے اب ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں تھیں جیسے انسان مایوس ہو جاتا ہے اور ایسی حالت میں پھنس جاتا ہے کہ اسے نکلنے کا راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ وہ بار بار کہتا کہ مجھ سے نہیں ہو گا اور میرے پاس اس کیلئے صرف تسلی کے الفاظ تھے کہ بس اب تو ہم سمجھو پہنچ ہی گئے ہیں بس تھوڑا سا ہی رہ گیا ہے اور اندر میں سوچ رہا تھا کہ یا اللہ خیر کرنا کہیں اسے کچھ ۔۔۔ اور آگے سوچنے کی ہمت نہیں تھی بس اللہ سے دعا ہی نکل رہی تھی جو میں پڑھ کر اس پر بھی پھونک رہا تھا لیکن ایسے کہ اسے محسوس نہ ہو۔ اس کا دھیان بٹانے کیلئے میں ادھر ادھر کی خوش کن باتیں بھی کر رہا تھا اور پھر اس وقت آگے چلنے کیلئے قدم اٹھاتا جب وہ خود کہتا۔ اب گہرے درخت ختم ہو گئے تھے اور آسمان بھی واضح نظر آرہا تھا۔ ہم سانس لینے کیلئے بڑے پتھروں پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں پیچھے سے ایک جوان مقامی شخص آیا۔ شعیب کی حالت اور اس کی باتوں کو سن کر وہ بھی رک گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگ گیا۔ اس سے پوچھا کہ آگے مزید کتنا رہ گیا ہے تو اس نے بتایا کہ صرف دس منٹ کا فاصلہ ہے۔ یہ سن کر اطمینان ہوا ۔ وہ مقامی کافی دیر تک وہاں رک کر شعیب کو حوصلہ دیتا رہا اور پھر کہنے لگا کہ میں جاؤں یا رکوں میں نے اسے کہا کہ بہت شکریہ آپ جائیں۔ اس نے ہمیں پیش کش کی کہ جہاز بانڈہ اس کا ہوٹل ہے اگر ہم وہاں رہنا چاہیں لیکن ہم نے اسے بتایا کہ ہم نے تو کیمپنگ کرنی ہے۔ تو اس نے کہا کہ آپ وہاں آ جائیں آپ کو کسی مناسب جگہ پر کیمپ لگوا دیں گے ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ ہمارا ایک ساتھی آگے ہے اس سے مل کر پروگرام بنائیں گے۔ سامنے مشکل چڑھائی تو تھی لیکن کچھ آگے جا کر مزید چڑھائی کی جگہ آسمان ہی نظر آ رہا تھا جس کا مطلب ہے کہ ہمارا مشکل سفر واقعی ہی ختم ہونے والا تھا۔ پتھروں کے درمیان سے مناسب راستہ ڈھونڈتے اور پانی سے بچتے ہوئے ہم پھر چل پڑے۔ وہ دس منٹ کا فاصلہ ہم نے پندرہ بیس منٹ میں طے کیا۔ جب چڑھائی ختم کر کے اوپر پہنچے تو دنیا ہی بدل گئی ۔ کہاں اتنا گھنا جنگل، تنہائی، اندھیرا اور خوف کی کیفیت اور کہاں تاحد نگاہ پھیلا ہوا ایک میدان سا جس میں جگہ جگہ کئی ہوٹل نظر آرہے تھے جہاں روشنی کا بھی انتظام تھا اور ان کے علاوہ جا بجا ٹینٹ بھی ایستادہ تھے۔ جیسا سفر تھا مجھے بالکل بھی ایسے منظر کی توقع نہ تھی اور خاص طور پر اس وقت جب رات کے نو بج رہے تھے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ سنسان اور خاموش سی جگہ ہو گی جہاں ہمیں سوچ سمجھ کر کسی محفوظ جگہ کیمپ لگا نا ہوگا۔ لیکن ہم جیسا سفر کر کے آئے تھے یہ منظر دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ہوٹلوں کے اوپر لگی ہوئی رنگ برنگی روشنی کی لڑیاں آنکھوں کو بہت بھلی لگ رہیں تھیں۔ ٹاپ پر اتنے وسیع میدان کی مجھے بالکل بھی توقع نہیں تھی۔ جہاں پر ہم چڑھ کر رکے تھے اس سے چند قدم دور ہی کئی کیمپ ترتیب سے ایستادہ تھے اور ان کے درمیان آگ جل رہی تھی جس کے قریب ہی ایک بڑی چٹائی بھی بچھی ہوئی تھی۔ وہیں مجھے بابر بھی کھڑا نظر آیا۔ شعیب چٹائی کی طرف بڑھا اور اوندھے منہ اس پر گر گیا۔