Thar.jpg800x600 154 KB آئو کہ کہیں دور چلیں ۔۔۔شہر کی وحشتوں اور آلودگیوں سے دور ۔۔۔صحرائے تھر کے خوبصورت سناٹوں کی قربت میں ۔۔کارونجھر کے دامن میں بکھری شفاف چاہتوں کے حصار میں ۔بدھ 16 نومبر اور جمعرات 17 نومبر 2016 کی درمیانی شب کے آخری پہر سے ہفتہ 19 نومبر 2016 کی سہ پہر تک ۔۔۔
جمعرات 17 نومبر 2016۔سردیوں کی یہ شب تاریک تو بہت تھی لیکن زیادہ سرد نہ تھی۔ رات کے سوا چار بجے تھےجب ہم گھر سے روانہ ہوئے ۔دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے شاید کراچی کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتا جا رہا ہے ۔ موسم سرما کا مزا لینے کے لئے اہل کراچی ویسے بھی ہمیشہ سے بلوچستان کے پہاڑوں سے ادھر کا رخ کرنے والی سرد ہوائوں کے محتاج ہوتے ہیں لیکن لگتا ہےایک دو سال سے کراچی تک پہنچتے پہنچتے ان کی ٹھنڈک بھی دم توڑ جاتی ہےیا پھر وہ اہل کراچی سے نالاں ہیں کہ ادھر کا رخ ہی نہیں کرتیں۔گھر سے نکلتے وقت ہم نے گرم کپڑے تک نہیں پہنے ،سفر شروع ہوا تو صرف گاڑی کے شیشے بند کرنے سے ہی ہلکی سی سردی کا توڑ ہو گیا۔رات کے سناٹے میں ہی شاہراہ فیصل سے نکلتے ہوئے نیشنل ہائی وے پر سفر جاری رہا۔ دھابے جی سے گھارواورگجو اور مکلی تک سڑک کا بائیں طرف کا حصہ زیرتعمیر ہونے کے باعث ہم رات کی تاریکی کے باعث زیادہ تیزرفتاری سے سفر نہ کرپائے۔ اندھیرا تو تھا ہی ، دوطرفہ ٹریفک کیلئے جگہ جگہ طویل سنگل ٹریک اور سامنے سے آنے والی گاڑیوں کی تیز ہیڈ لائیٹس کی چمک سے بچنے کے لئے بھی انتہائی محتاط ڈرائیونگ لازمی تھی۔گجو کے پاس دونوں نہروں پر بنے پلوں کو عبور کرنے کے بعد آسمان کی سیاہی پر صبح صادق کی سفیدی اترنا شروع ہوئی۔مکلی کے قریب پہنچے تونماز فجر کیلئے سجاول بائی پاس سے ذرا قبل کچھ دیر کیلئے رکے ۔۔سردیوں کی آمد کی خبر دیتی صبح کی خنکی ۔۔۔ شہر ی آبادیوں سے دور اس کھلی فضا میں پہلی بار کچھ حقیقی ٹھنڈک کا احساس ہوا۔نماز کے بعد ساتھ لائے تھرماس سے نکلی گرما گرم چائے اور ابلے ہوئے انڈوں سے خود کو کچھ گرمایا ۔۔ IMG_5042.jpg800x577 53.5 KB IMG_5043.jpg800x592 40.3 KB IMG_5044.jpg800x592 32.9 KB IMG_5045.jpg800x587 44.1 KB IMG_5046.jpg800x600 48.7 KB
