پاک سوزوکی مہران بمقابلہ ماروتی آلٹو 800 – قیمت، خصوصیات اور اعداد و شمار کا جائزہ
پاکستان میں دستیاب سستی ترین نئی گاڑی سوزوکی مہران ہے۔ 1980 کی دہائی سے پیش کی جانے والی سوزوکی مہران دراصل سوزوکی آلٹو کی دوسری جنریشن ہے۔ سوزوکی مہران کا سب سے سادہ ماڈل یعنی VX آج بھی بغیر ایئرکنڈیشننگ، ایئر بیگز اور دیگر بنیادی سہولیات کے بغیر پیش کیا جاتا ہے جو دیگر ممالک میں پیش کی جانے والی ہر چھوٹی بڑی گاڑی میں شامل ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود اس کی قیمت ساڑھے 6 لاکھ روپے۔ اس مضمون میں ہم مہران کی قیمت اور خصوصیات کو پڑوسی ملک بھارت میں دستیاب سوزوکی آلٹو 800 سے موازنہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ دونوں ممالک میں آبادی، مارکیٹ کے حجم اور مسابقت کی موجودگی میں ان گاڑیوں کو کیا اہمیت حاصل ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور اسی اعتبار سے وہاں گاڑیوں کی مارکیٹ بھی کافی وسیع ہے۔ اسی لیے وہاں دستیاب گاڑیوں کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے لیکن چھوٹی مارکیٹ میں رہنے کے باوجود ہم کم از کم نئی گاڑیوں کے حقدار تو ہیں یا نہیں؟
سوزوکی مہران کے سادے ماڈل کی قیمت 6 لاکھ 30 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے اور سب سے بہترین ماڈل یعنی VXR CNG کی قیمت 7 لاکھ 53 ہزار روپے تک جاتی ہے۔ یاد رہے کہ اگر آپ گاڑی پر چمکدار رنگ چاہتے ہیں تو 5000 روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے۔سادے ماڈل یعنی VX اور بہترین ماڈل VXR میں بنیادی فرق اندرونی حصے (interior) کا بہتر معیار، رنگین بمپر اور ایئر کنڈیشننگ شامل ہے۔ سوزوکی آلٹو کی دوسری جنریشن میں نئی گِرل اور ہیڈ لائٹس ہی نمایاں تبدیلیاں کہی جاسکتی ہیں۔
دوسری جانب بھارت میں دستیاب ماروتی (سوزوکی) آلٹو 800 کا سادہ ماڈل STD کی قیمت 2,56,634 بھارتی روپے ہے جو پاکستانی روپے میں لگ بھگ 4 لاکھ کے مساوی رقم بنتی ہے۔ جبکہ سوزوکی آلٹو کے بہترین ماڈل LXI CNG کی قیمت 3,83,567 بھارتی روپے ہے جو کم و بیش 6 لاکھ پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ سوزوکی مہران کی طرح آلٹو 800 کے سادے ماڈل میں بھی ایئر کنڈیشننگ اور ایئر بیگز شامل نہیں ہیں۔ جبکہ بہترین ماڈل آلٹو 800 LXI میں ایئر کنڈیشننگ، بہتر انٹیریئر، ڈرائیور کے لیے ایئر بیگ اور سینٹرل ڈور لاک جیسی خصوصیات شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس ماڈل میں میکفرسن اسٹروٹ اور گیس سے بھری شاک آبزور بھی استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ سوزوکی مہران میں قدیم زمانے کے لیف-اسپرنگ ایکسل ہی استعمال کیے جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ قابل ذکر فرق تو یہ ہے کہ بھارت میں دستیاب ماروتی آلٹو 800 دراصل سوزوکی آلٹو کی آٹھویں جنریشن پر بنائی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں 21 ویں صدی کی Kei کار میں شامل تمام خصوصیات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ماروتی آلٹو 800 میں 6000 بھارتی روپے کے عوض ایئر بیگ شامل کرنے کا بھی انتخاب موجود ہے۔ یہ رقم لگ بھگ 9000 پاکستانی روپے بنتی ہے اور یہ کوئی ایسا چیز نہیں کہ پاک سوزوکی یہاں دستیاب نہ کرسکے۔

سوزوکی آلٹو 800 کا شمار بھارت میں طویل عرصے سے دستیاب گاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف ماروتی سوزوکی بلکہ تمام بھارتی کار ساز اداروں کی گاڑیوں سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی ہے۔ سوزوکی آلٹو 800 کی قیمت اس لیے کم نہیں رکھی گئی کہ لوگ اسے مہنگے داموں خریدنا پسند نہیں کرتے۔ بلکہ اس کی بنیادی وجہ مارکیٹ کا حجم ہے۔ چھوٹی مارکیٹ میں کام کرنے والے اداروں کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مصنوعات مہنگے داموں فروخت کرنا پڑتی ہیں جبکہ پاکستان کے مقابلے بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اس لیے وہاں گاڑیوں کی طلب بھی یہاں سے کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو مارچ 2016 میں پاک سوزوکی نے صرف 3000 مہران فروخت کیں جبکہ اسی مہینے بھارت میں 11 ہزار سے زائد آلٹو 800 فروخت ہوئیں۔ امید ہے کہ اس سے پاکستان میں مہران کی اضافی قیمت کے پیچھے موجود ایک بنیادی امر واضح ہوگیا ہوگا۔
پاکستانی گاڑیوں کے شعبے میں طویل عرصے سوزوکی مہران کی جگہ آٹھویں جنریشن سوزوکی آلٹو متعارف کروائے جانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ گو کہ مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن اگر ایسا ہوا تو پھر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے گا کہ مہران کی معمولی تعداد میں فروخت کی وجہ 25 سال پرانی ٹیکنالوجی اور عدم مسابقت کی فضا ہے یا نہیں۔ ممکن ہے نئی چھوٹی گاڑی کی آمد سے اس شعبے کو نئی تحریک ملے۔ اس کی ایک مثال نئی کرولا کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے کہ جس کی آمد سے قبل انڈس موٹرز نے کئی دن بغیر کسی گاڑی تیار کیے بھی گزارے۔ سال 2013 میں مجموعی طور پر انڈس موٹرز نے 53 کاروباری دنوں میں کسی گاڑی کی تیاری یا فروخت سے متعلق کوئی سرگرمی نہیں کی تاہم 2014 میں ٹویوٹا کرولا کی آمد نے فروخت کے کئی نئے ریکارڈ بنائے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گاڑیوں کے شعبے کی ابتر حالت زار کی وجوہات صرف چھوٹی مارکیٹ یا غیر مستحکم اقتصادی صورتحال نہیں ہے۔ البتہ نئی گاڑیوں کی پیش کش سے صارفین کو متحرک کیا جاسکتا ہے اور یہی وہ وقت ہے کہ جب کار ساز ادارے اس بات کو سمجھیں اور گاڑیوں کی پیشکش میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں۔