وہاں ایک ٹریکٹر ٹرالی بھی بھاگی پھر رہی تھی اور وہاں موجود پتھروں کو لوڈ کرکے کہیں لے جانے میں مصروف تھی۔ بلندی سے بابوسر پوائنٹ کا نظارہ۔
جہاں ہم کھڑے تھے وہاں ہوا اب نا قابل برداشت ہو رہی تھی ایک تو ہوا تیز تھی دوسرا سرد بھی۔تھوڑا سا نیچے آئے تو تو میں نے ایک بڑا پتھر دیکھا جوچپٹا تھااور اس پر آسانی سے لیٹا جا سکتا تھا۔ کچھ دھوپ بھی نکل آئی تھی اسلئے میں اس پر لیٹ گیا۔ ہلکی دھوپ میں بہت سکون کا احساس ہوا۔ یہاں پر تیز ہوا سے بھی بچت تھی۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اٹھا تو نظر بے اختیار دوبارہ پہلے والے نظاروں پر چلی گئی۔
ابھی بہت آگے کا سفر کرنا تھا اسلئے ان خوبصورت نظاروں سے نظر ہٹا کر واپسی کیلئے مڑے ۔ لیکن واپسی کا راستہ وہ اختیار کیا جو کہ برف کی طرف سے ہو کر جاتا تھا۔ زیادہ تر سیاحوں کا رخ اسی برف والی جگہ کی طرف تھا۔ جب برف والی جگہ کو دیکھا تو خود بخود نظر سڑک کے دوسری جانب نظر آنے والے پہاڑ کی طرف اٹھ گئی ۔ سوچا کہ ابھی تو وقت نہیں پھر کبھی وقت ملا تو اسکو سر کرنے کی کوشش کریں گے جو یقینا اپنی جگہ پر ایک ایڈونچر ہو گا۔
برف سے اوپر بھی ایک پہاڑ تھا جس پر چڑھنے کا تجربہ بھی یقینا دلچسپ ہو گا۔
وہاں سے دائیں طرف نظر کی تو چلاس کی طرف بل کھاتی ہوئی وہ سڑک نظر آئی جس پر ہمیں اپنا سفر جاری رکھنا تھا۔
برف کی طرف رواں دواں۔
برف اور اسکی ٹھنڈک۔ کہاں لاہور کی گرمی اور کہاں یہ ٹھنڈک کا احساس۔
برف پر پڑے ہوئے کولڈ ڈرنکس کے ٹن اور بوتلوں کو دیکھ کر دکھ کا بھی احساس ہوا کہ اگر یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو ہماری آنے والی نسلیں یہاں گندگی کے ڈھیر دیکھیں گی۔
Bohat alaaa janab. Aap ka safarnama phr kar apna khunjrab trip yad agya. Or aik bar phir in ilaqon ko daikhny ka ishtiaq paida ho gya hy.
