کچھ دیر بعد ہم اپنی جائے قیام پر پہنچ گئے۔میٹر ریڈنگ 53449۔ یہ جگہ جگلوٹ کے مرکزی سٹاپ سے پہلے آتی ہے۔ یہاں پٹرول پمپ اور چند کھانے کے ہوٹل اور ایک جنرل سٹور بھی ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ہم نے پچھلے سال قیام کیا تھا۔ وہ جنرل سٹور سہیل بھائی کا ہے جن سے ہماری جان پہچان پچھلے سال کے ٹور کے دوران ہوئی تھی۔ سٹور پر سہیل ہی موجود تھا ۔ جس طرح میرے گیٹ اپ میں تھوڑی تبدیلی آ ئی اسی طرح پچھلے سال کی نسبت اسکا گیٹ اپ بھی تبدیل تھا۔ اس کو دیکھ کر پہلے تو میں تھوڑا سوچ میں پڑ گیا کہ یہی سہیل ہے یا کوئی اور۔ محتاط انداز میں استفسار کرنے پر پتا چلا کہ وہی مطلوبہ شخص ہے تو اس سے گرمجوشی سے ملاقات کی۔ اسکے بھائی سید سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس سٹور کے ساتھ موجود باغیچہ ہی ہمارے قیام کی جگہ تھی۔ وہاں ایک بڑا کیمپ پہلے ہی لگا ہوا تھا۔ سہیل نے بتایا کہ اس نے بھی رینٹ اے کیمپ والا کام شروع کیا تھا۔ اس نے پیش کش کی کہ ہم چاہے تو اپنے کیمپ کی بجائے اس کے کیمپ میں بغیر کسی معاوضہ کے قیام کریں جس میں بستر وغیرہ بھی موجود تھے۔ اسکا کیمپ ہمارے کیمپ سے زیادہ کشادہ تھا اسلئے ہم نے اس کی پیش کش قبول کر لی۔ گاڑی کو باغیچے کے ساتھ ہی پارک کرنے کے بعد کھانا پکانے کا کام شروع ہو گیا۔ مل جل کر کام کیا اور پریشر ککر میں سفید چنے پکائے گئے جس کو بھگو کر ہم نے بوتل میں پہلے ہی رکھ دیا تھا۔ سامنے ہوٹل میں روٹی لینے گئے تو انھوں نے خالی روٹی دینے سے انکار کر دیا ۔ بائیں طرف موجود ہوٹل پر گئے تو انکا بھی یہی جواب۔ اب کیا کریں سالن بالکل تیار تھا لیکن روٹی نہیں مل رہی تھی۔ سٹور پر موجود سید بھائی نے کہا کہ پیسے مجھے دو میں لیکر آتا ہوں وہ دائیں طرف موجود ہوٹل کی طرف گیا اور 10 روپے فی عدد کے حساب سے 8 روٹیاں لیکر آ گیا۔ اسے بھی ساتھ ملا کر کھانا کھایا۔ سالن مزیدار پکا تھا اسلئے پیٹ بھر کر کھانا کھایا گیا۔ یاسر کے موبائل کی تصاویر غائب ہو گئیں ۔ یاسر پریشان ۔ ثانی نے کہا کہ اگر میں تمھاری تصاویر ریسٹور کر دوں تو ایک کلو چیری کھلانا پڑیں گی۔ کچھ پس و پیش کے بعد یاسر مان گیا۔ ثانی نے تھوڑی دیر میں ہی تصاویر کو ریسٹور کر دیا اور یاسر کو ایک کلو چیری کا جرمانہ پڑ گیا جو کہ سٹور سے دو سو روپے فی کلو کے حساب سے مل گئیں۔ تینوں نے اپنا حصہ اسی وقت کھا لیا لیکن میرا پیٹ بھرا ہوا تھا اسلئے انھوں نے میرا حصہ علیحدہ رکھ دیا۔ اب پتا نہیں یاسر کی تصاویر واقعی ہی غائب ہو گئیں تھیں یا یہ بھی ثانی کا کارنامہ تھا۔ مجھے تو معاملہ مشکوک ہی لگا۔ لیکن ہمیں تو آم کھانے سے مطلب تھا نہ کہ پیڑ گننے سے۔ کچھ دیر بعد گیارہ بائیکرز کا ایک گروپ وہاں پہنچا۔ ان میں دو لڑکے جو کہ ایک بائیک پر سوار تھے بائیک سلپ ہونے کی وجہ سے زخمی تھے۔ ایک کو تو ہلکی پھلکی رگڑیں لگیں لیکن دوسرےکا پاؤں اچھا خاصا زخمی تھا پاؤں کا ناخن بھی اتر گیا تھا۔ سہیل انکو لیکر جگلوٹ میں کسی ڈسپنسری سے پٹی کروا آیا۔ پتا چلا کہ وہ لڑکے شوخی میں بائیک چلا رہے تھے اور تیزرفتاری کی وجہ سے ایک موڑ پر بائیک کو کنٹرول نہ کر پائے اور سلپ ہو گئے۔ وہ تو شکر ہے کہ کھائی کی طرف نہیں گرے ورنہ حالات زیادہ خطرناک ہو سکتے تھے۔ کچھ دیر تو وہ بائیکرز اس بات پر بحث کرتے رہے کہ سفر جاری رکھا جائے یا واپس جا یا جائے ۔ بالآخر انھوں نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا اور کسی ہوٹل کی تلاش میں آگے روانہ ہو گئے تاکہ رات گزارنے کےبعد واپسی کا سفر شروع کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو حفظ و امان میں رکھے۔ میں جلد سونے کیلئے کیمپ کے اندر چلا گیا تاکہ صبح مکمل تروتازہ ہو کر ڈرائیونگ کر سکوں۔کچھ دیر کے بعد ثانی اور عنصر بھی سونے کے لئے آگئے جبکہ یاسر ناران میں پچھلی رات کے تجربے کی وجہ سے باہر موجود چارپائی پر ہی سو گیا۔ موسم خوشگوار تھا نہ سردی نہ گرمی۔ کچھ دیر بعد ہی میں نیند کی پر سکون وادی میں کھو گیا۔