قدرت کے حسین نظاروں کو دیکھتے ہوئے بالا کوٹ پہنچے۔ بالا کوٹ کا بازار کافی بڑا اور پررونق ہے۔ بڑی مشکل سے گاڑی پارک کرنے کی جگہ ملی۔ وہاں سے وسیم نے 200 روپے میں سلیپر خریدے۔ بھوک کا بھی احساس ہو رہا تھا۔10 روپے فی روٹی کے حساب سے تنور سے روٹیاں لیں اور ساتھ ہی ایک دودھ دہی کی دوکان سے 60 روپے کا آدھا کلو دہی بھی لیا۔ ارادہ تھا کہ کسی مناسب جگہ گاڑی روک کر سالن خود تیار کریں گے۔ یہ ساتھ ساتھ میں چیزوں کے جو ریٹ بھی شیئر کر رہا ہوں انکا مقصد صرف دوستوں کو ان علاقوں کے ریٹ کے بارے میں آگاہ کرنا ہے اور امید ہے انکے ٹور کے سلسلے میں یہ معلومات معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔ جیسے ہی بالاکو ٹ بازار میں گاڑی روکی۔ مانگنے والے بچوں کی ایک فوج نے حملہ کر دیا۔ ہر طر ف سے چاچا 10 روپے، انکل 10 روپے، بھائی صاحب 10 روپے اور پتا نہیں کیا کیا آوازیں سنائی دے رہیں تھیں۔ ان کو گولیاں ٹافیاں دیں اور ان سے بچت اس وقت ہوئی جب وہاں سے روانگی ہوئی۔ ان علاقوں کے بچوں کے لئے میں گھر سے ہی گولیوں ٹافیوں کے پیکٹس لے کر چلا تھا۔ جن پر وقتا فوقتا وسیم بھی ہاتھ صاف کرتا رہا۔بالاکوٹ سے کافی آگے نکل کر ایک مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی روکی۔ سلنڈر، برتن اور دیگر اشیاء نکالیں اور انڈوں ، پیاز، ٹماٹر، ہری مرچ وغیرہ کا آملیٹ تیار کیا ساتھ چائے بھی تیارکی اور ناشتہ کیا۔ اتنی بھوک کے بعد ناشتہ بھی اچھا ہی لگنا تھا۔یہ ناشتے کا وقت تو نہیں تھا کیونکہ دوپہر ہو چکی تھی۔ یہ برنچ تھا۔ میں جب بھی پہاڑی علاقوں کے سفر پر نکلتا ہوں تو عام طور پر کھانا پکانے کا سامان ساتھ لیکر چلتا ہوں۔ اس سے کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک تو کھانا نہ ملنے کی پریشانی نہیں، صاف ستھرا آئل اور کھانا ، ایک قسم کا ایڈونچر اور ساتھ بچت بھی۔ جہاں اچھی جگہ دیکھی وہاں کوکنگ کی۔ لیکن ان علاقوں میں کوکنگ والی جگہ کا بھی دیکھ کر انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر وہاں ہوا تیز چلتی ہے۔ جس سے کھانا پکانا مشکل اور طویل عمل بن جاتا ہے۔ اسلئے ایسی جگہ ڈھونڈنے میں جہاں ہوا سے بھی بچت ہو، گاڑی پارک کرنے کی جگہ بھی ہو، صاف بھی ہو اور خوبصورت بھی بعض اوقات کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ایک اہم بات ضرور یاد رکھیں ۔ موڑ پر ایسی جگہ کا انتخاب نہ کریں۔ یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی جگہ منتخب کریں جہاں دونوں طرف سے آنے والی گاڑیاں آپکی گاڑی کو آسانی سے اور کافی فاصلے سے دیکھ سکیں۔