گلی کرکٹ کا بڑھتا ہوا رجحان خطرناک حادثات کی وجہ بن سکتا ہے
پاکستان کی کرکٹ تاریخ ایک نئے مرحلے پر پہنچ گئی ہے، ‘پاکستان سپر لیگ’ اب سر پر پہنچ گئی اور ‘کرکٹ بخار’ نے سب کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہر بڑے کرکٹ ایونٹ کی طرح پی ایس ایل 2016 کا رنگ اس وقت پورے پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ گو کہ پہلا سیزن متحدہ عرب امارات میں کھیلا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں اس کا جوش و خروش کسی طور کم نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بڑا قومی تہوار آ رہا ہے۔ کیا لڑکے بالے اور کیا بزرگ جوان، یہاں تک کہ خواتین بھی لیگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سپر لیگ کے 5 مشہور کھلاڑی اور ان کی پرتعیش گاڑیاں
جب بھی کرکٹ اس طرح عروج پر پہنچتی ہے تو نوجوانوں میں کھیلنے کا رحجان بھی زور پکڑ جاتا ہے۔ دیہی و نواحی علاقوں میں تو خیر کسی نہ کسی طرح میدان جیسی جگہ مل ہی جاتی ہے لیکن شہروں میں کھیل کے میدانوں کی عدم دستیابی ایک المیہ ہے جو نوجوانوں کو گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے پر مجبور کرتی ہے۔ شہری آبادی میں اضافے اور بڑھتے ہوئے ٹریفک کی وجہ سے نوجوانوں کو یہاں بھی کھیلنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک حل جو نکالا گیا ہے، وہ یہ کہ کرکٹ میچز کا اہتمام رات کو کیا جائے لیکن نصابی سرگرمیوں اور حالات کی خرابی کی وجہ سے اس پر کم ہی عمل ہوپاتا ہے۔ بہرحال، سڑکوں پر کھیلنا بچوں اور نوجوانوں مجبوری ہے اور اس سے جو خطرات لاحق ہیں، ان کا اب تک کوئی حل نہیں نکالا جاسکا۔

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ‘گلی کرکٹ’ کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم اس میں کھلاڑیوں، راہ گیروں، گاڑیوں اور اردگرد موجود گھروں کے لیے کافی خطرات موجود ہیں۔ گھروں کے باہر کھڑی گاڑیوں کی وجہ سے گلی میں کھیلنے والے نوجوانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اول تو وہ کرکٹ کے لیےجگہ ہی نہیں نکال پاتے یا پھر انہیں اجازت ہی نہیں ملتی۔ اگر جیسے تیسے کوئی جگہ ڈھونڈ بھی لیں تو اس سے وہاں کھڑی گاڑیوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ رہتا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کی نئی ٹویوٹا کرولا باہر کھڑی ہو اور وہاں چند جوشیلے نوجوان کرکٹ کھیلنا شروع کردیں تو کیا آپ انہیں اجازت دیں گے؟ اکثر تو یہی دیکھا گیا کہ جہاں کسی نے نوجوانوں کو گیند اور بلّا تھامے ہوئے دیکھا، دور سے ہی بھگا دیا جاتا ہے کہ یہاں مت کھیلنا۔ گھروں میں رہنے والوں اور گاڑیوں کے مالکان کی یہ پریشانی بے وجہ نہیں ہے۔ کرکٹ جوش و جذبے کا کھیل ہے اور کھیل کے دوران صرف یہ جنون ہوتا ہے کہ کسی طرح زور دار شاٹ مار کر گیند کو دور سے دور پھینکا جائے۔ یہ کہاں جائے گی؟ کس گاڑی کا شیشہ توڑے گی؟ کس بچے کو لگے گی؟ اس کی پروا بھلا کون کرتا ہے؟ پھر جب گاڑی مہران جیسی ہو تو اس پر تو کسی بھی زوردار شاٹ کے نتیجے میں اچھا خاصہ ڈینٹ بھی پڑ سکتا ہے۔
یہ تو معاملہ رہا گھروں اور ان کے باہر کھڑی گاڑیوں کا۔ کچھ من چلے گلی میں کھیلنے کی اجازت نہ ملنے پر قریبی شاہراہ کا رخ کرلیتے ہیں۔ یہاں ہونے والے کرکٹ میچز اور بھی خطرناک ہوتے ہیں۔ ایک طرف رواں ٹریفک، دوسری جانب کرکٹ کا جنون۔ خدانخواستہ گیند کسی گاڑی کا شیشہ توڑتی ہوئی مسافروں کو نقصان پہنچا جائے یا کوئی نوجوان گیند کا اندھا دھند تعاقب کرتے ہوئے کسی تیز رفتار گاڑی کے سامنے آ جائے تو بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ کئی شاہراہوں پر کرکٹ کی وجہ سے ٹریفک جام کے مسائل بھی ہوتے ہیں اور حادثات کا خطرہ اپنی جگہ الگ۔ پھر سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ کھلے گٹر اور مین ہول خاص طور پر کسی حادثے کو جنم دے سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ فٹ پاتھ پر چلنے والے راہ گیروں اور سڑکوں پر موجود گاڑیوں سے ٹکرانے کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔
لیکن نوجوان بھلا ان کی کب پروا کرتے ہیں؟ دن ہو یا رات انہیں تو کرکٹ ہی کا جنون سوار رہتا ہے اور خاص طور پر اس سیزن میں کہ جب پاکستان سپر لیگ 2016 اور اس کے بعد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ہونا ہے، آپ کو بڑی تعداد میں بچے اور نوجوان بلا اور گیند تھامے گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے نظر آئیں جس میں ذرا سی بھی کوتاہی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں گاڑیوں کے بیمہ سے متعلق تفصیلات
پاکستان کرکٹ بورڈ، اور شہری حکام، صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔ پی ایس ایل کا آغاز بھی دراصل اسی مقصد کے حصول کے لیے ایک قدم ہے تاہم ملک میں کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی تعمیر اور نوجوانوں کو وہاں تک رسائی دینا بہت ضروری ہے۔ اگر گلی کرکٹ سے پاکستان شاہد آفریدی ، سعید انور، یونس خان، یاسر حمید، محمد عامر اور رانا نوید الحسن جیسے کھلاڑی میسر آ سکتے ہیں تو ذرا سوچیے کہ سہولیات فراہم ہو جائیں اور حالات بھی سازگار ہوں تو پاکستان کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے۔