گرم گرم چپاتیوں پر بھنڈی کی ترکاری ڈالی تو وہ بھی گرم ہوگئی۔ ہمسفر نے کھانے کے ساتھ ساتھ مجھ کو کھلانے کا فریضہ بھی انجام دیا۔آج سے32 سال قبل ایک دوپہر کو اپنے ہنی مون ٹرپ پر ہم سوات سے براستہ شانگلہ پہلی بار شاہراہ قراقرم پر بذریعہ مسافر وین داخل ہوئے تھے۔ بشام کے چھوٹے سے قصبے کے چوک پر واقع کچے ہوٹل کے پاس نیٹکو کی بس گلگت روانگی کیلئے تیار کھڑی تھی۔ میں ہمسفر کو بس میں بٹھا کر ہوٹل سے گرم گرم تنور کی روٹیوں پر بھنڈی کی ترکاری ڈلوا کر بس میں سوار ہو گیا تھا۔ وہ ہمسفر کے ہمراہ شاہراہ قراقرم پر میرا شمال کا پہلا سفر تھا۔ آج ہم سندھ کے انتہائی مشرق کی جانب واقع نگرپارکرکی سمت گامزن تھے اور اس سڑک پر بھی یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ ایک بار پھر ہمسفر کے ہاتھ میں گرم گرم روٹیوں پر بھنڈی کی ترکاری تھی۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ 1984 میں ترکاری بھی ہوٹل کی تھی اور روٹیاں بھی ہوٹل کے تنور کی ، آج ترکاری گھر کی اور روٹیاں ہوٹل کے توے پر پکائی گئی چپاتیوں کی صورت ۔سڑک بدستور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ، راستے میں کہیں کہیں مقامی خواتین تباہ حال سڑک کنارے اپنے گھروں کا رخ کرتی نظر آتی تھیں ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کی انتہائی کٹھن اور بے رنگ زندگی کی سب شوخیاں اور رنگ سمٹ کر صرف ان کے لباس تک محدود ہو گئے ہوں۔ سر پر رکھے بڑے سے بھاری ٹوکرے میں لدی جھاڑیوں کی شاخیں ، درانتی اور پانی کی بوتل ، ایک بچی کے ہاتھ میں دو پیارے سے میمنوں سے بندھی رسی، خاتون حسب معمول خود کو دھوپ کی تمازت اور سڑک پر سفر کرنے والے اجنبیوں کی بصارت سے بچانے کیلئے آنچل کا بڑا سا گھونگٹ لئے ہوئے۔ پانچ بجے کے لگ بھگ ہم ویراواہ کے قصبے کی طرف جانے والے چوک پر واقع رینجرز کی چوکی پر پہنچ گئے۔ نگر پارکر پاک بھارت سرحد کے قریب کا آخری بڑا قصبہ ہے ، اس لئے رینجرز کی چوکیوں کی اس علاقے میں موجودگی ایک لازمی امر تھا۔ شناختی کارڈ کے اندراج کے بعد آگے بڑھے تو سڑک کی حالت پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئی۔ IMG_5140.jpg800x600 91.7 KB
zbrdst...
very nice narrations...............good tour
واہ طارق بھائی واہ۔۔۔۔بھئی بہت مزہ آرہا ہے۔ سب سے پہلی تصویر نے تو دل موہ لیا۔ آپ نے کیا خوب طریقے سے اپنے دائیں اور اپنی ہمسفر کے بائیں قدم کو ہم قدم دکھایا۔ زبردست۔۔۔ تحریر ہمیشہ کی طرح لاجواب بلکہ پہلے سے بھی زیادہ نکھری نکھری اور تصاویر کا معیار بھی گزشتہ سفرناموں کی تصاویر سے کہیں بیتر۔ لگتا ہے ڈی ایس ایل آر لے لیا آپ نے۔۔۔ آپ کے اس سفر نامے نے مجھے میرا تھرکا سفر یاد دلا دیا۔۔
آپ کی روداد سفر نے میرے شوق سفر کو مہمیز دی
کیمرہ وہی چھوٹا سا پرانا والا ہی ہے۔شاید تصویرکشی کرتے کرتے انداز بہتر ہو گیا ہو
بہت شکرگزارآ پ کی محبت کا
