آگے بڑھتے ہوئے ایک کافی بڑے گلیشیئر پر پہنچے ۔ گلیشیئر کے درمیان سے راستہ کاٹ کر ٹریفک کو بحال کیا گیا تھا۔ دونوں اطراف میلی برف کافی مقدار میں موجود تھی۔ برف کے پگھلنے سے بننے والا پانی گلیشیئر میں ہی سے سرنگ بنا کر نیچے ڈھلوان کی طرف بہہ رہا تھا۔ احتیاط سے گلیشیئر کو پار کیا۔ کوشش کر رہا تھا گاڑی کسی پتھر وغیرہ کے ساتھ نیچے سے نہ ٹکرائے۔ کیونکہ میرے ذہن میں عبدالوحید خان صاحب کی مہران کا حشر بھی تھا جب اسی طرح کے رستوں کو عبور کرتے ہوئے انکی گاڑی کا انجن آئل لیک ہو گیا تھا۔ اسلئے جہاں رستہ تنگ ہو اور مجھے ضرورت پڑتی تو میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے ساتھی سے بھی مدد لیتا تھا کہ احتیاط سے اپنی سائیڈ کو دیکھے۔



