جامع مسجد ناران میں پہنچ کر پہلے واش روم سے فارغ ہوئے اور اس کے بعد وضو کرنے بیٹھ گئے۔ پچھلے سال کے تجربہ نے مجھے یہ تو بتا دیا تھا کہ پانی بہت ٹھنڈا ہو گا لیکن پھر بھی اثر تو ہوتا ہے نا۔ کہیں اور وضو کرنا ہو تو میں تین تین بار وضو کے اعضاء کو دھوتا ہوں لیکن اتنے ٹھنڈے پانی میں مجھے تین بار سے نیچے بھی آنا پڑا۔ بار بار جب ہاتھوں پر پانی ڈالا جاتا تو ہاتھ سن ہو جاتے۔ حالانکہ ہم نے ناران میں ایک ہوٹل پر بھی پانی استعمال کیا تھا لیکن اتنا ٹھنڈا نہیں تھا جتنا مسجد کے وضو خانے کا تھا۔ وضو کرنے کے بعد جب مسجد میں داخل ہوئے تو اندر کا ماحول گرم تھا اسلئے تھوڑی ہی دیر میں سردی کا احساس جاتا رہا۔ جب میں نماز کیلئے کھڑا ہوا تو میں نے جیکٹ پہنی ہوئی تھی لیکن سلام پھیرنے کے بعد اتار کر باقی نماز پوری کی۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔ مسجد کافی وسیع تھی جو کہ تین منزلوں پر مشتمل تھی۔ اندر لکڑی کا کام ہوا تھا اور پوری مسجد میں آرام دہ قالین بچھا ہوا تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر واپس دوستوں کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں ایک تندور سے 10 روپے فی عدد کے حساب سے 8 روٹیاں بھی لگوا لیں۔ شکر ہے روٹیاں لاہور ی انداز کی تھیں۔ وہیں تندور سے ہم نے پانی پیا۔ ٹھنڈا پانی پی کر سکون کا احساس ہوالیکن اتنا بھی ٹھنڈا نہیں تھا کہ دانت بجنے لگ جائیں۔ واپس دوستوں کے پاس پہنچے تو ابھی تک سالن تیار نہیں ہوا تھا۔ اندھیرا بھی چھا گیا تھا اور عنصر موبائل کی ٹارچ کا استعمال کر کررہا تھا ۔ یہ موقع تھا گاڑی میں موجود یو پی ایس کے استعمال کا جو میں نے ایسے ہی مقصد کیلئے رکھا تھا۔ یو پی ایس کے ساتھ ایکسٹینشن لیڈ لگا کر اس میں ہولڈر کی تار لگا کر ہولڈر کو گاڑی کے اگلی شیشے کو نیچے کرکے اسمیں لٹکایا اور اس میں انرجی سیور لگا دیا ۔لو جی روشنی کا مسئلہ حل ہو گیا۔ ساتھ ہی ہم نے اپنے موبائل بھی چارجنگ کیلئے لگا دیئے۔ وہاں سگنل تو نہیں آ رہے تھے لیکن ہمیں کل کیلئے فل بیٹری درکار تھی تاکہ موبائل کیمرے کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔ اتنے میں وہاں مظفر آبا د سے آئے ہوئے کچھ ٹین ایجر لڑکوں کا گروپ آ گیا۔ وہ بائیکس پر سیرو سیاحت کیلئے آج صبح ہی مظفر آباد سے نکلے تھے۔ وہ کسی دوست سے ایک کیمپنگ ٹینٹ بھی لے کر آئے تھے لیکن ٹینٹ کی سیٹنگ کچھ پیچیدہ تھی اسلئے وہ اسے ایستادہ کرنے میں ناکام ہو رہے تھے۔ میں بھی اسوقت اپنے ٹینٹ کے اوپر اضافی شیٹ لگا رہا تھا تاکہ بارش کی صورت میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ ہمارے پاس آئے اور درخواست کی کہ انکے ٹینٹ کو لگانے میں مدد کی جائے ۔ شاید وہ ہمیں تجربہ کار سمجھ رہے تھے۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر میں انکے پاس چلا گیا ۔ انکا ٹینٹ واقعی ہی بہت پیچیدہ تھا۔ میں کافی دیر کھپا لیکن وہ میرے بھی قابو میں نہیں آیا مجھے ایسے بھی لگ رہا تھا کہ اس ٹینٹ کی تمام چیزیں بھی پوری نہیں ہیں۔ وہ لڑکے اس معاملے میں ہم سے بھی نہلے دہلے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ انھیں آنے سے پہلے ایک بار اس کیمپ کو لگا کر دیکھ لینا چاہیئے تھا۔ وہ بھی شہزادے تھے انھوں نے آج تک کبھی کیمپنگ ٹور نہیں کیا تھا ۔ بس پروگرام بنا اور دوست سے ٹینٹ اٹھا لائے لیکن اس سے اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں لی۔ اور انھوں نے جب مجھے دیکھا کہ میں نے اپنا کیمپ لگایا ہوا ہے تو گرو سمجھ کر بلا لائے ۔ اب گرو جی کیا بتائیں انھیں تو خود انکے ٹینٹ کی سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ کافی دیر لا حاصل کوشش کرنے کے بعد آخر کار میں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ اور ان سے مجھے امید نہیں تھی کہ وہ یہ ٹینٹ لگا لیں گے۔ اسلئے میں نے انکو مشورہ دیا کہ کرائے پر کوئی ٹینٹ لے لو وہ تمھیں زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے میں مل جائے گا۔ انکو میرا مشورہ پسند آیا اور جلد ہی انکو ایک بڑا ٹینٹ کرائے پر مل گیا جس میں انکی بائیکس بھی آ سکتیں تھیں وہ خوش تھے۔ انھوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور اپنے کرائے کے ٹینٹ میں منتقل ہو گئے۔ ویسے ایک بات ہے میں نے صدق دل سے کوشش کی کہ انکے کام آ جاؤں ۔ اتنے میں کھانا تیار ہو گیا ۔ ٹینٹ کے اندر کھانے کے بجائے ہم نے باہر بیٹھ کر ہی کھانا پسند کیا۔ یہ عنصر کی اس ٹور میں پہلی کوکنگ تھی۔ نمک زیادہ تھا اور بھنڈی کو کچھ زیادہ ہی بھون کر سخت کر دیا گیا تھا۔ لیکن مجھے پتا تھا کہ ایسے ٹور ز میں یہ عام باتیں ہیں۔ کھانا کھا کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ ایک شخص وہاں آیا جو کہ کھانے کیلئے ہی وہاں آیا تھا۔ ہمارے پاس روٹیاں بھی بچ گئیں تھیں اور سالن بھی ۔ اسلئے ہم نے وہ اس کے حوالے کر دیں۔ کچھ دیر بعد وہاں ایک شخص اور آ گیا اور اس نے ہم سے وہاں ٹینٹ لگانے کا معاوضہ طلب کیا۔ بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی۔ یاسر نے اس سے صاف انکار کر دیا کہ یہاں کس بات کا کرایہ۔ اس نے کہا کہ اگر تم لوگ پیسے نہیں دو گے تو ہمارا یہ اصول ہے کہ تمھاری گاڑی کی حفاظت کی ہماری کوئی ذمہ داری نہیں اگر اس کو کوئی نقصان ہوا تو اسکے ذمہ دار تم خود ہو گے۔ اس پر یاسر نے اسے کہا کہ پھر ہمارا بھی اصول سن لو اگر رات کو کوئی ہماری گاڑی کے پاس آتا ہے تو ہم اسے سیدھا فائر مارتے ہیں۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ تو میرے قابو میں آنے والے نہیں تو واپس چلا گیا لیکن ہمارے ساتھ ہی موجود بہاولپور والوں سے ڈیڑھ سو روپیہ لے گیا۔ ہم اس صورتحال پر کافی دیر ہنستے رہے۔لگ ایسے ہی رہا تھا کہ جو اس شخص کے پریشر میں آ جاتا اس سے وہ پیسے اینٹھ لیتا اور جب دیکھا کہ آگے والے تگڑے ہیں تو کان لپیٹ کر چل دیتا۔ سارا دن سفر اور تھکن سے یاسر کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسلئے کھانے کے فورا بعد ہی وہ ٹینٹ میں گھس کر لیٹ گیا۔ چائے پکانے کی ذمہ داری ثانی کی تھی اسلئے اس نے چولہے پر چائے چڑھا دی۔جب چائے بن گئی تو یاسر کو ٹینٹ کے اندر ہی چائے دے دی گئی اور ثانی نے ساتھ ہی اسے دو پینا ڈول اور ایک بروفن کی ایکسٹرا ڈوزبھی کھلا دی جو کہ ہمارے پاس ہی موجود تھیں۔ چائے پینے کے بعد ہم نے ساما ن کو پیک کر دیا ۔ عنصر اور ثانی بازار کی طرف روانہ ہو گئے اور میں وہاں ہی رک گیا اور وہاں کے سکون میں کھو گیا۔ وہ جگہ بازار سے کافی پہلے اور سڑک سے کچھ سائیڈ پر تھی اسلئے وہاں سکون ہی سکون تھا صرف دریا کے بہنے کی آواز آ رہی تھی جو کہ اس وقت موسیقی کا سا سماں باندھ رہی تھی۔ ناران کے مرکزی بازار کی طرف روشنیاں ہی روشنیاں نظر آ رہیں تھیں۔ پہاڑوں پر جہاں جہاں لوگ آباد تھے وہاں کی روشنیاں ننھے ننھے ستاروں کی طرح نظر آ رہیں تھیں۔ اور میں جی بھر کر اس سکون کو اپنے اندر اتار تا ررہا۔ پھر وہاں بلوچستان سےکچھ لوگ ٹویوٹا فیلڈر کار میں آئے ۔ انھوں نے ہمارے پاس ہی اپنے دو ٹینٹ لگا لئے۔ وہ لوگ سوات کی طرف سے آ رہے تھے اور ناران کے بعد انکا واپسی کا پروگرام تھا۔ انھوں نے بھی کھانا پکانے کی تیاری شروع کر دی۔ انکے پاس ایمرجنسی لائٹ نہیں تھی۔ میں نے اپنی ایمرجنسی لائٹ انکو دے دی اور دوبارہ دریا کے پاس ایک پتھر پر آ کر بیٹھ گیا۔ بلوچستان والے کھانا پکا کر اپنے ٹینٹس میں گھس گئے تھے اور کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے انکو کہا کہ میں صبح ان سے لائٹ لے لوں گا ورنہ میرے کچھ ساتھی بازار کی طرف گئے ہیں جب وہ آئیں تو انکو دے دینا ۔ تقریبا بارہ بج چکے تھے اسلئے میں نے بھی سونے کا ارادہ کیا کیونکہ کل کا سفر بھی کافی طویل تھا اور ٹینٹ میں اپنے بستر میں گھس کر سو گیا۔ کچی پکی نیند میں سوتا رہا کیونکہ ابھی عنصر اور ثانی واپس نہیں آئے تھے۔ جب اڑھائی بجے تک وہ نہ آئے تو مجھے تشویش ہوئی اور کیمپ سے باہر نکل آیا۔موبائل کو دیکھا تو سگنل ندارد۔ سوچنے لگا کہ اب کیا کروں د ل میں تشویش ناک خیالات بھی آرہے تھے ۔ عنصر اور ثانی پہلی بار ان علاقوں میں آئے تھے اسلئے پریشانی اور بھی زیادہ تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ چل کر انکو ڈھونڈا جائے۔ اسوقت آس پاس رات کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور سب سو رہے تھے۔ میں احتیاط سے چل کر سڑک پر آ گیا۔ اسوقت ٹینٹ ویلجز کے پاس اکا دکا افرا د ہی نظر آ رہے تھے۔ جو کہ شاید انکے منتظم تھے اور اسوقت بھی سیاحوں کا انتظار کر رہے تھے اور مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ بندہ اسوقت کہاں جا رہا ہے۔ اب مجھے پتا تو نہیں تھا کہ عنصر اور ثانی کہاں ملیں گے لیکن اللہ توکل ہی نکل آیا تھا کہ شاید کہیں نہ کہیں ان سے ٹکراؤ ہو جائے ۔ دل سے دعائیں نکل رہیں تھیں کہ یا اللہ خیر ۔ جب پنجاب تکہ ہاؤس سے کچھ آگےپہنچا تو مجھے سامنے سے دو افراد آتے نظر آئے۔ شکلیں تو واضح نہیں تھیں لیکن مجھے باتوں کی اونچی اونچی آوازوں سے پتا چل گیا کہ وہ وہی ہیں۔ میں سڑک پر ہی رک گیا۔ جب وہ نزدیک آئے اور مجھے دیکھا اور حیران ہوئے کہ آپ یہاں۔ میں نے ان سے کہا وقت دیکھا ہے کہ کیا ہوا ہے۔ تم لوگوں کو یہ بھی پروا نہیں کہ کوئی تمھاری وجہ سے پریشان ہورہا ہو گا۔ اگر تمھاری جگہ میرا سگا بھائی ہوتا تو میں نے اسے اس درجہ لا پرواہی پر تھپڑ لگا دینے تھے۔ ہم لوگ گھر سے دور ہیں اور اس پر اتنی لا پرواہی۔ اس وقت مجھے حقیقت میں بڑا غصہ آیا ہوا تھا لیکن ساتھ ہی دل میں اللہ کا شکر بھی ادا کر رہا تھا کہ وہ خیرو عافیت سے مل گئے۔ وہ دونوں بھی شرمندہ نظر آ رہے تھے اور انھوں نے اپنی غلطی پر معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی ان کے پاس موجود پانی کی بوتل میں سے پانی پی کر میں بھی پر سکون ہو گیا۔ پھر ہم اپنے کیمپ کی طرف روانہ ہو گئے۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ وہ شاپنگ کر رہے تھے ۔ انھوں نے ناران کی تقریبا ہر دوکان کھنگال ڈالی تھی اوراتنی دیر میں خرید ا کیا پشمینہ کی صرف ایک چادر۔واپس آ کر ہم اپنے اپنے بستروں میں آ کر سو گئے۔ لیکن اس بھاگ دوڑ میں تین بج چکے تھے اور مجھے فکر تھی کہ نیند کی یہ کمی کل کے لمبے سفر میں تنگ کرے گی۔