اسلام علیکم، بھائ وحید صاحب، سفر تو ہم بھی کرلیں گے، جذبات کا کسی حد تک اظہار بھی کرلیں گے، مگر آپ اور خان بھائ کا اسلوب کہاں سے لائیں گے، آپ کا اسلوب چیخ چیخ کر کہتا ہے، آپ نے بہترین اردو دانوں کی کتابیں پڑھی ہیں۔ یوں تو، تصاویر سے ہی دل بہل جاتا ہے، مگر اگر تحریر میں نکھار ہو تو، چار چاند لگ جاتے ہیں، بھائ آپ نے تو چھکا لگا دیا
یوں تو، تصاویر سے ہی دل بہل جاتا ہے، مگر اگر تحریر میں نکھار ہو تو، چار چاند لگ جاتے ہیں، بھائ آپ نے تو چھکا لگا دیا
نگرپارکر سے کچھ قبل ایک چوک سے دائیں طرف قریب ہی واقع بھودیسرگائوں کیلئے سڑک مڑتی ہے جہاں ایک قدیم مسجد، ڈیم اور پرانا مندر ہے۔ چوک پر بنی حفاظتی چوکی کے پاس موجود شخص سے مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد ہم بھودیسرکی سمت مڑگئے۔ ابھی مغرب میں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت باقی تھا۔ مسجد بمشکل ایک کلومیٹر کی دوری پر تھی لیکن ہم غلطی سے 3 یا 4 کلومیٹر تک چلتے چلے گئے، سڑک کنارے جانے والے چند مقامی بچوں سے پتہ پوچھ کر واپس پلٹے۔ سڑک سے کچھ ہی فاصلے پر موجود چھوٹی سی تاریخی مسجد تک پہنچے ، فوج کے ایک کپتان اور ان کی فیملی بھی وہاں موجود تھی۔ شام خاصی ڈھل چکی تھی، اس وقت ڈیم کی طرف جانا مناسب نہ تھا۔ سورج مغرب سے کچھ قبل ہی مسجد کے عقب میں دور دکھائی دیتے کارونجھر کے پہاڑوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو ہم یہاں سے پلٹے اور نگرپارکر کے قصبے کا رخ کیا۔ 3958.jpg800x600 66.9 KB 3959.jpg800x600 65.6 KB 3960.jpg800x600 71.9 KB 3961.jpg800x600 93 KB
قصبہ زیادہ دور نہ تھا ،غروب آفتاب سے کچھ قبل ہی ہم نگر پارکر کے آغاز میں ہی واقع ریسٹ ہائوس تک پہنچ گئے۔ رات کو گاڑی میں قصبے کے چھوٹے سے بازار کا ایک چکر لگایا ، شب کچھ ڈھلی تو تاریکی توضرور بڑھی ، نگرپارکر میں سردی نہ بڑھی ۔ صرف ہلکی سی خوشگوار خنکی محسوس ہوتی تھی جب ہم ریسٹ ہائوس کے کشادہ پارکنگ ایریا میں ٹہلتے تھے۔ دور مزید مشرق کی طرف واقع چوڑیو کے قصبے کی سمت دکھائی دیتے سیاہ آسمان میں زرد چاند طلوع ہوتا تھا۔ 3973.jpg800x600 85.1 KB IMG_5141.jpg800x600 61 KB IMG_5143.jpg800x600 60 KB 3966.jpg800x600 19.6 KB
احباب پسندیدگی کا اظہار کر کے اصل اور زوردار چھکا لگاتے ہیں۔ آپ کے حسن نظر اور محبتوں کے چوکے ہی دراصل ہماری ٹوٹی پھوٹی تحریر کا اسکور ہیں۔بہت بہت شکرگزار
2016 ۔۔ 18 نومبر کل رات جدھر سے چاند نکلا تھا اور آج سورج کوطلوع ہونا تھا ، ہمیں آج علی الصبح اسی سمت 3 طرف سے بھارت کی سرحدوں میں گھرے چوڑیو گائوں جانا تھا۔ جس طرح ہم اپنے ہاتھ میں ہتھیلی ، چاروں انگلیوں اور انگوٹھے کے درمیان گلاس تھامتے ہیں ، قریب ہی موجود 3 اطراف سے بھارت کی سرحدوں کے درمیان واقع چوڑیو گائوں کا محل وقوع بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے چوڑیو ایک گلاس ہو جسے بھارت نے اپنے ہاتھ میں تھام رکھا ہو۔ Churio village.jpg800x292 32.7 KB
