چھوٹی امپورٹڈ کاروں پر ریلیف، مقامی کار کمپنیز تحفظات کا شکار
حالیہ فنانس بجٹ 25-2024 میں نہ صرف گاڑیوں پر اضافی ٹیکس اور ڈیوٹی عائد کی گئی ہے بلکہ اس اقدام سے مقامی ساز بھی ناراض ہیں اور تحفظات کا شکار بھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناراضگی کی وجہ کوئی نئی نہیں بلکہ وہی پرانا مسئلہ ہے جس کا ذکر مقامی کار ساز کمپنیز بجٹ سے پہلے بھی کر چکی ہیں۔ یہ کار کمپنیز چھوٹی امپورٹڈ کاروں پر ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے شدید خدشات کا شکار ہیں۔
فنانس بل 2024-25 میں موجودہ حکومت نے 1300 سی سی سے زیادہ انجن کپسٹی والی گاڑیوں کی درآمد پر 15 ریگولیٹری ڈیوٹی (RD) لگا دی ہے جبکہ 1300 سی سی سے کم انجن کپیسٹی والی گاڑیوں پر ٹیکس نہیں لگایا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حصے نے مقامی کار سازوں کو ناراض کیا ہے۔
Engine Capacity | RD on Hybrid Cars (%) | RD on Petrol Cars
(%) |
0-1300cc | – | – |
1300-1800cc | 16% | 16% |
Above 1800cc | 15% | 70-90% |
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) نے جنوری تا مئی 2024 کے دورانیے کے اعداد و شمار شئیر کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ درآمد شدہ استعمال شدہ کاروں میں سے تقریباً 62 فیصد کا تعلق 1300 سی سی سے کم انجن کپیسٹی والی گاڑیوں سے ہے۔
سفارشات
تاہم پاما نے کچھ سفارشات بھی تجویز کی ہیں:
- 1300 سی سی سے کم انجن کپیسٹی والی کاروں کی درآمد پر 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی (RD) لگائی جائے جبکہ 1300 سی سی سے زائد انجن کپیسٹی والی گاڑیوں پر نئی عائد کردہ ریگولیٹری ڈیوٹی کی موجودہ شرح کو برقرار رکھا جائے۔
- SRO 577 (I) 2005کا مسلسل استعمال، جسے آخری بار 2015 میں اپ ڈیٹ کیا گیا، حکومت کے لیے ریونیو میں خاطر خواہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ فرسودہ اقدار پر مبنی ٹیکس لگانا اب پائیدار نہیں ہے۔ موجودہ مارکیٹ کی قیمتوں کو ظاہر کرنے کے لیے ایک نظرثانی ضروری ہے۔
PAAPAM کا خط
پاما کے علاوہ، پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) کے چیئرمین عبدالرحمان عزیز نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت استعمال شدہ کاروں کی درآمد کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گی۔ تاہم حالیہ بجٹ 2024-25 نے ہمیں مایوس کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ استعمال شدہ کاروں کی 70 فیصد درآمدات 1300 سی سی سے کم انجن کپیسٹی والی گاڑیوں پر مشتمل ہیں جو کہ بدقسمتی سے نئی ریگولیٹری ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہیں۔
استعمال شدہ گاڑیوں کی یہ درآمد، جو چھوٹے انجنوں کے لیے نئی ریگولیٹری ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہے، کو مقامی طور پر اسمبل شدہ کاروں کی فروخت پر اثر انداز ہونے اور سیکٹر میں ملازمتوں کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاپام کے چیئرمین عبدالرحمان عزیز کا دعویٰ ہے کہ اس رجحان کی وجہ سے مالی سال 24-2023 میں 50000 سے زیادہ پاکستانی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
چھوٹی کاروں پر RD کی چھوٹ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کمنٹس سیکشن میں ہمیں بتائیں۔