ہونڈا سِوک 2016 بمقابلہ آوڈی A3 – کس کا پلڑا بھاری ہے؟
ہونڈا سِوک کی باضابطہ پیشکش کو دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور سِوک کی آمد کا جوش بھی وقت کے ساتھ ماند پڑتا جارہا ہے۔ جب سے پاکستان میں نئی سِوک متعارف کروائی گئی ہے لوگ اس کا موازنہ Audi A3 سے کر رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ہونڈا سِوک کے بہترین ماڈل (Honda Civic Turbo) کی 30 لاکھ روپے کی قیمت ہے۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض قیمت کی وجہ سے ان دونوں گاڑیوں کا موازنہ کرنا چاہیے؟ آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ کسی بھی دو چیزوں ، چاہے وہ گاڑیاں ہوں یا کچھ اور، کے درمیان موازنہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مختلف پہلوؤں کا تقابلی جائزہ لیا جائے لہٰذا آج ہم ان دونوں ہی صف اول کی گاڑیوں کی مختلف خصوصیات کا تقابل کرنے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ہونڈا سِوک کے نئے عہد کی شروعات
ظاہری حصہ اور پیمائش
ذیل میں موجود اعداد و شمار سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیمائش کے اعتبار سے ہونڈا سِوک کو آوڈی A3 پر واضح برتری حاصل ہے۔ آوڈی A3 کے مقابلے میں سِوک کی لمبائی174 ملی میٹر اور چوڑائی 4 ملی میٹر زیادہ ہے جبکہ ویل بیس بھی 64 ملی میٹر اضافی ہے۔ اس سے سِوک کے اندرونی حصے (cabin) کی گنجائش میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
اب ان دونوں گاڑیوں کے ظاہری انداز اور باہری حصے میں موجود سہولیات کا موازنہ کرتے ہیں۔ نئی ہونڈا سِوک اور آوڈی A3 دونوں ہی کے اگلے حصے میں موجود ہیڈلائٹس کے ساتھ LED لیمپس بھی دیئے گئے ہیں۔ البتہ آوڈی میں شامل ہیڈ لائٹس زیادہ روشن Xenon پر مشتمل ہے جبکہ سِوک میں قدرے ماند ہیلوجن پروجیکٹرز دیئے گئے ہیں۔ چونکہ آوڈی پھر آوڈی ہے اس لیے ہیڈلائٹس کی حد تبدیل کرنے اور انہیں صاف کرنے کی خودکار سہولت بھی شامل ہے۔ گو کہ ہونڈا سِوک میں یہ سہولیات دستیاب نہیں لیکن دھند میں نظر آنے والی تیز روشنیاں سِوک کے تمام ہی ماڈلز میں شامل ہیں۔
ہونڈا سِوک کے مہنگے ترین ماڈل میں کھڑکی پر چھت (Sunroof) بھی دیا گیا ہے جبکہ آوڈی A3 میں یہ سہولت انتخابی ہے اور اگر اسے حاصل کرنے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے کی رقم اضافی ادا کرنا ہوگی۔ پہیوں کی اگر بات کریں تو پیمائش میں سِوک سے چھوٹی ہونے کے باوجود آوڈی A3 میں 17 انچ کے پہیے شامل ہیں جبکہ سِوک میں 16 انچ کے پہیے لگائے گئے ہیں۔ دائیں اور بائیں جانب سائڈ-مررز دونوں ہی گاڑیوں میں خود کار (automatic) ہیں البتہ آوڈی A3 میں شیشے پر جمنے والی دھند صاف کرنے کے لیے مرر ہیٹنگ کی خصوصیت بھی شامل کی گئی ہے۔
کہتے ہیں حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے اور یہ کہاوت گاڑیوں کے معاملے میں بالکل درست ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے ظاہری انداز کی تعریف یا تنقید کا معاملہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کیوں کہ ہر شخص کی ذاتی پسند و ناپسند مختلف ہوتی ہے۔
اندرونی حصہ
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ سِوک کا ویل بیس آوڈی A3 کے مقابلے میں 63 ملی میٹر طویل ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سِوک کا اندرونی حصہ بھی آوڈی A3 سے زیادہ ہے۔ اندرونی حصے میں اضافی گنجائش کی اہمیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھیں تو ان دونوں ہی گاڑیوں میں چمڑے کا کام بخوبی کیا گیا ہے۔ چونکہ پاکستان میں آوڈی A3 مکمل تیار شدہ حالت (CBU) میں درآمد کی جاتی ہے لہٰذا یہ پاکستانی سِوک میں نظر آنے والی خامیوں سے پاک ہے۔اس کے علاوہ آوڈی A3 میں نشستوں کو خود کار طریقے سے ترتیب کرنے کی بھی سہولت موجود ہے جو کہ سِوک میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ دونوں ہی گاڑیوں، سِوک اور A3 میں ایئرکنڈیشنگ اور برقی پارکنگ بریکس جیسی خصوصیات دستیاب ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہونڈا سِوک 2016 کے تینوں ماڈلز کا تفصیلی جائزہ