بہت شکریہ جناب۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان جب کسی ایسے سفر کی تحریر پڑھتا ہے جو اس نے بھی کیا ہو تو وہ تصورا ت میں دوبارہ انہی علاقوں میں پہنچ جاتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری تحریر نے آپ کے تصورات کو دوبارہ زندہ کیا۔
bohat bohat khoob app ky safar ki dastan hai bohat acha laga parh ky or pics tu kamal han elfaz nahi han tareef ky....Allah Pak sb ko in khoobsurat muqamat ki hifazat or safai ki toofeq dy hidayat dy...waiting for more
پسندیدگی کیلئے شکر گزار ہوں۔ انشاء اللہ آگے کی داستان اس سے زیادہ حسین ہو گی۔
**بلندی سے آہستہ آہستہ اترتے ہوئے ہم مین سڑک پر آ گئے۔ وقت کافی ہو گیا تھا اور آگے بھی جانا تھا۔ اچانک سب کا موڈ بن گیا کہ چائے پی جائے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے خود چائے بنانے کی بجائے فیصلہ ہوا کہ کسی دوکان سے ہی لےلی جائے۔ ثانی تو گاڑی کے پاس تھا اور یہاں ہم تینوں ہی تھے ۔ تین کپ چائے فی کپ چالیس روپے کے حساب سے اور پچاس روپے کی چپس کا آرڈر دے کر کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ وہاں دھوپ بھی آ رہی تھی جو کہ اسوقت خوشگوار لگ رہی تھی۔ بابو سر ٹاپ پر سردی تھی لیکن پتا نہیں خواتین کو سردی کیوں نہیں لگ رہی تھی کیونکہ انھوں نے جرسی وغیرہ نہیں پہنی ہوئی تھی شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ اسطرح ان کے لباس کی ڈیزائننگ نمایاں نہیں ہوتی۔ سردی سے ٹھٹھرنا منظور تھا لیکن فیشن خراب نہ ہو۔ کچھ دیر میں چائے آگئی ۔ چائے پی کر بازار سے چائے پینے کے فیصلے پر افسوس ہوا کیونکہ اس سے بدرجہہ بہتر چائے ہم خود بنا سکتے تھے۔ اب ظاہرہے جس بد مزہ چائے سے ہمارا پالا پڑا تھا اس سے ثانی کو کیسے محروم رکھ سکتے تھے اسلئے ایک ڈسپوزیبل کپ اسکے لئے بھی پیک کرا لیا جس کا جرمانہ 50 روپے تھا۔ **چائے پیتے وقت ایک تصویر۔
**گاڑی کے پاس پہنچ کر چائے کا کپ ثانی کے حوالے کیا جو گاڑی میں خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا اور اللہ کا نام لیکر آگے سفر کا آغاز کر دیا ۔ بابو سر ٹاپ سے چلاس کے قریب قراقرم ہائی وے تک کا راستہ تقریبا 45 کلومیٹر ہے لیکن میرے ذاتی خیال میں ڈرائیونگ کے لحاظ سے بہت احتیاط کا تقاضا کرنے والا راستہ ہے جس میں تقریبا دس ہزار کی گہرائی میں جانا پڑتا ہے ۔ گاڑی خود بخود بھاگنا شروع کر دیتی ہے اسلئے گاڑی کو کنٹرول میں رکھنا پڑتا ہے ۔ گاڑی کو چھوٹے گیئر میں چلانا پڑتا ہے تاکہ انجن خود گاڑی کی رفتار کو کنٹرول کرے اور ضرورت کے وقت بریک کا بھی استعمال کرنا پڑتا ہے لیکن بریک کے زیادہ استعمال سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے ورنہ زیادہ استعمال سے بریک گرم ہو کر فیل بھی ہو سکتی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ چند کلومیٹر کے بعد گاڑی کو روک کر بریک کو ٹھنڈا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ **خطرناک ڈھلوانی راستہ جس پر سفر کرتے ہوئے ہمیں قراقرم ہائی وے سے جا کر ملنا تھا۔
وقت کافی ہو گیا تھا اور ابھی بھی ہم اپنے رات کے قیام کی جگہ یعنی جگلوٹ سے کافی فاصلے پر تھے۔ اگر میدانی علاقے کے حساب سے دیکھا جائے تو سو سے سوا سو کلومیٹر کا فاصلہ زیادہ نہیں لیکن یہاں ہمیں پیچ دار پہاڑی راستوں پر سفر کرنا تھا اور گاڑی پہلے یا دوسرے گیئر میں چلنی تھی۔ اسلئے احتیاط اور آرام سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ سڑک کی ڈھلوان اتنی تھی کہ اگر گاڑی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو گاڑی سو کی سپیڈ کو بھی کراس کر جائے۔ سڑک کی حالت بہترین تھی لیکن اگر سڑک کی حالت بہتر نہ ہوتی تو یہ راستہ بہت دشوار گزار ثابت ہوتا۔ دائرہ نما موڑوں پر بہت احتیاط کی ضرورت تھی۔
