ایک گھنٹے سے قبل ہی ہم رن پور ڈیم پر موجود تھے۔ ڈیم مکمل طور پر لبریز تو نہ تھا لیکن پھر بھی اس میں پانی کا اچھا خاصا ذخیرہ محفوظ تھا۔ درختوں کا جھنڈ دراصل ڈیم کے بند پر بنا ایک پارک تھا جس کی چاردیواری میں ویرانی کا راج تھا۔چار دیواری کے ساتھ لگائے گئے درختوں کی قطار اور سامنے نشیب میں جھلملاتا ڈیم کا پانی اس ویرانے کی واحد رونق اور حسن تھے۔ میں سوچتا تھا کہ نگرپارکر میں تعمیر کردہ یہ چھوٹے چھوٹے بارانی ڈیم درحقیقت اس عظیم صحرا کیلئے سونے کی کانوں سے بھی بڑھ کر قیمتی ہیں جہاں کارونجھر کے پہاڑوں سے اترتے چند چشمے اور ساون کے موسم میں پہاڑی ندی نالے اس بہتے ہوئے سونے کو ان ڈیموں میں ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اس قیمتی اور انمول پانی کا ایک ایک قطرہ تھر کے باسیوں ، ان کے مویشیوں اور فصلوں کیلئےکس قدر اہم ہے ، کل تھرمیں داخل ہونے سے لے کر اب تک کے سفر میں ہم یہی کچھ دیکھتے چلے آئے تھے۔درحقیقت رن ڈیم میں موجود پانی کے اس ذخیرے کی بنا پر ہی ہمیں نگرپارکر سے چوڑیو کے گائوں تک کے سفر کے دوران ان بے آب و گیاہ میدانوں میں پیاز ، باجرے اور چند دیگر فصلوں کی کچھ بہار نظر آتی تھی ۔ کچھ وقت ڈیم کنارے بتا کر ہم پونے 11 بجے کے قریب یہاں سے نگر پارکر کی طرف روانہ ہو گئے۔نگر پارکر کے قریب پہنچے توجھونپڑی نما گھروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گائوں کے پاس پختہ عمارت کی تعمیر کا کام جاری تھا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ یہاں اسکول بن رہا ہے۔ سندھ کے ان پسماندہ علاقوں کی ترقی اورمعصوم بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام بلاشبہ بہت مستحسن اور ضروری اقدام ہے۔ چوڑیو کے سفر کے دوران پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے ڈیمز دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی وہ نگرپارکر کے بیابانوں میں بسنے والے بچوں کیلئے اسکول کی اس عمارت کی تعمیر کو دیکھ کر دوبالا ہوگئی۔چوڑیو گائوں سے رن پور ڈیم کے سفر کے دوران ایک خوبصورت درخت ۔۔۔ IMG_5184 - Copy.jpg800x600 114 KB رن پور ڈیم کے سنگ ۔۔۔ IMG_5185.jpg800x600 122 KB IMG_5186.jpg800x600 52.8 KB IMG_5187.jpg800x600 70.9 KB IMG_5188.jpg800x600 145 KB IMG_5189.jpg800x600 136 KB
رن پور ڈیم کی سیر کے دوران ۔۔۔ IMG_5192.jpg800x600 118 KB IMG_5193.jpg800x600 60.8 KB IMG_5195.jpg800x600 75.9 KB
