پاکستان میں دستیاب نئی گاڑیوں کے محدود ماڈلز اور ان کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے لوگ استعمال شدہ گاڑیوں میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں۔ جاپان سے گاڑیاں درآمد کرنے کے رجحان میں اضافے سے بھی یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ ملک میں استعمال شدہ غیر ملکی گاڑیوں کی پسندیدگی بڑھ رہی ہے۔استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ پر نظر ڈالیں تو ایسے کئی ماڈلز بھی دستیاب ہوں گے کہ جو معیار اور کارکردگی کے اعتبار سے مقامی سطح پر تیار ہونے والی نئی گاڑیوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔
بہرحال،گاڑی چاہے نئی ہو یا پرانی، خریدار کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اپنی رقم کا بہترین نعم البدل حاصل ہو۔ گاڑی فروخت کرنے والا شخص بھی اپنی گاڑی کو دوسری گاڑیوں سے زیادہ بہتر خیال کرتا ہے اور اسے اچھی قیمت پر فروخت کرنا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں خریدار کی حیثیت سے اپنے لیے بہترین گاڑی منتخب کرنا قدرے مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اچھی گاڑی خریدنے سے صرف اس لیے کتراتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کی ملکیت ہے جسے وہ جانتے نہیں ہیں۔ ایسا بھی سننے کو ملا کہ ایک صاحب کو اپنی من پسند گاڑی بہت اچھی قیمت پر مل رہی تھی تاہم گاڑی فروخت کرنے والا دوسرے شہر میں تھا اور یوں دونوں کے درمیان بھروسے کے فقدان نے اچھی خاصی ڈیل کو بگاڑ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کا منفرد تجربہ اور چند دلچسپ واقعات
یہ مسائل ان لوگوں کے لیے بہت زیادہ معنی رکھتے ہیں جو پہلی بار گاڑی خرید رہے ہوں یا پھر انہیں گاڑی کی تکنیکی معاملات سے متعلق زیادہ چیزیں معلوم نہ ہوں۔ ایسے افرادگاڑی خریدنے سے پہلے سڑک کنارے بیٹھے مکینک کی دکان سے کسی استاد یا چھوٹے سے گاڑی چیک کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر مکینک گاڑی کی جانچ کرنے کے لیے کسی اور جگہ نہیں جاتے بلکہ خود گاڑی ان کی خدمت میں پیش کرنا پڑتی ہے اور اس پر بھی وہ اچھی خاصی مشورہ فیس لیتے ہیں۔
ایسے میں آپ کو گاڑی کے موجودہ مالک کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے کہ وہ اپنی گاڑی آپ کے حوالے کرے تاکہ آپ اسے مکینک تک لے جائیں ۔ پھر اگر آپ کو اجازت مل بھی جائے تو خود گاڑی چلا کر مکینک تک لانے میں وقت،محنت اور پیٹرول دونوں ہی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ چونکہ سڑک کنارے بیٹھے مکینک عام طور پر گاڑیوں کی جدید ٹیکنالوجی سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے اپنے قلیل تجربے یا ذاتی پسند و ناپسند کی روشنی میں اچھی گاڑی کے لیے بھی “ناں” کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ یوں آپ کا وقت اور پیسے دونوں ہی ضائع ہوجاتے ہیں یعنی کھایا پیا کچھ نہیں ،گلاس توڑا بارہ آنے۔
اس مسئلہ کا بہترین حل پاک ویلز کار شیور سرٹیفکیشن کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے ذریعے آپ گاڑی کی مجموعی جانچ کروا کر اطمینان کرسکتے ہیں کہ آپ کے قیمتی پیسے کسی غیر معیاری چیز پر خرچ نہیں ہورہے بلکہ اس کے بدلے میں آپ کو اچھی گاڑی مل رہی ہے۔پاک ویلز کار شیور کے ماہر مکینکس اپنے پیشے میں ماہر ہونے کے ساتھ گاڑیوں کی جدید ٹیکنالوجی سے بھی بخوبی وقف ہیں۔ عام مکینکس کے برعکس کار شیور کی ٹیم بتائی گئی جگہ پر خود گاڑی کی جانچ کرنے جاتی ہے۔
ہر جانچ کے دوران گاڑی کے انجن، گیئر، اسٹیئرنگ، بریکس، ایئرکنڈیشن، ٹائرز، سسپنشن، ایندھن، آئل سمیت 195 حصوں کو چیک کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑی چلا کر بھی دیکھی جاتی ہے تاکہ اس کی کارکردگی بھی دیکھی جاسکے۔ مختصر یہ کہ کار شیور سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے گاڑی کے ہر اس حصے کو پرکھا جاتا ہے کہ جس کا ٹھیک ہونا صرف گاڑی کی کارکردگی ہی نہیں بلکہ اس میں سفر کرنے والوں کی حفاظت اور سہولت کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔
پاک ویلز کار شیور ٹیم کی پیشہ وارانہ خدمات سے گاڑی بیچنے والے اور خریدار دونوں ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔ کار شیور سرٹیفیکیٹ دونوں فریقین کے درمیان گاڑی کی کامیاب ڈیل کے لیے بھروسہ قائم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس سے فروخت کرنے والے کو اپنی گاڑی کی اچھی قیمت حاصل کرنے اور خریدار کو ذہنی سکون اور مکمل اطمینان کے ساتھ اچھی گاڑی خریدنے میں مدد ملتی ہے۔ پاک ویلز کی یہ منفرد سروس فی الوقت پاکستان کے تین بڑے شہروں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں دستیاب ہیں۔