آج سے قبل ہمیشہ صرف نیشنل ہائی وے پر ہی سفر کیا تھا، پہلی بار دائیں طرف گھومتے بائی پاس پر مڑے ۔ سڑک بہترین تھی۔کچھ ہی دیر میں ٹھٹھہ سے سجاول جانے والے راستے تک پہنچ گئے۔دریائے سندھ کے قریب تر ہوئے تو صبح کی سفیدی میں سے سورج کی سنہری کرنیں پھوٹیں ۔۔۔دریا کے پل پر پہنچے تو پانی میں اترتے سورج کے حسین عکس نے چند لمحوں کیلئے ہمارے قدم روکے ۔۔۔ IMG_5047.jpg800x600 36.7 KB IMG_5048.jpg800x600 36.3 KB IMG_5049.jpg800x600 29.8 KB IMG_5050.jpg800x600 27.1 KB IMG_5051.jpg800x600 23.9 KB IMG_5052.jpg800x600 26.6 KB IMG_5053.jpg800x600 26.6 KB IMG_5054.jpg800x600 30.7 KB IMG_5055.jpg800x600 37.9 KB IMG_5056.jpg800x600 55.3 KB
نیشنل ہائی وے سے دائیں طرف مڑنے کے بعد سےسڑک بدستور بہترین حالت میں تھی۔ سجاول اور بد ین میں داخل ہوئے بنا بائی پاسز سے نکلتے ہوئے اورگولارچی کے قصبے کے درمیان سے گزرتے آگے بڑھتے رہے ۔۔ناشتے کیلئے تھرپارکر کی حدود میں داخل ہونے سے کچھ قبل نیوی پمپ سے متصل چھوٹے سے ہوٹل میں رکے ۔۔۔ IMG_5057.jpg800x600 89.2 KB IMG_5058.jpg800x600 33 KB IMG_5059.jpg800x600 34.9 KB IMG_5060 - Copy.jpg800x503 66.6 KB IMG_5062.jpg800x600 57.1 KB IMG_5063.jpg800x600 56.5 KB
mashaAllah waheed sahb.... Allah pak karay zoore qalam ar zaida...
Sent from my SM-G935F using PW Forums mobile app
صحرائے تھر کا آغاز ہوا تو شاندار شاہراہ کے دونوں اطراف ریت کے ٹیلوں اور ان کے درمیان اگی سبز جھاڑیوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلا ۔۔شاہراہ کبھی اوپر کا رخ کرکے کسی بلند ٹیلے پر جا چڑھتی تو پھرصحرا کے درمیان ڈھلان کی طرف جاتی سیدھی لمبی ،کشادہ اور ہموار سیاہ سڑک بہت خوبصورت دکھائی دیتی ۔ ریگزاروں میں گھومتی پھرتی ہو امیں صبح کی خنکی ہنوز برقرار تھی ۔ونگو موڑ سے مٹھی بائی پاس پہنچنے میں ہمیں صرف پون گھنٹہ لگا۔صبح رفتہ رفتہ دوپہر کی طرف بڑھتی گئی۔۔ ادھر ریگزاروں میں چلتی ہوا میں ٹھنڈک کچھ کم ہوتی گئی ۔۔۔دھوپ کی بڑھتی تپش کے باوجود موسم بدستور خوشگوارتھا۔ٹھیک 11 بجے بائی پاس چھوڑ کر مٹھی شہر کے قریب بلندی پر واقع تفریحی مقام گڈی بھٹ کی طرف جانے والی راہ کے موڑ تک پہنچ گئے۔ IMG_5068.jpg800x600 61 KB IMG_5069.jpg800x600 48.8 KB IMG_5070.jpg800x600 53 KB IMG_5071.jpg800x573 57.4 KB IMG_5073.jpg800x581 73.8 KB
ریگزاروں کی دنیا تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی کے در پر پہنچے ۔۔۔ شہر میں جانے کے بجائے دائیں جانب مڑے اور کچھ ہی دیر میں مٹھی کے سر پر سجے گڈی بھٹ جا پہنچے ۔۔ریت کے بلند ٹیلے پر واقع امر جگد یش کمار ملانی کے یادگار ٹاور سے ٹیلے کے عین دامن میں نشیب کی جانب دکھائی دیتے مٹھی شہر کا نظارہ انتہائی دلکش تھا۔موسم سرما کے آغاز میں مٹھی کے بلند اور پرفضا مقام پر گزری ایک یادگار دوپہر۔۔