ای ڈی بی رپورٹ: پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد 7.5 فیصد سے بڑھ کر 2025 میں 20 فیصد ہو گئی

22

انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (EDB) کی ایک رپورٹ (بزنس ریکارڈر کے ذریعے) کے مطابق، پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کا حصہ 2020-2023 میں 7.5 فیصد سے تیزی سے بڑھ کر 2025 میں 20 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔  یہ رجحان مقامی آٹو سیکٹر میں مینوفیکچرنگ، سرمایہ کاری اور روزگار کے لیے ایک سنگین چیلنج پیدا کر رہا ہے۔

علاقائی موازنہ اور پالیسیاں

EDB نے سید حفیظ الدین کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کو بتایا کہ تھائی لینڈ، بھارت اور انڈونیشیا جیسے ممالک بہت کم استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرتے ہیں، جہاں یہ شرح صرف 0.3 سے 1.2 فیصد ہے۔

EDB نے وضاحت کی کہ ان ممالک کی حکومتیں مقامی مینوفیکچررز کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سخت قوانین اور بھاری ٹیکس نافذ کرتی ہیں۔

ٹریکٹر مینوفیکچرنگ میں کمی (2024-2025)

EDB نے قومی کمیٹی کو رپورٹ کیا کہ پاکستان میں چھ ٹریکٹر مینوفیکچرنگ یونٹس نصب ہیں۔ اس سیکٹر کی کل پیداواری صلاحیت 111,200 یونٹس ہے۔

تاہم، مختلف اقتصادی چیلنجز کی وجہ سے جنوری 2024 سے جون 2025 کے دوران پیداوار میں تقریباً 19 فیصد کمی آئی ہے۔

بحث کے بعد، کمیٹی نے سفارش کی کہ EDB سندھ میں قائم یونٹ سمیت تمام آپریشنل ٹریکٹر فرمز کو درآمدی اجازت (Import Authorization) اور ایک سال کا مینوفیکچرنگ سرٹیفکیٹ جاری کرے۔6 اس اقدام سے ٹریکٹر مینوفیکچرنگ سیکٹر میں پیداوار اور سرمایہ کاری کے تسلسل کو مدد ملے گی۔

یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (USC) کے تنخواہوں کا بحران

کمیٹی نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (USC) سے متعلق مسائل کا بھی جائزہ لیا۔ کمیٹی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ USC کے ملازمین کی پانچ ماہ کی واجب الادا تنخواہیں فوری طور پر جاری کرے۔

اراکین نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ کارکنوں کو طویل عرصے سے ان کی حق کی کمائی سے محروم رکھا گیا ہے۔ انہوں نے وزارت صنعت و پیداوار کو ہدایت کی کہ ادائیگیوں کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

رکن قومی اسمبلی رومینہ خورشید عالم  نے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پیش کی، جس میں یہ اجاگر کیا گیا کہ تنخواہوں کی تاخیر سے متعدد خاندانوں کے لیے مالی مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ بڑی کمیٹی نے حکومت کو ہدایت کی کہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے۔

سوال: مقامی آٹو انڈسٹری کے تحفظ کے لیے پاکستان کو کیا اقدامات کرنے چاہییں؟

استعمال شدہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی درآمدی لہر سے اپنی مقامی آٹو انڈسٹری کو بچانے کے لیے پاکستان کو درج ذیل اقدامات پر غور کرنا چاہیے:

  1. ریگولیٹری ڈیوٹی (RD) میں اضافہ: استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر زیادہ اور مؤثر ریگولیٹری ڈیوٹیز اور کسٹمز ڈیوٹیز عائد کی جائیں تاکہ قیمتیں مقامی طور پر اسمبل شدہ گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔ (جیسا کہ حالیہ دنوں میں 40% اضافی ڈیوٹی نافذ کی گئی ہے، اسے طویل مدت تک برقرار رکھا جائے یا مزید بڑھایا جائے۔)
  2. عمر کی حد کو سخت کرنا: درآمد کی اجازت صرف دو یا تین سال تک کی پرانی گاڑیوں تک محدود کی جائے، جیسا کہ خطے کے دیگر ممالک میں رائج ہے (مثلاً بھارت میں سخت قوانین ہیں)۔
  3. سیفٹی اور ماحولیاتی معیار کو لازمی قرار دینا: تمام درآمد شدہ استعمال شدہ گاڑیوں کے لیے مخصوص حفاظتی معیار (Safety Standards) اور یورو کمپلائنٹ اخراج معیار (Euro-Compliant Emission Standards) پر پورا اترنا لازمی قرار دیا جائے، اور ان کی تصدیق EDB یا کسی تسلیم شدہ بین الاقوامی ادارے سے کرائی جائے۔
  4. مقامی پیداوار کو ترغیب: مقامی مینوفیکچررز کے لیے ٹیکس میں چھوٹ، آسان قرضے، اور ٹیکنالوجی کی درآمد پر کم ڈیوٹی کی صورت میں مراعات دی جائیں تاکہ وہ پیداواری لاگت کم کر سکیں اور صارفین کو کم قیمت پر گاڑیاں فراہم کریں۔
  5. مقامی سازی (Localization) میں اضافہ: آٹو پارٹس کی درآمد پر ڈیوٹی بڑھائی جائے اور مقامی وینڈرز کو ان پارٹس کی تیاری کی ترغیب دی جائے، جس سے ڈالر کا بہاؤ کم ہوگا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
  6. منتقلی کی سکیموں کا غلط استعمال روکنا: پرسنل بیگیج، گفٹ اور ٹرانسفر آف ریزیڈنس جیسی سکیموں کے تحت ہونے والی تجارتی درآمدات کو سختی سے روکا جائے اور ان پر واضح قواعد و ضوابط نافذ کیے جائیں۔

آپ کی رائے میں، پاکستان کے لیے ان اقدامات میں سے کون سا سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوگا؟ ہمیں کمنٹس سیکشن میں بتائیں۔-

Google App Store App Store

تبصرے بند ہیں.

Join WhatsApp Channel