ایک دلچسپ بات جو میں پہلے بتانا بھول گیا ۔ یاسر نے بالا کوٹ کے پاس ایک جگہ سے ایک کلو اخروٹ خریدے۔ اب وہ اخروٹ کچھ سخت تھے اور یاسر سے دانتوں سے نہیں ٹوٹ رہے تھے تو اس نے ثانی کی کمپنی سے معاہدہ کیا کہ وہ اخروٹ توڑ کر دے گا اور بدلے میں منافع میں چوتھے حصے کا حقدار ہو گا۔ معاہدہ طے ہونے کے بعد اخروٹ ثانی کے حوالے کر دیئے گئے لیکن جب کام شروع ہوا تو بالکل ہی الٹ ہو گیا۔ ثانی اپنے مضبوط دانتوں سے اخروٹ توڑتا تین حصے خود کھاتا اور ایک حصہ یاسر کو۔ یاسر آگے بیٹھا تھا اور ثانی پیچھے ۔ اب چلتی گاڑی میں پیچھے بھی نہیں جایا جا سکتا اور یاسر معاہدہ کی خلاف ورزی پر بار بار ثانی کو تنبیہ کرتا لیکن ثانی ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا اور پوری جانفشانی سے اخروٹوں پر ہاتھ صاف کر رہا تھا ۔ جب بار بار کہنے کے باوجود ثانی کی کمپنی باز نہ آئی تو یاسر نے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنے اخروٹ واپس لے لئے۔ اب یاسر کے دانتوں سے تو وہ ٹوٹنے سے رہے ۔ کچھ دیر تو وہ بیٹھ کر کوشش کرتا رہا لیکن ناکامی پر اسکے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔ اس نے گاڑی رکوائی اور دو چھوٹے پتھر اٹھا کر لایا اور گاڑی میں ہی بیٹھ کر ایک پتھر پر اخروٹ رکھ کر دوسرے سے توڑنے لگ گیا اور اسکی کوشش کامیاب رہی۔ اب ثانی پیچھے سے فرمائش کرتا لیکن اب یاسر کی کمپنی نے بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی۔ کیونکہ یاسر آگے بیٹھا ہوا تھا اسلئے وقتا فوقتا مجھے بھی منافع میں سے حصہ مل رہا تھااسلئے مجھے کیا ضرورت تھی ثانی کا ساتھ دینے کی۔ سب اس واقعہ سے بہت محظوظ ہوئے۔