آٹھ بجے تک کا وقت گزارنے کے لئے صبح کا ناشتہ کر لینے سے بہتر کوئی اور بات نہ تھی۔جیپ ڈرائیور ہمیں بازار میں واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل تک لے گیا۔ ٹھیک8 بجے ہم دوبارہ چوکی پر تھے۔نہ جانے اہلکار نے اپنے افسر سے بات کی یا ہمارے اشتیاق کی شدت سے اس کا دل پسیجا،ہمارے شناختی کارڈ کا اندراج رجسٹر میں کر دیا گیا۔قصبے سے نکلے تو کچھ ہی دیر بعد پختہ سڑک کا اختتام ہو گیا۔کچا راستہ مشرق کی طرف بڑھتا گیا۔ مضافاتی آبادی سے نکل کر وسیع و عریض میدانوں کے بیچ جیپ دوڑتی رہی۔ کچھ کچھ فاصلے پر دکھائی دیتی کیکر کی جھاڑیاں ، کچی سڑک کبھی مٹی کے ہموار میدان سے گزرتی تو کبھی ذرا اونچے نیچے ریتیلے علاقوں کا رخ کرتی۔ کہیں آٹھ دس گول جھونپڑی نما گھروں پر مشتمل کسی چھوٹے سے گائوں کے قریب پہنچتی تو گھروں کے گردونواح میں کھیتوں اور کھلیانوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ جوار ،باجرہ اور پیاز کے کھیت ہمیں زیادہ دکھائی دئیے۔ ریتیلے راستے سے گزرتے ہوئے کبھی گائے بکریوں کا کوئی ریوڑ ہماری راہ مسدود کر دیتا تو کبھی کسی بیل گاڑی کی وجہ سے ڈرائیور جیپ آہستہ کرکے بمشکل اس کو راستہ دیتا یا اوور ٹیک کرپاتا۔ کہیں ایسا بھی ہوتا کہ کشادہ میدان کے بیچ اچانک بیک وقت تین چار کچے راستے مختلف سمتوں کا رخ کرتے دکھائی دیتے ،کیکر کی بڑی بڑی جھاڑیوں کی وجہ سے یہ راستے بھول بھلیوں کا روپ دھار لیتے، جیپ ڈرائیور چوڑیو جانے والی راہ سے واقف تھا اس لئے بھٹکتا نہ تھا۔ بڑی خوش اسلوبی سے ان بھول بھلیوں سے نکل جاتا۔ 3976.jpg800x445 31.8 KB
راستے میں ایک جگہ بائیں طرف کچھ ہی دوری پر ایک چھوٹے سے ڈیم کا پختہ بند نظر آیا تو میں نے ڈرائیور سے واپسی میں اس ڈیم کی طرف لے چلنے کی بات کر لی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ یہ تو بہت ہی چھوٹا سا ڈیم ہے جس میں پانی بھی برائے نام ہی ہوگا، بہت جلد ہم اسی راہ پر موجوداس علاقے کے مشہور و معروف اور خاصے بڑے رن پور ڈیم کے قریب سے گزریں گے۔ کچھ ہی دیر میں ہمیں دائیں طرف ڈیم اور اس کے کچھ بلند بند پردرختوں کا جھنڈ دکھائی دیا۔ ہم نے اپنا سفر جاری رکھا کہ رن پور بند بھی چوڑیو سےواپسی کے سفر کے دوران ہی دیکھیں گے۔ گھومتی پھرتی راہ ریتیلےمیدانوں ،ادھر ادھر نکلتے کچے راستوں کی بھول بھلیوں ،کھیت کھلیانوں اور کبھی کبھار انتہائی مختصر سی آبادیوں کے قریب سے گزرتی چوڑیو کی طرف بڑھتی رہی۔ یہ تو ہمیں پتہ ہی تھا کہ چوڑیو گائوں کے قریب چند پہاڑیاں ہیں اور ایک بلند پہاڑی پرنگرپارکر کا ایک مشہورقدیم مندر بھی ہے، ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ چوڑیو گائوں میں صرف ہندو ہی آباد ہیں۔ہمسفر جیپ کے عقبی حصے میں بیٹھی تھی ۔ اس طویل سفر کے دوران میں زیادہ تر جیپ ڈرائیور عبدالواحد سے مصروف گفتگو رہتا، کبھی کبھاربیک مرر سے ہمسفر کی جانب دیکھتا تو اندازہ ہوتا کہ وہ بار بار اونگھنے کی بھرپور کوشش کرتی تھی، جیپ کبھی اچھلتی کودتی تو آنکھیں کھول دیتی ،اچھل کود مختصر وقت کیلئے ہوتی تو چند لمحوں کے لئے ادھر ادھر سر گھما کر دوبارہ آنکھیں موند لیتی، جیپ ذرا زیادہ دیر تک اچھلتی رہتی تو پوچھتی کہ ابھی کتنا فاصلہ باقی ہے۔