پنجاب کی سڑکوں پر موٹر سائیکلیں ہی موٹر سائیکلیں

0 175

پنجاب کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کی تعداد 15.7 ملین سے بھی بڑھ چکی ہے، یوں ڈرائیوروں کے لیے حالات مزید گمبھیر ہوگئے ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں موٹر سائیکلوں کی طلب روشنی کی رفتار سے بڑھتی جا رہی ہے۔ گاڑیوں کی آسمان کو پہنچتی قیمتوں کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید میں کافی کمی آئی ہے اور یوں موٹر سائیکل ہی اُن کے لیے سب سے آسان انتخاب رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے جن کے پاس سفر کا کوئی اور طریقہ اختیار کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں۔ اس لیے موٹر سائیکلیں اب ترجیحی پسند ہیں۔ یہ عوام کی اکثریت کو سہولت تو دیتی ہیں لیکن پنجاب کی سڑکوں پر ان میں اضافے کی شرح کئی حلقوں کو پریشان بھی کر رہی ہے۔

اس وقت صوبہ پنجاب میں رجسٹرڈ ہونے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد ہی 15.7 ملین سے زیادہ ہے۔ اس کے مقابلے میں سڑکوں پر موجود کاریں 1.7 ملین ہیں اور اسی سے دونوں کی تعداد میں فرق کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ان اعداد و شمارکے مطابق سڑک پر موجود ہر گاڑی کے مقابلے میں 9 موٹر سائیکلیں میدان میں ہیں۔ صوبے میں ٹریفک کے مسائل بھی بڑھ گئے ہیں۔ زیادہ تر حادثات، بالخصوص پنجاب میں پیش آنے والے حادثوں میں موٹر سائیکل شامل ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ پیش آنے والے حادثات میں سے تقریباً 80 فیصد میں موٹر سائیکل بھی شکار ہوتی ہے۔

گزشتہ دہائی میں موٹر سائیکل کے رحجان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اگر آپ 2010ء میں دیکھیں پنجاب میں رجسٹرڈ موٹر سائیکلوں کی تعداد 5.23 ملین تھی صرف آٹھ سال بعد 2018ء کے اختتام پر یہ تعداد بڑھتے ہوئے 15.7 ملین تک پہنچ گئی۔ اسی عرصے میں رجسٹرڈ کاروں کی تعداد 1.01 سے 1.73 ملین تک ہی پہنچی۔تو وہ کون سے عوامل ہیں کہ جو پسِ پردہ کام کر رہے ہیں؟ درحقیقت سڑکوں پر ٹریفک کی بھیانک صورت حال کی کئی وجوہات ہیں۔

مقامی سطح پر بننے والی موٹر سائیکلوں کی کم قیمت میں دستیابی اس کا ایک اہم سبب ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے بیشتر حصوں میں چھوٹی سڑکوں کی وجہ سے موٹر سائیکل والوں کا ٹریفک میں گزرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس اضافے میں سب سے اہم کردار موٹر سائیکل کا جیب پر ہلکا ہونا ہے۔

پاکستان میں مقامی طور پر بننے والی 70cc کی موٹر سائیکل تقریباً 40,000 روپے کی پڑتی ہے۔ البتہ درآمد شدہ موٹر سائیکلیں مہنگی ہیں اور ہونڈا اور یاماہا جیسے برانڈز نسبتاً مہنگی قیمتوں پر موٹر سائیکلیں پیش کرتے ہیں۔ کم آمدنی والی آبادیاں جن کی اکثریت مزدور پیشہ افراد پر مشتمل ہے، مقامی طور پر بننے والی سستی موٹر سائیکلوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مزید برآں، ان موٹر سائیکلوں کی قسطوں پر دستیابی نے بھی ان کے لیے مزید آسانیاں پیدا کردی ہیں کہ روزانہ 100 روپے پر ہی موٹر سائیکل کے مالک بن جائیں۔ سڑکوں میں بہت معمولی اضافے یا سِرے سے ہی پھیلنے کا نتیجہ ٹریفک صورت حال کے بدتر ہونے کا سبب ہے۔ مزید برآں، ناخواندہ طبقہ ٹریفک قوانین کے بارے میں سرے سے کچھ نہیں جانتا جس سے سب کی جانیں خطرے میں آ گئی ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 ڈاکٹر رضوان نصیر کے مطابق پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ 530 سے زیادہ حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً 430 میں موٹر سائیکل شامل ہوتی ہے۔ ان حادثات میں ہونے والی ہلاکتیں بھی اکثریت موٹر سائیکل سواروں کی ہی ہوتی ہیں۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر نوجوان ہوتے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ والدین اپنے نوعمر بچوں کو موٹر سائیکل دینے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بغیر کسی تربیت کے وہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کا شکار بن جاتے ہیں۔

