10 سے 15 سال بعد آپ کی درآمد شدہ گاڑی کا کیا ہوگا؟

4 676

جولائی 2015 سے جون 2016 کے دوران 53 ہزار گاڑیاں بیرون ممالک سے پاکستان درآمد کی گئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان گاڑیوں کو یہاں منگوانے پر 75 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ پاپام کے نائب چیئرمین مشہود علی خان کہتے ہیں کہ اتنی خطیررقم سے پاکستان میں گاڑیوں کے دو نئے کارخانے لگائے جاسکتے تھے۔ ایک طرف گاڑیوں کی درآمد سے مقامی کار ساز اداروں اور دیگر متعلقہ افراد کا کاروبار متاثر ہورہا ہے تو دوسری طرف اس سے پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

مزید پڑھیں: مالی سال 2015-16 کے دوران گاڑیاں کی درآمدات میں ریکارڈ اضافہ!

اس حوالے سے مزید بات کرنے سے پہلے ایک نسبتاً مختلف پہلو پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جاپان سے درآمد کی جانے والی سوزوکی ویگن آر (Wagon R) استعمال شدہ ہونے کے باوجود پاکستان میں تیار کی جانے والی پاک سوزوکی ویگن آر (WagonR) سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں پاکستانی ویگن آر ہی کی فروخت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے اگر آپ کسی مقامی تیار شدہ گاڑی کو ترجیح دینے کی وجہ دریافت کریں تو اکثریت کا جواب بعد از فروخت خدمات (after sales service) کی دستیابی ہوتا ہے۔

Suzuki Wagon R

Suzuki-Wagon-R-(6)

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے پاکستان میں گاڑیاں خریدنے والوں کی ترجیحات کیا ہیں۔ یہ معاملہ حال ہی کا نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً کِیا اسپیکٹرا (Kia Spectra) ہی کو دیکھ لیں کہ جب ہیونڈائی / کِیا موٹرز کی پاکستان سے روانگی کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو اس سے اسپیکٹرا کی فروخت پر شدید منفی اثر بڑا۔ لیکن دوسری طرف ایسے بھی لوگ موجود ہیں 15 لاکھ روپے ایسی گاڑی پر خرچ کردیتے ہیں کہ جس کا مستقبل انہیں خود پتہ نہیں ہے۔

اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں کئی طرح کی گاڑیاں بیرون ممالک سے منگوائی جارہی ہیں۔ ان میں ٹویوٹا وِٹز (Toyota Vitz) کے بھی کئی مشہور ماڈل شامل ہیں کہ جن کے پرزے یہاں باآسانی دستیاب ہیں تاہم چند گاڑیاں (مٹسوبشی میراج یا ہونڈا N-وَن وغیرہ) ایسی بھی ہیں کہ جن کے پرزے بڑے شہروں میں ملنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔اور یہی نکتہ مجھے سب سے زیادہ پریشان کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں مہران کی جگہ نئی آلٹو متعارف کروائی جارہی ہے؟

Mitsubishi Mirage (11)

کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آج سے دس پندرہ سال بعد ان چمکتی دمکتی گاڑیوں کا کیا ہوگا کہ جو آج ہماری سڑکوں رواں نظر آتی ہیں ؟ اس وقت بھی کہ جب گاڑیوں کی درآمد عروج پر ہے آپ کو ان کے پرزے عام گیراج یا ورکشاپ کے آس پاس نہیں مل پاتے۔ حتی کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے افراد مشہور گاڑیوں کے پرزے دستیاب نہ ہونے کی شکایت عام طور پر کرتے نظر آتے ہیں۔ تو پھر اس وقت ان گاڑیوں کا کیا ہوگا کہ جب ملک کے نمایاں شہروں میں بھی ان گاڑیوں کے پرزے نایاب ہوجائیں گے؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے اگر ڈائیوو ریسر (Daewoo Racer) جیسی گاڑی یہاں طویل عرصے تک استعمال کی جاسکتی ہے تو پھر آج درآمد کی جانے والی گاڑیوں کے لیے بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تاہم ڈائیوو ریسر کی مثال دینے والے شاید ہیونڈائی ایکسل کا حشر نہیں جانتے یا پھر اکثریت کی طرح اسے بھول چکے ہیں۔ پھر بھی اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو بمشکل دو سے تین گاڑیاں ہی ہوں گی جو ایک یا دو عشرے تک اپنی جگہ برقرار رکھ پائیں گی۔ اور ان گاڑیوں کے پرزے بھی اول تو عام دستیاب نہیں ہوں گے اور اگر ہوئے بھی تو ان کی منہ مانگی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اس کھیل میں حصہ لینا چاہے گا کہ جس میں ہارنے کے امکانات جیتنے سے زیادہ ہوں۔

بیرون ممالک میں تیار شدہ گاڑیوں کے پرزے منگوانے والوں کو ایک اہم پریشانی حکومتی منصوبہ بندی سے بھی لاحق ہے۔ حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد پر رعایت عارضی ہے اور اسے جلد یا بدیر ختم ہو ہی جانا ہے۔ اگر حکومت مستقبل میں گاڑیوں کی درآمد مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر پرزے درآمد کرنے والے افراد کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آپ کے ملک میں تیار کی جانے والی گاڑیاں عالمی معیار کے مطابق نہیں۔ لیکن انہیں خرید کر آپ مستقبل میں ہونے والی پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔ ماضی میں ہیونڈائی/کِیا موٹرز اور نسان جیسے اداروں کی آمد اور پھر دس بار سالوں بعد رخصتی کے باعث چینی ادارے FAW کو لوگوں کا اعتماد جیتنے کے لیے غیر معمولی کوششیں اور انتھک محنت کرنا ہوگی۔

FAW V2 Pakistan
FAW V2 Pakistan
Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.