گیسٹ ہائوس واپس پہنچے تو ہم نے انہیں بتایا کہ صبح سویرے فجر کے بعد ہم یہاں سے روانہ ہو جائیں گے، لیکن وہ اپنے گھر میں ناشتہ کئے بغیر ہمیں اسلام کوٹ سے روانگی کی اجازت دینے پر تیار نہ ہوئے۔ مجھے گزشتہ سال کے سفر کے دوران لاہور میں اپنے دوست نعمان شیخ یاد آگئے کہ لاہور میں ایک شب ہم ان کے گھر مقیم تھے، انہوں نے بھی ہمیں بغیر ناشتہ کئے فجر کے فوراً بعد وادی سون سکیسر کے لئے نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ آج ایک بار پھر ہم اپنے ایک میزبان دوست کی محبتوں کے آگے مجبور تھے۔
گیسٹ ہائوس خاصا بڑا تھا لیکن آج شب پورے گیسٹ ہائوس میں صرف ہم ہی مقیم تھے، گیسٹ ہائوس میں رات کے وقت ایک ہی ملازم تھا ،وہ بھی شاید ہماری واپسی کے انتظار میں یہاں رکا ہوا تھا۔ گیسٹ ہائوس کے مین دروازے کی چابی ہمارے حوالے کر کے وہ بھی یہ کہتا ہواچلا گیا کہ آپ صبح اپنے دوست کے گھر چابی دیتے ہوئے چلے جائیے گا ۔
رات کو بستر پر لیٹا تو اچھی خاصی تکان کے باوجود نیند آنکھوں میں فوراً نہ در آئی ۔
سردیوں کی اس خوشگوارشب دیر تک صحرائے تھر کے خوشنما رنگ خیالوں میں تصویر کشی کرتےرہے۔ سوچ اچانک ان ریگزاروں میں بدلتے موسموں کے رنگوں میں کھو گئی ۔ برسات کے دنوں میں کالی گھٹائوں کے برسنے کا تصور کیا تو اس زرخیز صحرا میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی اور سبزرنگ پھیل گئے۔ کارونجھر کے پہاڑوں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے، گنگناتی ندیاں چٹانوں کی بلندیوں سے اترکر ریتیلے میدانوں کے بیچ بہتی ہوئی کہیں چھوٹے چھوٹے ڈیموں کو لبالب بھر تی تھیں تو کہیں ریت کے ٹیلوں کے درمیان بنے قدرتی تالابوں میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا تھا، تھر باسیوں کے چہرے کھل اٹھتے تھے، ان کی کھیتیاں سیراب ہو کرلہلاتی تھیں، بھیڑ بکریاں ،گائیں ،اونٹ اور دیگر جانور غول در غول کسی ڈیم یا تالاب کنارے اکٹھے ہو کر اپنی پیاس بجھاتے اور ریت کے ٹیلوں اور میدانوں میں پھیلی گھاس چرتے پھرتے تھے، نگرپارکر کی سرخ چٹانیں نہا دھو کر اپنی سجاوٹ اور سرخی میں مزید نکھار لاتی تھیں۔ کہیں کسی ریگزار میں مورخوشی سے رقص کرتےتھے۔ ساون کے موسم کی چند بھرپور بارشیں تھر باسیوں کے لئے پورے سال تک خوشیاں بکھیر دیتی تھیں ۔
دماغ میں اچانک ساون کے کچھ بانجھ موسموں کا خیال سرسرایا کہ جب کچھ برس قیامت بن کر آتے ہیں، ان ریگزاروں سے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں ، ذہن میں تپتے ہوئےصحرا کی جھلسا دینے والی ریت کے بگولے سے اٹھے، کہیں یہاں کے باشندوں کو پانی کے ایک ایک قطرے کی تلاش میں بھٹکتے دیکھا تو کہیں پیاسے جانوروں اور موروں کے پنجر ریت کے ٹیلوں پر بکھرے پڑے دیکھے۔ دیکھا کہ بیماریوں ،بھوک ، پیاس ، قحط اور غربت و افلاس کے عفریت نے اس عظیم صحرا کو جکڑ رکھا ہو۔ دل بہت کڑھا اور اداس ہوا۔