جیسے جیسے بابو سر ٹاپ سے دور ہوتے جا رہے تھے سردی آہستہ آہستہ گرمی میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی اور پہاڑوں پر سبزہ بھی کم ہوتا جا رہا تھا۔ سڑک کے آس پاس اور پہاڑوں پر چھوٹی موٹی آبادیاں بھی نظر آرہیں تھیں لیکن اس راستے میں باقاعدہ کوئی بڑی آبادی نہیں تھی لیکن سڑک کے کنارے پر جگہ جگہ مقامی افراد نے ریفریشمنٹ کی چھوٹی موٹی چیزیں رکھی ہوئیں تھیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ایک پہاڑی نالہ بھی سفر کر رہا تھا اور راستے میں چند چھوٹے چشمے بھی نظر آئے۔
بابو سر ٹاپ سے قراقرم ہائی وے کا راستہ تقریبا 45 کلومیٹر بنتا ہے۔ جب ہم تقریبا آدھا فاصلہ طے کر چکے تو ایک جگہ پر گاڑیوں کا رش دیکھا۔ جب قریب پہنچے تو پولیس کے جوان گاڑیوں کو روک کر سائیڈ پر کروا رہے تھے ۔ وہ گاڑی کے ٹائر رم کو ہاتھ لگا کر دیکھتے اور گرم ہونے کی صورت میں تاکید کرتے کہ کچھ دیر یہاں قیام کرکے بریکس کو ٹھنڈا کریں پھر آگے جائیں۔ بات تو انکی مناسب تھی اسلئے ہم نے بھی گاڑی کو ایک طرف روک دیا اور گاڑی اور خود کو تھوڑا ریسٹ دینے کیلئے گاڑی سے باہر نکل آئے۔ میٹر ریڈنگ 53342۔ گاڑیوں والے تقریبا پندرہ منٹ قیام کے بعد آگے روانہ ہو جاتے اور انکی جگہ لینے کیلئے پیچھے سے اور گاڑیاں آ جاتیں۔ ساتھ ہی مقامی لوگوں نے چھوٹی موٹی ریفریشمنٹ کے پوائنٹ بنائے ہوئے تھے اور پائپ کے ذریعے ٹھنڈا پانی بھی آ رہا تھا۔ میں نے خوشگوار ٹھنڈک والے پانی سے منہ ہاتھ دھویا تاکہ اپنے آپ کو ترو تازہ کر سکوں۔ دوران ڈرائیو مجھے کچھ نیند کا بھی احساس ہوا تھا جس کو میں مرنڈا کی بوتل سے وقتا فوقتا گھونٹ لیکر بھگاتا رہا تھا لیکن اب ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھو کر نیند غائب ہو گئی۔ اتنے میں یاسر ایک دوکان سے خوبانیاں خرید کر لے آیا جن کا ریٹ لاہور کے ریٹ کے برابر تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ آگے جا کر اتنی خوبانیاں ملیں گی کہ تمھار ا دل بھر جائے گا۔ خوبانیوں کو پیٹ میں منتقل کرنے اور پندرہ بیس منٹ کے قیام کے بعد ہم بھی آگے روانہ ہوگئے۔
ہم نے ابھی تک ظہر کی نماز نہیں پڑھی تھی ارادہ تھا کہ عصر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیں گے۔ ساتھیوں نے کہا کہ نماز پڑھ لیتے ہیں لیکن میں نے کہا قراقرم ہائی وے پر پہنچ کر ایک پٹرول پمپ آتا ہے جہاں واش روم اور وضو کا بھی انتظام ہے ۔ میں قراقرم ہائی وے پر جلد سے جلد پہنچنا چاہتا تھا کیونکہ قراقرم ہائی وے سے پہلے چند کلومیٹر کے علاقے میں مٹی کے پہاڑ تھے اور بارش وغیرہ کی صورت میں لینڈ سلائیڈنگ کا بہت زیادہ اندیشہ ہوتا ہے اور یہاں کے موسم کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا پل میں تولہ اور پل میں ماشہ۔کئی جگہ پر مقامی لوگوں کے سر سبز و شاداب کھیت بھی نظر آ جاتے۔
راستے میں آنے والا ایک خوبصورت پہاڑی نالہ جس کے کنارے سبزہ ہی سبزہ تھا۔