میں دور دور تک نظر آتے وسیع میدانوں اور جھاڑیوں سے پرے دکھائی دیتے آسمان اور زمین کے ملاپ پر چوڑیو کی پہاڑیوں کو پہلی کے چاند کی طرح بغور گہری نظر سے تلاش کرتا تھا۔ 9 بجے کے بعد بالآخر مجھے دور سے وہ پہاڑیاں دکھائی دے ہی گئیں۔ سوا 9 بجے کے قریب ہم چوڑیو گائوں کی آبادی کے درمیان سے گزرتے راستے سے ہوتے ہوئے ان پہاڑیو ں کے عین سامنے پہنچ گئے۔ انتہائی ہموار اور وسیع و عریض میدانوں کے درمیان بڑے بڑے سرخی مائل بھورے پتھروں کی چٹانیں قدرت نے اس خوبصورتی اور سلیقے سے سجا رکھی تھیں کہ ہم حیرت سے ان حسین نظاروں کو تکتے تھے۔ چٹانوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ نوکیلی نہ تھیں، بہت ہموار اور خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھیں۔ سیمنٹ سے بنائے گئے پختہ اور کشادہ زینے دائیں طرف موجود پہاڑی پر موجود مندر تک جاتے تھے۔ جیپ سے اترے تو ان زینوں کے قریب ہی میدان میں موجود چند بچے صبح صبح یہاں پہنچنے والے دو یاتریوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ ہم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری خواہش کے مطابق بخیر و خوبی ہمیں چوڑیو تک پہنچا دیا۔ 3977.jpg800x600 58.8 KB
اوپر جانے والے زینے زیادہ اونچے اور دشوار نہ تھے اس لئے ہم بآسانی چڑھتے چلے گئے۔مندر کی دیکھ بھال کرنے والا اکلوتا شخص کچھ بلندی پر موجود زینوں کی صفائی میں مصروف تھا۔ اس نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا اور پھر ہمارے ساتھ ہی اس نے بھی مزید بلندی کی طرف چڑھتے زینوں کا رخ کیا۔ مندر کے رکھوالے نے ہمیں بتایا کہ اوپر تک جانے والے ان زینوں کی تعداد 170 ہے۔ بالکل اوپر پہنچے تو چھوٹے سے ہموار میدان کے دائیں طرف ایک عظیم الشان چٹان ایسے محیر العقول انداز سے ایک جانب ٹکی تھی کہ اس کے عین نیچے بڑے سے خلا میں ایک چھوٹا سا چبوترا اور اس سے بالکل ملحق بڑے سے غار نما خلا میں مندر بنا تھا۔ یہ عظیم الشان چٹان مندر پر سایہ فگن تھی ۔ مندر کے داخلی دروازے کے ساتھ شیروں کے دو مجسمے موجود تھے جبکہ اندرونی حصے میں مختلف مورتیاں اپنے پجاریوں کے انتظار میں بیٹھی دروازے کی طرف تکتی تھیں۔ ہموار میدان کے بائیں طرف دور دراز سے آنے والے یاتریوں کی رہائش کیلئے دو بڑے بڑے ہال موجود تھے جن کے دوسری طرف بنی گیلری سے اس بلند پہاڑی کے دوسری جانب موجود دوسری پہاڑی دکھائی دیتی تھی۔ IMG_5153.jpg800x600 107 KB IMG_5154.jpg800x600 104 KB IMG_5155.jpg800x600 96.2 KB IMG_5156.jpg800x600 87.2 KB IMG_5159.jpg800x600 117 KB IMG_5160.jpg800x600 88.7 KB