آوڈی A3 میں 6-چینل ایمپلیفائر کے ساتھ 10 اسپیکرز بھی دیئے گئے ہیں جبکہ ہونڈا سوک میں صرف 4 ہی اسپیکرز شامل ہیں۔ البتہ سوک کا تفریحی نظام 7-انچ ٹچ اسکرین کی موجودگی میں زیادہ متاثر کل معلوم ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ہونڈا سِوک ٹربو میں پچھلی نشستوں کے لیے علیحدہ LCD بھی فراہم کی گئی ہے۔ ہونڈا سِوک میں ‘اسمارٹ انٹری’ کی سہولت بھی شامل ہے جبکہ آوڈی A3 میں یہ انتخابی ہے اور اسے حاصل کرنے پر اضافی رقم بھی ادا کرنا ہوگی۔
انجن
توقعات کے عین مطابق ظاہری اور اندرونی حصے کے درمیان موازنے میں آوڈی A3 کا پلڑا بھاری رہا۔ اس کا سہرا آوڈی کے یورپی ملک جرمنی سے تعلق کو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ قیمت بھی ایک قابل ذکر امر ہے جس کی وجہ سے آوڈی A3 نے نئی سِوک کو باآسانی پیچھے چھوڑ دیا۔ بہرحال، اگر انجن سے متعلق بات کریں تو یہاں صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے۔
ہونڈا سِوک میں شامل 1500cc ٹربو انجن آوڈی کے 1200cc انجن کے مقابلے میں 68 ہارس اور پاور 45 نیوٹن میٹر ٹارک اضافہ فراہم کرنے صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ قیمت میں کم ہونے کے باوجود سِوک میں کروز کنٹرول بھی شامل ہے جبکہ آوڈی A3 میں یہ سہولت حاصل کرنے کے لیے 2.5 لاکھ روپے کی خطیر رقم اضافی کرنا ہوگی۔
حفاظتی سہولیات
اگر آپ کو میرا پچھلا بلاگ یاد ہو کہ جس میں ہونڈا سِوک اوریئل کا موازنہ ٹویوٹا کرولا آلٹِس گرانڈے سے کیا گیا تھا۔ اس موازنے سے بالکل صاف ظاہر تھا کہ حفاظتی سہولیات میں سِوک نے کرولا ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانی سیڈان گاڑیوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تاہم جب سوک کو غیر ملکی گاڑیوں کے سامنے رکھا جائے تو معاملہ یکسر مختلف ہوجاتا ہے اور یہاں سوک میں شامل حفاظتی سہولیات متاثر کن معلوم نہیں ہوتیں۔
چونکہ A3 جرمنی میں تیار کی جاتی ہے اس لیے یہ 7 ایئر بیگز کے ساتھ پیش کی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں تیار شدہ سِوک میں صرف 2 ہی ایئر بیگز شامل ہیں۔ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے ہونڈا ایٹلس کے خیال میں پاکستانی صارفین کو کسی بھی ناگہانی حادثے میں محفوظ رکھنے کے لیے 2 ایئر بیگز کافی ہیں۔ اس کے علاوہ آوڈی A3 میں برقی ڈفرینشل لاک (EDL) اور ایکٹو بریک اسسٹ شامل ہیں جو دراصل الیکٹرانک اسٹیبلائزیشن پروگرام (ESP) کا حصہ ہیں۔ چونکہ ESP اور VSA دو بالکل مختلف چیزیں ہیں اس لیے سِوک میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے طبی امدادی کٹ کے علاوہ اور بہت سی سہولیات شامل نہیں جو کہ A3 میں دستیاب ہیں۔
ہونڈا سوک اور آوڈی A3 کا موازنہ درست نہیں!
عام طور پر دو گاڑیوں کا موازنہ کرنے کے بعد بیان کیا جاتا ہے کہ کس گاڑی کو منتخب کیا جائے؟ یا پھر کونسی گاڑی زیادہ اچھی ہے؟ وغیرہ وغیرہ لیکن سوک اور A3 کا تقابلی جائزہ لینے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں گاڑیوں کے ایک دوسرے کے مقابل سمجھنا غلط ہے۔ اس کی بنیادی وجہ گاڑی کی قیمت میں فرق ہے۔ اور یہ فرق کوئی چھوٹا موٹا نہیں بلکہ اتنا ہی ہے کہ جتنا سوزوکی ویگن آر اور ٹویوٹا کرولا کے درمیان ہے۔ اب آپ خود ہی بتائی کہ کیا سوزوکی ویگن آر کا موازنہ ٹویوٹا کرولا سے کیا جانا درست ہوگا؟ اگر مجھ سے پوچھیں تو میرا جواب “نہیں” ہوگا۔ ایسا نہیں کہ میں گاڑیوں کی طرز اور لوگوں کی قوت خرید سے واقف نہیں، لیکن بہرحال، قیمت میں اتنا زیادہ فرق ہی بیان کرتا ہے کہ ان گاڑیوں کو ایک دوسرا کا حریف سمجھا درست نہیں ہے۔
قیمت میں بہت زیادہ فرق کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں ہی گاڑیاں مختلف طبقات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کی جاتی ہیں۔ بہرحال، چاہے آپ کوئی بھی گاڑی خریدنے کا فیصلہ کریں، چاہے چھوٹے انجن والی A3 پسند کریں یا پھر پاکستان میں تیار شدہ غیر معیاری ہونڈا سِوک کا انتخاب کریں، تمام تر بات قیمت پر ہی جا کر منتج ہوتی ہے۔