مٹھی میں گزرنے والی وسط نومبر کی اس دوپہر ہوا میں ٹھنڈک تو تھی لیکن دھوپ میں حدت رفتہ رفتہ بڑھتی تھی ۔۔مجموعی طور پر موسم بدستور خوشگوار اور سورج سے ریگزاروں میں اترتی تپش قابل برداشت تھی۔ IMG_5074.jpg800x348 52.9 KB IMG_5076.jpg800x385 62.2 KB IMG_5077.jpg800x380 55.6 KB IMG_5078.jpg800x960 85.9 KB IMG_5079.jpg800x875 81.6 KB IMG_5081.jpg800x600 51.7 KB IMG_5082.jpg800x600 49.5 KB IMG_5084.jpg800x556 50.9 KB IMG_5085.jpg800x600 46.6 KB IMG_5086.jpg800x600 35.9 KB IMG_5087.jpg800x600 45.6 KB
zabardast trip with details again. realy enjoy ur threads
مٹھی سے نکلے ،، بھری دوپہر میں ریت کے اونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان گھومتی پھرتی بہترین کشادہ سڑک پر اسلام کوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔آسمان بالکل صاف ۔۔ سورج کی کرنیں صحرائے تھر پر برستی ہوئی ۔۔ لیکن ۔۔ ریگزاروں میں چلتی ہوا بدستور خوشگوار ۔۔کہیں سڑک کنارے تھری خواتین مخصوص روایتی رنگ برنگے لباس اور گہنوں سے لدی پھندی ، اپنے علاقے سے گزرتے اجنبی لوگوں سے گھبرا کر بڑے بڑے آنچلوں میں اپنے چہرے چھپاتی دکھائی دیتیں تو کبھی صحرائی جہاز اونٹ سڑک عبور کرکے ایک ریگزار سے نکل کر دوسرے کا رخ کرتے نظر آتے ۔۔ راہ شاندار تھی ، فاصلے تیزی سے سمٹے ، ہم پونے بارہ بجے مٹھی سے نکلے اور ساڑھے 12بجے اسلام کوٹ کے قصبے میں وارد ہوگئے۔شہر کے تنگ مین بازار میں رونق اپنے عروج پر تھی۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے بھی ٹھیک ٹھاک رش کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام کوٹ میں مقیم پیارے دوست عبدالغنی بجیر اس وقت مٹھی میں تھے لیکن انہوں نے اسی بارونق بازار میں واقع ایک گیسٹ ہائوس میں لمبے سفر کے بعد ہمارے آرام کیلئے کمرے کا بندوبست کر رکھا تھا ۔۔۔۔بازار کے رش اور دھوپ کی بڑھتی تپش سے نکل کر پرسکون اور ٹھنڈے کمرے نے ہمیں فوراً ہی تاز ہ دم کر دیا ۔۔ہم نے دو گھنٹے اسلام کوٹ میں گیسٹ ہائوس کے آرام دہ کمرے میں گزارے۔ IMG_5088.jpg800x600 39.6 KB IMG_5089.jpg800x600 51.8 KB IMG_5090 - Copy.jpg800x478 50.3 KB IMG_5091 - Copy.jpg800x600 69.8 KB 3955.jpg800x600 92.7 KB 3956.jpg800x600 91.4 KB 3957.jpg800x600 117 KB IMG_5092.jpg800x600 60 KB IMG_5095.jpg800x600 71.7 KB IMG_5099.jpg800x600 58.6 KB
