[RIGHT]جب وہ صاحب مجھے کمرے دکھا رہے تھے تو انہوں نے بر سبیل تذکرہ مجھ سے پوچھا کہ آپ اوپر لالہ زار میں
کیوں نہی ٹہرتے،؟ وہ بھی اپنا ہی ہوٹل ہے،،میں نے کہا کہ وہ تو سلیم کا ہوٹل ہے،فرمایا کہ سلیم میرا بھانجا ہے
اور وہ وہان کام کرتا ہے دراصل ہوٹل مالک میں ہوں، میں نے پوچھا سلیم کہاں ہے،انہوں نے وہیں سے بلند آواز
میں سلیم کو آواز دی تھوڑی دیر میں سلیم صاحب حاضر ہوگئے،اپنی میموری کا پہیہ تھوڑا سا گھمایا تو میں، اسے
یاد آگیا، سن ۲۰۱۰ میں جب ہم یہاں دو دن کے لئے لا لہ زار میں ٹہرے تھے تو سلیم کی خدمات سے ہم نے خوب
استفادہ فرمایا تھا، سلیم اپنے ماموں کا صرف بھانجا ہی نہی، بلکہ ان کے ہوٹل کا ویٹر ،کک،پلمبر،الیکٹرہشن
جمعداراور کیشئر سب کچھ بس سلیم ہی تھاسلیم بڑی گرمجوشی سے ملا،دونوں نے مجھے قائل کیا کہ آپ اوپر لا
لہ زار میں ٹہریں،میں تو خود یہی چاہ رہا تھا لیکن جب میں نے ان سے کہا کہ بائیک کیسے جاءے گی اوپر تو
دونوں نے بڑے وثوق سے کہا کہ ساری دنیا لیکر جاتی بائیک اوپر،،آپ بھی لے جائیں،ہم دونوں ابھی کام ختم کر
کے آتے ہیں، دونوں کے ہمت بندھاے پر میں نے ہمت کر کے بائیک اوپر چڑھا دی،،چڑھاتے ہی انداذہ ہوگیا کہ حفیظ خان
غلطی ہوگئی ہے،پگڈنڈی انتہا سے زیادہ خراب،،موٹے موٹے پتھر بے تحاشا، ایسے کہ جییپ بھی پتا نہی کیسے
اوپر جاتی ہوگی۔ لشتم پشتم جیسے تیسے کچھ دور اوپر تک تو گیا بلآخیر ایک موڑ کاٹتے ہوئے بائیک گر گئی،بس یہیں
میں نے فیصلہ کرلیا کہ اور اوپر نہی جانا،تھوڑی دیر بائیک کو یوں ہی پڑا رہنے دیا، پھر ہمت یکجا کر کے اسے
اٹھایا
یہ دونوں ہوٹل سلیم کے ماموں کے ہیں
لال چھت والا ہوٹل وہ مجھے دے رہے تھے
اوپر پہاڑ پرلا لہ زار ہے
بائیک گری پڑی ہے
[/RIGHT]