ارادہ تھا کہ نگر پارکر پہنچ کر اپنی گاڑی میں کارونجھر کے سلسلہ کوہ کی جانب جاتی راہ کا رخ کریں گے لیکن پھر خیال آیا کہ نہ جانے راستہ کس قدر دشوار ہو،چوڑیو جانے والی راہ پر خاصی بھول بھلیاں دیکھی تھیں، یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں بھٹک ہی نہ جائیں، چنانچہ جیپ ڈرائیور سے ہی درخواست کی ہمیں کارونجھر کے دامن تک لے چلے،اس اضافی خدمت کے عوض اس نے کچھ اضافی کرایہ طلب کیا جس کیلئے ہم بخوشی راضی ہو گئے۔ کارونجھرکا سلسلہ کوہ کہ سندھی زبان میں جس کا مطلب کالی دھاریوں والے پہاڑ ہے،نگرپارکر کے جنوب مغرب کی طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ مشرقی سمت میں واقع چوڑیو سے پلٹ کر ہم نگرپارکر پہنچے اور قصبے کے درمیان سے ہوتے ہوئے مغرب کا رخ کرنے والی سردھارو روڈ میں داخل ہو گئے۔ بمشکل نصف کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ سڑک کارونجھر کے قدموں میں جا پہنچی۔ IMG_5230.jpg800x600 87.3 KB
صبح صبح ہم نگرپارکر کے مشرق میں ریتیلے میدانوں میں سفر کرتے تھے ،اب صبح دوپہر میں بدلتی تھی اورہم نگرپارکر کے مغرب میں کارونجھر کے پہاڑی دروں میں گھومتی اور اوپر کو چڑھتی راہ پررواں دواں تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اچانک پاکستان کے شمالی علاقوں میں آ نکلے ہوں۔ دو تین کلومیٹر تک یہ نیم پختہ سڑک پہاڑی دروں میں بل کھاتی اورچکراتی آگے بڑھتی رہی۔ پھر ایک خاصے بلند درے کی چڑھائی چڑھ کر اچانک انتہائی نشیب کی طرف اترنا شروع ہوئی۔ سڑک خاصی کشادہ تھی اور زیادہ خستہ حال بھی نہ تھی لیکن اس بلند درے پر پتھریلی چٹانوں والے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ کچھ ریتیلے پہاڑ بھی موجود تھے۔ سڑک کا اتار تو زیادہ تھا ہی، اس پر اچھی خاصی ریت بھی بکھری پڑی تھی۔ ہم اپنی گاڑی میں آتے تو کسی طور سنبھل کر اتر تو جاتے لیکن واپسی میں اس ریتیلی سڑک پر اتنی کٹھن چڑھائی چڑھنا شایدممکن نہ ہوتا۔ ویسے بھی بے چاری مہران 2014 اور پھر 2015 میں خنجراب ،بابوسر ،اسکردو اور استور کی مشکل چڑھائیاں چڑھ آئی تھی ۔اس سال کے آغاز میں گوادر کے سفرکے دوران بلوچستان کے بلند پہاڑی درے بھی عبور کر چکی تھی۔ اچھا ہی کیا ہم نے کارونجھر کے اس پہاڑی درے میں اسے ایک بار پھرمشکل میں ڈالنے کے بجائے ریسٹ ہائوس کی پرسکون پارکنگ میں لمبا آرام کرنے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ IMG_5228.jpg800x461 53.1 KB IMG_5229.jpg800x495 57.4 KB IMG_5227.jpg800x535 71 KB
سڑک نیچے اتر کر تقریباً ایک کلومیٹر بعدپہاڑوں کے دامن میں بنے سردھارو کے مندر کےپاس ختم ہو گئی۔ ڈرائیور نے جیپ سڑک کے اختتام پر موجود چھوٹے سے پارکنگ ایریا میںکھڑی کردی۔یہاں سڑک کنارے گتے کے مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے ڈبوں کے ساتھ ساتھ اچھا خاصا کچرا دکھائی دیا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ دو دن قبل چودھویں کے چاند کی شب یہاں بھی میلے کے دوران بھرپور رونق کا سماں تھا۔ہم مزید نشیب کی طرف جاتی راہ سے اتر کر بالکل سامنے نظر آتے پہاڑوں سے نیچے آتی خشک ندی کے کنارے بنے مندر کےقریب جا پہنچے۔ یہ ایک برساتی ندی تھی جو صرف بارشوں میں ہی کارونجھر کے پہاڑوں میں گنگناتی اور جلترنگ بجاتی تھی۔ دائیں جانب سےبھی ایک تنگ پہاڑی نالہ نیچے اترتا تھا جو اس وقت بالکل خشک تھا۔ البتہ جس جگہ یہ پہاڑی نالہ اترتا تھا وہاں ایک چھوٹے سے تالاب میں کچھ پانی موجود تھا۔ پانی کی رنگت اور حالت بتاتی تھی کہ وہ کئی ماہ پرانا ہے۔ میلے کے دوران اس خوبصورت مقام پر پھیلائے گئے کچرے میں سے کچھ حصہ اس سیاہی مائل گدلے پانی کے تالاب کو بھی ملا تھا۔ چوڑیو کے مندر میں تو ایک رکھوالا مسلسل صفائی میں جتا نظر آیا تھا ، یہاں ایسا کوئی رکھوالا دکھائی نہ دیتا تھا۔ تالاب کو دیکھ کر مجھے کھیوڑہ سے کلر کہار جانے والی سڑک کنارے موجود کٹاس راج کی چھوٹی سی جھیل یاد آگئی کہ سردھارو کے اس تالاب اور کٹاس راج کی جھیل میں خاصی مماثلت نظرآتی تھی۔
تالاب کے ساتھ ہی بنی چند سیڑھیاں چڑھ کر ہم کچھ بلندی پر واقع چھوٹے سے مندر کے پاس پہنچے ۔ مندر کے بالکل سامنے سے ایک تنگ اور کچا راستہ مزید اونچائی پر دکھائی دیتےٹیلے پر جاتا تھا۔ دوپہر ہو چلی تھی ،گو کہ گرمی بالکل نہیں تھی لیکن سورج کی تمازت ہمیں کچھ تپاتی تھی۔ ٹیلے پرایک چھوٹا سا خوبصورت درخت موجود تھا جس کی چھائوں میں ہم نے کچھ دیر آرام کیا۔ یہاں سےایک راستہ گھومتا ہوا کچھ ہی فاصلے پر دکھائی دیتے ایک اور کچھ زیادہ بلند ٹیلے کو جاتا تھا۔ ہمسفر کو درخت کی چھائوں تلے بیٹھا چھوڑ کر میں نے ادھر کا رخ کیا۔اس بلند ٹیلے سے چاروں طرف بکھرے کارونجھر کے پہاڑوں کے دلکش مناظر میرے سامنے تھے۔ میں نے وہیں سے ہمسفر کو اس طرف آنے کا اشارہ کر دیا۔ IMG_5221.jpg800x527 110 KB IMG_5222.jpg800x600 80.3 KB IMG_5223.jpg800x1038 127 KB IMG_5224.jpg800x600 135 KB IMG_5218.jpg800x600 70.2 KB IMG_5220.jpg800x600 80.9 KB IMG_5203.jpg800x599 87.9 KB
کل شام جب ہم ماروی کی قیام گاہ سے نکل رہے تھے تو سفید شلوار قمیض میں ملبوس چند نئے ملاقاتی اس سے ملنے کیلئے اندر داخل ہورہے تھے، ان کی دو گاڑیاں ہمیں چار دیواری کے پاس کھڑی نظر آئی تھیں۔ پھر مغرب سے کچھ قبل جب ہم بھودیسر کی مسجد کے پاس پہنچے تو وہی لوگ مسجد دیکھنے کے بعد اپنی گاڑیوں میں سوار واپس مڑ رہے تھے۔ آج سردھارو کے اس بلند ٹیلے پر وہی چار پانچ سفید پوش ایک بار پھر اچانک ہمیں دکھائی دئیے۔ کل کی دونوں بار ہمارا اور ان کا دور سے ہی مختصر سا آمنا سامنا ہوا تھا۔آج روبرو ہوئے تو سلام دعا ہوئی۔ ان میں سے ایک صاحب مٹھی میں سرکاری افسر تھے ۔ کراچی کے بارونق شہر سے نکل کر سندھ کے انتہائی مشرق میں واقع کارونجھر کے پہاڑی دروں میں ہمیں گھومتا پھرتا دیکھ کر وہ بہت حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ IMG_5196.jpg800x600 110 KB IMG_5197.jpg800x600 86.5 KB IMG_5198.jpg800x600 75.1 KB IMG_5199.jpg800x600 80.7 KB