لاہور سٹی ٹریفک پولیس کے ایک اور افسر کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکلیں ٹریفک کے بہاؤ میں خرابی کا بڑا سبب ہیں۔ موٹر سائیکلیں پہلے ہی کاروں سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ آسان اقساط کے کاروبار نے کم آمدنی والے افراد کے لیے بھی انہیں حاصل کرنا آسان بنا دیتا ہے۔ SSP کیپٹن (ر) لیاقت علی نے کہا کہ ابتدائی طور پر ہم نے موٹر سائیکلوں کے لیے ایک علیحدہ لین بنانے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام ہوئی اور ٹریفک کے بہاؤ میں سنجیدہ رکاوٹ کا سبب ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر چوک چوراہے پر علیحدہ وارڈن تعینات نہیں کیا جا سکتا اس لیے شہریوں کو خود ذمہ داری اختیار کرنے اور ٹریفک قوانین کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر موٹر سائیکل سوار وارڈنز سے لڑنے جھگڑنے اور گالم گلوچ کرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ صوبے میں 70 فیصد سے زیادہ موٹر سائیکلوں میں ریئر وِیو مِرر نہیں اور ہیڈلائٹس کام نہیں کرتیں جو حادثات کا سب بنتا ہے۔ ان سب کی جڑ تعلیم و تربیت نہ ہونا ہے؛ البتہ ٹریفک پولیس نے گزشتہ چھ ماہ میں اسکولوں اور کالجوں میں متعدد تربیتی سیمینارز منعقد کیے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی ان کوششوں کے علاوہ والدین کے کاندھوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سڑکوں پر لانے سے پہلے انہیں نظم و ضبط سکھائیں۔

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) کے چیف آپریٹنگ آفیسر (COO) اکبر ناصر خان نے بتایا کہ محکمے کی جانب سے کی گئی نگرانی سے واضح ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک کی بیشتر خلاف ورزیاں موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے کی جاتی ہے۔ البتہ جا بجا نصب کیمرے قوانین کے نفاذ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اب تک 8 ملین سے زیادہ ای-چالانز جاری کیے جا چکے ہیں۔ البتہ ای-چالانز ادا نہ کرنے کے معاملے پر حکمتِ عملی بنانے کی اب بھی ضرورت ہے۔ ان کی جانب سے نمایاں کیا گیا ایک اور مسئلہ حکومتِ پنجاب کی جانب سے جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ کے بجائے غیر قانونی نمبر پلیٹوں کا استعمال ہے۔ سیف سٹیز کیمروں کے لیے ان فینسی نمبر پلیٹوں کو پڑھ پانا تقریباً ناممکن ہے اور یہ دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے حوالے سے بڑا خطرہ ہیں۔

اس مسئلے پر ڈائریکٹر جنرل پنجاب ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن (E&T) اکرم گوندل نے بتایا کہ صوبے میں رجسٹرڈ کُل 15 ملین موٹر سائیکلوں میں سے تقریباً 12 ملین سڑکوں کا روزمرہ استعمال کرتی ہیں۔ گو کہ حال ہی میں رجسٹرڈ ہونے والی موٹر سائیکلیں کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹوں کی حامل ہیں؛ لیکن 5 ملین پرانی موٹر سائیکلوں کے مالکان نے اب تک محکمے سے اپنی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں نہیں حاصل کیں۔

موجودہ صورت حال میں حکومت کو بڑھتے ہوئے ٹریفک کی وجہ سے سڑکوں پر ازسرِ نو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید گمبھیر ہوتا جائے گا۔

اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ تبصروں میں ہمیں ضرور آگاہ کیجیے اور آٹوموبائل انڈسٹری کی تازہ ترین خبروں کے لیے پاک ویلز کے ساتھ رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.