سورج طلوع تو ہو گیا تھا لیکن ابھی اس کی شعاعیں صرف بلند چوٹیوں پر پڑ رہیں تھیں وادی ابھی بھی پہاڑوں کے سائے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
راکا پو شی کا ایک خوبصورت منظر۔
راکا پوشی نے بادلوں کا نقاب مکمل طور پر الٹ دیا تھا۔
وادی ہنزہ۔
** راکا پوشی اور لیڈی فنگر ۔ ایک دوسرے کے مد مقابل اپنی خوبصورتی کے جلوے بکھیرتیں ہوئیں۔**دونوں کی خوبصورتی بے مثال لگ رہی تھی
ajto haroon bhai motion men lg rahe hain
جناب کچھ وقت ملا اسلئے کچھ پوسٹ کر دیں۔
ببلی اور قصر کی لوک داستان:رات کو پارکنگ بوائے سے ہماری گپ شپ ہوئی تھی اور اس نے لیڈی فنگر چوٹی جس کا مقامی نام ببلی میوتنگ ہے کے متعلق جو لوک داستان مشہور ہے وہ سنائی۔ داستان کے جھوٹ سچ سے ہٹ کر جو کچھ اس نے بتایا وہ یہ ہے"ببلی ایک مقامی خوبصورت خاتون تھی ۔ اس علاقے میں کسی دوسری دنیا سے قصر نام کا ایک شخص آیا جو کہ اس دوسری دنیا کا بادشاہ تھا اور ایک طاقتور انسان تھا۔ ببلی اور قصر ایکدوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور قصر نے یہاں پر ہی اپنا ڈیرہ ڈال لیا۔ قصر نے اپنی طاقت کی بناء پر مقامی لوگوں کی مدد کی اور نہریں وغیرہ بنوائیں۔ جب قصر کافی عرصہ اپنی دنیا سے غیر حاضر رہا تو اسکی دنیا کے حالات خراب ہو گئے اور بغاوت سر اٹھانے لگی ۔ اسکی بہنیں اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ گئیں اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور اسے بتایا کہ اس کی منگیتر کو بھی مخالف اٹھا کر لے گئے ہیں۔ قصر نے سارے حالات سے ببلی کو آگاہ کیا اور اس سے کہا کہ اس کا جانا ضروری ہے لیکن وہ دوبارہ لوٹ کر آئے گا۔ قصر نے ببلی کو ایک مرغی دی اور اس کو لیڈی فنگر چوٹی کے پاس چھوڑ ا ۔ مرغی دینے کا مقصد تھا کہ ببلی اسکے انڈے کھا کر گزارہ کر سکے۔ اسکے بعد قصر وہاں سے چلا گیا اور دوبارہ لوٹ کر نہ آیا۔ لوک داستان کے مطابق ببلی آج بھی لیڈی فنگر/ببلی میوتنگ چوٹی کے پاس قصر کا انتظار کر رہی ہے اور کئی مقامی لوگوں کے مطابق انھوں نے چوٹی کے آس پاس اسکی مرغی کی آوازیں بھی سنی ہیں۔ "
اوپر بلندی پر میں نے کافی وقت گزار لیا تھا اور آج ہمارا ارادہ خنجراب بارڈر تک جانے کا تھا جو کہ ایک لمبا سفر تھا۔ اسلئے میں نے سوچا کہ اب واپس اپنے ساتھیوں کے پاس چلا جائے اور روانگی کی جائے۔ واپس اترنے کیلئے میں نے سیدھا راستہ اختیار کیا جو کہ ہمارے کیمپ کی طرف جاتا تھا۔ یہ راستہ مختصر تھا لیکن اس میں اترتے وقت احتیاط ضروری تھی۔ اب کچھ اور لوگ بھی بلندی کی طرف آنا شروع ہو گئے تھے۔ احتیاط سے واپسی کا سفر شروع کیا۔
بلندی سے ہمارے کیمپ کا منظر۔ یاسر اور ثانی بھی اٹھ گئے تھے اور گاڑی میں سے اپنا کچھ سامان نکال رہے تھے ۔ عنصر نظر نہیں آ رہا تھا شاید ابھی تک سو رہا تھا۔
کچھ دیر بعد عنصر بھی کیمپ سے باہر نکلتا نظر آیا۔
ہوٹل فیری لینڈ۔
ایگل نیسٹ ہوٹل۔ ہوٹل فیری لینڈ ایگل نیسٹ سے بڑا نظر آ رہا تھا لیکن ایگل نیسٹ کو محل وقوع کی وجہ سےاس پر فوقیت حاصل ہے ۔ ایگل نیسٹ سے وادی ہنزہ کا مکمل نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔
