zabardast sir g may khud bhe aisa he katra hun balkay aksar tu as pas ka kora bhe utha kar shopar may daal deta hun..jazak Allah
بابو سر ٹاپ سے چلاس کے سفر کے دوران مجھے ویگن آر نے بالکل بھی مایوس نہیں کیا۔ بے شک اے بی ایس بریک نہ تھے لیکن انکی کارکر دگی بہترین تھی۔ واپسی پر بھی اس راستے پر چڑھائی کے دوران بھی کوئی مسئلہ نہ ہوا ۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ مناسب وقت پر مناسب گیئر تبدیل ضرور کریں۔ جہاں بہت زیادہ چڑھائی اور یو ٹرن ہے وہاں آپ کو پہلا گیئر کا بھی استعمال کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ایسے یو ٹرن پر آپ تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ایسا کرنا خطرناک ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں جہاں آپکی گاڑی کی کارکر دگی کا امتحان ہوتا ہے۔ وہاں ڈرائیور کا بھی امتحان ہوتا ہے۔ دونوں ہی اگر اچھا پر فارم کریں تو مشکل راستہ بھی کٹ جاتا ہے۔ پورے سفر کے دوران میں نے بہت سی ویگن آر دیکھیں جن پر لوگ خنجراب تک ہو کر آ رہے تھے ۔
بابو سر ٹاب سے چلاس والے راستے کے بارے میں ایک اور بات ان دوستوں کے علم میں لانا چاہتا ہوں جنھوں نے اس راستے پر سفر نہیں کیا۔ بابو سر سے تقریبا 25 سے 30 کلومیٹر کی سڑک پر چڑھائی اور اترائی زیادہ ہے اسکے بعد کم ہو جاتی ہے۔ بعد والا راستے کے زیادہ تر پہاڑ وں میں مٹی کی مقدار زیادہ ہے۔ جو کہ بارش کے دوران لینڈ سلائیڈ کر سکتے ہیں۔ نارمل حالات میں کوئی مسئلہ نہیں۔ سڑک بہترین حالت میں ہے۔ صرف چڑھائی اور اترائی کی وجہ سے ڈرائیونگ میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ آپ کی گاڑی کا انجن کولنگ سسٹم ٹھیک حالت میں ہونا چاہیئے اور بریک بھی بہترین حالت میں۔اس علاقے میں صاف پانی کے چشمے بھی بہت کم تعداد میں ہیں۔ اسلئے بابو سر ٹاپ سے پہلے بٹہ کنڈی کے آس پاس آنے والے صاف پانی کے چشموں یا پائپوں سے پانی اپنے پاس ذخیرہ کر لیں تاکہ پریشانی نہ ہو۔ اگر آپ دوران سفر ایک چھوٹا واٹر کولر ساتھ رکھ لیں جیسا ہم نے رکھا تھا تو کئی گھنٹوں تک پانی ٹھنڈا ہی رہتا ہے۔ باقی جب بھی سفر کریں سفر کی دعا پڑھ کر اور اللہ تعالٰی سے پناہ مانگ کر سفر شروع کریں کیونکہ کوئی بھی چیز اسکی قدرت سے باہر نہیں۔
جب ہم چلاس کے قریب قراقرم ہائی وے پر چڑھے تو میٹر ریڈنگ 30945 تھی یعنی بابو سر سے قراقرم ہائی وے تک ہم نے تقریبا 43 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ چلاس اس مقام سے تقریبا 10 کلومیٹر بائیں طرف تھا۔ ہم دائیں طرف مڑے اور قراقرم ہائی وے پر چڑھنے کے بعد دنیا کے عظیم دریاؤں میں سے ایک دریا جو تبت کی برفپوش چوٹیوں سے شروع ہو کر اپنا سفر بحیرہ عرب میں جا کر ختم کرتا ہے ہمارے سامنے تھا۔ یعنی دریائے سندھ۔ دریائے سندھ کو میں نے ضلع سکھر صوبہ سندھ کے قریب بھی دیکھا ہے۔ لیکن ان پہاڑوں میں اسکا نظارہ ہی الگ تھا۔ دونوں طرف پھیلے ہوئے فلک بوس پہاڑوں کے درمیان دریائے سندھ کے بہاؤ کا اندازہی البیلا تھا۔ ٹھاٹھیں مارتا ہوا مٹی رنگ کا پانی ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ دریائے سندھ سڑک سے کافی نیچے گہرائی میں بہہ رہا تھا۔ اسکے کنارے پر صحرا کی ریت جیسا کافی بڑا علاقہ بھی تھا اور کہیں پر اس ریت میں دریا جھیل جیسی شکلیں بھی بنا رہا تھا۔ پتا نہیں کیا بات ہے ان ویران پہاڑوں کے درمیان دریائے سندھ کے پہلے نظارے میں اس سے کچھ خوف سا محسوس ہوا۔ لیکن خوف کے احساس کے ساتھ اس میں خوبصورتی بھی تھی خاص طور پر جہاں دریا کی ریت کے درمیان پانی ایک چھوٹی جھیل جیسی حالت میں تھا۔ دریائے کنہار کی اپنی خوبصورتی تھی لیکن حجم اور پانی کی مقدار کے معاملے میں اسکا دریائے سندھ سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ گاڑی کچھ دیر روک کر وہاں کھڑے رہے اور کچھ تصاویر بھی اتاریں۔
دریائے سندھ کی پہلی جھلک۔
دریائے سند ھ کا خوبصورت نظارہ۔ درمیان میں پانی کا مرکزی دھارا جو پورے جوش و خروش سے بہہ رہا تھا اور اسکے کنارے کے پاس دریائی ریت میں پانی جھیل جیسی شکل میں تھا جو دیکھنے میں خوبصور ت لگ رہا تھا۔دوسرے کنارے پر ہوا سے اڑتی ہوئی مٹی بھی نظر آ رہی ہے۔
دریائے سندھ کا ایک اور زاویے سے نظارہ۔
دریائے سندھ کا نظارہ کرنے بعد چل مسافر چل۔ قراقرم ہائی وے پر تقریبا 5 سے 6 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد شام چھ بجکر دس منٹ پر پی۔ایس ۔او کا ایک پٹرول پمپ آیا ۔ وہاں گاڑی روکی اور ٹینکی بھروائی۔ ریٹ 64.28 روپے تھا۔ 6.21 لٹر پٹرول ۔قیمت 400 روپے۔ ناران سے یہاں تک ہم نے 117 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ اس لحاظ سے فیول ایوریج 18.84 کلومیٹر فی لٹر بنتی تھی۔ جو کہ اس سارے پہاڑی سفر کے لحاظ سے بہترین تھی۔ ویگن آر دشوار گزار علاقوں کے سفر میں بھی اپنی فیول ایفیشنٹ کی خاصیت کو نہیں بھولی تھی۔ پٹرول بھروانے کے بعد سوچا کہ نماز بھی یہیں پڑھی جائے۔ مسلسل سفر کی وجہ سے ظہر بھی نہیں پڑھ سکے تھے۔ پٹرول پمپ پر جو کمرے بنے تھے ان کے پیچھےدو واش رومز تھےاور واش رومز کے باہر آ خر میں پانی کا نلکا لگا ہوا تھا۔ وہاں سے وضو کرنے کے بعد پمپ پر موجود پلاسٹک کی چٹائی بچھا کر نماز ادا کی۔ لیکن ہوا بہت تیز تھی اور سارا علاقہ مٹی کے پہاڑوں اور مٹی سے بھرا ہوا تھا۔ مٹی سے بھرے ہوئے ہوا کے جکھڑ نماز کے دوران آ کر ٹکراتے رہے۔ اور منہ اور بال وغیرہ مٹی سے اٹ گئے۔ چٹائی بھی بار بار اڑتی رہی۔ ظہر اور عصر کی نماز قصر ادا کی اور دوبارہ منہ ہاتھ دھوئے گئے۔ اور دوبارہ سفر کا آغاز کر دیا۔ پمپ پر تصویریں لینے کا خیال نہ آیا۔
قراقرم ہائی وے پوائنٹ نزد چلاس سے تقریبا 30 کلومیٹر تک روڈ اوسط حالت میں تھا۔ لیکن ایسا تھا کہ تقریبا 60 کی رفتار سے آسانی سے ڈرائیونگ ہو سکے لیکن زیادہ کشادہ نہ تھا۔ آپ اسطرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جیسا ایک گاؤں کی طرف جاتی ہوئی سڑک جو نئی بھی بنی ہو تب بھی اس میں نشیب و فراز ہوتے ہیں۔ جیسے کسی عام ٹھیکیدار نے بنوائی ہو۔ پٹرول پمپ سے جب روانہ ہوئے تھے تو تیز ہوا چل رہی تھی اور ہر طرف فضا میں مٹی اڑتی پھر رہی تھی۔ شیشے بند کرنے پڑ گئے اگر نہ کرتے تو اچھا خاصا پاؤڈر لگ جاتا اور شاید ہنزہ کے لوگ ہمیں بھوت پریت سمجھ لیتے ۔ شیشے بند کرنے کے بعد گرمی کا احساس تھا اسلئے اے سی بھی چلا دیا۔ جہاں تک ہو سکتا تھا میں محفوظ انداز میں گاڑی تیز چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن ان رستوں کے موڑ میرے لئے انجان تھے اور مجھے اگلے موڑ کا اندازہ نہیں تھا کہ کیا صورتحال ہو گی۔ اسلئے احتیاط کا پہلو نمایا ں تھا۔ تقریبا 30 کلومیٹر کے بعد سڑک کی حالت خراب ہو گئی۔ بلکہ بعض جگہوں پر تو روڈ سرے سے موجود ہی نہیں تھی صرف کچا راستہ تھا۔ اندھیرا چھا گیا تھا۔ اور رستہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ سڑک ایسی کہ عام طور پر پہلے گیئر میں ہی گاڑی چل سکے۔ ایک طرف گہرائی میں بہتا ہوا سندھ دوسرے طرف مٹی والے پہاڑ اور درمیان میں ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اس سڑک پر چلتی گاڑی اور گاڑی میں تین کزنز۔ پہاڑ مٹی سے بھر پور تھے لیکن عمودی بلندی بہت تھی۔ اور پہاڑ کی بلندی پر اور سڑک کے اطراف بڑے بڑے پتھر اس طرح پہاڑ کی مٹی میں لگے ہوئے تھے لگتا تھا کہ کہیں نیچے ہی نہ آ جائیں۔ آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ ایسے ماحول میں جب علاقہ آپ کے لئے نیا ہو اور اندھیرا چھا جائے تو اعصاب پر اسکے اثرات ضرور پڑتے ہیں۔ وسیم اور احمد راستہ اور اندھیرا اور خطرناک حد تک لینڈ سلائیڈ والے پہاڑ دیکھ کر پریشان تھے میں ان کو حوصلہ دیتا کہ کچھ دور رائے کوٹ پل کے بعد راستہ بہترین ہے۔ ہم نے اپنی گاڑی لاہور نمبر کے ایک بڑے مزدا ٹرک کے پیچھے لگا لی۔ ٹرک کو دیکھتے ہوئے راستے کا پہلے ہی اندازہ ہو جاتا تھا ۔ شاید اللہ نے اس ویرانے میں ہمیں حوصلہ دینے کو یہ ٹرک بھیجا تھا۔ راستے پر کوئی بھی گاڑی گزر سکتی تھی لیکن احتیاط ضروری تھی۔ شاید ان دیکھے رستے اور رات کے اندھیرے میں وہ راستہ ہمیں کافی مشکل لگا تھا۔ حالانکہ واپسی پر ہم کافی سکون سے اس راستے سے گزرے تھے۔ بے شک رفتا ر تو آہستہ تھی لیکن اس رات کے خوف اور ڈر والی کوئی بات نہیں تھی۔ مزدا ٹرک والے نے کئی بار ہمیں راستہ دیا کہ ہم آگے نکل جائیں لیکن ہم نے اسکے پیچھے رہنے میں بہتری سمجھی۔ اور پھر ٹرک والے کو سمجھ آ گیا کہ یہ لوگ جان بوجھ کر پیچھے رہ رہے ہیں۔ تاکہ ٹرک کے پیچھے رہ کر سفر کیا جائے اور بعد میں اس اللہ کے بندے نے ہمارا خیال بھی رکھا اور جب وہ زیادہ آگے نکل جاتا تو رفتا ر کم کرکے ہمارے آنے کا انتظار کر لیتا تھا۔ ویسے اس علاقے میں اتنے اونچے ٹرک کو جس پر ایک بڑا کنٹینر بھی رکھا تھا ڈرائیو کرنا بڑی مہارت کا کام تھا۔ کئی جگہ تو ہم نے دیکھا کہ اونچے نیچے راستے کی وجہ سے جب ٹرک جھولتا تھا تو اس کے ایک طرف کے پہیے زمین سے اوپر اٹھ جاتے تھے۔ لیکن ٹرک والے کی مہارت تھی کہ وہ ٹرک کو کنٹرول کر لیتا تھا۔ دوست پریشان نہ ہوں گاڑی وغیرہ کے ساتھ ایسی کوئی صورتحال نہ تھی۔ صرف راستے کے خراب ہونے کی وجہ سے رفتا ر کم تھی۔ ویسے راستہ ایسا تھا کہ ہم پریشان تھے کہ رائے کوٹ پل کہاں رہ گیا۔ کہیں ہم کسی غلط راستے پر تو نہیں آ گئے لیکن دل کو یہ بھی تسلی تھی کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ تو ہے نہیں کہ ہم کسی اور راستے پر مڑ جاتے۔ کم رفتار سے پہلے اور بعض جگہ دوسرے گیئر میں ٹرک کی رہنمائی میں اور اللہ کو یاد کرتے ہوئے ساڑ ھے آٹھ بجے رائے کوٹ پل پہنچے ۔ میٹر ریڈنگ 30995 تھی۔ ویسے ہمیں پل سے کچھ پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ رائے کوٹ پل آنے والا ہے۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ ہم نے کوئی بورڈ پڑھا تھا یا کسی نے بتایا تھا۔ وجہ بڑی دلچسپ ہے کہ ہم نے ان ویران پہاڑوں پر ایک کتا دیکھا تھا اور کتا ایک ایسا جانور ہے اگر وہ جنگلی نہ ہو تو وہ ہمیشہ آبادی کے قریب رہتا ہے یعنی کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی آبادی قریب تھی۔ ہے نا دلچسپ بات۔رائے کوٹ پل پہنچ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور جان میں جان آئی۔ اس سفر کے دوران جو ہم نے محسوس کیا وہ بیان کر دیا اپنے آپ کو زیادہ بہادر ظاہر کرنے کیلئے کوئی بات چھپائی نہیں۔ایک رائے کہ کوشش کریں کہ پہاڑی علاقے میں سفر دن کی روشنی میں کریں۔ اندھیرے کی وجہ سے کوئی تصویر نہ لے سکے۔
Have you ppls left skin of potatoes as it is there on the road?!?!?!? if so then it is very shamefulll i must say.... and if dont then hats of to you guys....
Brave attempt..... if you ppls reached at Raikot Brigh around 8:30 thats mean you have drove the car at aroung 1.5 hours in dark.... Amaizing.. but plz becareful its risky as well..
How much time does it take from Babusar top to Chilas? I was at Babusar Top during last week of Ramzan and thought of hitting Chilas but at 3:30 PM at Babusar, I was told its too late to travel due to security reasons.
بھائی لگتا ہے آپ نے پچھلی پوسٹ میں آصف بھائی سے ہونے والی بات چیت نہیں پڑھی ورنہ آپ کو اس سوال کا جواب مل جاتا۔ ہم نے وہ چھلکے اٹھا لئے تھے۔ شکریہ
جی ہاں تقریبا اتنا وقت ہی لگا تھا۔ اور میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اندھیرے میں پہاڑی علاقے میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن اسوقت ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھی۔ کیونکہ اس دوران کوئی قیام کی جگہ نہیں تھی جہاں رات کو رکا جا سکے۔ شکریہ
جب ہم نے بابو سر ٹاپ سے سفر کا آغاز کیا تھا تو تقریبا ساڑھے تین سے لیکر چار بجے کا وقت تھا اور بابو سر ٹاپ سے قراقرم ہائی وے پہنچنے میں تقریبا ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
Brother you have the option to stay at chillas, any how if all is well then ends well
further waiting for next posts and snaps...
بھائی چلاس میں بہت گرمی ہوتی ہے اس موسم میں اس لءے وہاں قیام نہیں کیا۔
protect the nature
Zabardast thread. Waiting for next update.
