میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟؟
رات کچھ زیادہ ہی گرم تھی، فوم کا میٹریس اور تکیہ آگ کی طرح تپ رہا تھا، پنکھا چل تو رہا تھا لیکن ہوا میں ٹھنڈک بالکل نہ تھی،
چند لمحوں کیلئے آنکھ لگتی بھی تو گردن سے بہتے پسینے کی چبھن یا میٹریس کی تپش سے جلتی پیٹھ اٹھ کر بیٹھ جانے یا بار بار کروٹیں بدلنے پر مجبور کر دیتی۔
شاید ہمارا کمرہ آج زیادہ ہی گرم ہو رہا تھا ، موبائل میں موجود موسم کی ایپ سے درجہ حرارت دیکھا تو 36 ڈگری سنٹی گریڈ اور احساس شدت گرمی ( فیل لائیک) 40 ڈگری ۔ آدھی رات کو کراچی میں اتنی شدید گرمی سے سابقہ بہت کم ہی پڑا تھا ، دوسرے کمرے میں مغرب کی سمت ایک کھڑکی کھلتی تھی، فیصلہ کیا کہ وہاں چل کر سونے کی کوشش کی جائے کہ کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا کا کوئی بھولا بھٹکا جھونکا آجائے ، پیڈسٹل پنکھا اس کھڑکی کے بالکل قریب رکھا کہ وہ کھڑکی کے باہر چلنے والے ہواکے جھونکوں کو کھینچ کر ہمارے بیڈ تک پہنچا سکے۔
پنکھا چلا کر لیٹے تو پنکھے سے آنے والی ہوا تنور سے نکلنے والی گرم لپٹوں کی صورت ہماری سکائی کرنے لگی ، جلدی سے پیڈسٹل بند کیا ، نیند اب بالکل غائب ہو چکی تھی، سوچا کہ ٹیرس میں جا کر دیکھوں کہ کیا باہر لو چل رہی ہے، لیکن وہاں ہوا اتنی زیادہ گرم نہ تھی، ٹیرس ہمارے گھر کے مشرق میں ہے ، حیرت ہوئی کہ ٹیرس میں اتنی شدید گرمی نہیں تو مغرب میں موجود کھڑکی سے آنے والی ہوا کسی نہ کسی حد تک تو خوشگوار ہونی چاہئیے تھی۔ گزشتہ برسوں میں کبھی کبھار کسی گرم شب کو ہم اپنا کمرہ چھوڑ کر دوسرے کمرے میں پیڈسٹل پنکھا چلا کر سوتے تو ہوا کے خوشگوار جھونکے کمرے میں در آتے تھے، آج ایسا کیا ہوا، ہماری رہائش پہلی منزل پر ہے ، میں بے اختیار سیڑھیاں اتر کر نیچے گیا کہ مغربی سمت میں واقع اس گیلری میں جا کر دیکھوں کہ آخر وہ آج کیوں تنور کی طرح تپتی ہے، گرائونڈ فلور کی پتلی سی گیلری میں داخل ہوا تو انتہائی گرم ہوا کے تھپیڑے چہرے کو جھلسانے لگے، عقدہ کھلا کہ ہمارے کمرے کی کھڑکی کے عین نیچے واقع کمرے کی کھڑکی میں ونڈو اے سی نصب ہے جو گرائونڈ فلور کے اس کمرے میں برفانی ہوائوں کی ٹھنڈک بکھیر رہا تھا اور باہر گیلری میں آگ کی لپٹیں اگل رہا تھا، ہمارا پنکھا انہی آگ کی لپٹوں کو کھینچ کر ہماری سکائی کا فریضہ انجام دے رہا تھا، جلدی سے اوپر آکر کمرے کی کھڑکی کا شیشہ بند کر کے پردے بھی برابر کئے، مجبوراً دوبارہ اپنے کمرے کا رخ کیا، پھر وہی کروٹوں پر کروٹیں۔ ستم بالائے ستم ایسے میں اچانک لائیٹ چلی گئی، بیگم صاحبہ بولیں کہ کہیں صرف ہمارے گھر کی لائیٹ تو نہیں گئی ، ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ٹیرس میں جاکر دیکھوں کہ یہ افتاد کہیں صرف ہمارے سر پر ہی نہ آن پڑی ہو کہ ہمارے پیچھے والے گھر سے جنریٹر اسٹارٹ ہونے کی آواز آگئی، لائیٹ گئے ہوئے دو گھنٹے سے بھی زائد ہو گئے تو یو پی ایس کے جواب دے جانے کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا، گھبرا کر ٹیرس میں جا پہنچا کہ دیکھوں کیا معاملہ ہے ، صرف غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی سزا ہی دی گئی ہے یا کوئی ایسا فالٹ تو نہیں ہوا کہ تا بہ سحر قید با مشقت سنا دی گئی ہو، ٹیرس سے اڑوس پڑوس کے گھروں میں چلنے والے جنریٹرز کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ، یو پی ایس کو بچانے کیلئے میں نے بھی ٹیرس پر رکھا جنریٹر آن کردیا، ٹیرس میں پائی جانے والی ہلکی ہلکی ٹھنڈک یکدم سے غائب ہونا شروع ہوئی، جنریٹر سے نکلنے والی گرم ہوا اور صوتی آلودگی سے گھبرا کر میں نے جلدی سے اپنے کمرے کا رخ کیا، کرخت آواز سے اپنی حس سماعت کو بچانے کی غرض سے لکڑی کا دروازہ بھی بند کیا، ،
اب بستر پر لیٹنے اور بار بار اٹھ کر ٹیرس کی طرف جانے کی مشق کا مرحلہ شروع ہو گیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لائیٹ آجائے اور جنریٹر چلتا رہے۔ ٹیرس پر جاتا تو وہاں جنریٹر کے مسلسل چلنے کے باعث باقاعدہ لو کےجھکڑ چلتے تھے۔
بستر پر لیٹتا تھا تو سوچتا تھا آج سے بیس سال قبل جب ہم نے پہلی منزل کا یہ پورشن کرایے پر لیا تھا تو محلے کے 80 فیصد کے قریب گھر صرف ایک یا زیادہ سے زیادہ دو منزلہ ہوا کرتے تھے، ہمارے دونوں بیڈ رومز کی کھڑکیاں عقب میں مغرب کی طرف کھلتی تھیں جہاں سے رات تو رات دن میں بھی ایسی تیز خوشگوار ہوا اندر آتی تھی کی کمرے کے دروازوں کو دھاڑ سے بند کر دیا کرتی تھی، رات میں بسا اوقات پنکھے تک چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اب ہمارے اڑوس پڑوس اور پیچھے کے بیشتر گھر تین منزلہ اور بعض چار منزلہ ہو چکے تھے، کھڑکیوں کے سامنے اب ان گھروں کی دیواریں موجود تھیں جنہوں نے مغرب سے چلنے والی خوشگوار ہوا کا راستہ بند کر دیا تھا، گھر بلند ہورہے تھے ، محلہ ترقی کر رہا تھا جبکہ سرکاری محکموں کا سفر بدستور ترقی معکوس کی جانب جاری تھا، کے ای ایس سی اب کے الیکٹرک بن گئی تھی، نام بدل گیا تھا کام اور کرتوت وہی تھے۔ گھروں کی ہوائوں کے راستے مسدود ہوئے تو کھڑکیاں بند ہوتی چلی گئیں اور کمروں میں دھڑا دھڑ اے سی لگنا شروع ہو گئے، اے سی کے عادی ہوئے تو گرمی برداشت کرنے کی عادت بالکل ختم ہوتی گئی، ادھر بجلی کی بندش اور لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہوتا گیا، شروع شروع میں یو پی ایس سے گزارا ہوتا رہا لیکن جب کے الیکٹرک کی ترقی معکوس کا گراف مسلسل بلند ہوتا گیا تو ہر گھر میں اے سی کے ساتھ ساتھ جنریٹرز کا وجود بھی لازم و ملزوم ہو گیا۔ متوسط طبقے کے اس محلے کی گلیوں میں بیس سال قبل اکا دکا گھروں کے آگے ہی گاڑیاں کھڑی نظر آتی تھیں ، اب ماشااللہ بیشتر کے سامنے نئی ائرکنڈیشنڈ گاڑیاں دکھائی دیتی ہیں، وہ جب سڑکوں پر دوڑتی ہیں تو اے سی کی گرم ہوائیں سڑکوں پر لو کے تھپیڑے بکھیرتی ہیں ، شدید گرمی میں گھروں کے اے سی دھڑا دھڑ چلتے ہیں تو کمرے ٹھنڈے لیکن پورے محلے کی فضا میں گرمی کی شدت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے, کے الیکٹرک کے ناتواں ٹرانسفارمرز بھاری لوڈ اٹھا نہ پانے کی وجہ سے دم توڑ جائیں تو محلے بھر میں جنریٹرز آن ہو جاتے ہیں ، غرض یہ کہ دن ہو یا رات ، سڑکیں ہوں یا رہائشی کالونیاں ہم ٹھنڈک پانے کی خواہش میں ان مشینوں کا سہارا لینے پر مجبور اور یہ مشینیں اس آگ برساتی گرمی میں چلتے لو کے تھپیڑوں کو آگ کی لپٹوں میں بدلتی چلی جاتی ہیں ۔ یہ حال تو متوسط طبقے کی رہائشی بستیوں کا ہے، شہر بھر کے دفاتر ، کارخانوں ، فیکٹریوں ، بینکوں ، شاپنگ مالز اور سپر اسٹورز کے بڑے بڑے اے سی پلانٹس ، اور پھر لائیٹ جانے کی صورت میں وہاں نصب جہازی سائز کے جنریٹرز کہ جن کے قریب سے گزرو تو چہرے جھلس جائیں ، شہر کی فضائوں میں کیا گل کھلا رہے ہیں ۔۔۔
میری سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا کہ پٹرول ختم ہو جانے کی بنا پر جنریٹر بند ہو گیا تھا، ٹیرس کا ایک چکر لگا کر آیا ، یو پی ایس کچھ چارج ہو گیا تھا اور امید تھی کہ آدھے گھنٹے تک تو مزید ساتھ دے ہی دے گا کہ سحری کے لئے اٹھنے میں بھی اب تقریباً آدھا گھنٹہ ہی باقی تھا،،،
دوبارہ کمرے میں آکر لیٹا تو سوچتا تھا کہ شہر میں بے شمار غریب آبادیاں بھی تو ہیں ، لیاری ندی کے ساتھ ساتھ قائم بے شمار گھٹی ہوئی پسماندہ آبادیاں تو کہیں جھونپڑ پٹیاں کہ جہاں اے سی اور جنریٹر ایک خواب ہوتے ہیں ، سیمنٹ اور ٹین کے چادروں کی چھتیں آگ برساتے سورج کے نیچے پگھلتی ہوں گی تو مکینوں کا کیا حشر ہوتا ہو گا،،
اور اسی شہر میں کلفٹن ، ڈیفنس ، پی ایس سی ایچ ایس سمیت ایسی امیر و کبیر اور پر آسائش آبادیاں بھی ہیں کہ جہاں کئی کئی ہزار گز پر مشتمل محل نما گھر کہ جن کے بڑے بڑے وسیع و عریض ڈرائنگ رومز سمیت ہر کمرے میں اے سی موجود اور کبھی لائیٹ جانے پر لمحہ بھر کیلئے بھی ٹھنڈک میں کمی نہ آئے ، ملازم اپنی کوٹھریوں میں جاگ کر رات گزارنے پر مجبور کہ ان محل نما بنگلوں کے اے سیز کو آن رکھنے کیلئے بھاگ کر جہازی سائز کے جنریٹرز کا سوئچ آن کرنا ان کی ڈیوٹی ۔۔۔
میں چشم تصور میں ایسے ہی ایک محل کے بیڈ روم میں جا پہنچا، سیٹھ صاحب ٹھنڈے ٹھار کمرے کے نرم و گداز بستر پر دراز سامنے دیوار پر لگے 65 انچ کے ایل ای ڈی ٹی وی کو آن کرتے ہیں ، ،،
ایدھی سینٹرز کے سرد خانوں میں گرمی کی شدت سے مرنے والے سیکڑوں افراد کی لاشیں بکھری پڑی ہیں ، سینٹرلی ائرکنڈیشنڈ محل میں یخ بستہ ہوائیں رقص کررہی ہیں ، اسی محل کے بیرونی درو دیوار سے آگ کی لپٹیں اٹھتی ہیں اور فضائوں کو جھلساتی شہر کی غریب بستیوں کی طرف بڑھتی ہیں ، آگ برساتی گرمی کے تیزدھار خنجروں کے پے درپے وار اور اللہ کی زمین پر گرتے غریبوں کے لاشے، ،،،
سیٹھ صاحب کچھ دیر ایدھی سینٹر کے اس سرد خانے کا یہ منظر دیکھتے رہے، کمرے کا اے سی کمرے کو کچھ زیادہ ہی یخ کر رہا تھا، انہوں نے سردی سے کپکپاتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر قریب رکھی چادر اٹھائی ،، اللہ ان بے چاروں کے حال پر رحم فرمائے کہتے ہوئے ٹی وی آف کیا اور خود کو اچھی طرح چادر میں لپیٹتے ہوئے کروٹ بدل کر سو گئے ،،،
رات کا آخری پہر تھا، ابھی تکان کے باعث میری آنکھ جھپکی ہی تھی کہ یو پی ایس جواب دے گیا ، میں چھت پر لگے پنکھے کو آہستہ آہستہ بند ہوتے دیکھ ہی رہا تھا کہ سحری کیلئے اٹھانے والا الارم بج اٹھا ۔۔۔
Sent from my iPhone using PW Forums