کارونجھر کی چاہتوں کے حصار میں ۔۔۔ IMG_5200.jpg800x600 111 KB IMG_5201.jpg800x600 89.4 KB IMG_5202.jpg800x600 79.3 KB IMG_5206.jpg800x600 101 KB IMG_5207.jpg800x600 90.7 KB IMG_5209.jpg800x507 75.2 KB
کارونجھر کے دامن میں بکھرے رنگ ۔۔۔ IMG_5210.jpg800x600 97.7 KB IMG_5211.jpg800x600 91.5 KB IMG_5213.jpg800x600 95.3 KB IMG_5214.jpg800x600 137 KB IMG_5216.jpg800x600 135 KB
دوپہر کے ٹھیک 12 بجے ہم یہاں سے واپس روانہ ہوئے۔ 15منٹ سے قبل ہی ہم قصبے کی حدود میں داخل ہو گئے۔ راستے میں ایک قدیم جین مندر کے پاس کچھ دیر کیلئے رکے اور پھر ریسٹ ہائوس پہنچ گئے۔ IMG_5233.jpg800x1067 178 KB IMG_5234.jpg800x600 81.9 KB IMG_5235.jpg800x600 77.6 KB IMG_5236.jpg800x1103 163 KB نگرپارکر کے بازار میں ایک دکان ۔۔۔ IMG_5237.jpg800x1114 117 KB جیپ ڈرائیور عبدالواحد مسافر عبدالوحید کے ہمراہ ۔۔۔ IMG_5238.jpg800x485 71.2 KB
کل شام سے آج دوپہر تک جن سفید پوشوں سےمختلف مقامات پر 3 بار آمنا سامنا ہوا تھا ان سے چوتھی بار ریسٹ ہائوس میں ملاقات ہوئی کہ ہمارے یہاں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد وہ بھی اپنی گاڑیوں میں یہاں وارد ہو گئے تھے۔ اسلام کوٹ میں مقیم دوست سے طے پایا تھا کہ ہم نگرپارکر سے سہ پہر کے بعد ایسے وقت نکلیں کہ مغرب تک اسلام کوٹ پہنچ جائیں۔ ادھر ابھی ساڑھے 12 ہی بجے تھے۔ کل شام کو بھودیسر مسجد پہنچے تھے تو مغرب ہوا چاہتی تھی اور قریب ہی موجود ڈیم تک نہ جاسکے تھے۔ آدھا گھنٹہ آرام کرنے کے بعد ہم نے اپنا سامان سمیٹا ، کمرہ خالی کیا اورنگرپارکر کے ریسٹ ہائوس سے بھودیسر ڈیم کے لئےروانہ ہو گئے۔ریسٹ ہائوس کی چھت سے نگرپارکر کی کچھ تصویریں ۔۔۔ IMG_5239.jpg800x600 47.1 KB IMG_5240.jpg800x600 65.7 KB IMG_5241.jpg800x538 51.1 KB IMG_5242.jpg800x661 52.4 KB IMG_5243.jpg800x600 53.5 KB
نگرپارکر کے ریسٹ ہائوس سے روانگی کے وقت ۔۔۔ IMG_5244.jpg800x600 47.3 KB IMG_5245.jpg800x600 53.1 KB IMG_5246.jpg800x600 48.7 KB
قصبے سے نکلےہی تھے کہ بائیں طرف کچھ فاصلے پر دکھائی دیتی گرینائٹ کی سرخ چٹانوں نے ہمیں پکارا۔ ان کی پکار میں کچھ شکوہ تھاکہ ہم سے ملے بنا نگرپارکر سے رخصت ہوتے ہو ۔ سڑک کنارے ایک درخت کی چھائوں میں گاڑی روکی۔ مختصر سے ریتیلے میدان میں موجود خاردار جھاڑیوں کے درمیان سے اور ایک خشک برساتی نالے کو عبور کرکے ہم ان سے ملاقات کیلئے پہنچ گئے۔ یہ سرخ چٹانیں ، ان کی قدرتی ساخت اور تراش خراش بہت منفرد اورانتہائی خوبصورت تھی۔ IMG_5247.jpg800x464 70 KB
zabardst ... Tour Khan saab ... !!
mai toh samajhta tha k Sindh mai ghoomne ki jaa hai he nahe .. lekin aap ka thread daikh kr andaaza hoa meri soch ghalat th... maloomat mai bohat iizaafa haoa ap k es tour thread se ..
thumbs-up ....
