نیا تنازع کھڑا ہوگیا؛ ہونڈا کی شکایت پر آئل کمپنیوں کا کرارا جواب

0 139

سال 2015ء سے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں زبردست اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں امید کی جارہی ہے کہ چین کے تعاون سے جاری مختلف منصوبوں کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت مزید بڑھے گی۔ تاہم تیل فراہم کرنے والے ادارے ایک مرتبہ پھر شہہ سرخیوں میں ہیں اور اس کی وجہ قیمت یا فروخت کے معاملات نہیں بلکہ پیٹرولیم مصنوعات میں مینگانیز کی ملاوٹ کا مدعی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات میں مینگانیز کا استعمال انھیں مزید شفاف اور اعلیٰ معیار کا ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس کی ملاوٹ سے نہ صرف ایندھن کی بچت ناممکن ہوجاتی ہے بلکہ انجن میں جلنے اور گاڑی سے اخراج کے باعث یہ ماحولیات اور صحت عامہ کے لیے شدید نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور دیگر گیس ریگولیٹرز نے ان شکایات پر تحقیقات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے جو انہیں گاڑیاں بنانے والے چند اداروں کی جانب سے موصول ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں نے الزام عائد کیا تھا کہ ایندھن فروخت کرنے والے ادارے تیل میں مینگانیز کی ملاوٹ کر کے صارفین کو دھوکا دے رہے ہیں۔

یہ شکایت دراصل ہونڈا موٹر کمپنی پاکستان کے ذیلی ادارے ہونڈا ایٹلس کارز لمیٹڈ نے درج کروائی تھی۔ شکایت کے ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایندھن فروخت کرنے والوں کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث ان کی تیار کردہ گاڑیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ادارے کا کہنا تھا کہ مینگانیز کی شمولیت دراصل پیٹرول کے ریسرچ آکٹین نمبر (رون) کو بڑھانے کے لیے کی جارہی ہے۔

All New Honda Civic 1.5-liter VTEC Turbo in Pakistan

اس ضمن میں اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے کہا ہے کہ وہ ہونڈا کی جانب سے دائر شکایت کا جائزہ لین گے۔

ہونڈا نے صرف شکایت ہی درج نہیں کروائی بلکہ بطور ثبوت پیٹرولیم مصنوعات کی جانچ کے نتائج بھی فراہم کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایندھن میں مینگانیز کی بہت زیادہ مقدار موجود ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایندھن میں 53 ملی گرام پر کلوگرام مینگانیز پایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ فی کلوگرام 24 ملی گرام مینگانیز کی موجودگی کو بھی “خطرناک” تصور کیا جاتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ کریں: پاک ویلز موبائل ایپ

تاہم پی ایس او کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ وزارت توانائی کے اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہے اور ان کی تمام مصنوعات فروخت کے لیے مارکیٹ میں پیش کرنے سے قبل جانچ کے مراحل سے گرزتی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ جانچ کے دوران غیر معیاری مصنوعات کو رد کر کے لوٹا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی آئل کمپنیز ایڈوائزری کاؤنسل کے سربراہ الیاس فاضل نے اس حوالے سے کہا کہ انہیں آج تک مینگانیز کے استعمال سے کسی بھی قسم کی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دیگر تیل کے کارخانے 90 رون معیار کا پیٹرول فراہم کر رہے ہیں جو کہ 92 رون سے قدرے کم معیاری ہے۔ یاد رہے کہ 92 رون معیار کا حامل پیٹرول درآمد کیا جارہا ہے۔

اس بارے میں شیل پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ:

“شیل پاکستان وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کی جانب سے اپریل 2016ء میں مرتب کردہ مقامی ایندھن کی خصوصیات کو تسلیم کرتا ہے جن میں مینگانیز کی مقدار سے متعلق کوئی حد متعین نہیں ہے۔ درآمد شدہ تمام ایندھن حکومت کی مقرر کردہ لیبارٹری ہائیڈروکاربن ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان (ایچ ڈی آئی پی) سے منظور شدہ ہوتا ہے، یاد رہے کہ مذکورہ ادارہ پاکستان میں معیاری ایندھن کی درآمد کو یقین بنانے کا ذمہ دار ہے۔ شیل ہمیشہ ہی سے ایندھن کی فروخت کے لیے سخت قوانین کا حامی رہا ہے اور ہم متعلقہ اداروں اور تیل فراہم کرنے والے اداروں کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کو بخوشی قبول کریں گے۔”

ہم نے پاکستان میں گاڑیاں درآمد کرنے والے دیگر اداروں جیسا کہ آوڈی اور پورشے پاکستان سے بھی رابطہ کیا اور ان سے اس معاملے پر اظہار خیال کرنے کا کہا، جس پر ان اداروں کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور حکومت کو اس پر فی الفور غور کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ہونڈا پاکستان کی طرح آوڈی اور پورشے بھی پاکستان میں ٹربو انجن کی حامل گاڑیاں فروخت کر رہے ہیں جنہیں معیاری ایندھن درکار ہوتا ہے۔

اس بارے میں اپنی رائے دینے کے لیے ذیل میں تبصرہ کیجیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.