نیچے اتر کر ساتھیوں کے پاس پہنچ کر وہ رسیلی خوبانیاں جو ہم نے کل خریدیں تھیں سے ناشتہ کیا۔ خوبانیاں اتنی پکی ہوئیں تھیں کہ نرم پڑ گئی تھیں لیکن ان کا رسیلا پن ابھی بھی وہی تھا۔ عنصر اور ثانی ایگل راک پہاڑی پر چلے گئے ۔ چاہیئے تو تھا کہ وہ پہلے ہی ہو آتے تاکہ ہم لیٹ نہ ہوتے لیکن اب ظاہر ہے انکا انتطار بھی ضروری تھا ۔
جب ثانی اور یاسر واپس آ گئے تو چھ بجکر پچپن منٹ پر ببلی میوتنگ کو الوداع کہا اور ہم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ ثانی اور یاسر کی پر مزاح نوک جھونک جاری تھی ۔ علی الصبح روانگی کا یہ فائدہ ہوا کہ راستے میں ہمیں رش بالکل بھی نہ ملا ۔ اسلئے فاصلہ جلدی طے ہو گیا اور ہم دوبارہ شاہراہ قراقرم پر آ گئے۔ راستے میں مقامی افراد اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے۔ میں نے معمر مقامی مرد و خواتین کو دیکھا کہ اتنے بڑھاپے میں بھی اپنی کمر اور سر پر لکڑیوں اور چارے کے گٹھے اٹھائے چڑھائی چڑھ رہے تھے اور ہم جیسے لوگ جن کو عادت نہیں کچھ ہی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہانپنے لگ جاتے ہیں۔
گنیش کی آبادی میں پہنچے تو وہاں ایک ڈرائی فروٹ کی دوکان کھلی دیکھ کر رک گئے۔ وہاں سے مختلف ڈرائی فروٹ کو دیکھا اور انکے دام بھی معلوم کیے ۔ ارادہ تھا کہ واپسی پر گھر والوں کیلئے ڈرائی فروٹ کا تحفہ لیکر جائیں گے۔ جب دوکان والے کو بتایا کہ ابھی ہم خنجراب جا رہے ہیں تو اس نے کہا کہ ساتھ سوکھی خوبانی لے جاؤ کیونکہ وہاں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور خوبانی آکسیجن کی کمی کو دور کرنے کا قدرتی حل ہے۔ دو سو روپے کا اچھی کوالٹی کی خوبانیوں کا پیکٹ خریدا جس میں تقریبا آدھا کلو خوبانیاں تھیں۔
گنیش سے روانہ ہوئے تو کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد گنیش پل پر اگلا قیام کیا ۔ گنیش پل کا ساتھ ہی پہاڑ کی بلندی سے ایک خوبصورت آبشار نیچے گہرائی میں زور و شور سے بہتے ہوئے دریائے ہنزہ میں گرتی ہے۔ آبشار کا پل پر کھڑے ہو کر نظارہ کیا جاسکتا ہے لیکن اسکے بالکل قریب جانا ممکن نہیں تھا۔ اگر یہ آبشار کسی ایسی جگہ ہوتی جہاں اسکے دامن تک جایا جا سکتا تو کیا ہی مزہ تھا۔ گنیش پل کو کراس کرتے ہی دائیں طرف شاہراہ قراقرم سے ایک راستہ نکلتا ہے جو کہ سر سبزو شاداب وادی نگر اور ہوپر گلیشیئر کی طرف جاتا ہے۔
ہم نے گاڑی پل پر ہی کھڑی کی ہوئ تھی۔ جب ہم آ بشار کا نظارہ کر رہے تھے تو ایک پولیس والا ہماری طرف آ یا اور ہم سے کہا کہ کیا آ پ کو پتا نہیں کہ پل پر گاڑی کھڑی نہیں کرنی۔ میں نے اس سے معذرت کی اور گاڑی میں بیٹھ کر آ گے روانہ ہو گئے۔
asslam u alikum haroon bahi if you dont mind can you give me your mobile number because i want some information about my coming tour to gilgit humza,,or you may sent to my number 0333 4963618
السلام عليكم!!عید مبارک!!تقبل اللہ منا و منکم!!