انشاء اللہ جلد ہی مزید اقساط آئیں گی۔پسند یدگی کا بہت شکریہ۔
رائے کوٹ پل کو کراس کر کے کچھ آگے گئے تو پولیس چیک پوسٹ آئی جس پر اندراج کروانے کے بعد آگے روانہ ہوئے۔ وہ شاہراہ قراقرم جس کی دھوم سنتے آئے تھے ہمارے سامنے تھی۔ واقعی سڑک بہترین حالت میں تھی۔ آخر وہ خواب پورا ہو گیا جو میں نے اسوقت دیکھا تھا جب وادی ہنزہ کی سیر کا پروگرام بنایا تھا۔ وہ خواب تھا اس شاہراہ پر ڈرائیونگ کرنا لیکن افسوس کہ وقت رات کا تھا کہ اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا تھا۔ دوسرا وقت اتنا ہو گیا تھا کہ اسوقت ہمیں صرف فکر اس بات کی تھی کہ جلد از جلد ہنزہ پہنچا جائے کیونکہ بے شک سڑک کی حالت بہت بہتر نظر آ رہی تھی۔ لیکن تھا تو پہاڑی راستہ جس کے اگلے موڑ پر کیا ہے کچھ پتا نہیں۔ اس شاہراہ کو مختلف دوستوں نے مختلف طرح بیان کیا جیسے "اے ڈریم روڈ"۔ اندھیرا ضرور تھا لیکن روڈ کی حالت کے پیش نظر ہماری رفتار 60 سے 80 تھی۔ ہم نے ابھی تک اس ٹرک کو نہیں چھوڑا تھا۔ وہ ہمارے آگے آگے تھا۔ وہ بھی کم ازکم اسی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ ٹرک کو نہ چھوڑنے کی وجہ یہ تھی تاکہ اس سے آگے آنے والی سڑک کا اندازہ ہو سکے۔ سفر تیزی سے جاری تھا۔ تھیلچی اور نانگا پربت ویو پوائنٹ آئے لیکن اس اندھیرے میں تو ہمیں صحیح طور پر روڈ کی اطراف بھی نظر نہیں آ رہی تھیں ان کو کیا دیکھتے۔ اس لئے آگے بڑھتے رہے۔ سوچ رہے تھے ابھی تو ہنزہ بہت دور ہے۔ اس لحاظ سے تو بہت رات ہو جائے گی اور آگے سڑک کی کیا صورتحال ہو کچھ پتا نہیں دوسر ا رات کو سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں وہ بھی اس علاقے میں جو کہ ہمارے لئے اجنبی تھا اور خطرناک پہاڑی موڑ بھی تھے۔ فیصلہ کیا کہ راستے میں جگلوٹ آئے گا اگر وہاں کیمپ لگانے کی مناسب جگہ مل گئی تو وہاں رات گزار کر صبح ہنزہ کی راہ لی جائے گی۔اگر جگلوٹ میں مناسب جگہ نہ ملی تو سفر جاری رکھا جائے گا۔ 9 بجے ہم اصل جگلوٹ سے پہلے جہاں اسکی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ وہاں پہنچے۔ میٹر ریڈنگ 31020۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں جگلوٹ سے پہلے ایڈمور کا ایک پٹرول پمپ ہے جس کے دونوں طرف دو ہوٹل ہیں۔ اور پمپ کے بالکل سامنے ایک مسجد بھی ہے۔ گاڑی پمپ کے سامنے روکی ۔ چھوٹا سا اڈہ تھا۔ وسیم اور احمد سے کہا ذرا پتا کرو کہ کوئی کیمپنگ کی جگہ ہے۔ وسیم نے کہا کہ بہتر ہے تم خود پتا کر لو اور جگہ کا انتخاب بھی کر لینا۔ میں ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر اترا تو دیکھا کہ پمپ کے سامنے ایک جنرل سٹور بھی ہے۔ وہاں گیا تو ایک نوجوان دوکاندار جس کا نام سہیل احمد تھا وہاں موجود تھا۔سلام کرنے کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی کیمپ لگانے کی جگہ ہے۔ اس نے پوچھا کہا ں سے آ رہے ہو ہم نے کہا لاہور۔ پھر پوچھا کہ کتنے لوگ ہو میں نے بتایا کہ تین۔ دوبار ہ سوال ہوا کہ کتنے کیمپ لگانے ہیں۔ جواب دیا صرف ایک۔ یہ سن کر اس نے فراخدلانہ پیش کی کہ جنرل سٹور کے ساتھ ہی لان ہے آپ اس میں کیمپ لگا سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ پیسے کتنے ہوں گے۔ اس نے کہا کہ کوئی پیسے نہیں آپ ہمارے مہمان ہو۔ اس کے مہمان نوازی کے اظہار پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ لان کا جائزہ لیا تو وہ تقریبا دو مرلے جگہ تھی جس میں گھاس لگی ہوئی تھی اور چاروں طرف خار دار تار کی باڑ لگی ہوئی تھی۔ وہ مسافر جو سفر کے دوران دن کی یہاں مختصر قیام کرتے تھے اور کھاتے پیتے تھے ان کے بیٹھنے کے لئے کرسی اور بنچ بھی رکھے تھے۔ہماری توقع سے بہتر جگہ تھی۔ فورا حامی بھر کر کیمپنگ کا سامان نکالا اور اپنا عارضی گھر تعمیر کر دیا۔ کھانا پکانے کا سامان ساتھ تھا لیکن احمد نے کہا کہ رات زیادہ ہو گئی ہے۔ ہوٹل سے کھا لیتے ہیں۔ میں اس حق میں نہ تھا لیکن ان کے اصرار کی وجہ سے چپ ہو گیا۔ احمدسٹو ر کے دائیں ہاتھ بنے ہوٹل سے کھانا لینے گیا لیکن کچھ دیر کے بعد خالی ہاتھ آتا ہوا نظر آیا اور بتایا کہ کھانے اور صفائی کا معیار نا قص ہے۔ ہوا کا فی تیز چل رہی تھی اور اس کی مٹی اڑ اڑ کر ہوٹل کے کھانے میں جا رہی ہے لیکن ہوٹل والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ تو پھر کیا تھا اپنا سلنڈر اتارا اسے سٹور کی دیوار کے ساتھ رکھا تا کہ ہوا سے بچت ہو سکے۔ وقت کی کمی کے پیش نظر فیصلہ ہو اکہ آلو اور انڈے بنا لئے جائیں ۔ جلدی جلدی دو چھریوں کی مدد سے آلو، پیاز، ٹماٹر وغیرہ کاٹے۔ کڑاہی کو چولہے پر رکھ کر کوکنگ آئل ڈال کر کام شروع کر دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم پکاؤ میں نماز پڑھ لوں۔ سٹور والے نے پانی کا ایک پائپ بھی لگا رکھا تھا جس میں چشمے کا پانی آ رہا تھا۔ پانی ٹھنڈا تھا لیکن خوشگوار لگ رہا تھا۔ وضو کرکے ساتھ موجود مسجد میں جا کر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد یہ بھی دیکھ لیا کہ مسجد میں واش روم کی سہولت بھی تھی جس کو بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا تھا۔ لیکن واش روم میں پانی کا کوئی نلکا نہیں تھا۔ بلکہ چشمے سے آتے ہوئے پانی سے جو مسجد کے اندر سے ہی ایک چھوٹی پختہ نالی سے ہو کر بہہ رہا تھا۔ اس میں سے دو تین لوٹے بھرو اور پھر واش روم میں رکھو۔واپس دوستوں کے پاس پہنچا تو کھانا تقریبا تیار تھا۔ سامنے ہوٹل سے روٹی لگوائی ۔ سالن مزیدار تھا ۔ نوجوان دوکاندار سہیل اپنے گھر جا چکا تھا اب دوکان پر اسکا بھائی تھا جس کا نام سر سید تھا۔ اس کو کھانے میں شریک کیا ۔ اس نے کھانے کی تعریف کی ۔ اتنے میں سامنے ہوٹل کا باورچی جس سے ہم نے روٹیاں لیں تھیں وہ بھی آ گیا۔ اس نے بھی چند نوالے کھا کر دیکھے اور کہ اچھا بنا ہوا ہے بس تھوڑی مرچ زیادہ ہے۔ اصل میں وسیم نے اس میں اچار بھی ڈالا تھا جس کی وجہ سے چٹ پٹا بنا تھا۔ کھانے کے بعد دوکان کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے پائپ سے بر تن دھوئے اور برتنوں اور سلنڈر کو گاڑی میں رکھ دیا۔ اس کے بعد لان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر سر سید سے گپ شپ ہوتی رہی بعد میں سہیل بھی آ گیا۔ وہ بھی گفتگو میں شریک ہو گیا ۔ انھوں نے بتایا کہ جتنا جنون ہم نے یہاں آنے والے سیاحوں میں سے لاہور والوں میں دیکھا ہے اتنا کسی میں نہیں دیکھا دوسرا یہ لوگ اپنا سارا سامان گھر سے لیکر چلتے ہیں اور کھانا بھی خود پکاتے ہیں اور مزیدار بھی ہوتا ہے۔ اصل میں ان کا سٹور بالکل شاہراہ کے اوپر تھا جس کے وجہ سے مختلف علاقوں سے آنے والے سیاح وہاں کا دورہ کرتے رہتے تھے۔ سہیل لاہور کے کسی ٹیکنیکل کالج سے ڈپلومہ کرنا چاہتا تھا جس کے بعد اسکا ارادہ بیرون ملک جانے کا تھا۔ اس بارے میں معلومات لیتا رہا۔ اسکا بھائی بھی پہلے لاہور گیا ہوا تھا اور بڑا بھائی لاہور میں ہی روزگار کے سلسلے میں رہائش پذیر تھا اسلئے وہ لاہور کے بارے میں کافی جانتے بھی تھے۔ موسم خوشگوار تھا ہوا چل رہی تھی اور اجنبی ایک دوسرے میں گھل مل گئے تھے۔ خدشہ تھا کہ کہیں رات کو بارش نہ ہو جائے۔ ہم نے کیمرے کی بیٹری چارجر میں لگا کر دوکان میں لگا دی تھی تاکہ صبح تک چارج ہو جائے۔اب سونے کا ارادہ تھا کیونکہ صبح پھر سفر کرنا تھا۔ سہیل نے بتایا تھا کہ ان کا گاؤں سامنے موجود پہاڑ پر آباد ہے اور سامنے موجود ہوٹل اور پٹرول پمپ بھی ان کے خاندان کے افرا د کا ہی ہے۔ انھوں نے بتایا سکون سے سوؤ یہاں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اگر کوئی ضرورت ہو تو سامنے ہوٹل والے کو بتانا وہ انکا کزن ہے۔ہم نے ان کے حسن سلوک پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ رات 12 بجے کے بعد ہم ٹینٹ میں گھس گئے اور سہیل وغیرہ بھی اپنے گھر کو روانہ ہو گئے۔ ٹینٹ میں لیٹنے کے بعد گرمی کا احساس ہوا تو اس پر ڈالی ہوئی بیرونی شیٹ اتار دی جو ہم نے بارش کے خدشے کی وجہ سے ڈالی ہوئی تھی۔ اور پیرا شوٹ کا بنا ہوا روشندان کھول دیا ۔ اس کے علاوہ دروازے کے طور پر کام کرنے والے پیرا شوٹ کو بھی کھول کر صرف جالی دار دروازہ بند رکھا ۔ دروازے اور روشندان سے ہو ا کے گزر کی وجہ سے گرمی کا احساس ختم ہو گیا۔ وسیم اور احمد تو لیٹتے ہی سو گئے۔موبائل سگنل بلکہ ٹو جی نیٹ سگنل بھی آرہے تھے۔ تقریبا رات ساڑھے بارہ بجے کویت سے واٹس ایپ پر میرے بہنوئی اور کزن امجد بھائی کا فون آ گیا۔ امجد بھائی کو بھی سیر سپاٹے کا بہت شوق ہے۔ جب بھی پاکستان آتے ہیں تو کہیں نہ کہیں کا پروگرام بنا تے ہیں۔ اس پورے سفر کے دوران بھی ان کا فون وقتا فوقتا آتا رہا تھا اور جہاں جہاں ہم جاتے تھے وہ ہم سے اس علاقے کے بارے میں دریافت کرتے اور دوسری معلومات لیتے۔ مجھے پتہ تھا کہ جب تک ہمارا ٹور رہنا ہے ان سے سکون سے بیٹھا نہیں جانا ۔ کہنے لگے کہ جب بڑی عید پر پاکستان آ ؤں گا تو پھر پروگرام بنائیں گے۔ امجد بھائی سے بات چیت کے بعد تقریبا 1 بجے سو گیا۔ اور خوابوں میں بھی پہاڑی علاقوں میں پھرتا رہا۔ شکر ہے رات کو بارش نہیں ہوئی اور نہ ہی سردی تھی کہ سلیپنگ بیگ میں گھسنا پڑتا۔ اسلئے ان کے اوپر ہی سوتے رہے۔