پتا نہیں کتنی دیر تک راکا پوشی کے حسن میں کھوئے رہے۔ تب تک وسیم اور احمد بوتلوں اور پھلوں کو راکا پوشی کے گلیشیئرز سے نکلنے والے چشمے کے پانی سے ٹھنڈا کر چکے تھے۔ اور کچھ بلندی سے اس چشمے کا صاف و شفاف پانی ہمارے کولر میں بھی منتقل ہو چکا تھا۔ بوتل کے ٹھنڈے مشروب اور پھلوں کو کھاتے ہوئے راکا پوشی کا نظارہ بھی جاری تھا۔ ایک مقامی شخص چشمے کے گرد اگی ہوئی ایک خاردار جھاڑی کو اکھاڑ رہا تھا۔ اس سے پوچھا کہ یہ کس لئے اکھاڑ رہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ اس پودے کی جڑ کا قہوہ جوڑوں اور کمر درد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم نے بھی اسکی مدد سے اس پودے کو شناخت کرکے اسکی کچھ جڑیں ساتھ رکھ لیں۔ راکا پوشی کے حسن میں کھوئے ہوئے وقت کا پتا ہی نہ چلا دیکھا تو چارسے اوپر وقت ہو گیا تھا۔ احساس ہوا کہ بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم اپنے پلان کے مطابق رات ٹھہرنے کی جگہ سے کافی دور تھے۔ راکا پوشی سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے نیچے اتر کر سڑک پر آ گئے۔ وہاں کی ایک مقامی ڈش چھپ شرو کا نام جا بجا ہوٹلوں اور دوکانوں پر نظر آیا۔ سوچا کہ چکھ کر دیکھا جائے۔ سڑک کراس کرکے چشمے کے ساتھ ہی واقع ایک ہوٹل کے وسیع و عریض لان میں کرسیوں پر بیٹھ کرایک چھپ شروکا آرڈر دیا۔ ریٹ تھا 150 روپے فی عدد۔ بیرے سے پانی بھی منگوایا ۔یہاں ہوٹلوں پر راکا پوشی سے نکلنے والے چشمے کا پانی ہی استعمال ہوتا ہے۔بیرا جگ میں پانی لے کر آیا۔ اسوقت پانی اتنا زبردست لگا کہ ہم دو جگ پانی پی گئے۔ کچھ دیر کے بعد چھپ شرو ہمارے سامنے تھا۔ یہ نان کی قسم کی ایک روٹی تھی جس کا سائز نان جتنا ہی تھا۔ لیکن درمیان سے تقریبا ایک انچ پھولی ہوئی تھی جس میں بیف قیمہ اور دوسرے مصالحہ جات تھے۔ ہمیں ذائقہ درمیانہ لگا۔لیکن چلو دل میں خواہش تو نہ رہی کہ چھپ شرو نہیں کھائی۔ واپس گاڑی کے پاس آئے تو گاڑی سے کچھ دور رکے ہوئے پولیس والے ہماری گاڑی کی طرف دیکھ کر آپس میں کچھ بات چیت کر رہے تھے۔ میں نے بھی ہائی وے پولیس میں تقریبا 7 سال گزارے تھے اسی لئے ان کی باتیں سنے بغیر مجھے پتا چل گیا کہ کیا بات ہو رہی ہو گی۔ دراصل میں جب گاڑی پارک کرتا تھا تو ونڈ سکرین کے علاوہ باقی پانچوں شیشوں پر بلائنڈر لگا دیتا تھا۔ کیونکہ ہماری گاڑی سامان سے بھری ہوئی تھی اور مناسب نہیں تھا کہ ہر پاس سے گزرتا ہوا بندہ سامان کو دیکھتا جائے ۔ بعض کھانے کی چیزیں اور دوسری قیمتی اشیاء دیکھنے والے کو تحریک دیتی ہیں۔ لیکن جب ڈرئیونگ کرتا تھا تو دروازوں کے شیشوں کے بلائنڈر ہٹا لیتے تھے۔ جب کچھ دیر بعد ہم نے بلائنڈر ہٹا دیئے تو وہ مطمئن ہو کر چلے گئے۔ راکا پوشی کا جادو ابھی تک اثر کر رہا تھا لیکن مجبورا 4 بجکر 35 منٹ پر اسے خدا حافظ کہہ کر آگے روانہ ہو گئے لیکن حسین راکا پوشی ابھی بھی دل میں بسی ہوئی تھی۔