صحرا میں امڈتی کالی گھٹائوں اور ساون کی جل تھل سے تھر باسیوں کے چہروں پر چمکتی آسودگی اور ان کی بستیوں میں رنگ بکھیرتی خوشحالی اور پھر اچانک تیور بدلتے موسموں کی بے رخی ، تپتی ریت پر آگ برساتے سورج کی ہولناکی اور خونخوار پنجے گاڑتی خشک سالی کے روح فرسا تصور سے میری سوچ کی ڈور الجھتی تھی ، ذہن اسی خطے اور اسی صوبے کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا تھا، کبھی ان ریگزاروں کے بیچ جا بجا سوکھی جھاڑیوں کی باڑھ میں چھپی گول گول چھپروں والی چند جھونپڑیوں میں جا پہنچتا تو کبھی بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کی ہزاروں ایکڑ پر تاحد نظر پھیلی زمینوں ، بڑی بڑی پر آسائش حویلیوں اور محلوں کا رخ کرتا۔
سوچتا تھا کہ کارونجھر کی وادیوں میں پائے جانے والے گرینائٹ کے سرخ قیمتی پتھر وہاں کے مفلوک الحال باسیوں کے حالات بدلنے کے بجائے نہ جانے کس کی نذر ہوگئے ، کارونجھر کے پہاڑوں کی کالی دھاریاں مجھے اسی غم اور سوگ میں باندھی گئی سیاہ پٹیوں کی صورت نظر آتی تھیں۔
ذہن میں خدشہ سر ابھارتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صحرائے تھر کے سینے میں مدفون سیاہ سونے کے ڈھیروں خزانے بھی اس عظیم صحرا میں ترقی و خوشحالی اورتھر باسیوں کی کٹھن زندگی میں بہتری نہ لا پائیں اور یہ بےچارے صرف تھر کول فیلڈ کیلئے تعمیر کردہ شاندار شاہراہ کو دیکھ دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہیں۔ میرے ذہن کے پردے پر اچانک آج شام کو سنہری ریت کے بلند ٹیلے کے پاس اس شاندار شاہراہ کی چڑھائی چڑھتی لکڑیوں سے لدی گدھا گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے تھر کے باسی کا پسینے میں شرابور اور تھکن سے چور چہرہ ابھر آیا ، بے اختیار دل سے دعا نکلی کہ اے میرے رحیم و کریم رب تھر کے کوئلے کے یہ ذخائر اس صحرا کے باسیوں کیلئے ایسی بھرپورخوشحالی اور بے مثال ترقی کا باعث بنیں کہ میں کبھی آئندہ اس بلند ٹیلے کے پاس پہنچوں تو اسی گدھا گاڑی والے کو تیری بیش بہا نعمتوں سےلدی پھندی کسی بہترین پک اپ میں بلند ہوتی شاہراہ پر انتہائی شاداں و فرحاں اپنے گھر کی جانب رواں دواں دیکھوں کہ ۔۔۔
طارق امید بس خدا سے ہے
وہ خزاں کو بہار کرتا ہے
صحرائے تھر کے ان دو دنوں کے سفر کے دوران کچھ خوشی اور سکون کا احساس ہوتا تھا تو مختلف جگہ لگے ہوئے آر او پلانٹس ، پانی کا ذخیرہ کرنے والے چھوٹے بڑے ڈیمز اور ریگزاروں کے بیچ سے گزرتی اس شاندار شاہراہ کو دیکھ کر، لیکن اس عظیم صحرا کے باسیوں کی فلاح و بہبود ، ان کے لئےضروریات زندگی کی بآسانی دستیابی کے ساتھ ساتھ اس پسماندہ خطے کی ترقی اورمستقبل کی معمار نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ دل دکھی ہوتا تھا کہ قدرتی آفات بے شک اپنی جگہ لیکن تھر کے باسیوں کو ہر دوسرے یا تیسرے سال پڑنے والے قحط کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے تاحال کوئی جامع منصوبہ بندی اور احسن حکمت عملی کیوں نہ مرتب کی جاسکی۔
قدرت کے بیش بہا رنگوں سے مزین صحرائے تھر کے باسیوں کی ہمت ،حوصلہ اور بڑاپن ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی جینا جانتے ہیں ، یہاں اجناس کی فصلیں نہ بھی لہلہائیں ، تو بھائی چارے، ہم آہنگی ،خلوص ، یگانگت ، رواداری ،محبتوں اور چاہتوں کی فصلیں ہر موسم میں لہلاتی رہتی ہیں۔