گھر سے روانہ ہونے کے بعد شوکت خانم ہاسپٹل کے پاس سے گزرتے ہوئے ٹھوکر نیاز بیگ پہنچ گئے اور وہاں سے موٹر وے پر چڑھ گئے۔ تھکن تو تھی لیکن مجھے پتا تھا کہ انشاء اللہ میں اس پر جلد ہی قابو پا لوں گا۔ گاڑی کا اے سی چل رہا تھا جس سے گرمی سے تو نجات مل گئی تھی۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت ٹھنڈے پانی کا کولر بھر کر رکھ لیا تھا تاکہ راستے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ساتھ دو کلو فریش آڑو بھی رکھ لئے تھے جن کا سائز اچھا خاصا تھا۔ موٹر وے سے پہلے تو ڈرائیونگ سکون سکون سے ہوتی رہی تھی لیکن موٹر وے پر آ کر رفتار میں اضافہ ہو گیا تھا۔ جب گلشن راوی کی طرف نکلنے والے راستے کے پاس سے گزرنے لگے تو ہلکی پھلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ آنے والے ہفتے میں محکمہ موسمیات نے پنجاب میں کافی بارشوں کی پیش گوئی کی تھی۔ لیکن ایسی کوئی پیش گوئی شمالی علاقہ جات کے متعلق میں نے نہیں سنی تھی۔ بارش میں میں نے گاڑی کی رفتار کو محفوظ حد کے اندر کر لیا تھا۔ نہ صرف میں نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی تھی بلکہ عنصر کو بھی کہہ کر بندھوا دی تھی۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر زیادہ تر لوگ سیٹ بیلٹ چالان کے ڈر سے باندھتے ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ ہماری ہی حفاظت کیلئے ہے۔ موٹر وے پر ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے موسم کافی بہتر ہو گیا تھا۔ گاڑیوں کے گزرنے کی وجہ سے پانی کے چھینٹے اڑ رہے تھے۔ جس کا اثر صاف ستھری اور پالش کی ہوئی گاڑی پر بھی ہو رہا تھا لیکن ظاہر ہے ا ب ہم گاڑی کو ڈبے میں تو پیک کرکے نہیں لے جا سکتے تھے چلنا تو اس نے سڑک پر ہی تھا۔ 3 بجکر 16 منٹ پر راوی موٹروے ٹول پلازہ پر پہنچ گئے ۔ میٹر ریڈنگ 52616۔ وہاں سے میگنیٹک پٹی والا کارڈ لیا جس کو سنبھال کر رکھ لیا کیونکہ جب بھی ہم نے موٹر وے کو چھوڑنا تھا تو یہ کارڈ واپس کرکے جتنا فاصلہ موٹر وے پر طے کرنا تھا اسکے حساب سے پیسے بھی ادا کرنے تھے۔ پہلے تو موٹر وے ٹول پلازہ پر کھڑکی میں بیٹھا ہوا شخص ہی کارڈ آپکے حوالے کر تا تھا لیکن اب ایسا سسٹم نہیں ہے۔ میں بھی کافی دن بعد موٹر وے پر سفر کر رہا تھا میں اس انتظار میں تھا کہ وہ مجھے کارڈ دے گا لیکن جب اس نے دیکھا کہ گاڑی آگے نہیں جا رہی تو اس نے کھڑکی کے ساتھ ہی اشارہ کیا جہاں لکھا تھا کہ سبز بٹن دبا کر کارڈ حاصل کریں۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی بٹن دبایا تو ایک سوراخ سے کارڈ باہر آیا جس کو پکڑ کر گاڑی کو آگے بڑھا دیا۔