آٹوموبائل انڈسٹری کی جانب سے الیکٹرک وہیکل پالیسی کی مخالفت

0 173

حکومت کی جانب سے تیار کردہ الیکٹرک وہیکل پالیسی کو مقامی آٹوموبائل انڈسٹری کی جانب سے چیلنج کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ آٹوموٹو ڈیولپمنٹ پالیسی ‏2016-21ء‎ کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان کو انجنوں سے نکلنے والے کاربن اخراج کی وجہ سے ماحولیاتی چیلنج کا سامنا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے اور ان اخراج کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت نے ایک الیکٹرک وہیکل پالیسی تیار کی کہ جس کا ہدف 2040ء تک آٹو انڈسٹری کو 90 فیصد سے زیادہ تک الیکٹریفائی کرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس تجویز کے بنیادی خیال کی بھی منظوری دی کہ جلد ہی کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے یہ پالیسی آئندہ پانچ سالوں کے لیے ملک میں الیکٹرک کاروں کے مستقبل کو مدنظر رکھ کر مرتب کی ہے۔ مخصوص عرصے میں 1,00,000 الیکٹرک کاریں، جیپیں اور چھوٹے ٹرک فروخت کرنے کا ہدف ہوگا۔ طویل میعاد میں 2030ء تک 9,00,000 یونٹس فروخت کیے جائیں گے جس کے ساتھ ہدف 2040ء تک90 فیصد فروخت الیکٹرک گاڑیوں کی صورت میں ہوگا۔ پالیسی یہ بھی بیان کرتی ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقلی ہر سال 110 ارب روپے کی بچت میں مدد دے گی۔

مقامی مخالفت

مقامی آٹوموبائل انڈسٹری نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی ملک کے مقامی آٹو سیکٹر کو متاثر نہیں کرے گا جیسا کہ امریکا اور چین میں کیا۔ آٹوموبائل سیکٹر سمجھتا ہے کہ EV پالیسی مقامی مینوفیکچرنگ کے بجائے CBU یونٹس کی درآمد کو فروغ دیتا ہے۔ یوں الیکٹرک وہیکل (EV)پالیسی درآمدات پر انحصار کرتی ہے جو کسی بھی طرح سے ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے 70 فیصد پرزے وہی روایتی گاڑیوں والے ہیں جبکہ باقی 30 فیصد بیٹری، الیکٹرک موٹر اور دیگر متعلقہ سسٹمز پر مشتمل ہیں۔ اس لیے حکومت کو 70 فیصد گاڑی کی مقامی سطح پر تیاری اور باقی 30 فیصد پرزوں کی درآمد پر پر توجہ دینی چاہیے بجائے اس کے کہ CBUs کی درآمد پر زور دیا جائے۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) کے سابق چیئرمین مشہود علی خان سمجھتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑیاں (EVs) بلاشبہ آٹو انڈسٹری کا مستقبل ہیں لیکن ان کے لیے طویل میعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ مقامی مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی کامیابی کے لیے بنیادی ڈھانچہ بنانے کی ضرورت ہوگی۔ مزید یہ کہ حکومت کو مقامی آٹو سیکٹر میں روزگار اور سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کی جانب دیکھنا چاہیے اس کے بعد ہی پالیسی مرتب کرے۔

تجویز

انہوں نے ایک تین مرحلوں پر مشتمل پالیسی تجویز کی جس کے تحت حکومت کو پہلے ‏2020-25ء‎ صاف اور قابلِ تجدید توانائی پروگرام کو فروغ دینا چاہیے۔ دوسرے مرحلے میں ‏2026-30ء‎ حکومت کو ہائبرڈ الیکٹریکل گاڑیوں (HEV) اور پلگ-اِن ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں (PHEV) کے فروغ کی پالیسی متعارف کروانی اور چارجنگ کے لیے بنیادی ڈھانچےکی تعمیر یقینی بنانی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ CBU اور CKD یونٹس پر کسٹمز ڈیوٹی میں بڑی کمی کا نتیجہ پرزوں کی لوکلائزیشن سے پرہیز کی صورت میں نکلے گا اور یوں مقامی آٹو سیکٹر کو گزشتہ سالوں کی پیشرفت کے مقابلے میں سخت نقصان ہوگا۔ مزید یہ کہ آٹو سیکٹر قومی خزانے میں حصہ ڈالنے والا دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے اور ڈیوٹی میں اتنی بڑی کمی کے ریونیو کلیکشن پر بھی بڑے منفی اثرات پڑیں گے۔

بلاشبہ الیکٹرک گاڑیوں کو ملک میں متعارف کروانے سے آلودگی کے خراب اثرات سے ماحول کو بچانے میں مدد ملے گی۔ البتہ حکومت کی جانب سے ایسی پالیسی تیار کی جانے چاہیے جو مقامی صنعت کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہو۔ بیٹری اور الیکٹرک موٹر جیسے پارٹس درآمد کیے جا سکتے ہیں جبکہ گاڑی کی باقی اسمبلنگ مقامی سطح پر ہونی چاہیے۔

حکومت کی مجوزہ الیکٹرک وہیکل آٹو پالیسی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اپنے خیالات نیچے درج کیجیے اور مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.