ہونڈا سِوک 2016 کی طرز پر چھوٹے ٹربو انجن بنانے کا رجحان
ہمارے مستقل قارئین اور ہونڈا کے مداح یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ آئندہ سال پیش کی جانے والی ہونڈا سِوک 2016 میں ٹربو انجن استعمال کیا جائے گا۔ یہ موجودہ 1800 سی سی انجن کے مقابلے چھوٹا یعنی 1500 سی سی ہوگا۔ شمالی امریکا میں فروخت کے لیے دستیاب نئی سِوک میں پہلے ہی 4 سلینڈر 1500 سی سی ٹربو انجن استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہونڈا نے اس سے بھی چھوٹا یعنی 3 سلینڈر 1000 سی سی انجن بھی بنایا ہے۔ اسپورٹس کار اور سِوک ٹائپ – آر کے لیے 2000 سی سی ٹربو انجن بھی دستیاب ہے۔ یہ ٹربو انجن کی فہرست میں سب سے زیادہ طاقتور ہے اسی لیےصرف مہنگی سِوک میں ہی لگایا جائے گا۔ ہم اس پر پہلے بھی بات کرچکے ہیں کہ پاکستان میں آنے والی 10ویں جنریشن سِوک میں R18 انجن لگائے جانے کا امکان ہے۔ گو کہ اس کی تصدیق ابھی تک نہیں ہوسکی اس لیے ہم امید کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں دستیاب ہونڈا سِوک X بھی ٹربو انجن کی حامل ہوگی۔
اب سے چند ماہ قبل ٹویوٹا نے بھی ہائی لکس ریوو اور لینڈ کروزر کے لیے چھوٹے ٹربو جی ڈی سیریز ڈیزل انجن کی فہرست متعارف کروائی تھی۔ یہ انجن 2800 سی سی 1جی ڈی –ایف ٹی وی موٹر اور 2400 سی سی 2 جی ڈی – ایف ٹی وی موٹر ہیں۔ ان کی خاص بات ماضی کے انجن کے مقابلے میں مختصر حجم اور زیادہ طاقت کے علاوہ ٹربو انجن ہونا بھی ہے۔
چھوٹے ٹربو انجن نئی بات نہیں ہیں۔ پیٹرول سے چلنے والے انجن کے حجم کو کم کرنے اور ٹربو سے آراستہ کرنے کا رجحان چند سال قبل شروع ہوگیا تھا۔ان سالوں کے دوران بی ایم ڈبلیو نے کئی ایک بہترین انجن بنائے جو نہ صرف کارکردگی بلکہ آواز میں بھی طاقتورہیں۔ای 60 ایم 5 میں لگایا جانے والا وی10 تو اپنی مثال آپ ہے۔اس کے باوجود بی ایم ڈبلیو نے اپنے مشہور انجن کی تیاری بند کر کے مختصر ٹربو انجن بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ دیگر جرمن کار ساز اداروں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ آڈی نے بھی ٹربو انجن پر نظریں مرکوز کردیں اور اب بہت کم گاڑیاں ایسی ہیں جو پرانے انجن پر چل رہی ہیں۔ حتی کہ نئی آڈی A4 میں بھی بہت ہی چھوٹا 1200 سی سی ٹربو انجن کا استعمال کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مرسڈیز – بینز بھی ان اداروں میں شامل ہے جو ٹربو انجن کو اپنانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے لوگ یہ خیال کریں کہ ٹربو انجن محض عام گاڑیاں بنانے والے اداروں کی دلچسپی کا باعث ہیں لیکن اس کا بہترین جواب فراری کی جانب سے ایک نئی گاڑی (488 جی ٹی بی) کو دہرے ٹربو انجن کے ساتھ پیش کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹربو انجن کی مقبولیت عام بات نہیں ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے انجن بنانے کا مقصد ان کی قوت میں مزید اضافہ کرنا ہے اور اس کا بچت سے کوئی تعلق نہیں تو آپ کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔ کار ساز ادارے اب ویسے جذباتی اور جوشیلے نہیں رہے جیسا کہ اپنے قیام کے وقت ہوا کرتے تھے۔ اب ان کی ترجیح گاڑی کی قیمت اور کارکردگی میں میزان برقرار رکھنا ہے۔ اب کم از کم وسائل میں بہتر، باسہولت اور پہلے سے زیادہ طاقتور گاڑیوں ے انجن بنانے کی سوچ رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یورپ و دیگر دنیا میں ماحول دوست گاڑیوں کی ترغیب کے لیے قوانین سخت کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کار ساز اداروں کو بھی ایک محدود دائرے میں کام کرنا پڑتا ہے۔ البتہ پاکستان ماحولیاتی تحفظ جیسے موضوعات سے فی الحال دور ہی ہے تاہم باقی دنیا میں کیے جانے والے فیصلے کسی حد تک یہاں بھی اثر انداز ہوتے ہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ کار ساز اداروں کے آبائی وطن میں رائج قوانین ہیں اور چونکہ گاڑیاں بنانے والا کوئی ادارہ پاکستانی نہیں، اس لیے ہمارے قوانین کو کم ہی خاطر میں لایا جاتا ہے۔ یوں ہماری اہمیت ویسے نہیں جیسا کہ یورپ کے کسی چھوٹے ملک کی ہے اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں ان کے قوانین کو ماننا پڑتا ہی ہے۔ اس حوالے سے یورپ میں یورو ایمیشنز اور امریکا میں ای پی اے موجود ہے جو کار ساز اداروں کو ایسی گاڑیاں تخلیق کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں جن سے نکلنے والے فضلے میں کم سے کم ماحول دشمن اجزا شامل ہوں۔ یہ قانون ڈیزل اور پیٹرول دونوں طرز کی گاڑیوں پر لاگو ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یورو معیارات اور پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت
یورپ کے قوانین کار ساز اداروں کو ڈیزل انجن کی حامل گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں میں نائیٹروجن آکسائیڈ (NOx) کی مقدار کم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیزل انجن والی ہر گاڑی میں ٹربو کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ یوں نہ صرف انجن کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ مجموعی لاگت میں بھی کمی آتی ہے۔ ووکس ویگن اور رینالٹ جیسے ڈیزل انجن گاڑیاں بنانے والے کئی کارساز ادارے ان معیارات پر پورا اترنے کے لیے ٹربو انجن کا استعمال شروع کرچکے ہیں۔ ووکس ویگن قریباً ایک دہائی قبل چھوٹے ٹربو انجن میں خرابی پر دھرلی گئی تھی۔ اس کے بعد یورپ میں عام ڈیزل انجن کی تیاری تقریباً ختم ہوگئی۔ تاہم موجودہ معیارات اتنے زیادہ سخت ہوچکے ہیں کہ ووکس ویگن جیسا ادارہ بھی انہیں دھوکا دینے سے باز نہ رہ پایا اور سافٹویئر کے ذریعے اپنی گاڑیوں کو معیاری قرار دلوا کر فروخت کرنا شروع کردیں۔ بعد ازاں سافٹویئر کے ذریعے دھوکہ دہی پکڑی گئی اور یوں دیگر ممالک میں پابندی کے بعد اپنے آبائی وطن میں بھی پابندی کے خطرات ووکس ویگن کے سر پر منڈلانے لگے۔
جیسے جیسے یورپ کی جانب سے معیارات میں سختی کی جارہی ہے اس نے اب ڈیزل انجن کے بعد پیٹرول انجن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کار ساز اداروں کے پاس اب مسائل کو حل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ محض انجن کی طاقت یا ضخامت کو کم کرنے سے کام نہیں چلے گا کیوں کہ اس سے گاڑیوں کی قابلیت میں کمی آئے گی اور صارفین کو شاید یہ بات قبول نہ ہو۔ لہٰذا کار ساز اداروں کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انہیں متبادل ایندھن (برقی گاڑیوں یا ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں)کے ساتھ آنا ہوگا یا پھر انجن کو کم کر کے ٹربو کا اضافہ کرنا ہوگا۔
مستقبل قریب میں ایسے انجن کی آمد متوقع ہے جن کا حجم کم ہولیکن رفتار زیادہ ہو۔ تمام ہی یورپی کار ساز ادارے اس بات پر متفق نظر آ رہے ہیں کہ اب نیچرلی ایسپرٹڈ انجن کا دور ختم ہوچکا ہے۔
تاہم جاپانی کار ساز ادارہ ٹویوٹا اس معاملے پر کچھ مختلف رائے رکھتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ٹویوٹا ڈیزل انجن کو ٹربو سے منسلک کر رہا ہے اور 1200 سی سی کا مختصر انجن بھی تیاری کے مراحل میں ہے لیکن اس کے لیے وہ زیادہ تیزی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ ٹویوٹا کی اپنی منفرد سوچ ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہائبرڈ ٹیکنالوجی کا مستقبل تابناک ہے کیوں کہ سارا معاملہ انجن کی کم رفتار پر مناسب ٹارک فراہم کرنے کا ہے۔ ٹویوٹا کی ہائبرڈ گاڑیوں میں برقی موٹر گاڑی کی ٹرانسمیشن کے ساتھ براہ راست کام کرتی ہے جس سے دوران سفر گاڑی کو دھکیلنے کے کے لیے درکار قوت ملتی ہے۔ ٹویوٹا کے مطابق ان کا ایچ ایس ڈی (ہائبرڈ سنرجی ڈرائیور) طویل عرصے تک چلے گا کیوں کہ اس وقت سب سے موثر ہائبرڈ نظام ٹویوٹا ہی کا ہے۔ حتی کہ اوپر جس 1200 سی سی انجن کا ذکر گزرا وہ بھی ہائبرڈ ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس پورے معاملے کاپاکستان سے کوئی تعلق ہے؟ اس کا مختصر جواب تو ‘نہیں’ ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک اور ہمارے ملک کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے یہاں بے تحاشہ مسائل ایسے ہیں جنہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ سے ہونے والے مسائل سے قبل حل کیا جانا ضروری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آنے والے وقتوں میں بھی ہمیں ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کے اقدامات سے کچھ نہ کچھ فائدہ تو پہنچے گا ہی۔ ویسے بھی کار ساز ادارے اب اپنی گاڑیوں کو عالمی سطح پر یکساں متعارف کروانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ہونڈا سِوک 2016 جاپانی کار ساز ادارے کے نئے عالمی پلیٹ فارم پر تیار کی جارہی ہے اور اسی پلیٹ فارم پر پاکستان میں دستیاب ہونے والی سِوک بھی تیار کی جائے گی۔ اس کا مطلب ہوا کہ پاکستان میں بھی چھوٹے اور کارکردگی کے اعتبار سے بہتر انجن دستیاب ہوں گے۔ اس طرح نئے رجحان میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کرے بغیر بھی ہم بین الاقوامی معیارات سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