عبدالغنی بجیر مٹھی سے لوٹے تو ہم سے ملنے آئے۔ چاہتے تھے کہ ہم لنچ ان کے ساتھ کریں ۔ ماروی اور عمر اسلام کوٹ سے 50 کلومیٹر دور بھالوا گائوں میں ہمارے منتظر تھے ،، ان سے ملاقات کرتے ہوئے مغرب سے قبل نگرپارکر پہنچنا تھا ،اس لئے ان کے پرزور اصرار کے باوجود ہمیں ان سے معذرت کرنا پڑی۔پونے تین بجے سہ پہراسلام کوٹ سے نکلے ، دھوپ تیز تھی لیکن اس کی تیزی ہوا کی ٹھنڈک تک اپنا اثر نہ کر پا رہی تھی ۔ ایک دو کلومیٹر بعد ہی اس کشادہ اور بہترین شاہراہ نے ہم سے جدائی اختیار کر کے تھر کول فیلڈ کی طرف اپنا رخ موڑ لیا۔ہم ایک نسبتاً تنگ سڑک پر نگرپارکر کی طرف بڑھ گئے۔ 30 ، 35 کلومیٹر بعد رفتہ رفتہ سڑک کے دونوں اطراف ریت کے بلند ٹیلوں کا سلسلہ ختم ہوتا گیا ۔۔ہمارا سفر اب زیادہ تر میدانی علاقے میں جاری تھا۔ ۔۔بھالوا گائوں کے قریب ماروی اور عمر کی قیام گاہ کا پتہ بتانے والا کوئی بورڈ یا نشان سڑک کنارے نظر نہ آیا اور ہم بائیں طرف مڑنے والی سڑک کو چھوڑتے ہوئے ایک ڈیڑھ سو میٹر آگے نکل گئے۔ لیکن بھالوا گائوں میں بسی عشق و محبت کی زبردست کشش نے ہمیں واپس بائیں طرف مڑنے والی راہ کی طرف کھینچ لیا۔ایک پختہ لیکن انتہائی ٹوٹی پھوٹی تنگ سڑک پر کچھ پرے دکھائی دیتے بھالوا گائوں کے پاس سے گزرتے ہوئے تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم پہلے محکمہ ثقافت سندھ کی جانب سے تعمیر کردہ چار دیواری میں موجود ماروی کے کنویں کے پاس پہنچے۔ جہاں میری ماروی نے کنویں سے پانی نکالنے کی کامیاب کوشش بھی کی۔ IMG_5100.jpg800x531 52.6 KB IMG_5101.jpg800x641 66.6 KB IMG_5104.jpg800x600 75.5 KB
Zabardast
زبردست! میں بھی پچھلا ہفتہ صحرائے تھر میں گزار کر آیا ہے
Sent from my A37f using Tapatalk
Great narration
Feeling good by seen this thread
تھر کے مخصوص طرز تعمیر کے گول جھونپڑی نما گھروں سے ملتے جلتے چند ماڈل گھر اس چاردیواری میں بنائے گئے تھے لیکن یہ گھر تھر کے تپتے اور سلگتے صحرا کے باسیوں کے گھروں کی طرح انتہائی سادہ اور مفلوک الحال نظر نہ آتے تھے ، ان کے شاندار اندازتعمیر سے آسودگی جھلکتی اور خوشحالی ٹپکتی تھی۔ البتہ تھر باسیوں کی حقیقی کیفیت کی تصویر دکھاتی ایک نسبتاً بوسیدہ سی گول جھونپڑی بھی چار دیواری میں موجود تھی۔عمارت کے نگران کی معیت میں ہم ماروی اور عمر سے ملنے ان کے کمرے میں گئے۔ماروی کمرے کی ایک دیوار کے پاس اپنی سہیلی کے ساتھ بیٹھی چرخہ کات رہی تھی جبکہ عمر اس کے بالکل سامنے والی دیوار کے پاس بیٹھا اس کو تکتا تھا۔میری ماروی نے دونوں خواتین کے پاس بیٹھ کر ان سے حال احوال پوچھا، میں نے عمر کے قریب ہو کر اس کی خیریت دریافت کی۔عمر اور ماروی اپنی طویل داستان ہمیں سنانا چاہتے تھے لیکن ہمیں کارونجھر کے پہاڑ پکارتے تھے۔ سہ پہر شام میں ڈھلتی تھی ، ابھی بھی نگرپارکر تک ہمیں اچھا خاصا طویل سفر طے کرنا تھا، اس لئے کچھ دیر ان کی معیت میں گزار کر ہم نے ان سے اجازت چاہی اور بھالوا گائوں سے رخصت ہوئے۔شام کے سوا چار بجے بھالوا گائوں سے نکل کر دوبارہ نگرپارکر کو جانے والی سڑک پر پہنچے۔ IMG_5106.jpg800x600 79.9 KB IMG_5107.jpg800x600 79.5 KB IMG_5108.jpg800x600 101 KB IMG_5109.jpg800x600 90.5 KB IMG_5110.jpg800x600 64.5 KB IMG_5111.jpg800x600 59 KB IMG_5112.jpg800x596 69.6 KB IMG_5113.jpg800x506 54.2 KB
IMG_5116.jpg800x659 73.7 KB IMG_5117.jpg800x470 62.4 KB IMG_5118.jpg800x680 84.8 KB IMG_5120.jpg800x600 36.9 KB IMG_5121 (2).jpg800x600 57.2 KB IMG_5122.jpg800x600 50.8 KB IMG_5123.jpg800x600 51.2 KB
IMG_5124.jpg800x587 52.9 KB IMG_5126.jpg800x600 64.4 KB IMG_5127.jpg800x600 62.6 KB IMG_5128.jpg800x600 66.2 KB IMG_5129.jpg800x600 67.7 KB IMG_5130.jpg800x812 67.8 KB IMG_5132.jpg800x600 57.8 KB
جوں جوں آگے بڑھتے تھے سڑک کی حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔ گاڑی کی رفتار تو کم کرنی ہی پڑی ، سڑک پر جا بجا موجود چھوٹے چھوٹے گڑھوں سے نمٹتے وقت گاڑی کی اچھل کود کی وجہ سے ہم بھی خاصا ہلے جلے۔ نتیجتاً ونگو موڑ کے قریب کیا گیا صبح کا ناشتہ مکمل طور پر ہضم کر بیٹھے ۔ اسلام کوٹ سے چلتے وقت ذہن میں تھا کہ جس شاندار سڑک پر سفر کرتے آئے ہیں وہ نگرپارکر تک ہمارا ساتھ دے گی اور ہم بآسانی ڈیڑھ گھنٹے میں اپنی منزل تک پہنچ پائیں گے ، لیکن وہ شاندار سڑک تھر کول ایریا کی چاہت میں گرفتار ہو کر ہمیں اسلام کوٹ کی حدود سے نکلتے ہی داغ مفارقت دے گئی تھی۔ہمسفر نے مژدہ سنایا کہ وہ گھر سے چلتے وقت بھنڈی کی ترکاری ساتھ لے آئی تھی، لیکن یہ خوشخبری ادھوری تھی ، ہمارے پاس سالن تو تھا روٹی نہ تھی۔ پندرہ بیس منٹ کے سفر کے بعد کسی گائوں کی طرف جانے والے چوک کے پاس ایک چھوٹا سا ہوٹل دکھائی دیا ۔ چھائوں میں بچھی چارپائی پر جا بیٹھے۔ ارادہ تھا کہ کھانے کے بعد چائے بھی پئیں گے لیکن وقت اب تیزی سے اڑ رہا تھا۔ دوپہر کے کھانے کا وقت کب کا گزر گیا تھا۔ ہوٹل والے کو چولھے میں لکڑیاں سلگا کر توا گرم کرنے اور دو چپاتیاں تیار کرنے میں ہی خاصا وقت لگ گیا ۔ ہم نے چائے پینے کا ارادہ ترک کیا اور گرم گرم چپاتیاں ساتھ لے کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ IMG_5136.jpg800x600 59 KB IMG_5137.jpg800x600 46.2 KB IMG_5138.jpg800x600 73.8 KB IMG_5139.jpg800x600 68.4 KB