جہاں ہم کھڑے تھے وہاں سے مشرق کی طرف نشیب میں دور تک ہموار میدان اور اس میں جا بجا اگی چھوٹی بڑی جھاڑیاں نظر آتی تھیں ۔ میدان سے مزید پرے مشرق کی سمت پاک بھارت سرحد کی باڑھ اور بھارت کی حدود میں واقع سرحدی چوکیاں بھی دھندلی دھندلی دکھائی دیتی تھیں۔ اس پہاڑی سے جنوب مشرق کی طرف بھارت کی سرحد 2 کلومیٹر سے بھی کچھ کم کی دوری پر واقع تھی ، بالکل مشرق کی طرف بمشکل 5 ،جبکہ شمال کی سمت صرف4 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھی۔ یہاں سےجنوب اور مشرق میں بھارت کا صوبہ گجرات جبکہ شمال میں سرحد پار بھارت کا راجستھان کا علاقہ واقع ہے۔مندر کے بالکل برابر سے ایک تنگ سا زینہ مندر کے اوپر دکھائی دیتی چٹانوں تک جاتا تھا۔ ہم پہاڑی کے چاروں اطراف بکھرے مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے ان زینوں کی طرف بڑھ گئے۔ مندر کا رکھوالا راستہ دکھانے کیلئے ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔ پہاڑ کی چوٹی کی طرف جانے کیلئے ہمیں اوپر موجود چٹانوں پر بھی چڑھنا پڑا ۔ چٹانوں کی صاف ستھری ،کم خطرناک اور ہموار سطح کی وجہ سے زیادہ دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ بلندی سے ہم مشرق،جنوب اور شمال کی سمت دور دور تک پھیلے میدان ، ان میں موجود جھاڑیوں کو چرتی گائیں ،اور میدانوں سے دور پرے سردیوں کی مخصوص دھند میں چھپی بھارتی سرحد کو دیکھتے تھے۔ مغرب میں مزید کچھ بلندی پر موجود پہاڑی کی عین چوٹی پر موجود چٹان پر مندر کا بڑا سا نارنجی جھنڈا لہراتا تھا۔ میں چوکنے والا کب تھا ، مغربی سمت کا بھی بھرپور نظارہ کرنے کیلئے میں اس آخری بلند چٹان پر چڑھ کر پہاڑی کی چوٹی اور جھنڈے تک جا پہنچا۔ IMG_5149.jpg800x600 44.7 KB IMG_5150.jpg800x600 31.8 KB IMG_5151.jpg800x600 49.5 KB IMG_5157.jpg800x600 46.7 KB IMG_5161.jpg800x600 67.6 KB IMG_5162.jpg800x600 53.4 KB IMG_5164.jpg800x600 52.9 KB IMG_5170.jpg800x600 59.7 KB IMG_5171 - Copy.jpg800x600 96.3 KB
بہت خوبصورت ارٹکل ہےپڑھ کر مزا ایا
اس مقام سے مغرب کی طرف پہاڑی کے دامن میں موجود چوڑیو گائوں کا خوبصورت منظر میرے سامنے تھا۔ نشیب میں زینوں کے اختتام کے پاس میدان میں کھڑی جیپ چھوٹے سے کھلونے کی مانند نظر آرہی تھی۔کچھ دیر ان بلند چٹانوں میں گزارنے کے بعد ہم نیچے اترے ، مندر کے رکھوالے نے بتایا کہ دو دن قبل سپر مون کی شب یہاں بڑا میلہ لگا تھا۔مندر کے بالکل سامنے بنے ہال کے دوسری طرف موجود گیلری سے ہم نےدوسری طرف واقع پہاڑی کو قریب سے دیکھا۔ ساڑھے 9 بجے کے بعد ہم پہاڑی سے اتر کرواپس جیپ تک پہنچ گئے۔پہاڑی کی چوٹی سے دکھائی دیتا چوڑیو گائوں ۔۔ IMG_5168.jpg800x600 69.1 KB IMG_5169.jpg800x600 81.9 KB IMG_5171.jpg800x600 81.7 KB IMG_5172.jpg800x600 65.9 KB
چوڑیو گائوں میں موجود مندر والی پہاڑی سے گردوپیش کے خوبصورت مناظر۔۔۔۔ IMG_5173.jpg800x600 72.9 KB IMG_5174.jpg800x600 66.3 KB IMG_5175.jpg800x600 90.4 KB IMG_5177.jpg800x600 81 KB IMG_5178.jpg800x600 96.4 KB IMG_5180.jpg800x600 39.1 KB IMG_5181.jpg800x600 65.8 KB IMG_5182.jpg800x600 74 KB IMG_5183.jpg800x600 70.1 KB
kya baat hai sir... shandaar...
طارق بھائی، میرے خیال میں آپ نے وقت کی کمی کی وجہ سے بوڈھیسر مسجد کے قریب واقع مندر نہیں دیکھا۔ وہ انتہائی خوبصورت ہے۔ آج میں نے دفتر سے چھٹی کی تھی اس لیئے آپ کا سفر نامہ اور تصاویر ساتھ ساتھ ہی دیکھ رہا ہوں۔ بہت مزہ آرہا ہے۔