سپریم کورٹ نے ایک متاثر کن قدم اٹھاتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو ہدایت کی ہے کہ ایف بی آر حکام یا اس کے متعلقہ شعبوں جیسا کہ اِن لینڈ ریونیو اور پاکستان کسٹمز میں عہدیداروں کے زیر استعمال تمام گاڑیاں واپس کردی جائیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 26 اپریل 2018ء کو اس حوالے سے ایک لیٹر جاری کیا تھا اور متعلقہ شعبوں کے عہدیداروں سے کہا تھا کہ وہ 30 اپریل 2018ء تک اپنی گاڑیاں واپس کردیں۔ اس تاریخ کے بعد اگر کسی عہدیدار کو گاڑی استعمال کرتے پایا گیا تو اسے جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔
عدالت کے حکم کے مطابق ڈبل کیبن کے علاوہ تمام جیپیں بشمول کروزر، پراڈو، پجیرو، SUV وغیرہ خصوصی طور پر آپریشنل مقاصد کے لیے ہیں اس لیے فوری طور پر FBR/متعلقہ کسٹمز گوداموں کو واپس دینا ہوں گی۔
سپریم کورٹ نے سماعت میں FBR (PCS, RS) کے افسروں کی جانب سے لگژری گاڑیوں کے استعمال پر عدم اطمینان اور خدشات کا اظہار کیا، جو خریدی گئی/ضبط کردہ (تبدیل شدہ) ہیں اور افسروں کا استحقاق نہیں ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ عدالت نے یہ حکم جاری کیا ہے۔
یہ ایک بہت بڑا قدم ہے کیونکہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اور کئی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ FBR اور کسٹمز کے افسران ایسی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں جو لوگوں سے ضبط کی گئی ہوتی ہیں۔ FBR افراد کو نان-کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن دوسری جانب اس کے افسران نان-کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار تو FBR اور کسٹمز کے عہدیدار ایک ہی رجسٹریشن نمبر/نمبر پلیٹ مختلف گاڑیوں پر استعمال کرتے ہیں۔ FBR حکام کی یہ حرکتیں ملکی محصولیات کو نقصان پہنچا رہی تھی۔
گاڑی کو ضبط کرتے ہوئے جو دلیل وہ پیش کرتے ہیں وہ یہی ہوتی ہے کہ گاڑی نان-کسٹم پیڈ ہے اور ملک کی معیشت کو نقصان پہنچائے گی لیکن وہی نان-کسٹم پیڈ گاڑی وہ خود استعمال کرتے ہیں۔ یہ اپنے اختیارات اور عمل داری کا ناجائز استعمال ہے، اور عدالتی حکم کو سراہنا چاہیے۔
مزید برآں، یہ بھی بتایا گیا کہ چند FBR اور کسٹمز عہدیدار ضبط شدہ گاڑی میں تبدیلی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں۔ پھر کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جہاں متعلقہ شعبوں کے حکام ضبط شدہ گاڑیوں کے پرزے بیچنے میں شامل پائے گئے، نہ صرف پرزے بلکہ گاڑیاں بھی مارکیٹ میں فروخت کی گئیں۔
متعلقہ دستاویز ذیل میں دیکھیں:
اپنے خیالات نیچے تبصرے میں پیش کیجیے۔