وادی ہنزہ میں ایگل نیسٹ گئے تھے توقراقرم کے بلند پہاڑوں پر پتھروں کا بڑا سا عقاب بیٹھا تھا۔ یہاں نگرپارکر کے ریتیلے میدانوں میں سجی سرخ پہاڑیوں میں ایک بڑا سا چٹانی عقاب باقاعدہ کھڑے ہو کرہمیں دیکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ قدرت کے ہاتھوں تراشیدہ ایسے بے مثال عقاب کبھی ہمیں بڑے بڑے شہروں میں پائے جانے والےحکمرانوں کے محلوں کے برجوں میں کیوں نظر نہیں آئے ؟ میرے بالکل سر کے پاس کھڑا سرخ عقاب مسکرایا اور گویا ہوا کہ ہمارا نشیمن قصرسلطانی کے گنبد نہیں ، ہم پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتے ہیں، پھر کبھی قراقرم کے پہاڑوں کا رخ کرو تو وادی ہنزہ کی چٹانوں میں قیام پذیر میرے دوست تک میرا سلام پہنچا دینا۔کچھ وقت ہم نے ان خوبصورت سرخ پہاڑیوں اور عقاب کے ساتھ گزارا اور پھر ان سے اجازت چاہی۔ IMG_5252 - Copy (2).jpg800x600 66.4 KB
نگرپارکر کے قریب گرینائٹ کی حسین سرخ پہاڑیوں کے بیچ ۔۔۔ IMG_5249.jpg800x600 95.8 KB IMG_5250.jpg800x600 82.3 KB IMG_5251.jpg800x1067 138 KB IMG_5253.jpg800x600 66.8 KB IMG_5254.jpg800x1067 104 KB IMG_5255.jpg800x1067 130 KB
نگرپارکر میں بکھرا حسن ۔۔۔ سرخ عقاب اوراس کے نشیمن کے قریب ۔۔۔ IMG_5256.jpg800x1067 144 KB IMG_5257.jpg800x1067 127 KB IMG_5258.jpg800x600 94.9 KB IMG_5259.jpg800x600 86 KB
نگرپارکر کے قصبے سے رخصت ہوتے وقت ۔۔۔ IMG_5260.jpg800x600 72.2 KB IMG_5261.jpg800x600 70.2 KB IMG_5263.jpg800x600 91.6 KB IMG_5264.jpg800x600 94.7 KB
کچھ ہی دیر میں ہم دوبارہ بھودیسرکی تاریخی مسجد پہنچ گئے۔ گاڑی مسجد کے سامنے سڑک کنارے موجود چھوٹی سی کچی اور ہموار جگہ پر کھڑی کی۔ کچھ دیر بعد مسجد سے نکلے اور اس کے بالکل ساتھ سے ہی ڈیم کو جانے والے کچے راستے پر پیدل روانہ ہوئے ۔ IMG_5266.jpg800x600 74.7 KB IMG_5267.jpg800x600 66.9 KB IMG_5268.jpg800x600 75.3 KB IMG_5269.jpg800x600 67.3 KB
ڈیم مسجد سے بمشکل چوتھائی کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ رن پور ڈیم کی بہ نسبت اس میں پانی تو کم تھا لیکن اس کی دلکشی اس سے زیادہ تھی۔دور عقب میں دکھائی دیتے کارونجھر کے پہاڑ،پھر ڈیم میں موجود پانی کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ نظر آتے سرسبز میدان ،ان میں گھاس چرتی بھیڑ بکریاں اور گائیں منظر کے حسن کو چار چاند لگاتی تھیں، بس تیز چمکیلی دھوپ کی تپش ہمیں کچھ ستاتی تھی۔ IMG_5272.jpg800x600 52.1 KB IMG_5273.jpg800x600 45.6 KB IMG_5274.jpg800x600 78.8 KB IMG_5275.jpg800x600 55.7 KB