جنوبی کوریا کے دوسرے سب سے بڑے ٹائرز بنانے والے ادارے کمہو نے 2028ء تک پاکستان میں ٹائرز بنانے کے لیے پاکستانی ادارے سنچری انجینیئرنگ انڈسٹریز کے ساتھ معاہدے کو حتمی صورت دے دی۔ یہ پاکستان میں ٹائر مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں زبردست مقابلے کی فضاء پیدا کر سکتا ہے۔
عظیم کوریائی ادارہ سنچری انجینیئرنگ کے ساتھ 5 ملین ڈالرز کے معاہدے کے تحت ٹائر مینوفیکچرنگ کے لیے اپنی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرے گا۔ اس کے علاوہ کمہو اگلے 10 سال تک اپنے ٹائروں کی کل سالانہ فروخت پر 2.5 فیصد شیئربھی پائے گا۔ ادارے نے ٹائرز بنانے کے لیے مسافر کے ساتھ ساتھ کمرشل گاڑیوں کو بھی ہدف بنایا ہے جس میں 28 مختلف اقسام شامل ہیں۔ ایک دہائی بعد اس معاہدے کی تکمیل 5 سال کی توسیع کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
سنچری انجینیئرنگ انڈسٹریز کا پس منظر:
2005ء میں سنچری انجینیئرنگ نے پاکستان میں لیڈ-ایسڈ اور جیل بیٹریاں بنانے کے کام کا آغاز کیا جسے فینکس کا نام دیا گیا۔ اس وقت ملک میں بجلی کی کمی کی وجہ سے بیٹریوں کی طلب بہت زیادہ ہے۔ گھروں اور دفاتر میں یو پی ایس میں بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے کئی اداروں نے زیادہ کمانے کے لیے بیٹریوں کی پیداوار بڑھائی۔ گزشتہ چند سالوں سے اب مارکیٹ لبریز ہو چکی ہے جس نے سنچری انجینیئرنگ کو پاکستان میں ٹائروں کے کاروبار تک پھیلنے کا حوصلہ دیا۔ اس وقت ادارہ اپنی فینکس بیٹریاں پاک سوزوکی، گندھارا نسان، الغازی ٹریکٹرز اور سازگار رکشہ کو فراہم کر رہا ہے جنہوں نے انہیں پاکستان میں ایک اچھی شہرت کا حامل ادارہ بنا دیا ہے۔ پاکستان میں ٹائر بنانے کے کاروبار کو نئی زندگی آخر کیسے ملی؟
پاکستان میں ٹائروں کی موجودہ مارکیٹ:
پاک سوزوکی، ٹویوٹا اور ہونڈا کے موجودہ وینڈر ‘جنرل ٹائرز’ نے پاکستان میں اپنے ٹائر مینوفیکچرنگ معیار کو مسلسل کم کیا ہے۔ صارفین جنرل ٹائرز کو مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے گھٹیا معیار کی وجہ سے اپنی گاڑیوں کے لیے قابل بھروسہ اور پائیدار نہیں سمجھتے۔ جنرل ٹائرز کے حوالے سے بہت شکایات موصول ہوئی ہیں جیسا کہ پن ہول پنکچر، پھولے ہوئے ٹائرز، ناہموار سفر اور سب سے زیادہ حیران کن ڈرائیونگ کے دوران ٹائر کا اچانک پھٹ جانا۔ ادارہ وارنٹی کے تحت ناقص یا خراب ہونے والے ٹائر کی مرمت کا دعویٰ کرتا ہے۔ البتہ زیادہ تر معاملات میں اس کا الزام زبردستی صارف پر تھونپ دیا جاتا ہے کہ وہ بے احتیاطی سے ڈرائیو کر رہا تھا یا پھر صارف مبہم وارنٹی پالیسی کی وجہ سے کمپنی سے عام طور پر رابطہ ہی نہیں کرتا۔ ایسا دیکھا گیا ہے کہ نئی گاڑیوں کے زیادہ تر مالکان اپنے نئے جنرل ٹائرز پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے درآمد شدہ ٹائروں کے نئے سیٹ سے بدل دیتے ہیں۔ کچھ لوگ جو ان کا استعمال جاری رکھتے ہیں کو کچھ ہی عرصے میں کچھ بہتر معیار کے دوسرے ٹائرز لینے پڑ جاتے ہیں۔ پینتھر، ڈائمنڈ اور سروس جیسے ادارے پاکستان میں مقامی سطح پر ٹائر بنانے والے دیگر مینوفیکچررز میں شامل ہیں۔ ٹائروں کی گھٹیا کوالٹی کی وجہ سے لوگ ڈنلوپ، برج اسٹون، مچلن اور یوکوہاما جیسے اداروں کے درآمد شدہ ٹائروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ چند چینی ادارے بھی اپنے سستے لین اچھے معیار کے ٹائروں کے ساتھ پاکستان کی مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔
مقامی ٹائر مارکیٹ میں درپیش چیلنجز:
مقامی ٹائر انڈسٹری میں کمہو ٹائر ز جیسے نئے آنے والے اداروں کے لیے کامیابی کا راستہ آسان نہیں ہوگا۔ ٹائروں کو بنانے میں استعمال ہونے والے خام مال کی لاگت بین الاقوامی مارکیٹ میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مقامی صنعت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان ٹائرز بنانے میں استعمال ہونے والے ربڑ، بیڈوائر اور کیمیائی مادوں جیسے خام مال کے لیے پورا انحصار درآمدات پر کرتا ہے۔ کاروباری لاگت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس نے مقامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کو اور دشوار بنا دیا ہے۔
ان چیلنجز کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں صارفین کے خریداری کے انداز میں بھی ماضی کے مقابلے میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان میں عوام اپنی گاڑیوں کے لیے ٹائر خریدتے ہوئے اب بہت سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ وہ ٹائروں پر کندہ بنیادی کوڈز جاننے لگے ہیں۔ مقامی ٹائر مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی بہت گنجائش موجود ہے کہ وہ بہتر معیار کے ٹائرز بنائیں تاکہ موجودہ چیلنجنگ مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں۔ ‘کمہو ٹائرز’ معیاری ٹائروں کی فراہمی اور پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے والے اداروں کے لیے ایک نئے متبادل کے طور پر راستہ بنانے کا عہد رکھتا ہے۔ سنچری انجینیئرنگ کی توجہ آٹوموبائل کے شعبے میں نئے آنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ موجودہ مارکیٹ پر بھی قبضہ جمانے پر مرکوز ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ یہ صارفین کے لیے ایک اچھی علامت ہوگی۔
اس بارے میں اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